اللہ بخشے میرے استاد سلیم احمد کہا کرتے تھے کہ مولانا ظفر احمد صاحب انصاری کو دیکھنے والا یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ بینائی کا بہترین استعمال کر رہا ہے۔ یہی احساس مجھے مولانا کے فرزندِ دلبند ڈاکٹر ظفر اسحاق صاحب انصاری کو پہلی بار دیکھ کر ہوا تھا۔ مجھے الحمد للہ اِن دونوں ہستیوں کی بار بار زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ باپ بیٹے میں جس درجے کی اخلاقی ، فکری اور احوالی مشابہت پائی جاتی تھی، وہ کم ازکم میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ لگتا تھا کہ دونوں ایک ہی شخصیت کے حامل ہیں۔
میں آٹھویں میں پڑھتا تھا جب اپنے ایک عزیز کی تقریبِ نکاح میں مولانا سے مصافحے کا شرف نصیب ہوا اللہ جانتا ہے کہ اْس مصافحے کا لمس ہاتھ میں کم اور دل میں زیادہ محسوس کیا ۔تقریب ختم ہونے تک اْنہی کو دیکھتا رہا، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اْنہیں دیکھنے کی مشق کرتا رہا۔ مجھے اْن کی عالی مقامی اور بلند حیثیتی کا کچھ پتا نہ تھا مجھے تو بس یوں لگ رہا تھا کہ اِن بزرگوں کو اِس طرح دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ کبھی اوجھل نہ ہو سکیں۔ یہ کیفیت گھر پہنچ کر اپنے والدِ قبلہ گاہی کو سنائی تو انہوں نے عجیب سے تاثر کے ساتھ فرمایا کہ مولانا ایسے ہی ہیں، اْنہیں یاد کرنا نہیں پڑتا، وہ یا درہتے ہیں۔
کسی قدیم استاد نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ میرا کلام جاننے کی تعلیم ہے اور میری خاموشی ’ہونے‘ کی تربیت۔ کوئی پچیس تیس برس کی عمر میں کہیں یہ قول پڑھا تو اپنے دو تین اساتذہ کے ساتھ مولانا کی ایک شدید تشکر کے ساتھ یاد آئی۔ بلاشبہ اْن کی صحبت میں ذہن و دل کے اندر ایسے احوال سرایت کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے جن کی بدولت آدمی میں موجود ہونے کی حقیقی ذمہ داریوں کا شعور اور ذوق پیدا ہو جاتا تھا۔گو کہ مولانا اپنی مجالس میں زیادہ تر بالکل عام سے موضوعات پر گفتگو فرمایا کرتے تھے اْن کی باتوں کو سمجھنے کے لیے مجھ ایسے کند ذہن نوجوان کو بھی دماغ پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن پتا نہیں وہ کیا چیز تھی جو اْن سادہ سی باتوں کو بھی دل کی نامعلوم ساکن گہرائیوں میں ارتعاش کا سبب بنا دیتی تھی۔ مولانا کی عام سی باتیں بھی اپنی تاثیر میں بہت خاص ہوا کرتی تھیں۔ مولانا کے سب نیاز مندوں سے پوچھ کر دیکھ لیجیے، ان شاء اللہ ہر خوش نصیب یہ تصدیق کرے گا کہ وہ بولتے تھے تو سننے والے تک کلام بعد میں پہنچتا تھا اور متکلم پہلے۔
یادش بخیر کراچی میں ایک نبی باغ کالج ہو ا کرتا تھا۔ ستر کی دہائی میں خواجہ آشکار حسین صاحب اْ س کے پرنسپل تھے خواجہ صاحب بھی ہمارے قومی ڈیمنشیہ کا شکار ہوگئے آج اہلِ علم میں بھی شاید کسی کو خبر نہیں کہ خواجہ آشکار حسین فلسفے منطق اور سماجیات کے کتنے بڑے استاد تھے۔ مجھے اْن سے ایک غیر رسمی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ مولانا ظفر احمد صاحب انصاری کا فلسفیانہ ذوق ایسا تھا کہ چاہتے تو اِس علم میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے لیتے، لیکن مولانا کے مزاج میں ایک ایسی خود فراموشی تھی جس نے اْن کے بہت سے کمالات کو سامنے نہ آنے دیا یہ خود گریزی باپ سے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق صاحب انصاری کا علمی و تحقیقی کام یقیناً ایسا ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور ذہن جگمگا اٹھتا ہے۔ تاہم یہ قابلِ رشک کارنامے بھی اْن کے بہت ہی تھوڑے کمالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دین کے تاریخی، قانونی اور تہذیبی مظاہر اور اْن کی تشکیلِ مسلسل میں کام آنے والے مستقل اور عارضی عوامل کا جیسا عمیق اور مربوط شعور انہیں میسر تھا، اْ ن کی کرامت کی حد کو پہنچی ہوئی منکسر المزاجی اور درویشی نے اْس کے اظہار پر مستقل روک لگائے رکھی۔ کاش اْنہیں ایسے شاگرد ملے ہوتے جو اْن کا علم و فضل اگلوا کر محفوظ کر لیتے تو آج ایسے کئی مسائل ایک بلند علمی سطح پر حل یا کم ازکم بیان ہو چکے ہوتے ، جنہوں نے ہمارے موجودہ دینی ذہن کو ماؤف کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث کے دینی مرتبے کے تعین کا مسئلہ۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب اِس طرف متوجہ ہو جاتے تو اِس نازک معاملے میں ہمیں اْس تذبذب اور اضطراب کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو آج ہم پر مسلط ہے یہ اْن کی بے نفسی ہی تھی جس نے انہیں اکثر شریک مصنف بنائے رکھا۔ ورنہ ڈاکٹر صاحب کا ہر مقرب اچھی طرح جانتا ہے کہ ٹیم ورک اْن کا انتخاب تھا، مجبوری نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اِنہوں نے اپنے چھوٹوں کی بھی قدردانی کی مگر اپنی نہیں۔علمی و تحقیقی کاموں میں جیسی یکسوئی ، ریاضت، حافظے ، مربوط ذہن اور معروضی پن کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ سب اْن میں بدرجہء اتم موجود تھے، لیکن اْن کی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ وہ اپنے اظہار کے ہر موقع سے مرتے دم تک گریزاں ہی رہے۔
مولانا ظفر احمد صاحب انصاری اور ڈاکٹر ظفر اسحاق صاحب انصاری کی شخصیت میں بڑائی اور سچائی کے جو بنیادی عناصر میرے مشاہدے اور علم میں ہیں، اْن کا ایک سرسری سا ذکر کرتا ہوں۔ ہمیں اِس وقت بڑے لوگوں سے مانوس ہونے کی اشد ضرورت ہے ایسی شخصیتوں کا تذکرہ ذہن کے ساتھ دل کو بھی بدل دیتا ہے اور اِس سے سطحِ وجود میں بھی بلندی کی امنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ حالات کی خرابی نہیں ہے بلکہ احوال کی پستی ہے۔ مجھے خود اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ یقین ہے کہ یہ قابل ِ فخر پدر وپسر جن احوال سے معمور رہے اْن کی ایک جھلک بھی ہماری نفسیات میں کم از کم بلندی کی کشش ضرور پیدا کر سکتی ہے۔
باپ بیٹے ، دونوں کا حافظہ بے مثل تھا ایک نصب العین کے ساتھ حافظہ اچھا ہو تو ماضی حقیقی رہتا ہے، حال معتبر ہو جاتا ہے اور مستقبل التباس بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ مولانا کی یادداشت کے بارے میں میں نے سن تو رکھا ہے لیکن مشاہدے کی نوبت نہیں آئی۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کے حافظے کی کرامتیں میں نے کئی مرتبہ دیکھی ہیں۔ مثلاً کسی کانفرنس کی صدارت میں، آٹھ دس مقررین باری باری تقریریں کر رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب بظاہر کسی کی طرف بھی ٹھیک سے متوجہ نہیں ہیں، لیکن جب خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہیں تو یہ دیکھ کر حاضرین حیران رہ جاتے ہیں کہ کوئی نوٹ لیے بغیر وہ ہر مقرر کی تقریر کا خلاصہ بیان کر دیتے تھے۔
میرے بڑوں کا مولانا ظفر احمد صاحب انصاری اور اْن کے خانوادے سے خاصا تعلق رہا ہے میرے ایک چچا اور ماموں ڈاکٹر صاحب کے اسکول اور کالج میں ہم جماعت بھی رہے ہیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی ڈاکٹر صاحب اْن دونوں کی خیریت ضرور پوچھتے اور اْس زمانے کے بعض واقعات پوری جزئیات کے ساتھ اس طرح سناتے کہ یوں لگنے لگتا کہ گویا میری پیدائش سے پہلے کے یہ واقعات مجھ پر بھی بیت رہے ہیں۔
مولانا اور ڈاکٹر صاحب کی ہم مزاجی کی تفصیلات تو بہت ہیں، اکثر تو میرے علم میں بھی نہیں ہوں گی ، تاہم کچھ مشترکہ اوصاف ایسے ہیں جن کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر استغنا، زہد، استقامت، انکسار، خودنمائی سے انتہائی گریز، چھوٹوں پر شفقت، اختلافِ رائے کا احترام، رسمی تکلفات سے آزادی ، انسان دوستی ، حب الوطنی، اپنی تہذیبی اقدار پر ثابت قدمی وغیرہ۔ مولانا ظفر احمد صاحب انصاری کے بارے میں تو ایک دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی آئینی اور نظریاتی تعمیر کا سنگِ بنیادرکھنے والی اس سرمایہء ملت ہستی نے فرقِ مراتب کے ساتھ ویسی ہی زندگی گزاری جیسی کہ تابعین کے درمیان صحابہ نے بسر کی تھی۔ اپنی قومی اور ملی حیثیت سے کوئی فائدہ اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے وہ تو اپنے عظیم الشان کارناموں کا ذکر تک سننے کے روادار نہ تھے۔
میں نے الحمد للہ اپنے سب بڑوں میں بے نفسی کے نادر کمالات مشترک دیکھے ہیں۔ اْن میں سے ایک کمال یہ تھا کہ وہ حضرات اپنی تعریف سننا پسند نہ کرتے تھے اِس معاملے میں مولانا بھی ایک واجب الاتباع نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مجلس میں مولانا نے اپنے ایک نوجوان اور پر جوش مداح کو یہ کہہ کر روک دیا کہ میاں آپ بہت چھوٹے ہیں، آپ کو کیا معلوم کہ قراردادِ مقاصد میں کس کا کیا کردار تھاکوئی اور بات کریں۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق صاحب انصاری بھی ایسی ہی طبیعت رکھتے تھے۔ لوگوں نے بارہا دیکھا کہ کسی نے منہ پر اْن کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو اْنہوں نے اْس کا ابتدائی فقرہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔ اپنی مدح سننے سے گریز کا یہ عمل کسی رسمی عاجزی کے ساتھ نہیں بلکہ بے تکلفی اور قدرے ناگواری کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ لیکن دوسری طرف یہ عالم تھا کہ اپنے چھوٹوں کے معمولی سے کاموں کو بھی اتنا سراہتے تھے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ وجود میں آیا ہو
علمی کمالات کمزور شخصیت کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن بڑائی کے خمیر سے بنی ہوئی طبیعت اہلِ علم میں سے بھی چند ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بلاشبہ ایسے ہی خوش نصیبوں میں سے تھے جو حق کو دائرہء شعور کا زندہ مرکز بنا لیتے ہیں اور خیر کو دائرہء وجود کا۔ اْن کے لیے آدمیت کل کا درجہ رکھتی تھی جس میں ذہن ایک فعال جزو کا کردار ادا کرتا ہے۔ غیبت سے پاک، مال وجاہ کی کشش سے محفوظ اور لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے پر کمر بستہ ڈاکٹر ظفر اسحاق صاحب انصاری نے اپنے قابلِ فخر والدِ ماجدکی طرح جس عارفانہ انکسار، متواضعانہ وقاراور زاہدانہ بے نیازی کے ساتھ زندگی گزاری، مجھ ایسوں کے لیے تو اْس کی ایک ساعت گزارنا بھی نا ممکن ہے۔یہ وہ چراغ ہیں جن کی روشنی کی ضرورت دن میں بھی پڑتی ہے۔