میں نے عرض کیا ‘‘جناب مسلمان ہم ہیں لیکن اللہ کی نوازشات کا رخ یورپ کی طرف ہے’’ وہ مسکرائے اور بولے آپ کو کس نے بتایا ہم مسلمان ہیں ۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور عرض کیا جناب ہم کلمہ پڑھتے ہیں، نماز روزے اور حج کا اہتمام کرتے ہیں، داڑھیاں رکھتے ہیں، ٹخنے ننگے رکھتے ہیں اور عیدیں مناتے ہیں، کیا ہم اس کے باوجود مسلمان نہیں ہیں۔ وہ شفقت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے رہے۔ انھوں نے ایک لمبا سانس بھرا اور بولے ہم نے اسلام قبول کر رکھا ہے، مگر ہم مسلمان نہیں ہیں۔ وہ رکے چند لمحے سوچا اور دوبارہ بولے: جبکہ اہل مغرب، اہل یورپ اور مشرق بعید کے لوگ مسلمان ہیں لیکن انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بڑی دیر تک خاموش بیٹھے رہے ۔ میں نے عرض کیا: ‘‘ جناب اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے میں کوئی فرق ہے۔’’ وہ فوراً بولے: بے انتہا فرق ہے، اسلام قبول کرنے کا مطلب کلمہ پڑھنا، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ادا کرنا ، داڑھی رکھنا ، مسواک کرنا اور ٹخنے ننگے رکھنا ہوتا ہے۔ جبکہ مسلمانی اسلام قبول کرنے کے بعد شروع ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہم آج تک مسلمان نہیں بن سکے۔ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا: یہ مسلمان اور مسلمانی کیا ہوتی ہے۔ وہ مسکرائے ، انھوں نے ایک طویل وقفہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ بولے: مسلمان انصاف کا نام ہے۔ مسلمان اپنے ملک کے آخری انسان تک انصاف پہنچاتا ہے۔ مسلمانی حقوق کا نام ہے۔ مسلمان اپنے اور پرائے تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے ۔ مسلمانی سماجی عدل کا نا م ہے۔ مسلمان معاشرے کے ہر شہری کی تعلیم، صحت اور روزگار کا بندوبست کرتا ہے۔ مسلمانی مساوات کا نام ہے۔ مسلمان معاشرے کے کالے، عجمی، چھوٹے اور غریب شہری کو بھی وہ تمام رائٹس دیتا ہے جو اس معاشرے کے رئیس، طاقتور، عربی اور گورے کو حاصل ہوتے ہیں۔ مسلمانی سوشل ویلفیئر کا نام ہے۔ مسلمان معاشرے کے بے روزگاروں، معذوروں، بچوں اور طالب علموں کو وظائف دیتا ہے۔ وہ انھیں زندگی کی تمام سہولتیں مفت فراہم کرتا ہے۔ مسلمانی کمزوروں کی طاقت کا نام ہے۔ مسلمان معاشرے کے کمزوروں ناداروں اور بے بس شہریوں کو صاحب اقتدار، صاحب ثروت اور صاحب طاقت طبقوں پر فوقیت دیتا ہے۔ اس کے ملک میں پیدل یا سائیکل چلانے والے شہریوں کو بی ایم ڈبلیو یا جیگوار کاروں کے مالکان سے زیادہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مسلمانی آزادی رائے کا نام ہے۔ مسلمان تمام شہریوں کو بولنے، لکھنے اور اختلاف کرنے کی پوری پوری اجازت دیتا ہے۔ مسلمان کے ملک میں بدو خلیفہ سے پوچھ سکتا ہے کہ تم نے کرتے کے لیے دوسری چادر کہاں سے لی تھی۔ مسلمانی ماحول کے تحفظ کا نام ہے۔ مسلمان درختوں پودوں اور پارکوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس ملک میں درخت کاٹنے اور پارک اجاڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مسلمانی ایمانداری کا نام ہے۔ مسلمان اپنے معاشرے میں کسی کو کم نہیں تولنے دیتا۔ وہ کسی کو ناپ میں ہیرا پھیری نہیں کرنے دیتا۔ وہ جعلی دوائیں نہیں بناتا۔ دودھ میں پانی نہیں ڈالتا۔ وہ اچھی گندم میں بری گندم نہیں ملاتا، وہ رشوت نہیں لیتا، وہ فراڈ نہیں کرتا، وہ ٹیکس چوری نہیں کرتا اور وہ وعدے نہیں توڑتا ۔ مسلمانی صفائی کا نام ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی نالیاں زیر زمین ہوتی ہیں۔ ان کے باتھ رومز اور ٹوائلٹس صاف ہوتے ہیں۔ وہ گلیوں میں تھوک نہیں پھینکتے۔ وہ کوڑا کرکٹ نہیں بکھیرتے اور ان کے وضو خانوں سے بو نہیں آتی۔ مسلمانی خواتین کے احترام کا نام ہے۔ مسلمان کسی عورت کے منہ پر تیزاب نہیں پھینکتا۔ وہ عورتوں کی زبردستی شادی نہیں کرتا۔ وہ انھیں تعلیم سے نہیں روکتا، وہ انھیں ونی نہیں کرتا۔ مسلمانی جانوروں پر رحم کا نام ہے۔ مسلمانوں اونٹوں کی رسی دراز رکھتا ہے۔ وہ جانوروں کے لیے ہسپتال بناتا ہے، وہ جانوروں کے چارے اور علاج کا بندوبست کرتا ہے۔ وہ کسی جانور کو خود پتھر مارتا ہے اور نہ کسی کو مارنے دیتا ہے اور وہ جانوروں کے بلاوجہ شکار کے خلاف ہوتا ہے۔ مسلمانی درس گاہیں، تجربہ گاہیں، رصد گاہیں اور کتب خانے ہوتے ہیں اور مسلمانی ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کا نام ہے۔ مسلمان رات کے دو بجے بھی سرخ سگنل پر گاڑی روک لیتا ہے ۔ وہ زیبرا کراس پر گاڑی کا ٹائر نہیں آنے دیتا اور وہ کبھی گاڑی اوور سپیڈ نہیں چلاتا۔
وہ سانس لینے کے لیے رکے ۔ میں نے عرض کیا: جناب میں ابھی تک آپ کی بات نہیں سمجھ سکا۔ انھوں نے لمبا سانس لیا اور نرم آواز میں بولے: بیٹا تم مجھے بتاؤ، اسلام کب آیا تھا۔ میں نے عرض کیا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تھا۔ وہ بولے: اور مسلمان کے عروج کا وقت کب شروع ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا: سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور میں۔ وہ بولے: آپ مجھے بتاؤ کہ مسلمانوں نے اعلان نبوت سے سیدنا عمرؓ کے دور تک مادی، عسکری اور ثقافتی ترقی کیوں نہیں کی تھی۔ مسلمان صرف عرب تک کیوں محدود رہے تھے؟ میں خاموش رہا۔ وہ بولے: اس لیے کہ اس وقت ان لوگوں نے صرف اسلام قبول کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق ؓ انھیں مسلمانی کی تربیت دے رہے تھے۔ ان لوگوں نے جوں ہی مسلمانی کی ٹریننگ مکمل کی، دنیا ان پر کھل گئی۔ وہ ترقی اور عروج پر پہنچ گئے اور جب تک ان کی مسلمانی قائم رہی جب تک یہ لوگ انصاف، علم اور صفائی پر کاربند رہے۔ اس وقت تک ان کے عروج کا زمانہ رہا لیکن جوں ہی ان کی مسلمانی کمزور پڑنے لگی اور انھوں نے اسلام کے اصول ترک کر دیے تو یہ لوگ خوش حالی ، ترقی اور عروج کی سیڑھیوں سے نیچے آتے چلے گئے یہاں تک کہ آج مسجدیں بھری ہیں۔ دنیا میں ایک ارب پچاس کروڑ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے پاس دنیا کے دو تہائی وسائل بھی موجود ہیں لیکن یہ لوگ اقوام عالم سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ آج 62 اسلامی ممالک میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جو خود کفیل ہو اور جو سینہ تان کر مغرب کے سامنے کھڑا ہو سکے۔
وہ رکے ، انھوں نے لمبا سانس لیا اور بولے: جبکہ ان کے مقابلے میں اہل مغرب ، اہل یورپ اور مشرق بعید کے غیر مسلم ممالک نے مسلمانی اپنا لی ۔ انھوں نے اسلام کے اصولوں کو قانوناً اور معاشرتی آئین کا درجہ دے دیا۔ چنانچہ وہ خوشحالی اور طاقت کے عروج پر پہنچ گئے۔ وہ آج آٹھ ہزار کلو میٹر کی دوری سے پاکستان میں اپنے جاسوس طیارے بھجواتے ہیں۔ یہ طیارے ہمارے معصوم شہریوں پر میزائل پھینک کر واپس چلے جاتے ہیں اور ہم میں اس زیادتی پر احتجاج تک کی جرأت نہیں۔ اہل مغرب کو یہ طاقت اور یہ دولت کہاں سے ملی؟ انھوں نے یہ سب کچھ مسلمانی سے حاصل کیا۔ ہم مسلمان اگر اپنے زوال کو اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ہمارے پاس کلمہ ہے جبکہ ان لوگوں کے پاس اسلام ہے ۔ وہ ہم سے اچھے مسلمان ہیں۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔
بولے: اگر آج جارج بش اور گورڈن براؤن کلمہ پڑھ لیں۔ اگر آج برطانیہ اورامریکہ اسلام قبول کر لیں تو یہ لوگ دس منٹ میں ہم سے کہیں اچھے مسلمان بن جائیں گے۔ یہ لوگ اور یہ قومیں اللہ کی مقرب قومیں اور اللہ کے مقرب بندے بن جائیں گے کیوں؟ کیونکہ ان میں مسلمانوں کی ساری باتیں موجود ہیں جبکہ ہم میں کلمہ گو ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایک بھی عادت نہیں۔ ہم تو ناک تک اسلام کے اصولوں کے مطابق صاف نہیں کرتے اور ہمارے مکہ اور مدینہ تک میں عربی اور عجمی کی تفریق موجود ہے۔ ہم تو آنکھ کے آپریشن تک میں یہودیوں اور عیسائیوں کے محتاج ہیں اور ہم تو یہودیوں پر گولی تک یہودیوں کی بنائی ہوئی چلاتے ہیں۔ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا: اس کا مطلب ہے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ وہ فوراً بولے: نہیں، ہم اس وقت تک ترقی نہیں کریں گے جب تک ہم مسلمانی نہیں اپنائیں گے۔ ہم جب تک اسلام کے اصلی اور سنہرے اصولوں پر کاربند نہیں ہوں گے۔ دنیا میں اسلام تک پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ انسان کلمہ پڑھے اور مسلمانی اختیار کرے اور دوسرا انسان مسلمانی اختیار کرے اور کسی وقت کلمہ پڑھ لے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے ہم نے پہلا طریقہ اختیار کیا تھا۔ ہم نے درمیان میں یہ طریقۂ کار ترک کر دیا جبکہ یورپ، مشرق بعید اورامریکہ کے لوگوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ ان لوگوں نے مسلمانی کو پہلے اختیار کر لیا اور اب آہستہ آہستہ کلمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے اڑھائی لاکھ لوگ ہر سال اسلام قبول کرتے ہیں او ریہ نو مسلم تقویٰ اورنیکی میں ہم سے ہزار درجے آگے ہوتے ہیں۔ تم خود سوچو علم کے بارے میں فرمایا گیا تھا کہ یہ مومن کی میراث ہے۔ آج یہ میراث کس کے پاس ہے۔ ہارورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج اور ہائیڈل برگ یونیورسٹیاں کس کے پاس ہیں؟ کینسر اور ایڈز کی دوائیں کون بنا رہا ہے اور کائنات کے راز کون کھول رہا ہے؟ وہ لوگ کھول رہے ہیں جو مسلمانی پر کاربند ہیں، جنھوں نے ہم سے یہ میراث اچک لی تھی۔ چنانچہ تم خود فیصلہ کرو کہ اللہ کی نوازشات ان لوگوں پر ہوں گی جنھوں نے اس کی دی ہوئی میراث کی حفاظت کی ، جنھوں نے اللہ کے اصولوں کو قانون کی شکل دی یا پھر ان پر ہوں گی جو اللہ کے کسی بھی حکم پر عمل نہیں کر رہے اور جو آب زم زم تک فروخت کرتے ہیں۔ ذرا بتاؤ اللہ کی نوازشات کے اصل حقدار کون ہیں؟ بتاؤ ناں، بولو ناں!! انھوں نے اپنی نگاہیں میرے ماتھے پر گاڑھ دیں اور میں نے شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیں۔