قلو پطرہ کا انجام

مصنف : وائس آف امریکہ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : دسمبر 2010

تاریخ سے عبرت حاصل کیجیے

سیروا فی الارض کیف کان

 

            قلوپطرہ قدیم مصری تاریخ کی ایک مشہور ترین شخصیت ہے، جس کے قصے کہانیاں تقریباً دنیا کے ہر زبان کے ادب کا حصہ ہیں۔ اس کی زندگی بہت سے ناولوں کا موضوع بنی اور کئی زبانوں میں اس پر شہرہ آفاق فلمیں بنائی گئیں۔

            قدیم مصری تاریخ میں قلوپطرہ نام کی سات ملکہ تھیں، جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ساتویں ملکہ نے حاصل کی۔ جس کی وجہ اس کا بے پناہ حسن اور پرقار شخصیت تھی۔

            حسن و خوبصورتی کی شاہکار ملکہ مصر قلوپطرہ ہفتم، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی موت خود کو سانپ کے ڈسوانے سے ہوئی۔تاریخ کی کتابوں میں اس سانپ کو مصری کوبرا سانپ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم حال ہی میں ایک جرمن ماہر تاریخ نے دعوی کیا ہے کہ قلوپطرہ کی ہلاکت زہر کھانے سے ہوئی تھی۔ اور اس نے مرنے کے لیے افیون اور جڑی بوٹیوں کے ایک زہریلے آمیزے کا انتخاب کیا تھا۔

            جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹرائر کے پروفیسر اور تاریخ دان کرسٹوفر شیفر کا کہنا ہے کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملکہ مصر کی ہلاکت کا سبب کوبرا نہیں تھا بلکہ ایک زہر تھا۔پروفیسر شیفر کئی دوسرے تاریخ دانوں اور ماہرین کے ساتھ مصر کے شہر اسکندریہ گئے ، جہاں انہوں نے قدیم طبی علوم اور سانپوں کے ماہرین سے معلومات حاصل کیں۔

            جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن چینل زی ڈی ایف پر دکھائے جانے والے سائنسی تحقیق کے ایک پروگرام میں پروفیسر شیفر نے کہا کہ امکان یہ ہے کہ قلوپطرہ نے افیون، صنوبر اور ایک زہریلے پودے تاج الملوک کے آمیزے پر مشتمل ایک دوا کھائی، جو اس زمانے میں چند گھنٹوں کے اندر ہلاک کرنے کی ایک جانی پہچانی دوا تھی۔ جب کہ سانپ کے ڈسنے سے ہلاک ہونے میں کئی دن لگ سکتے ہیں اوراس میں تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے۔تاہم تاریخ کی پرانی کتابوں، قلوپطرہ کے زمانے کی شاعری اور روایات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قلوپطرہ نے شہنشاہ روم آگسٹس کے ہاتھوں اپنے شوہر جنرل انتھونی کی شکست اور خودکشی کے بعد، خود کو آگسٹس سے بچانے کے لیے خود کشی کا فیصلہ کیا۔ قلوپطرہ کو اس کے جانثاروں نے چوری چھپے زہریلا کوبرا سانپ مہیا کیا ، جس سے اس نے ڈسوا کر خود کو ہلاک کرلیا۔قدیم دور کی متعدد ایسی تصویریں موجود ہیں جس میں اسے سانپ سے ڈسواتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ تاہم نشہ آور زہریلی دوا کھانے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے۔

            قلوپطرہ کا زمانہ 51 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح ہے۔ یہ وہ عہد ہے جب مصر پرآخری فرعون حکمران تھا اور اس کی موت کے بعد مصر روم کا ایک صوبہ بن گیا۔قلوپطرہ روم کے شہنشاہ جیولیس سیزر کی ایک ساتھی تھی اور تاریخ کے مطابق اس کے رومن جنرل مارک انتھونی سے بھی تعلقات تھے جو شہنشاہ روم کا بہنوئی بھی تھا۔ اور یہی تعلق شہنشاہ آگسٹس اور انتھونی کے درمیان لڑائیوں کا ایک سبب بنا۔

قلوپطرہ کے بطن سے انتھونی کے تین بچے بھی تھے اور ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ انہوں نے شادی کرلی تھی۔ یہ قلوپطرہ کی تیسری اور آخری شادی تھی۔

            ہلاکت کی طرح قلوپطرہ کی شادی سے بھی کئی کہانیاں منسوب ہیں۔قدیم مصری مملکت میں تمام بادشاہ خود کو فرعون کہلاتے تھے۔ اور روایات کے مطابق شہنشاہ اپنی بہن سے شادی کرتاتھا۔قلوپطرہ کے دو بھائی تھے، ایک بڑا اوردوسرا چھوٹا۔وہ دونوں تیرہویں اور چوہودیں فرعون کے نام سے جانے جاتے ہیں۔51 قبل مسیح میں باپ کے مرنے پر قلوپطرہ کا بڑا بھائی تخت نشین ہوا اور اس نے اپنی 11 سالہ بہن قلوپطرہ سے شادی کی۔ اس کی ہلاکت کے بعد چھوٹے بھائی نے تخت و تاج سنبھالا اور اس نے بھی روایات کے مطابق اپنی بہن سے شادی کی۔چھوٹے بھائی کے اقتدار کا دور پرآشوب تھا اور لڑائیوں کی وجہ سے امور مملکت پر اس کی گرفت کمزور تھی۔ یہ قلوپطرہ کے عروج کا زمانہ تھا اور مملکت میں اس کا عمل دخل بہت بڑھ گیا تھا۔ چھوٹے بھائی کی ہلاکت کے بعد تخت و تاج قلوپطرہ کے ہاتھ آگیا اور اس نے خود کو دیوی کہلوانا

 شروع کردیا۔مصری سلطنت پر روم کی شہنشاہت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا نتیجہ رومی جنرل مارک انتھونی کی قلوپطرہ سے قربت اور بعدازاں اس ہلاکت کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے قلوپطرہ کی39 سالہ زندگی کو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔