منتخب کالم
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
عطا ء الحق قاسمی
مولانا زاہد الراشدی کی فکر انگیز گفتگو
ہمارے ذہنوں میں مولوی کا تصور وہی ہے جو آدھی رات کو مسجد کے چیختے چنگھاڑتے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے ہم تک پہنچاہے یا سیاسی مولویوں کی دو عملی ہمارے ذہنوں میں مولوی کا امیج مسخ کرنے کا باعث بنی ہے لیکن میں ’’مولویوں‘‘ میں اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ ان کے مثبت اور منفی پہلو دونوں میرے ذہن میں ہیں۔ وہ جو صحیح معنوں میں مولوی ہیں، ان کا وڑن بہت وسیع ہے۔ مسٹر حضرات ان کی جہتوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ان کا طرز استدلال بڑے بڑے بزرجمہروں کا منہ بند کرنے والا ہوتا ہے۔ہمارے مسٹر حضرات مولوی پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کرتے ہیں، وہاں وہ بہت عرصے سے مولوی کو مسلم امہ کے ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں اور ہم لوگ ان کی بات پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے گزشتہ روز ڈاک میں مولانا زاہد الراشدی کی شائع شدہ ایک تحریر ملی جو انہوں نے مدرسہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا کے سالانہ اجتماع کے موقع پر کی تھی۔ اس میں مولانا نے دیگر الزامات کے علاوہ اس الزام کا جواب بھی دیا ہے جو مولوی حضرات پر مسلمانوں کے ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ مجھے مولانا کی بات میں وزن محسوس ہوا ہے اور یوں صورت حال ’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘ والی لگتی ہے۔ مولانا کی تقریر سے ایک طویل اقتباس درج ذیل ہے :
’’سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے آج ہم دنیا میں اپنے جائز مقام سے محروم ہیں اور ہمارے مصائب وآلام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے۔ صرف ایک مثال سے بات سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے پون صدی یا ایک صدی قبل ہم مسلمانوں کو بہت بڑی دولت سے نوازا۔ خلیج میں تیل کی دولت دی۔ یہ ہمارا ادبار کا دور تھا، زوال کا دور تھا مگر اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے وقت کی سب سے بڑی دولت عطا فرمائی لیکن ہماری حالت یہ تھی کہ ہم تیل زمین سے نکالنے کی صلاحیت سے محروم تھے، چشمے کھودنے کی تکنیک سے بے بہرہ تھے، تیل نکال کر اسے ریفائن کرنے کی صلاحیت سے ہم کورے تھے اور تیل کو ریفائن کرنے کے بعد دنیا کی مارکیٹ میں بیچنے کے لیے مارکیٹنگ کی صلاحیت بھی ہم میں موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے ہم مغربی ماہرین کو بلانے پر مجبور ہوئے۔ مغربی ماہرین آئے، پھر مغربی کمپنیاں آئیں، ان کے بعد بینک آئے، پھر سیاست کار آئے اور ان کے ساتھ مغرب کی فوجیں بھی آ گئیں جو آج تیل کے چشموں کا گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔
ذرا خیال کیجیے کہ تیل ہمارا، چشمے ہمارے، کنویں ہمارے، زمین ہماری لیکن ان پر قبضہ کس کا ہے؟ اور کس وجہ سے ہے؟ یہ ہماری نااہلی تھی کہ ہم تیل نکالنے، صاف کرنے اور عالمی مارکیٹ میں اسے بیچنے کی صلاحیت سے محروم تھے جس کی وجہ سے مغرب سے ماہرین آئے اور آج ماہرین، کمپنیاں، بینک اور پھر فوجیں خلیج میں تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ تیل نکالنے، صاف کرنے اور مارکیٹنگ کی صلاحیت آج بھی ہم میں موجود نہیں ہے اور مغرب کے ارادے یہ ہیں کہ ابھی امریکی وزارت دفاع پینٹاگون میں یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر سعودی عرب نے امریکی احکامات کی من وعن تابع داری نہ کی تو اس کے تیل کے چشموں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور مغربی ملکوں میں اس کے اثاثے اور مغربی بینکوں میں اس کے اکاؤنٹس ضبط کر لیے جائیں گے۔
اس لیے ہمیں اس کی تکلیف زیادہ ہے اور ہم اس کا درد زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے اور میں ہر اس شخص کو جس کے دل میں انصاف کی ایک رتی بھی موجود ہے اور ضمیر نام کی کوئی چیز وہ اپنے پاس رکھتا ہے، دعوت دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں امت کی محرومی کا ذمہ دار کون ہے؟
میں تاریخ کے حوالے سے بات کروں گا۔ جب ۷۵۸۱ء4 کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تب دو طبقے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ علماے کرام نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا، چندے مانگے، گھر گھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں، زکوٰۃ وصدقہ کے لیے دست سوال دراز کیا اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہو کر عوامی تعاون کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے آثار کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک ایک دروازے پر دستک دی، سر پر چنگیر رکھ کر گھر گھر سے روٹیاں مانگیں، ہاں ہاں میں نے خود روٹیاں مانگی ہیں، اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے کئی محلوں میں سر پر چھابہ رکھ کر روٹیاں مانگی ہیں۔ ہم نے اپنی عزت نفس کی پروا نہیں کی، طعنے سنے ہیں، بے عزتی برداشت کی ہے لیکن قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھا ہے جس کی گواہی آج دشمن بھی دے رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور طبقہ سامنے آیا جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کا وعدہ کیا، انگریزی اور جدید زبانوں کی تعلیم اپنے ذمے لی۔ انہیں اس کام کے لیے ریاستی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور انہوں نے قومی خزانے کے کھربوں روپے خرچ کر ڈالے۔ انہیں سرکاری وسائل میسر تھے، ریاستی پشت پناہی حاصل تھی لیکن وہ قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آج کی قوموں کے برابر نہ لا سکے اور آج اپنی ناکامی کی ذمہ داری مولوی کے سرتھوپ کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آج کی اجتماعی دانش سے سوال کرتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور یہ فیصلہ کرے کہ نااہل کون ثابت ہوا اور اپنی ذمہ داری کس نے پوری
نہیں کی؟ آج اگر ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، قرآن وسنت کی راہ نمائی لوگوں کو میسر نہیں ہے اور اسلام کی آواز نہیں لگ رہی تو ہم مجرم ہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے پیچھے رہنے کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالیے۔ یہ نا انصافی ہے۔ اس کے بارے میں ان سے پوچھیے جنہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے لیے سرکاری خزانے کے کھربوں روپے اب تک انہوں نے خرچ کر ڈالے ہیں۔میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو مساجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام میسر ہیں؟ قرآن کریم کی تعلیم کے لیے قاری مل رہے ہیں؟ رمضان میں قرآن سنانے کے لیے حافظ مل جاتے ہیں؟ جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب موجود ہیں؟ مسئلہ بتانے والے مفتی صاحبان کی کمی تو نہیں؟ دینی راہ نمائی دینے کے لیے علماے کرام سے ملک کا کوئی گوشہ خالی تو نہیں؟ اس سے اگلی بات کہ میدان جنگ میں کفر کے خلاف صف آرا ہونے والے مجاہدین بھی ان مدارس سے آپ کو مل رہے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو دینی مدارس پر اعتراض کس بات کا ہے؟
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی آج ہی ایک محفل میں فرما رہے تھے کہ انہوں نے وفاقی وزرا سے کہا ہے کہ سرکاری نصاب تعلیم اور نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قومی کمیشن قائم کیجیے اور ہمیں اور سرکاری تعلیم کے ذمہ داروں کو اس کے سامنے پیش کیجیے۔ ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
(روزنامہ جنگ ۷ ۲دسمبر ۲۰۰۲ء)