تضادات سے بھری سحر انگیز شخصیت

مصنف : عبد الحی کاکڑ ، رفعت اللہ اورکزئی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مارچ 2010

اجمل خان خٹک ۶فروری ۲۰۱۰کی شام اپنی زندگی کا سفر پورا کر کے خالق حقیقی سے جا ملے۔

ان کی یاد میں اہل قلم کے تاثرات

پچاس برس تک سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے باوجود بھی اجمل خٹک چار مرلے سے زیادہ کا مکان نہ بناسکے۔ ساری زندگی سیاست میں ہوتے ہوئے بھی اجمل خٹک نے کبھی اپنے کسی بچے کو ملازمت نہیں دلوائی۔ انہوں نے زندگی میں کوئی بنگلہ بنایا اور نہ بچوں کے لیے کچھ بنایا۔

            وہ چار آنے جیب میں لے کر اکوڑہ خٹک سے سیاسی سفر پر نکلے تو آدھی دنیا دیکھ ڈالی۔ انہوں نے اس دوران میں عام آدمی سے لے کر سربراہان مملکت تک اور نامور سیاستدانوں، شہرہ آفاق ادیبوں اور شاعروں تک سب سے ملاقاتیں کر ڈالیں اور ساٹھ سال کی سیاسی اور ادبی جدوجہد کے بعد جب دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کی جیب میں چار آنے بھی نہیں تھے۔

            ذوا لفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کے جلسے پر حکومتی سرپرستی میں حملہ ہوا تو اس وقت اجمل خٹک نیشل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں جب ایک کارکن کو گولی لگی اور اس نے اجمل خٹک کی بانہوں میں زندگی کی بازی ہار دی تب وہ یہ کہہ کر کابل جلا وطن ہوگئے کہ یہ ملک اب مزید رہنے کے قابل نہیں رہا۔اٹھارہ سال افغانستان میں رہ کر انہوں نے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے، داؤد خان کی حکومت، ثور انقلاب، سوویت یونین کی فوج کی افغانستان آمد اور اس کی پھر شکست و ریخت، پاکستان میں ستر کی دھائی میں پشتون نوجوانوں کی گوریلا جنگ ان سبھی کو انہوں نے نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ وہ ان میں اہم کردار کے طور پر بھی شامل رہے۔اس سے قبل اجمل خٹک مرحوم نے خدائی خدمت گار تحریک کے کارکن کے طور پر انیس سو بیالیس میں ‘ہندوستان چھوڑ دو’ تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پھر جب انیس سو سینتالیس میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسی اجمل خٹک نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے پاکستان کی عظمت میں پشتو ترانے لکھے اور افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کے سکرپٹ لکھتے رہے۔

            لیکن پھر ان کی شخصیت میں یکلخت ایسی تبدیلی آئی کہ پاکستان کے ترانے لکھنے والے اجمل خٹک پشتونستان کے ترانے لکھنے لگے۔ ریڈیو پاکستان پشاور پر افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کی سکرپٹ لکھنے والے اجمل خٹک پھر جلاوطنی کے دوران ریڈیو افغانستان پر پاکستان کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔

            تضادات سے بھر پور اجمل خٹک کی شخصیت اتنی سحر انگیز بھی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ان کی تہہ در تہہ شخصیت کی جال میں ایسے الجھ جاتے کہ بہت دیر بعد آپ کو پتا چل جاتا کہ آپ کسی شکاری کے دام میں پھنس چکے ہیں۔

            ایک مسلمان پشتون گھرانے میں پرورش، خوشحال خان خٹک کا شاعرانہ رنگ، باچا خان کی سیاسی تربیت، مارکسسزم، جامعہ ملیہ دہلی کا ماحول، ترقی پسند ادب کی چھاپ ان کی شخصیت میں اس طرح رچ بس گئی تھی جس کا حتمی نتیجہ ایک متضاد شخصیت کی ہی تشکیل پر منتج ہوسکتا تھا۔

            سیاسی جوڑ توڑ کے اتنے ماہر کہ سیاسی اتحاد بنانے کے لیے نکل پڑتے تو آگ اور پانی کو یک جان دو قالب کرلیتے۔ دو دشمنوں کو کھینچ کھینچ کر مذاکرات کی میز پر بٹھاتے اور چند گھنٹوں بعد دو دشمن سیاستدان دوستوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے کمرے سے یوں نکلتے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور خود اجمل خٹک اپنے ہونٹوں پر ایسی طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے نمودار ہوتے کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ سب تو میرا ہی کمال ہے۔

            سیاسی کارکنوں کی محفل میں پیر پھیلاکر اپنے آدھے چہرے کو اپنی سفید ٹوپی سے اس طرح چھپاتے کہ گویا وہ سو رہے ہیں اور محفل میں جاری بحث سے وہ بالکل لاتعلق ہیں لیکن جب اسی محفل میں ان کی ذات یا پالیسی کے حوالے سے کوئی بات کرتا تو وہ اپنی بائیں آنکھ کھول کر اس شخص کو کچھ اس طرح گھورتے کہ وہ پانی پانی ہوجاتا لیکن وہ کچھ کہے بغیر اپنی آنکھ دوبارہ بند کر لیتے۔

            اجمل خٹک سماجی نفسیات اور ہپناٹزم کے ماہر تھے اسی لیے انہیں جوڑ توڑ ، مذاکرات کی میز پر اپنے مخالف کو مشکل صورتحال سے دو چار کرنے، میل ملاپ میں لوگوں کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔

            اجمل خٹک نے سینکڑوں سال سے جاری پشتو شاعری کی روایت کو توڑتے ہوئے اس میں طبقاتی، انقلابی اور مزاحمتی رنگ کچھ اس انداز سے شامل کیا کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘د غیرت چغہ’ ( غیرت کی پکار) شائع ہوا تو اس نے پشتون نوجوانوں کے خون میں ایسی گرمی پیدا کردی کہ انہیں ایک آزاد پشتون وطن کی منزل بہت قریب نظر آنے لگی۔ ان کی‘جنت’ کے عنوان سے ایک نظم انقلابی نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی تھی۔نثری ترجمہ: ( میں نے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھا، تو میرا دل آسمان کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا، میں نے اس کے چند الفاظ سنے، وہ کہہ رہا تھا، کہ اے لا مکان کے مالک، اپنے مکان میں اپنا اختیار جنت ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر اس پاگل پنے کے نام پر، اگر سولی ہے تو سولی اور اگر آگ ہے تو آگ جنت ہے۔)

            انہوں نے ان نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے طور خم کے راستے بہت جلد ‘سرخ ڈولی’ لیکر آئیں گے مگر جب وہ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کی عام معافی کے اعلان سے استفادہ کرتے ہوئے ‘خالی ہاتھ’ واپس لوٹے تو ان کے کسی شاعر دوست نے ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی تھی کہ‘ تم نہ بہار اور نہ ہی پھول لاسکے، تم جھوٹے ہو۔۔۔’

            پانچ سال قبل جب میں نے ایک انٹرویو کے دوران اجمل خٹک کو ‘سرخ ڈولی لانے‘ کا وعدہ یاد دلایا اور ان کے خلاف لکھی گئی نظم کا حوالہ دیا تو انہوں نے جواب میں محض اپنا ایک شعر سنایا کہ ‘خٹک تادمِ مرگ بار بار تمہاری راہ تکتا رہا، تم آ بھی رہے تھے مگر راستے پْر پیچ نکلے۔’

ممتاز سیاستداں اجمل خٹک چل بسے

رفعت اللہ اورکزئی

            پاکستان کے بزرگ ترقی پسند سیاستدان، نامور پشتو شاعر، صحافی اور قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سابق مرکزی صدر اجمل خٹک انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی عمر پچاسی برس تھی۔عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سرحد کے سیکرٹری اطلاعات ارباب محمد طاہر نے بتایا کہ اجمل خٹک اتوار کی شام اپنے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک میں طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ گزشتہ ایک دو سالوں سے علیل تھے جس کی وجہ سے انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔

            اجمل خٹک کی زندگی کے کئی پہلو ہیں۔ ان کا کیرئیر بحثیت سیاستدان، شاعر، ادیب اور صحافی کے تقریباً چالیس سے پچاس سالوں پر محیط رہا ہے۔

            وہ پندرہ دسمبر 1925 کو ضلع نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ اجمل خٹک نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سترہ سال کی عمر میں 1942 میں ‘انڈیا چھوڑو تحریک’ میں بحثیت طالب علم کے شرکت کرنے سے کیا۔ بعد میں اس تحریک میں شرکت کے پاداش میں انہیں سکول سے بھی نکال دیا گیا۔ تاہم انہوں نے عملی سیاست کا آغاز خدائی خدمت گار تحریک کے پلیٹ فارم سے جنگ آزادی اور صوبہ سرحد میں انگریزوں کو نکالنے کی تحریک سے کیا۔وہ پشتو زبان کے ایک نامور انقلابی شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے تیرہ کتابیں لکھی ہیں جن میں اردو کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ ان کا پہلا شاعری مجموعہ ‘دی غیرت چغہ’ (غیرت کی چیخ) کتاب کی شکل میں 1958 میں شائع ہوئی بعد میں اس کتاب پر پاکستان اور افغانستان میں پابندی بھی لگائی گئی تھی۔وہ پہلی بار 1972 میں اس وقت کی قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1970 کے ابتدائی سالوں میں جب حکومت کی طرف سے نیپ کے سرکردہ رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو اجمل خٹک نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے افغانستان چلے گئے اور وہاں سولہ سال تک جلاوطن رہے۔ افغانستان میں انہیں ریاست کے مہمان کی حیثت حاصل تھی۔1989 میں انہوں نے جلاوطنی ختم کی اور واپس پاکستان آگئے اور 1990 میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ٹکٹ پر ضلع نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن بھی رہے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں تاہم ان کے صاحبزادے ایمل خان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کبھی سرحد اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔ اجمل خٹک نے ملک میں جمہوریت کے لیے لڑی جانے والی تمام تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا شمار خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبد الغفار خان عرف باچا خان اور ان کے بیٹے اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہبر خان عبدالولی خان کے قریب ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ وہ دو بار عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر رہے۔وہ ایک ترقی پسند سیاست دان تھے۔ اجمل خٹک کا سیاسی فلسفہ مارکسسٹ نظریے کے گرد گھومتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ‘عظیم پشتو شاعر خوشحال خان خٹک میرے خون میں ہے، مارکسسززم میرے دماغ میں ہے جبکہ قرآن میرے دل میں ہے۔’

            سن دو ہزار میں اجمل خٹک کو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی سے اچانک نکالا گیا جب انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے علیحدگی میں ملاقات کی۔ ان دنوں اجمل خٹک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘شاید مجھے اس لیے پارٹی سے نکالا گیا کیونکہ میرا تعلق ایک خان یا جاگیردار طبقے سے نہیں بلکہ ایک متوسط گھرانے سے ہے۔’

            اے این پی سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی۔ لیکن اس پارٹی کو خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔تاہم کچھ عرصہ تک پارٹی سے علیحدہ رہنے کے بعد انہیں پارٹی رہنماؤں نے منایا اور وہ دوبارہ اے این پی میں شامل ہوئے۔

            اجمل خٹک نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہے جن میں انجام، شہباز، عدل، رہبر اور بگرام قابل ذکر ہیں۔

٭٭٭