عید قربان کے بعد ہم پہلے دن ملے تو حسب معمول حالات حاضرہ پر بات چل نکلی لیکن مجھے اس کے کل اور آج میں ایک بہت بڑا فرق محسوس ہوا۔ وہ جس کی صحت پر کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، وہ آج بھارتی طیاروں کیطرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پربہت مضطرب تھا۔ و ہ اس بات پر مسلسل لیکچر دے رہا تھاکہ ہم سب کو متحد ہو جانا چاہیے اور دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔مگر بہادری کے موضوع پر اس کے لیکچر کے باوجود مجھے اس کی آنکھوں میں خوف کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی…… یہ حالت دیکھ کر بے ساختہ میرے بہت سے غم تازہ ہوگئے۔
٭٭٭
مجھے لال مسجد یاد آئی ۔مجھے اس کے تہ خانوں میں بے بسی سے مرتے طالب علم یاد آئے ۔مجھے بالوں کے وہ ڈھیر یاد آئیں جو وہاں شہید ہونے والی بچیوں کے تھے ، مجھے عبدالرشید یا د آئے جو صلح کے لیے ہر طرح یتار تھے لیکن پھر بھی انہیں مارنا قرار پایا تھا ۔اس دن بھی جب میرے لیے درد ناقابل برداشت ہوا تھاتو میں اس کے پاس آیا تھا لیکن اس دن وہ بہت ہشاش بشاش تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تھاکیا تمہیں نہیں معلوم اسلام آباد میں کیا ہوا؟ جواب میں اس نے جو کچھ کہا اس کے سننے کی مجھ میں طاقت نہ تھی اس لیے میں سر جھکائے چلا آیا تھا۔
٭٭٭
مجھے اداس چہروں ، بکھرے بالوں اوربہتے آنسوؤں والی وہ مائیں ، بہنیں ، بیویاں اور بچے یاد آئے جو برسوں سے سراپا انتظار ہیں جن کے بیٹے ، جن کے بھائی ، جن کے شوہر اور جن کے باپ اپنے ہی وطن میں لا پتا اور گم شدہ ہیں۔ جن کے لیے ہر عید کا دن سوگ کا دن ، جن کے لیے ہر شہنائی غم کا ساز، جن کے لیے ہر صبح ، صبح الم اورہر شام شام غریباں ہوتی ہے ۔میں نے ان سب کے بارے میں بھی اس سے بات کی تھی تواس نے کہا تھا کہ یہ میرا اور تمہارامسئلہ نہیں ہے ۔
٭٭٭
میں نے اس سے ڈاکٹر عافیہ کے دکھ کی بات بھی کی تھی لیکن اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ یار خواہ مخواہ دوسروں کا غم اپنے سر نہ لیا کرو۔
٭٭٭
ہاں مجھے یاد آیا کہ میں نے اس سے وزیرستان ، انگور اڈہ ، سوات ، مٹہ،اور باجوڑ کے بے گناہ شہیدوں ، مظلوموں اور بے آسرا مہاجروں کے بارے میں بھی پوچھا تھا تو اس نے کہا تھا ،وہ تو ‘‘دہشت گرد’’ ہیں…… ان کا ساتھ یہی ہونا چاہیے…… وہ اسی لائق ہیں…… انہوں نے ہی ہمارا سکون غارت کر دیا ہے…… یہی تو ہیں جو خود کش حملے کر رہے ہیں …… یہی تو ہیں جو کیبل بند کرا کے ہمیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کر رہے ہیں……
٭٭٭
لیکن آ ج وہ بہت فکر مند تھا شاید اس لیے کہ اسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندستانی بم اس کے گھر پر بھی گر سکتا ہے۔
٭٭٭
میں نے اسے بتایا کہ دوسروں کو بھی اپنے گھر ویسے ہی عزیز ہوتے ہیں جیسے تمہیں تمہارا گھر ۔ دوسروں کو بھی اپنا علاقہ ویسے ہی اچھا لگتا ہے جیسے تمہیں تمہارا علاقہ،دوسروں کو بھی اپنے باپ ، اپنی مائیں ، اپنی بہنیں، اپنی بیویاں ، اپنے بیٹے اوراپنی بیٹیاں ویسے ہی پیارے اور پیاری ہوتی ہیں جیسے تمہیں ہیں ۔ انہیں بھی بم اور گولیاں ویسا ہی نقصان پہنچاتی ہیں جیسے تمہیں پہنچا سکتی ہیں۔ان کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی تمہاری ۔ قبائلیوں کے جسم بھی ویسے ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں جیسے تمہاراجسم۔ان کے بدن بھی اسی گوشت اورخون سے بنے ہوتے ہیں جس سے تمہارا بدن۔ ان کا خون بھی ویسے ہی بہتا ہے جیسے تمہار ا بہہ سکتا ہے اور ان کا خون بھی آخر بہتے بہتے ایسے ہی جم گیا ہے جیسے کہ تمہارے بارے میں بھی امکان ہے ۔لیکن وہ میری سب باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی ہی کہے چلے جا رہا تھا اور میں آج بھی خاموش خاموش لوٹ آیا تھا حالانکہ مجھے یہ کہنا چاہیے تھاکہ یہ سب ‘‘دوسرے’’ نہیں سب‘‘ اپنے’’ ہیں اور جو اپنوں کے دکھ کو نہیں سمجھتا تو پھر اس کے دکھ کو بھلا کو ن سمجھے گا؟ وقت آنے پر وہ بھی ان کی طرح چیختا چلاتااور روتا رہ جائے گا اور بس روتاہی رہ جا ئے گا ۔ کو ئی بھی نہیں سنے گا۔۔ کوئی ہو گا تو سنے گا۔۔۔۔!
٭٭٭