عن ابی ہریرۃ قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : مَن یَأخُذُ عَنِّیْ ہَؤُلاَءِ الْکَلِمَاتِ فَیَعْمَلُ بِہِنَّ اَوْ یُعَلِّمُ مَنْ یَعْمَلُ بِہِنَّ ، قُلتُ اَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ، فَأخَذَ بِیَدِی فَعَدَّ خَمْساً ، فَقَالَ: اِتَّقِ المَحَارِمَ تَکُن اَعبَدَ النَّاسِ ، وَأَرْضَ بِمَا قَسَمَ اللّٰہُ لَکَ تَکُن أَغنَی النَّاسِ ، وَأحسِنْ اِلَی جَارِکَ تَکُن مُؤْمنًا ، وَاحِبَّ للنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفسِکَ تَکُن مُسْلِمًا وَلَا تُکُثِرِ الضَّحِکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحِکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ
‘‘حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: میری یہ باتیں کون قبول کرے گا اور اُن پر خود عمل کرے گا یا دوسرے ایسے لوگوں کو بتائے گا جو اِن پر عمل کریں؟ میں نے عرض : اے اللہ کے رسولؐ مَیں۔آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ باتیں بتائیں:
۱- محرمات سے بچو سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے۔
۲- جتنی روزی اللہ نے تمہارے لیے مقدر کی ہے اس پر راضی ہو جاؤ، سب سے زیادہ مال دار بن جاؤ گے۔
۳- اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، مومن بن جاؤ گے۔
۴- جو کچھ اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو، مسلم بن جاؤ گے۔
۵- زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنے سے آدمی کا دل مُردہ ہوجائے گا۔
(اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی سنن کتاب الزہد، باب من اتقی المحارم فھو اعبد الناس: ۲۳۰۵، اور امام احمد نے اپنی مسند، ج۲، ص ۳۱۰، رقم: ۸۰۸۱ میں نقل کیا ہے۔ )
تشریح: حضرت رسول اکرمﷺ چونکہ معلمِ انسانیت تھے اور مزاجِ انسانیت سے پوری طرح واقف تھے اس لیے آپؐ مختلف اوقات میں مختلف اسالیب اور انداز اختیار کرتے تھے۔ مذکورہ اسلوب بھی ان میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، جس سے سامعین کلی طور پر متکلم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے یہ اسلوب کہ ‘کون ہے جو میری باتیں لے کر ان پر عمل کرے گا اور عمل کرنے والوں کو سکھائے گا، اس لیے اختیار فرمایا کہ سامعین کے اندر اشتیاق اور جذبہ پیدا ہوسکے۔
یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ دیگر صحابۂ کرام نے اللہ کے رسولؐ کے ارشادات کو لینے سے انکار کیا یا سستی دکھائی بلکہ ہوا یہ کہ حضرت ابوہریرہؓ کو جواب دینے میں سبقت حاصل ہوئی ۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ باتوں کی تلقین کی ہے، اُن میں پہلی بات یہ ہے کہ ‘‘محرمات سے بچو، سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے’’۔ محرمات سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو اسلامی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہو اور جن کے ارتکاب پر دنیوی اور اُخروی سزا کی وعید سنائی گئی ہو۔ محرمات کا دائرہ وسیع ہے اور قرآن و سنت میں ان کے بے نقاب کیا گیا ہے، تاکہ کوئی مومن ان کا ارتکاب نہ کرے۔ قرآن کریم میں لفظ ‘محارم’ تو نہیں آیا ہے، البتہ ان چیزوں کا تذکرہ موجود ہے جن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: البقرہ: ۱۷۳، ۲۷۵، الانعام: ۱۵۱، الاعراف: ۳۳، النساء:۲۳۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں کچھ دوسری اصطلاحات بھی موجود ہیں جو محارم کے مفہوم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جیسے منکر، حدود اللہ۔
محارم اور منکرات سے صرف اپنے آپ کو بچانا اور دُور رکھنا مقصود نہیں ہے، بلکہ دوسروں کو بھی ان کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کا مطالبہ ہے۔ قرآن میں بہ صراحت اس کا حکم دیا گیا ہے، اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے۔ (دیکھیے آل عمران: ۱۰۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپؐ اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے، البتہ اگر محارم (اللہ کی حرام کردہ چیزوں) کا ارتکاب کیا جاتا تو آپؐ ضرور اس کی سزا دیتے تھے۔
آنحضوؐر نے اس حدیث میں فرمایا کہ:‘‘محارم سے بچو، لوگوں میں سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے’’۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو لوگ اوامر پر تو عمل پیرا ہوتے ہیں مگر محارم سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ عابد کہلائے جانے کے مستحق نہیں ہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں ایک بندۂ مومن جہاں اوامر پر کلی طور پر عمل کرنے کا مکلف ہے وہیں نواہی اور محارم سے بچنے کا بھی پابند ہے۔
اس حدیث میں دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ ‘‘جتنی روزی اللہ نے تمہارے لیے مقدر کی ہے اس پر راضی رہو، سب سے بڑے مال دار بن جاؤ گے’’۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ روزی کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اپنے قانون کے تحت رزق تقسیم کرتا ہے۔ کسی کے مال میں فراوانی عطا کرتا ہے اور کسی کو کم دیتا ہے۔ اس کا یہ فیصلہ حکمت سے پُر ہوتا ہے اور اس میں ظلم کا شائبہ نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس مفہوم کی آیات موجود ہیں:
اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ (الرعد:۲۶)
‘‘اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے’’۔
وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْق (النحل:۷۱)
‘‘اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے’’۔
نیز ملاحظہ ہو (العنکبوت: ۶۲، الروم:۳۷، سبا: ۳۶، ۳۹، الزمر:۵۲، الاسراء:۳۰)
بندے سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اللہ کی تقسیمِ رزق پر راضی ہو اور اس کا شکر ادا کرے۔ ‘‘کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا’’۔ (سبا:۱۵)
انسان فطری طور پر مال کا حریص ہے، وہ ہر وقت اس کے حصول میں لگا رہتا ہے۔ مال حاصل کرنے کے لیے بسااوقات وہ تمام حدود و قیود کو نظرانداز کردیتا ہے۔ وہ اپنے دل میں ان لوگوں کے سلسلے میں بُغض و عداوت اور حسد اور کینہ بھی رکھتا ہے جو اس سے زیادہ مال دار ہوتے ہیں۔ ان تمام برائیوں سے اگر ایک انسان بچنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ جتنی روزی اللہ کی طرف سے ملی ہے،اس پر راضی ہوجائے اور دنیا کے لوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہے، اس سے بے نیاز ہوجائے، یہی اصل میں مال داری ہے۔ اگر کسی فرد کو دنیا کی تمام دولت مل جائے مگر اس کے دل میں غنیٰ نہ ہو تو وہ سکون و اطمینان سے محروم ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘دولت کی کثرت کوئی مال داری نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری تو نفس کی مال داری ہے’’۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الغنی، غنی النفس: ۶۴۴۶)
قناعت اور رضا کے بہت سارے فائدے ہیں، مثلاً:
۱- اس کے ذریعے ایک بندۂ مومن خود غرضی، حرص، بددیانتی، حسد، کینہ، حرام خوری اور دوسرے بُرے کاموں سے بچتا ہے۔
۲- قرض لینے کی عادت سے محفوظ رہتا ہے۔
۳- بھیک مانگ کر اپنی عزت اور وقار کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ:
خَصلَتَانِ مَن کَانَتَا فِیہِ کَتَبَہُ اللّٰہُ شَاکِرًا صَابِرًا ، وَمَن لَم تَکُونَا فِیہِ لَم یَکتُبْہُ اللّٰہُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا: مَن نَظَرَ فِی دِینِہِ اِلَی مَن ہُوَ فَوقَہُ فَاقتَدَیٰ بِہِ ، وَمَن نَظَرَ فِی دُنیَاہُ اِلَی مَن دُونَہُ فَحَمِدَ اللّٰہَ عَلَی مَا فَضَّلَہُ بِہِ عَلَیہِ کَتَبَہُ اللّٰہُ شَاکِرًا وَصَابِرًا ، وَمَن نَظَرَ فِی دِینِہِ اِلَی مَن ھُوَ دُونَہُ وَنَظَرَ فِی دُنیَاہُ اِلَی مَن ھُوَ فَوقَہُ فَأَسِفَ عَلَی مَا فَاتَہُ مِنْہُ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا (ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب انظروا الی من ھو اسفل منکم: ۲۵۱۲)
‘‘دو خصلتیں ایسی ہیں جس کے اندر وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ اس کو صابر اور شاکر لکھ دیتا ہے اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں اس کو اللہ تعالیٰ صابروشاکر نہیں لکھتا ہے۔ جس شخص نے دینی معاملات میں اس شخص کی طرف دیکھا جو اس سے بلند ہو اور پھر اس کی اقتدا کی (یعنی ایسا بننے کی کوشش کی) اور دنیاوی معاملات میں اس شخص کی طرف دیکھا جو اس سے (مال و دولت میں) فروتر ہو، پھر اپنے اُوپر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کا شکر ادا کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو صابروشاکر لکھ دیتا ہے اور جس شخص نے دینی معاملات میں اپنے سے کم تر کو دیکھا اور دنیاوی معاملات میں اپنے سے اعلیٰ تر کو دیکھا اور اس پر (کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے) مایوسی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو نہ صابر لکھتا ہے اور نہ ہی شاکر’’۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُنْظُرُوْا اِلٰی مَن ھُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْا اِلَی مَن ھُوَ فَوقَکُمْ (ایضاً: ۲۵۱۳)
‘‘دنیوی معاملات میں اُن لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے (غریب) ہیں اور ان کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اُوپر (مال دار) ہیں’’۔
ایک مسلمان جب مال و دولت کے اعتبار سے اُن لوگوں کی طرف نگاہ ڈالے گا جو اس سے کمزور ہیں تو فطرتاً اس کے اندر شکر کے جذبات پیدا ہوں گے اور جب تقویٰ، دین داری، اعلیٰ اخلاق و کردار کے اعتبار سے اُن لوگوں کو دیکھے گا جو اس سے بلند ہوں تو اُس کے اندر اُن جیسا بننے کی تڑپ پیدا ہوگی۔
تیسری بات اس حدیث میں یہ بتائی گئی ہے: ‘‘ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، مومن بن جاؤ گے’’۔ شریعت ِ اسلامی میں جہاں حقوق اللہ کی اہمیت بیان کردی گئی ہے، وہیں بندے کا تعلق دوسرے بندوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے، اس کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اس کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ احادیث قدسیہ میں اللہ نے کئی مقامات پر بندوں کے حقوق کو ان کی اہمیت کی وجہ سے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ ان ہی حقوق میں انسانی معاشرے میں ہمسائیگی کا حق ہے، جس کو اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ساتھ شریک نہ کرنے، والدین، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے، وہیں تمام قسم کے ہمسائیوں کے ساتھ بھی اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (النساء:۳۶)
‘‘اور تم سب اللہ کی عبادت کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، اور پڑوسی رشتہ داروں سے، اجنبی ہمسایے سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے،اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ کرو’’۔
احادیث ِ مبارکہ میں پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرنے کو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت ابوشریح سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علی ہوسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَبِالْآخِرَۃِ فَلْیُحْسِنْ جَارَہُ (مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار:۱۷۴)
بخاری کی روایت میں ہے: فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ (کتاب الادب:۶۰۱۹) ‘‘جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، اپنے پڑوسی کی تکریم کرے’’۔
مذکورہ احادیث کا ایک مسلمان سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ہمسایے سے احسان کا برتاؤ کرے۔ احسان کا لفظ بول کر اُن تمام باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے، جن سے ایک ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایے کا خیرخواہ ثابت ہوسکے۔ یعنی مشکل حالات میں اس کی مدد کرنا، اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا، اس کی غلطیوں کو معاف کرنا ، اس کو نیک مشورہ دینا وغیرہ۔
اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرسکے تو کم از کم جو مطالبہ اس سے ہے وہ یہ ہے کہ اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَبِالآخِرَۃِ فَلَا یُوْذِ جَارَہُ (مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار: ۱۷۶، بخاری، کتاب الادب: ۶۰۱۸)
‘‘جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے’’۔
کتب ِ احادیث میں یہ واقعہ درج ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فلاں عورت جو رات کو نمازیں (کثرت سے) پڑھتی ہے اور دن کو روزہ رکھا کرتی ہے،اور نیک کاموں میں حصہ لیتی ہے اور صدقہ و خیرات کرتی ہے، مگر اپنی زبان سے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ اس عورت کے اندر کوئی خیر نہیں ہے، وہ جہنمی ہے۔ (صحابہؓ نے) پوچھا کہ فلاں عورت صرف فرض نمازیں پڑھتی ہے اور ہلکا پھلکا صدقہ کرتی ہے مگر کسی کو بھی (اپنے قول و فعل سے) تکلیف نہیں پہنچاتی ہے۔
آپؐ نے فرمایا: وہ عورت جنتی ہے۔ (الادب المفرد، باب لا یوذی جارہ: ۱۱۹)
ہمسایے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوسکتا ہے، جس کی روایت حضرت عائشہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے: قَالَ مَا زَالَ جِبرِیلُ یُؤْصِینِی بِالْجَارِ ظَنَنْتُ أَنَّـہُ سَیُوَرِّثُہُ (بخاری: کتاب الادب، باب الوصاۃ بالجار: ۶۰۱۴)
‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت جبرئیل ؑ ہمسایے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کے لیے برابر مجھے حکم دیتے رہے حتیٰ کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید وہ اسے وارث قرار دے دیں گے’’۔
چوتھی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ: ‘‘تم جو کچھ اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو، ایسا کرو گے تو مسلم بن جاؤ گے’’۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ اپنے لیے کوئی بُرائی پسند کرتا ہو تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس برائی میں ملوث کرے؟ ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ایک روایت میں ‘‘خیر’’ کا لفظ آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ برائی پسند کرنا حرام ہے، اور اس کی طرف لوگوں کی دعوت دینا اس سے بڑے گناہ کا کام ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (النور:۱۹)
‘‘جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں’’۔
یہی مضمون ایک دوسری روایت میں یوں مذکور ہے۔
لَا یُؤْمِنُ أحدُکُم حَتَّی یُحِبُّ لِأَخِیہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ (مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی أن من خصال الایمان……۱۷۰)
‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو’’۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کو کچھ چیزوں کی طلب ہوتی ہے اور وہ اپنے لیے ہرقسم کا خیرپسند کرتا ہے، اسی طرح اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے۔ جس طرح وہ خود غلط اور نقصان دہ امور سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح وہ دوسروں کے لیے بھی یہی چاہے کہ انھیں کوئی نقصان اور ضرر لاحق نہ ہو۔ جس طرح وہ ہمیشہ خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اسی طرح دوسروں کے لیے بھی اس کا خواہش مند ہو۔ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کے لیے بھی اللہ سے دعا کرے۔ غرض ہرخیر کے معاملے میں وہ یہی رویہ اختیار کرے۔ اگر خدانخواستہ کسی شخص کے اندر یہ صفت موجود نہ ہو اور وہ دوسروں کے سلسلے میں کوئی خیرپسند نہ کرتا ہو، جو اس کو حاصل ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
پانچویں بات اللہ کے رسولؐ نے یہ فرمائی: ‘‘زیادہ نہ ہنسو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنے سے آدمی کا دل مُردہ ہوجاتا ہے’’۔ ہنسنا انسان کی فطرت میں داخل ہے، اور بعض اوقات انسان کے سامنے ایسے معاملات پیش آتے ہیں کہ وہ ہنس پڑتا ہے۔ اسلام نے اس سے منع نہیں کیا ہے۔ البتہ دین اسلام نے جس طرح تمام امور میں اعتدال پسند فرمایا، اسی طرح اس میں بھی اعتدال کی روش پسند فرمائی۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی اتنا ہنسے کہ اسے کچھ خبر نہ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسا کرتے تھے مگر ان کا ہنسنا بھی حدِاعتدال سے آگے نہ بڑھا۔ عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں: مَا کَانَ ضَحِکَ رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ اِلاَّ تَبَسُّمًا (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما رأیت أحدا اکثر تبسما: ۳۶۴۱)
‘‘اللہ کے رسولؐ کا ہنسنا بس مسکراہٹ ہوا کرتی تھی’’۔
حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: کَانَ (رَسُوْلِؐ اللّٰہ) طَوِیْلَ الصُّمْتِ قَلِیلَ الضَّحِکِ (مسنداحمد، ۵؍۸۸: ۲۱۰۹۵)
‘‘اللہ کے رسولؐ زیادہ خاموشی اختیار کرنے والے اور کم ہنسنے والے تھے’’۔
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ زیادہ ہنسنے سے دل مُردہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے انسان کو دین اور آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی، اور اس دل میں ہدایت قبول کرنے اور اپنے اندر نیکی کے جذبات پروان چڑھانے اور خدا کی طرف رجوع کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ جو شخص دین اسلام اور اُمت مسلمہ پر برپا ظلم اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے تڑپ نہ اُٹھتا ہو، اس کے دل کو زندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ جس شخص کے اندر یہ صفت موجود ہوگی اُس کو ہنسنے کا بہت کم موقع ملے گا۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہے: قَالَ رَسُوْلُ ؐ اللّٰہِ : یَا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ وَاللّٰہِ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلًا وَلَبَکَیتُمْ کَثِیرًا (بخاری، کتاب الکسوف، باب الصدقۃ فی الکسوف،: ۱۰۴۴)
‘‘اے اُمت محمدؐ! خدا کی قسم جو میں جانتا ہوں، اگر تم اس کو جان لو تو تم ہنسو گے کم اور روؤ گے زیادہ’’۔
ایک حدیث میں فرمایا: حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں: اِعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہِ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاءً مِن قَلْبِ غَافِلٍ لَاہٍ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعا: ۳۴۷۹)
‘‘جا نو اللہ تعالیٰ غافل دل سے نکلی دعا کو قبول نہیں کرتا’’۔
اللہ کے رسولؐ اس دل سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے جو اللہ کے خوف سے نہ لرز رہا ہو۔
اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْقَلْبِ لَا یَخْشَعُ (مسلم، کتاب الذکر، والدعا، باب فی الادعیہ: ۶۹۰۶)
اس تمام بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ چہرہ بنا کے بیٹھا جائے، اس سے بھی منع کیا گیاہے بلکہ ہمیشہ چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ کا اظہار ہونا چاہیے۔ ایک حدیث ہے کہ:
کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ وَ اِنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ أَن تَلْقَی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ (ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی طلاقۃ الوجہ وحسن البشر: ۱۹۷۰)
‘‘ہر معروف (بھلا کام) صدقہ ہے اور معروف میں سے یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو’’۔
روایات میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور مسکراہٹ کا اظہار آپؐ کے چہرۂ انور پر نمایاں ہوتا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنے نبی کی ہرایک ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)