دہشت گردی اوربم دھماکوں کے المیے
مینگورہ میں پیر کو ہوئے خودکش حملے میں وہ برطانوی شہری بھی ہلاک ہو گئیی جنہوں نے اسلام قبول کر کے سوات کے ایک شہری سے شادی کی تھی۔
برطانوی خاتون بلینڈہ گارڈینل نے تقریباً دو سال پہلے انگلینڈ میں مقیم سوات کے ایک نوجوان یحییٰ خان سے شادی کی تھی۔خاتون نے شادی سے پہلے ہی اسلام قبول کرکے نام آمنہ خان رکھا تھا۔ پینتالیس سالہ آمنہ خان انگلینڈ میں ایک ہسپتال میں ملازم تھیں۔ شادی کے بعد یحییٰ خان نے اپنی بیوی کو پاکستان بلانے کے لیے ملک واپس آگئے اور بیوی کے سفری دستاویزات بنوانے میں مصروف ہوئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سوات میں طالبان کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری تھیں اور حالات انتہائی کشیدہ تھے۔
بائیس اگست دو ہزار آٹھ کی رات یحییٰ خان اسلام آباد سے مینگورہ پہنچے تھے اور رات کے وقت کرفیو کے باعث انھیں گاڑی نہیں مل رہی تھی کہ اس دوران انھیں اپنے ایک دوست سابق نائب ناظم امین کی گاڑی نظر آئی جس کے ساتھ وہ بیٹھ کر اپنے گاؤں ننگوالی روانہ ہوئے۔ یہ گاڑی ڈھرئی کے قریب ہی پہنچی تھی طالبان نے ان پر حملہ کر دیا گاڑی میں سوار تمام چار افراد ہلاک ہوگئے جن میں یحییٰ خان بھی شامل تھے۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ گاڑی کے مالک امین طالبان مخالف امن کمیٹی کے عہدیدار تھے اور اس دن بھی امن کمیٹی کے ایک اہلکار پر حملہ کیا گیا تھا۔آمنہ خان کو اپنے شوہر کی ہلاکت کی خبر دی گئی تو وہ فوری طور پر پاکستان آنا چاہتی تھیں لیکن سوات کے کشیدہ حالات کے باعث یحییٰ خان کے خاندان نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ تاہم اس دوران یحییٰ خان کے چھوٹے بھائی سید احمد خان اور آمنہ خان کے درمیان برابر ٹیلی فون پر رابطے جاری رہے۔سید احمد خان کا کہنا ہے کہ ان کی بھابھی بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں اور اکثر اوقات ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ ایک دن بھابھی نے مجھے خود ٹیلی فون پر پیش کش کی کہ چونکہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں اور وہ اب انگلینڈ میں کسی اور سے تو شادی نہیں کرسکتی لہٰذا اگر ان کی (سید احمد) خواہش ہے تو ہم دونوں دوسری شادی کرسکتے ہیں۔’ان کے بقول پھر اس طرح خاندان والوں کی مرضی سے ہماری شادی طے ہوئی اور نو فروری کو آمنہ خان پاکستان آئی جبکہ اس کے دوسرے دن ہی شادی سوات میں انجام پائی گئی۔انہوں نے بتایا کہا کہ پیر کو وہ دونوں گاڑی میں سیر کرنے مرغزار گئے ہوئے تھے اور واپسی میں ان کی گاڑی نشاط چوک میں رش کے باعث پھنس گئی۔ان کے مطابق ‘ابھی ہم دونوں آپس میں گپ شپ کررہے تھے کہ اس دوران ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ہماری گاڑی کی پچھلی سیٹ کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا جہاں آمنہ خان بیٹھی ہوئی تھیں۔’
‘آمنہ نے ایک بار میرے طرف عجیب انداز سے دیکھا اور پھر آرام سے اپنا سر سیٹ پر رکھ دیا۔ میں جلدی سیگاڑی سے اتر گیا اور پیچھے کی طرف دوڑنے لگا کہ اس دوران اچانک گاڑی کی ٹینکی میں آگ بھڑک اٹھی اور ایک دھماکہ بھی ہوا جس کے ساتھ ہی آگ کے شعلوں نے سارے گاڑی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔’
سید احمد خان نے روتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے ان کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن آمنہ پوری طرح آگ میں جل چکی تھیں۔’انہوں نے کہا کہ آگ میں ہاتھ ڈالنے کی وجہ میرے بھی سر اور ہاتھوں کے بال جل گئے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی زخم آئے ہیں۔سید احمد خان نے مزید بتایا کہ آمنہ پاکستان میں بہت خوش تھیں اور وہ باقاعدہ صوم و صلوۃکی پابند تھیں جبکہ سوات میں پردے کا بھی خصوصی طورپر اہتمام کرتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ آمنہ خان کے بھائی اور برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد کی اجازت سے اس کی تدفین سوات میں کردی گئی اور انھیں اپنے پہلے شوہر یحییٰ خان کے پہلو میں سپردِخاک کردیا گیا۔
سوات کے مقامی صحافی شیرین زادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نمازِ جنازہ میں علاقے کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر سکول کے ننے منے طلبہ اور بچوں نے خصوصی طورپر پلے کارڈز بھی اٹھارکھے تھے جس پر آمنہ خان کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔
٭٭٭