پاکستانی معاشرے میں استاد کامقام۔ایک استاد کی آپ بیتی کے حوالے سے ایک درد ناک حقیقت
سیالکوٹ کے کسی دور دراز علاقے کے انتہائی محترم استاد ذیشان علی کی ایک مختصر سی ای میل نے مجھے سنُ کر کے رکھ دیا ہے ۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ یہ چند لائنیں ایک لمحے میں مجھے اپنے برسوں پہلے کی بستی جیسل کلاسرا کے اس پرانے سکول میں لے گئی ہیں جہاں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر اپنے استادوں سے پڑھا کرتا تھا۔ مجھے اپنے پر ائمری سکول کے محترم استادوں گل محمد ونجھیرا، نذیر قریشی اور طالب حسین شاہ کی دھندلائی ہوئی تصویریں نظر آرہی ہیں ۔ میں کچھ دن استاد نذیر سے پڑ ھا اور تھوڑے عرصے بعد گل محمد صاحب جو ٹرانسفر ہو کر ہمارے سکول آئے تھے ان کی کلاس میں بھیج دیا گیا ۔ یہ وہی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ سکول کی دیمک زدہ الماری میں سے مجھے چند کہانیوں کی کتابیں نکال کر دیں اور میں فکشن کی اس دنیا کے رومانس میں داخل ہوا جس سے آج تک نہیں نکل سکا۔ محترم استاد نے شاید میرے اندر کچھ دیکھا تو تبھی مجھے دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ ملتی تھی ۔ الماری کا خانہ صرف میرے لیے کھلتا اور اس میں سے ہرہفتے ایک کہانیوں کی نئی چھوٹی کتاب مجھے تھما دی جاتی۔ میری ماں بڑی خوش ہوتی۔ وہ روزانہ میرے استادوں کے تازہ لسی، مکھن اور بھینس کا دودھ بھیجتی تاکہ سارے استاد چائے پی سکیں اور اس کے بچے کو محنت سے پڑھائیں۔ کئی دفعہ اپنے استادوں کی پکی ہوئی گندم بھی کاٹنے کے لیے ہمیں لے جایا جاتا۔ اماں تو بڑی ناراض ہوتیں لیکن ہم چوتھی پانچویں کے بچوں کے لیے یہ ایک طرح سے بہت بڑی تفریح ہوتی کہ ہمیں اس دن پڑھنا نہیں پڑتا تھا۔
ماسٹر گل محمد کا بیٹا اصغر ہمارا کلاس فیلو تھا۔ باپ بیٹا دونوں ایک سائیکل پر سوار ہمارے سکول سے کئی کلومیٹر دور واقع اپنی بستی سے اکٹھے آتے تھے ۔ جس دن اصغر ہمیں دور سے اکیلا سکول کی طرف آتا نظر آتا ہم سب بچے خوشی کے مار ے پاگل ہو کر اس کی طرف دوڑتے اور وہ ہماری طرف دوڑ لگاتا۔ اس کے اکیلے آنے کا مطلب ہوتا کہ آج ماسٹر گل محمد سکول نہیں آئے تھے۔ پھر وقت تیزی سے بدل گیا۔ ایک دن پتا چلا کہ استاد گل محمد چپکے سے فوت ہو گئے تھے ۔ دل کئی دن اداس رہا۔
برسوں بعد ایک دن یونیورسٹی سے ملتان اورملتان سے لیہ ریل گاڑی پر آتے ہوئے راستے میں کوٹ ادو ریلوے اسٹیشن پر چائے پینے کے لیے اترا تو سامنے میرا کلاس فیلو اصغر چائے بیچ رہا تھا۔ ایک شدید دھچکا لگا کہ ایک استاد کا پڑھایا ہوا ایک طالبعلم آج یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا اور اس کا اپنا بیٹا ریلوے سٹیشن پر کھڑا چائے بیچ رہا تھا۔ ایک دکھی دل کے ساتھ اصغر کو گلے لگایا اور دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ منہ سے کچھ نہ بولا گیا۔ وہ مجھے اور میں اسے دیکھتا رہا ۔ نہ اس نے چائے کے پیسے مانگے اور نہ میں نے دیے۔ ٹرین ڈرائیور کو شاید ہم دونوں کے درمیان صدیوں پر پھیلی اداسی اور دکھ کا احساس ہو گیا تھا ۔ ٹرین ایک سیٹی کے ساتھ چلنے لگی نہ چاہتے ہوئے بھی میں اصغر کا خالی ہاتھ چھوڑ کر بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے ڈبے کی طرف مڑ گیا۔
اپنے ماضی کو سوچتے ہوئے سیالکوٹ کے ماسٹر ذیشان علی کی ای میل پڑھ رہا ہوں ۔ ایسے استاد تو اب کتابوں اور کہانیوں میں ملتے ہیں۔ میں تو سمجھتا تھا کہ شاید وہ استاد مرکھپ گئے تھے جوکبھی اپنے شاگردوں کے مستقبل کو اپنے بچوں پر بھی اہمیت دیتے تھے۔ میں شاید غلط تھا۔
ماسٹر ذیشان لکھتے ہیں،‘‘میں ایک پرائمری سکول کا ٹیچر ہوں۔ میرا باپ بھی ایک استاد تھا ۔ میرے گھر پر ا نٹرنیٹ نہیں ہے ۔ میں یہ چند لائنیں آپ کو انٹرنیٹ کیفے سے بھیج رہا ہوں ۔ میں نے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ میرا باپ اپنے پیشے سے اتنی محبت کرتا تھا کہ اس نے مجھے بھی ایک استاد بنایا۔ میں نے بھی اپنے باپ کے رومانس میں استاد بننے کا فیصلہ کیا تھا ۔ آج مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں استاد کیونکر اور کیسے بنا کیونکہ اب اس معاشرے میں نہ تو استاد کی کوئی عزت ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں ا یسی باتیں کیوں کر رہا ہوں ۔ چلیں میں آپ کو بتا دیتا ہوں ۔ میرا پرائمری سکول کا ایک شاگرد تھاجو اب سیکنڈ ایئر میں پڑھتا ہے ۔ اس پر الزام لگا کہ اس نے نویں کلاس کے ایک لڑکے کو اغوا کر لیا ہے ۔ سیالکوٹ پولیس نے اسے اٹھایا بغیر کسی ایف آئی آر کے اس پر شدید تشدد کیا گیا تاکہ مدعی کی تسلی ہو جائے ۔ پانچ دن بعد اغوا ہونے والا بچہ خودبخود شیخوپورہ سے برآمد ہو گیا۔ وہ بچہ اپنے باپ کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ الزام میرے شاگرد پر لگا ۔ مغوی لڑکے کے برآمد ہونے کے باوجود پولیس نے میرے اس سابق طالب علم کو نہیں چھوڑا۔ آج اس کا باپ ، ماں اور گاؤں کے کچھ لوگ میرے پاس آئے۔ ان روتے والدین کا خیال تھا کہ میں پچھلے بیس سال سے پڑھا رہا ہوں جبکہ میرے باپ نے پینتیس سال تک بچوں کو پڑھایا، اس لیے میرے پولیس اور ضلع کے دوسرے افسران سے تعلقات ہوں گے اور میں ان کے معصوم بچے کو چھڑوا سکتا ہوں ۔ میں نے روتے باپ اور فریاد کرتی ماں کو بتایا کہ میرے کسی سے تعلقات نہیں ہیں اور بھلا ایک پرائمری سکول کے استاد کے کسی سے تعلقات ہو بھی کیسے سکتے ہیں ؟وہ بیچارے بڑی دیر تک حسرت او رامید بھری نظروں سے دیکھنے کے بعد کوئی جواب نہ پاکر آخر مایوس ہو کر سکول سے واپس لوٹ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں اکیلا بیٹھا روتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ میں نے اور میرے باپ نے اس ملک کی تین نسلوں کو تعلیم دی ۔ ہم دونوں باپ بیٹے کو کیا ملا۔ ایک بائیسکل ، چند طالب علم جو ہمارا نام یاد رکھتے ہیں اور کبھی برسوں میں ایک آدھ دفعہ ملاقات ہو جائے تو عزت سے پیش آتے ہیں۔ ا س کے علاوہ کچھ نہیں ۔ آج میں بہت اداس اور مایوس ہوں ۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ خواہش کی ہے کہ میرا باپ مجھے پولیس کانسٹیبل بناتا جس کے لیے صرف آٹھویں تک پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے تو آج میں سیالکوٹ پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے اپنے بیگناہ طالب علم کو رہا کروا سکتا۔ میں اپنے آپ سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ میرے باپ نے مجھے استاد کیوں بنایااور میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ خدارا آپ سیالکوٹ پولیس کو میری طرف سے یہ درخواست کریں کہ وہ میرے شاگرد کو فورا رہا کردیں۔ وہ ایک نیک اور ذہین بچہ ہے ۔ اس کا نام جنید ارشد ہے اور وہ تھانہ بیگو والا سیالکوٹ میں تشدد کا شکا ر ہو رہا ہے ۔ ایس ایچ او کا نام ملک رضا اور ڈی ایس پی ملک فیض ہے جو کرسی پر بیٹھ کر میرے اس معصوم شاگرد کی چھترول کراتے ہیں۔ وہ دونوں میرے اس معصوم شاگرد پر تشدد اور زیادتی کے ذمہ دار ہیں ۔ آپ پلیز ان سے کہیں کہ وہ میرے شاگرد کو چھوڑ دیں۔ ایک دفعہ میرا دل چاہا کہ میں ایس ایچ اور ڈی ایس پی کے پاس خود چلا جاؤں۔ میں پھر ڈر گیا کہ وہ مجھے بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیں گے کیونکہ اس ملک میں جو اوقات ایک پرائمری ٹیچر کی ہے وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ میرے تین بیٹے ہیں اور اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں انہیں استاد نہیں بناؤں گا۔’’
استاد ذیشان علی کی درد اور دکھ بھری ای میل تو ختم ہو چکی ہے ۔ میرا خیال تھا کہ جس ضلع میں ایک پڑھا لکھا ، مہذب اور انسان دوست ڈی پی او ہو گا وہاں پر شاید اس طرح کا ظلم نہ ہوتا ہو لیکن کیا کریں کہ اس دنیا میں شاید سب کچھ ہوتا ہے۔ استاد ذیشان علی کی بات میرے ذہن سے نہیں اتر رہی کہ پینتیس سال اس کے باپ نے اور بیس سال اس نے تین نسلوں کو پڑھایا ۔ آخر پر ماسٹر ذیشان علی کو کیا ملا؟ ایک سائیکل ، چند طالب علم اور تنہا سکول کے کمرے میں اپنی بے بسی پر گالوں پر بہتے چند آنسو!!
وضاحت: سیالکوٹ کا ڈی پی او ایک اچھا پولیس افسر ہے ۔ اس کالم کے چھپنے سے پہلے ہی تھانہ بھیگو والہ میں غیر قانونی طور پر بند طالب علم کو رہا کر کے وہ ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا حکم دے چکا تھا۔ تاہم ماسٹر ذیشان علی کے خط میں ایک ایسی غلط بات چھپ گئی تھی جس سے اس مغوی کے گھر والوں کو شدید اذیت ہوئی کہ وہ لڑکا باپ کے سخت رویے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ بچہ کئی دن تک اغوا رہا اور اس کے پیروں اور ہاتھوں میں ا ب تک رسیوں کے نشانات تھے ۔ اگرچہ جنید بے گناہ تھا لیکن اس نے اپنے مغوی دوست کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا کہ جس دن وہ اغوا ہوا اس کا اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پولیس نے دس دن تک تھانے میں رکھا بغیر ایف آئی آر کے!
میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ ایک باپ کو اس بات پر کتنی تکلیف ہوئی ہو گی کہ اس کے بارے میں یہ غلط بات چھپ جائے کہ اس کا بیٹا اس کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ میں اس بات پر اس باپ سے دلی طور پر معذرت خواہ ہوں!
(بشکریہ ،روزنامہ جنگ کراچی)