راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو ، نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے
٭٭٭
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
ماجرا اپنی ناتمامی کا
مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو
صلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا
اور یہ بسوہ دار، بے زحمت
پی گیا سب لہو اسامی کا
٭٭٭