حیدر آباد انڈیا کی صورت حال
شہر حیدر آباد میں ان دنوں جہاں روزگار کے کافی مواقع دستیاب ہیں ، وہاں پر کال سنٹرز کا رحجان ایک نئی مغربی تہذیب کو جنم دیتے ہوئے نوجوانوں کو مذہبی روایات سے انحراف کے لیے اکسا رہا ہے ۔ کئی ایسی مسلم لڑکیوں کا پتا چلا ہے ، جو کال سینٹر کلچر سے مرعوب ہو کر پرکشش تن خواہوں کی لالچ میں نہ صرف اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہی ہیں بلکہ اپنے دین سے بھی بیگانہ ہوتی جا رہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ورنگل میں ایک مسلم لڑکی نے غیر مسلم لڑکے سے عشق رچا کر اسلام کو ترک کر دیا اور ہندو مت اختیار کرتے ہوئے اپنے عاشق سے شادی کر لی ۔ یہ واقعہ درنگل کے لیے ملیز کالونی پولیس حدود میں پیش آیا جہاں 21 سالہ لڑکی نے یہ قدم اٹھایا اور اپنا نام سونی رکھ لیا ۔ سونی ایک ماہ قبل گھر سے فرار ہوئی اور ورنگل کے ساکن وی وینکٹیشور لو سے مٹو گوڑہ علاقے میں وکلا کی مدد سے شادی کر لی اور میرج سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر لیا ۔ حالیہ عرصے میں ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات پیش آئے ، جہاں مسلم لڑکیاں اپنے عاشقوں کے ساتھ شادیاں رچانے کے لیے اس طرح کے ارتداد کی مجرم ہو رہی ہیں۔ اس سے قبل محبوب نگر کی ایک مسلمان لڑکی کی نعش بنجارہ ہلز کے پارک میں دستیاب ہوئی۔ جہاں وہ اپنے ہندو شوہر کے ساتھ گئی اور شادی کے بعد خاندان کے افراد کی مخالفت کے بعد دل بر داشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ گزشتہ ایک ہفتہ قبل ضلع گنٹور کا ایک انسپکٹر پی رنگا ناتھ گوڑ نے مقامی کالج میں زیر تعلیم ایک مسلم طالبہ رضیہ بیگم کے ساتھ شادی کا لالچ دکھاتے ہوئے اس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتے ہوئے کھلواڑ کیا اور اس کی زندگی کو تباہ وبرباد کر دیا۔ ہمارے گردوپیش میں ہزاروں بچیاں دامن اسلام سے دوری اختیار کر کے ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں اور مسلم معاشرہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ باوثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ حیدر آباد میں واقع ایک مندر میں باضابطہ طور پر مسلم لڑکیوں کو ہندو مذہب میں شامل کرتے ہوئے ان کی غیر مسلم عاشقوں سے شادیاں کروانے کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مندر میں گزشتہ کچھ عرصے میں تقریبا تین ہزار مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیاں رچائیں۔ شہر کے پارک ، سینما گھر ، آئس کریم پارلر ، شاپنگ مالز ، یہ سب مسلم لڑکیوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے غیر مسلم عاشقوں کے ساتھ یہاں آتی ہیں۔ اب یہ بات تفریحی مقامات ، پارکس یا سینما گھروں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ معاملہ شہر کے اطراف مضافاتی و نواحی علاقوں میں واقع ریسٹ ہاؤسز تک جا پہنچا ہے جہاں سو یا ہزار روپے میں ان عاشقوں کو جوڑا قرار دیتے ہوئے کمرے کرائے پر دیے جا رہے ہیں۔
یہاں آنے والے جوڑوں میں مسلم لڑکیوں کی تعداد خاطر خواہ ہوتی ہے ۔ اس ساری حقیقت کے باوجود افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے اور اصلاح معاشرہ کے ذمہ دار سب خواب غفلت کا شکار ہیں اور محض نمود و نمائش کے کاموں میں مصروف ہیں ہماری غیرت اتنی مردہ ہو چکی ہے کہ اپنی دینی بہنوں کے ارتداد پر بھی ہمارے دل بے قرار نہیں ہوتے اور یہ سوچ کر ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ واقعہ ہمارے گھر میں پیش نہیں آیا۔ مسلم سماج کو جاگنا چاہیے۔