بیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ایسے لوگ شاید بیس سو بھی نہ ہوں جنہوں نے پورے شعور کے ساتھ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور پھر تا دم واپسیں اس پر ثابت قدم رہے ہوں۔ اور یہ فیصلہ اس حال میں کیا ہو جبکہ ان کے لیے دنیوی عزت و عظمت کی باقی سب راہیں کھلی ہوں اور ان پر چلنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو۔ ڈاکٹر اسرا راحمد مرحوم کی وفات کے ساتھ ہی بلا شبہ ان گنے چنے لوگوں کی تعداد میں ایک اور کی کمی ہو گئی ہے۔اوریہ یقینا ایک بڑا سانحہ ہے۔اس سانحے کی اہمیت اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ فی زمانہ اللہ کو اپنا رب کہنے اور پھر اس پر ثابت قدم رہنے (ان الذین قالوا ربنا اللہ تم استقاموا۔۔۔)والے لوگوں میں کمی ہونے کا تناسب اضافے کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے ۔
مرحوم کی فکر کے ساتھ اگر چہ میرا کبھی بھی ‘‘دامے ، درمے ، سخنے ’’ کوئی خاص تعلق نہیں رہا مگر مرحو م کے ساتھ نہ جانے کیوں ایک قلبی سا تعلق تھا جو روز اول سے لے کر آخر تک قائم رہا۔شاید اس کی وجہ ان کا اخلاص و وفا ہے یا زور بیان لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ ان سے اس تعلق کے باوجود اور بر س ہا برس لاہور میں رہنے اور باقاعدگی سے ان کا خطبہ جمعہ سننے کے باوجودبھی ان سے کبھی ذاتی ملاقات کی خواہش نہ ہوئی ۔ اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی شاید میں اس بات سے ڈر رہا تھا کہ تصویر کے زیادہ قریب جانے سے کہیں دیگر بہت سی مذہبی تصویروں کی طرح یہ تصویر بھی دھندلا نہ جائے لیکن نہیں شاید یہ میری غلطی اور سستی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح میں کئی برس یہ پروگرام بناتا رہا کہ مولانا امین احسن اصلاحی کے درس میں جایا کرنا ہے مگر وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اورہم پروگرام ہی بناتے رہ گئے ۔بڑے اور چھوٹے لوگوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ وہ پروگرام بناتے رہ جاتے ہیں اور بڑے کام کر کے بھی چلتے بنتے ہیں۔ بقول شاعر
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جاہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
ِ ڈاکٹر صاحب کا پہلا خطاب میں نے اس وقت سناتھا جب میں نویں جماعت کاطالب علم تھا اور وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جامع مسجد میں خطاب کرنے آئے تھے ۔ ان کے اس خطاب نے مجھے پہلی بار حمید الدین فراہی کے نام سے متعارف کروایا تھا۔بعد میں تلاش معاش نے جب لاہور لا ڈالا تو برسوں باغِ جناح لاہور میں ان کا خطبہ جمعہ سننے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ اور بعض اوقات قرآن اکیڈمی میں رمضان کی راتوں میں دورہ تفسیربھی ۔
مرحو م کو اپنی بات پورے ڈھنگ سے بیان کرنے کا لا زوال ملکہ حاصل تھا۔ ان کے خطابات کوابوالکلام ، بخاری او ر شورش جیسا کہنا تو میرے خیال میں ان تاریخی لوگوں سے زیادتی ہے مگر یہ امرِحقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کابس اپنا ہی ایک انداز تھا جو سامع کو کہیں اور نہ جانے دیتا تھا۔یہ اصل میں ان کا تیقن تھا جو قاری پر اثرا نداز ہوتا تھا ۔ان کا اپنے نقطہ نظر اورتحقیق کی سچائی پر پورا یمان تھا اور یہی ایمان کی کیفیت ہی دراصل ان کے خطبے اور تقریر میں جان پید ا کرتی تھی۔ مجھے یا د ہے کہ وہ بڑے وثوق سے بیا ن کیا کر تے کہ مثلاً(کمی بیشی معاف) افغانستان سے جھنڈے چلیں گے اور ترکستا ن وغیر ہ سے لوگ اٹھیں گے اور اسلام چھا جائے گا تو گویا یہ معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا غلبہ اب ہوا ہی چاہتا تھا۔اگرچہ ان ساری تفصیلات کے پس منظر میں موجود احادیث کا صحیح ، حسن یا ضعیف ہونا اپنی جگہ ایک سوال تھا مگر ان کا زور بیان تھا کہ باندھ کے رکھتا تھا۔
رجوع الی القرآن کی مہم بلا شبہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ کتنے ہی دلوں میں انہوں نے اللہ کی کتاب سے تعلق کی شمع روشن کی۔ اگر ان کے نامہ اعمال میں کوئی اورنیکی نہ بھی ہوتی تو گما ن یہی ہے کہ یہی ایک نیکی شاید ان کی بخشش کے لیے کافی ہوتی ۔اقامت دین، غلبہ اسلام اور خلافت کی اصطلاحیں اگر ان کا دلچسپی کا باعث نہ بنتیں تو آج قرآن کی شمع کہیں زیادہ تابناکی کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں روشن ہوتی ۔
بعض معاشرتی برائیوں کی اصلاح کے لیے انہوں نے جس پامردی سے کوشش کی، یہ کوشش ان کو خانوادۂ ولی اللہ کی صفوں میں لا کھڑا کرتی ہے اور کلمہ حق کہنے میں جو جرات ان کے ہاں نظر آتی ہے وہ ان کو شیخ سرہندی کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔
مرحوم ضیاالحق کی مجلس شوری میں شامل ہوئے لیکن بہت جلد استعفی دے کر واپس آ گئے اور جب ضیا الحق نے اسرار کیا تو غالباً باغ جنا ح ہی میں مرحوم نے وقت کے ڈکٹیٹر سے یہ کہنے میں کوئی خوف محسوس نہ کیا کہ جناب آپ اسلام کے نفاذ میں مخلص نہیں آپ اسلام نافذ کیجیے ہم پھر شامل ہو جائیں گے۔ اور وہ خطبہ تو چھپ چکا ہے جو انہوں نے صدر کی موجودگی میں دیا تھا۔ جس میں انہوں نے کرکٹ کی کراہت کی طرف توجہ دلا ئی تھی۔ اس کے علاوہ خواتین ، شریعت اور عائلی قوانین کے بارے میں صدر سے جو صاف صاف باتیں کی تھیں،و ہ بھی ان کی حق گوئی اور عظمت کے ریکارڈ کا نادر حصہ ہیں۔
اللہ کریم مرحوم کی بشری خطاؤں سے درگزر فرمائے اور ان کی خدمات کوقبول فرمائے اور ان کے اخلاف کو ان جیسا اخلاص اور ثابت قدمی نصیب فرمائے۔
بعض اوقات ‘بڑوں’ کی موت چھوٹوں کو بڑا بناجاتی ہے مگر وہ حقیقت میں ‘بڑے’ ہوتے نہیں اللہ کرے ڈاکٹر صاحب کے ‘‘چھوٹے’’ حقیقت میں بڑے بن جائیں۔