خلا کی تسخیر نے کئی اور در ذہنوں میں وا کیے ہیں
زمیں سب کچھ ہے کے تصور میں ایک رخنہ سا پڑ گیا ہے
نگاہ سے ماورا شواہد،یہ چاند تارے ، فلک سپارے
نئے جہاں کی بشارتوں کے ہیں پیش خیمہ
اور آدمی اس کا حیرتی ہے
وہ پھیل کر کائنات بننے کے خواب سے بھی ہوا ہے خائف
وہ بے یقینی کے دائرے میں سمٹ رہا ہے
وہ کتنے نادیدہ اور مفروضہ دہشتوں میں گھرا ہو ا ہے
شعو ر نامعتبر کے نرغے میں سانس لیتا ہے
سہم ناکی میں جی رہا ہے
اس آدمی کو کوئی بتائے
ترا علاقہ ہے جس قبیلے سے
اس قبیلے میں وہ بھی اک شخص محترم تھا
زمیں سے افلاک کے سفر میں
جو ان مقامات سے گزرا
جہاں رسائی سے پر فرشتوں کے جل اٹھتے تھے
وہ معتبر شخص
زمیں سے افلاک کے سفر میں بھی آدمی تھا
فلک سے روئے زمیں پہ جب لوٹ کر آیا تو آدمی تھا
وہ شخص معراج آدمی تھا
ابد ابد تک یہ کائنات اس کے سب مظاہر
تصرف آدمی کی خاطر پرے جمائے کھڑے رہیں گے