ترجمہ: محمد صدیق بخاری
سائنس علم کا وہ شعبہ ہے جس سے کماحقہ وہی شخص فائد ہ اٹھا سکتا ہے جس کے مزاج میں اس کی طرف رغبت موجود ہو۔ اسی لیے ایک معروف سائنس دان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص سائنس کو ایک دلچسپ چیز کے طور پر نہیں سمجھتا تو سائنس اصل میں اس کے لیے نہیں ہے۔ یہ روز مرہ کا مشاہد ہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے امیدوار انٹرویو میں محض اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ وہ سائنس کی عملی افادیت بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بینّ ہے کہ دوران تعلیم نہ تو ان پر سانئسی تصورات کی حقیقت واضح کی جاتی ہے اور نہ ہی وہ اس بات کا ادراک کر پاتے ہیں کہ ان سائنسی تصورات کا زندگی میں عملی اطلاق کیا ہے ۔اس کوتاہی کے ذمہ دار اگرچہ سب ہی ہیں یعنی طلبا، والدین ،ماحول ، معاشرہ لیکن میرے خیال میں سب سے زیادہ ذمہ دار استاد ہے ۔ استاد اصل میں وہ ہستی ہے جو طلبا کی تقدیر بنانے اور ان کا رخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور اگر استاد چاہے تو مناسب سہولیات کی عدم موجودگی میں بھی ایک نمایاں فرق پیدا کر سکتا ہے۔ بچوں میں کسی خاص شعبے کی دلچسپی پیدا کرنے، ان کی سوچ کو سائنسی بنانے اور انہیں مشاہدے کا عادی بنانے کا عمل کسی دن اچانک نہیں شروع کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے اور اس کاآغاز بچپن ہی سے ہو جانا چاہیے اور یہی وہ مقام ہے جہاں استاد ایک بنیادی کردار ادا کر تا ہے یا کر سکتا ہے ۔
ماضی کی بہت ایجادات محض مشاہدے یا تجربات کا نتیجہ تھیں ۔ جیسے تھامس ایڈیسن کا بلب، گراہم بیل کا ٹیلیفون، اور رائٹ بردرز کا ہوائی جہاز۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایجادات محض اتفاق کا نتیجہ تھیں مگر میں کہتا ہوں کہ ایسے اتفاقات بھی انہیں ہی ملتے ہیں جو پوری لگن سے اس طرف کوشاں ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ایک المیہ ہے کہ تمام سائنسی ایجادات اور انکشافات کو نہ تو معاشرے نے فوراً قبول کیا اور نہ ہی سائنس سے متعلق لوگوں نے مثلاً ایک امریکی سائنسی جریدے نے رائٹ بردرز کو‘جھوٹے بھائی’ قرار دیا۔ گلیلیو اورکوپر نیکس کو سزا دی گئی ۔الیگزینڈر گراہم بیل پر فراڈ کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی اور اسی طرح سمتھ ٹیننٹ کا مذا ق اڑایا گیا جب اس نے یہ کہا کہ ہیرا اصل میں کاربن ہی کی ایک قسم ہے ۔
سائنسی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے عزم صمیم اور استقامت ایک بنیادی شرط ہے اور یہ اس صورت میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب ایک فرد موجود حالات ، خیالات یا نہج سے ہٹ کر سوچ رہا ہو لیکن یہ ہے مشکل امر کیونکہ عام طور پر لوگ کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ حتی کہ اس معاملے سے بڑے لوگ بھی مستثنی نظر نہیں آتے، مثلاً البرٹ آئن سٹائن کو جب یہ معلوم ہوا کہ نیوکلر انرجی کے دریافت کی کوشش ہو رہی ہے تو اس نے کہاکہ اس کا رتی بھر بھی امکان نہیں ہے ۔ تھامس ایڈیسن نے متبادل کرنٹ کی تلاش کو وقت کا ضیاع قرار دیا۔ اور لارڈ کیلون نے ایکسرے کو ایک دھوکہ دہی قرار دیا۔
سائنس انہیں کا ساتھ دیتی ہے جن کے اندر ایک خاص لگن اور جذبہ موجود ہو اور وہ روایتی ڈگر سے ھٹ کر سوچنے کا حوصلہ رکھتے ہوں ۔ یہ یات سچ ہے کہ جیت بالآخر انہی کا مقدر بنتی ہے جو جیتنے کا خواب دیکھ سکتے ہوں۔
آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمان تو سائنسی عظمت کے خواب دیکھنے سے بھی عار ی ہو گئے ہیں۔ برصغیر کے بعض علاقوں میں تو لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سانئس پڑھنا یا انگریزی زبان کا علم حاصل کرنا ان کے مذہب یا تہذیب کے خلاف ہے ۔یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اصل میں ہم اپنے اس شاندار ماضی کو بھول رہے ہوتے ہیں جو کہ سارے کا سارا سائنسی انکشافات اور ایجادات سے عبارت ہے ۔ آج پھر مسلمانوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ ان ہی کے آباء و اجداد تھے جنہوں نے فلکیات ، طب ، ریاضی ، او رکیمیا کے میدانوں میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیے تھے اور کم وبیش ایک ہزار برس تک سائنس کے افق پر چھائے رہے تھے۔یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ رازی، ابن سیناا ور ابن ابی حزم جیسے لوگوں کی مثال آج بھی نہیں ملتی۔
اب بھی اگر ہم سمجھ جائیں تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی دیر نہیں ہوئی ۔ شام کا بھولا صبح گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے مسلمانوں کو بھی گھر لوٹ آنے کی ضرورت ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں کے مالک ایک ارب سے زائد مسلمان اگر آج یہ تہیہ کر لیں کہ انہوں نے خو د کو بیدار کرنا ہے اور علم و تحقیق کی اسی راہ پر چلنا ہے جس پر ان کے آباء واجداد چلے تھے تو عظمت رفتہ کو لوٹ آنے میں دیر نہ ہوگی ۔او راگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں گی۔
اگرچہ مطلع کافی ابر آلود ہے تا ہم پھر بھی کہیں کہیں روشنی کی کرن نظر آ ہی جاتی ہے اور میرے خیال میں روشنی کی یہ کرن وہ مسلم نوجوان ہیں جو سائنسی علم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ تا ہم مسلمانوں کو یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ وہ دنیا میں آخرت کے لیے جیتے ہیں ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سائنسی تحقیقات کو قرآن کی روشنی میں سمجھیں اس طرح دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی برقرار رہے گی وگرنہ دنیا تومل جائے گی مگر آخرت کے نقصان پر اور یہ یقینا گھاٹے کا سودا ہو گا۔