سفر کے بعد سفر پر سفر مقدر ہے
نکل پڑا تو میں لوٹا کبھی نہ گھر کی طرف
وہ جا چکاہے مجھے چھوڑ کر زمانہ ہوا
نگاہ اٹھتی ہے کیوں اب بھی رہگزر کی طرف
تجھے میں بھول چکا تھا مگر اچانک کل
شدید درد اٹھا سینے میں جگر کی طرف
زمانہ آج اسی پر رواں دواں ہے کمال
چلا تھا کل میں اکیلا ہی جس ڈگر کی طرف
٭٭٭
لوگ کتابیں ، ناول اور رسالے پڑھتے ہیں
اپنا شوق الگ ہے ہم تو چہرے پڑھتے ہیں
دن بھر دھوپ میں جلتے ہیں ہم تب اپنے بچے
ہنستے کھیلتے کھاتے پیتے لکھتے پڑھتے ہیں
آج کل کی آہٹ میں سن لیتے ہیں کل کی آواز
حال میں ہم مستقبل کے اندیشے پڑھتے ہیں
مناصب ، تمغے ، اونچے عہد ے ملتے ہیں ان کو
شان میں حاکم دوراں کی جو قصیدے پڑھتے ہیں
٭٭٭