۴ دسمبر کو علی الصبح فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف اسلم علی بتا رہے تھے کہ والد صاحب قضائے الہی سے وفات پا گئے ہیں ۔ موت کی خبر سن کر افسردہ ہونا فطری امر ہے لیکن دل کے کسی گوشے میں جو محبت خوابیدہ تھی اس نے اچانک بیدار ہو کر مغموم کر دیا ۔ بابا خدا بخش سے انس کا سبب اسلم علی ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے مجھ سے تعلیم وتعلم کے نسبت سے وابستہ ہیں۔موصوف کو قدرت نے علم کے اخذ وحفظ کے بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی ہے لیکن میرے نزدیک ان کی قدردانی کا ایک سبب اور بھی ہے اور وہ ہے ان کا آبائی ماحول۔ ان کا ماحول روایات سے گہری وابستگی کی چھاپ لیے ہوئے ہے جبکہ موصوف نے تحقیق و تنقید کا مزاج پایا ہے۔ یوں بابا خدا بخش سے قلبی تعلق کا سبب ان کا ہونہار فرزند بنا گزشتہ برس اسلم علی جب عید کے موقع پر گاؤں گئے تو اسی دوران میں بابا خدا بخش سے پہلی اور آخری بار فون پر گفتگو ہوئی لیکن زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم کے مصداق ہم ایک دوسرے کی بات سمجھ تو نہ سکے البتہ ہر جملے میں اللہ سائیں کے لفظ کی تکرار ، دعائیہ اسلوب اور محبت بھرے لہجے کی حلاوت دل میں اترتی چلی گئی ۔
اسلم اکثر ذکر کیا کرتے کہ بابا آپ کا تذکرہ سن کر دعائیں دیا کرتے ہیں نیز بتاتے کہ جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو فارغ اوقات میں گھنٹوں مجھ سے علمی سوالات کرتے اور بحث کیا کرتے ہیں حالانکہ معروف معنوں میں وہ تعلیم یافتہ نہ تھے ۔ بابا کے محبت بھرے لہجے اور اسلم کے تذکروں نے ان سے بالمشافہ ملاقات کا شوق دل میں بیدار کر دیا لیکن سفر کی طوالت اور عدم فرصت کے احساس سے میں اس خواہش کا اظہار کبھی اسلم علی سے بھی نہ کر سکا اس لیے بابا کی رحلت کی خبر سنتے ہی وہ محبت بیدار ہو گئی اور یوں میں دفعتاً اندرون سندھ کے سفر کے لیے تیار ہو گیا۔
طویل مسافت طے کر کے رادٹ پہنچا جو ضلع دادو کی تحصیل میھڑ کا چھوٹا سا گاؤں ہے ۔ دوران قیام گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے فرد سے دادا خدا بخش کے اخلاق، سادگی اور محبت قرآن کے تذکرے سننے کو ملے ۔ قرآن کریم کی تلاوت میں مشغولیت ان کا محبوب کام رہا ۔ وہ لکھنے پڑھنے سے ناآشنا لیکن حرف مرسوم کے بے پناہ قدردان تھے ۔ کسی کتاب یا اخبار کا صفحہ مل جاتا تو تب تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک پڑھوا کر سن نہ لیتے۔ روایات پسند مشغلے میں وہ جستجوئے علم کی روشن کرن تھے جو بات علم و دلیل کی میزان پر پورا نہ اترے اسے برملا ٹوک دینا ان کا مزاج تھا۔ بابا ۷۵ کے سن میں تھے لیکن خودداری اور حوصلہ ایسا کہ بیماری جب تک حد سے نہ گزر جاتی افراد خانہ کو بھی تکلیف کی خبر نہ ہونے دیتے ۔ دو دفعہ ہارٹ اٹیک ہو چکا تھا لیکن روز وشب کے مشاغل میں ذرا فرق نہ آنے دیا ورنہ ان جیسے مریض بستر سے لگ جایا کرتے اور ہر کسی کو اپنا دکھڑا سنایا کرتے ہیں لیکن آخری دن تک چاک و چوبند اور ہنس مکھ بابا خدا بحش کسی اور ہی عالم کے راہی تھے ۔ اکثر کہا کرتے کہ اپنا تو سامان بندھ چکا ہے بس ٹکٹ کٹنے کا انتظار ہے عمر بھر انفرادیت کی مثال بننے والے بابا کا سفر آخرت بھی منفر د ہی ٹھہرا ۔ عشا کی نماز باجماعت ادا کی مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں سے حسب عادت خوش گپیاں کرتے رہے وہاں سے نکلے تو حسب معمول گلی کی نکڑ پر دوستوں سے گپ شپ کرنے چلے گئے۔ گپ شپ کے موضوع ہمیشہ کی طرح ان کے دینی اور علمی ذوق کے مطابق ہی تھے ۔ نصف شب گزرنے کے بعد گھر لوٹے تو استراحت کے لیے لیٹ گئے ۔ کچھ دیر بعد بے چینی کے آثار محسوس کرتے ہوئے اہل خانہ نے احوال معلوم کرنا چاہا تو صبر و ضبط کا پیکر پسینے سے شرابور اور بدن برف ہو رہا تھا۔ اہل خانہ اور اہل محلہ تڑپ اٹھے ۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی تیاری کی گئی لیکن روانگی کا منتظر مسافر وقت سحر اس عالم ناپائیدار کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
میں اسلم کے ہمراہ بابا کی آخری آرامگاہ پر دعا کے لیے پہنچا تو زیارت قبور کی مسنون دعا پہلے سے کہیں زیادہ معنویت کے ساتھ ورد زبان تھی کہ‘ اہل قبور مومنین و مومنات ! اللہ نے چاہا تو ہم بھی جلد تم سے آملیں گے ۔ ہم اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں’۔ دعا کے بعد قبر ستان سے نکلے تو اسلم علی بتانے لگے کہ بابا آپ سے ملاقات کی شدید خواہش رکھتے تھے میں نے عرض کیاکہ ایسی ہی کیفیت ادھر بھی تھی اسی لیے دعا سے قبل میں عالم بے خودی میں بابا سے مخاطب تھا کہ آپ سے ملاقات کی خواہش تشنہ ہی رہی البتہ آج آپ کے مرقد پر حاضری کی صورت میں کسی حد تک پوری ہو گْی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ آپ پائیدار و دائم عالم میں پہنچ چکے ہیں جہاں حق اپنے آخری صورت میں واضح ہو جاتا ہے جبکہ ہم تاحال عالم ناپائیدار کے باسی ہیں اورجہاں حق کے اوپر پردے پڑے ہوتے ہیں اس لیے یہاں سچی جستجو ہی کے ذریعے حق آشنا ہوا جا سکتا ہے بابا عمر بھر تمام تر سادگی اور کم علمی کے باوجود میدان جستجو کے شاہ سوار رہے اور بلاشبہ حق اپنے متلاشیوں کو کبھی تشنہ نہیں رہنے دیتا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
دوران قیام اندرون سندھ کے مکینوں کی سادگی ، سچی محبت ، لہجہ کی حلاوت اور احترام انسانیت کے جذبہ نے بہت متاثر کیا ۔ کشمور سے دادو تک اندرون سندھ کچے مکانوں کی کثرت دکھائی دی ۔ شہروں سمیت عالی شان محل نما گھر بحیثیت مجموعی دکھائی نہیں دیتے۔ لاڑکانہ اور شکار پور جیسے بڑے شہروں کی گلیاں بھی دیہاتی سادگی کا منہ بولتا ثبوت دکھائی دیں۔ یہاں خواتین کھلے عام اول تو دکھائی نہیں دیتیں اور اگر نظر آئیں بھی تو باپردہ ہوتی ہیں ۔ اندرون سندھ میں اجتماعی زندگی اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ قائم ودائم نظر آتی ہے ۔ ہر گاؤں کے مختلف اطراف میں اوطاق قائم ہوتے ہیں جو شادی اور موت کے مواقع پر کمیونٹی سنٹر کا کام دیتے ہیں اور جہاں خوشی اور غمی کے مواقع پر سماجی مراتب سے قطع نظر ایک کنبہ کا منظردیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں تعزیت کا انداز بھی بہت خوبصورت ہوتا ہے ۔ تعزیت کے لیے نوواردافراد اجتماعی سلام کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک فرد حاضرین کو قل شریف کی تلاوت کی درخواست کرتا ہے اس طرح چند لمحات کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ دعا کے اختتام کے ساتھ ہی یہ نووار د اور میت کے اعزا کھڑے ہو جاتے ہیں اور بغل گیر ہو کر تعزیتی جملوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے ۔ پہلے سے آئے ہوئے افراد اسی دوران مخصوص سندھی انداز میں جھک کر سلام کر کے رخصت ہو جاتے ہیں جبکہ نووارد دوبارہ بیٹھ جاتے ہیں۔ دوران نشست میں دنیاوی گفتگو کم سے کم کی جاتی ہے اسی طرح سوگ کے ایام میں اہل خانہ کے گھر طعام کا اہتمام میت کے عزیز واقارب کیا کرتے ہیں جبکہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کے گھر بارات کے لیے طعام سمیت جملہ انتظامات لڑکے والوں کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی اندرون سندھ کی معاشرت تعاون اور امداد و احساس باہمی کے اصول پر مبنی نظر آتی ہے۔
عمومی طور پر کروفر کے مظاہر بھی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیے۔ دوران سفر لاڑکانہ سے سادہ وضع قطع کے حامل ایک باریش بزرگ میرے ساتھ والی نشست پر تشریف فرما ہوئے۔تعارف پر معلوم ہوا کہ موصوف علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اور لاڑکانہ کالج میں پروفیسر ہیں جبکہ طویل عرصہ سے ریڈیو پاکستان لاڑکانہ پر درس قرآن کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ڈاکٹر محمد ادریس آزاد سومرو کی وضع قطع اور لب و لہجہ علمی و معاشرتی ٹھاٹھ کے بجائے سادگی اور عجز کا حامل نظر آیا جس نے اندرون سندھ کے بارے میں میرے مجموعی تاثر میں خوبصورت اضافہ کیا۔
بحیثیت مجموعی اندرون سندھ میں ٹھوس دینی علم کی کمی اور موروثی روایت پسندی کا غلبہ نظر آیا۔ اس سادہ لوح معاشرے میں دین کے حقیقی ماخذ قرآن و سنت کی بنیاد پر تعلیم کے اہتمام کی شدید ضرورت ہے جس کے بغیر ان سادہ لوح لوگوں کے جذبات دینی کے استحصال کے کثیر مواقع موجود ہیں۔ لیکن یہ کار خیر کوئی اہل زبان ہی انجام دے سکتا ہے کیونکہ سندھی زبان وہاں کے کلچر پر غالب ہے ۔عام افراد تو اردو سے نابلد ہیں ہی البتہ تعلیم یافتہ افراد بھی بدقت ہی اردو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
بابا خدا بخش جوکھیو کی محبت کے توسط سے کیا جانے والا یہ سفر بے پناہ مشاہدات کا حامل ثابت ہوا اس سفر کے دوران میں دیہی محبت و اخلاص کے مظاہر دیکھنے کو ملے ۔ جو دل کی دنیا میں خوشگوار یادیں ثبت کر گئے ۔