شاکر شجاع آبادی
شاکر شجاع آبادی سرائیکی زبان کے مشہور شاعر ہیں ، شاکر شجاع آبادی کی شاعری غریبوں کی آواز ہے ، شاکر شجاع آبادی کی شاعری میں دکھ، درد اور مفلسی کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ شاکر شجاع آبادی چار جماعتیں پڑھے ہوئے ہیں ، غربت نے تعلیم بھی مکمل نہیں کرنے دی ، شاکر شجاع آبادی نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے سبزی بیچنا شروع کر دی ، گلی گلی سبزیاں بیچتے ، فاقہ مٹانے کے لیے کی جتن کرتے لیکن فاقہ نہ مٹا ۔شاکر شجاع آبادی جب مکمل دکھوں کی وادی میں اْترچکے تو اندر کا شاعر باہر آگیا ، جو لاوا اندر پک رہاتھا اسے لفظوں میں ڈھال کے لوگوں کے دلوں میں اتار دیا۔ پسے ہوئے طبقے نے شاکر شجاع آبادی کو اپنا گرو بنا لیا، شاکر شجاع آبادی کو جن لوگوں نے سنا ہے تو انہیں معلوم ہو گا کہ شاکر شجاع آبادی صحیح طریقے سے بول نہیں سکتے ان کی آواز بمشکل ہی نکلتی ہے وہ اپنا مدعا صاف لفظوں میں سمجھا بھی نہیں سکتے ،ان کے ساتھ ہمہ وقت ایک رہبر ہوتا ہے جو شاکر شجاع آبادی کی باتیں لوگوں کو بتاتا ہے ۔ اس کے باوجود لوگ شاکر شجاع آبادی کو بتوں کی طرح پوجتے ہیں ۔ سرائیکی علاقے میں جتنا مقام شاکر شجاع آبادی کو ملا اتنا کسی دوسرے شاعر اور سیاستدان کو نہیں ملا ۔ شاکر کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ شاکر شجاع آبادی نے زلفوں کی سیاہی پہ وقت ضائع نہیں کیا ، شاکر شجاع آبادی نے رخساروں کے قصے نہیں چھیڑے ، شاکر شجاع آبادی نے اپنی توانائیاں پتلی کمر کی تعریفیں کرنے میں ضائع نہیں کیں ، شاکر شجاع آبادی نے محبوب کے تل کو اپنا عنوان نہیں بنا یا اور نہ ہی حسینوں کے چرچے کیے۔ شاکر نے اپنی شاعری میں غربت کوموضوع بنایا ، شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جن کے ہاتھوں پہ چھالے اور پاؤں پہ آبلے ہیں ۔شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جن کا تعلق پسے ہوئے طبقے سے ہے ، شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جن کے ہاتھ ریشم بْنتے ہیں اور جسم پھٹے کپڑے پہنتے ہیں۔شاکر نے اپنی شاعری میں ان لوگوں کو موضوعِ سخن بنا یا جن کی محنت کی وجہ سے دنیا کی رنگینیاں قائم ہیں اگرچہ انکی جھونپڑیوں میں تاریکیاں ہیں ،شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جو جوتے بنا سکتے ہیں پہن نہیں سکتے ۔ شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جو فروٹ بیچ سکتے ہیں کھا نہیں سکتے ۔ شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جو کوٹھیاں بنا کے کوٹھڑیوں میں رہتے ہیں ، شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جو گندم اْٹھا سکتے ہیں خرید نہیں سکتے۔شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جو دوسروں کا سہارا ہیں لیکن خود پہ بوجھ ہیں ۔شاکر نے ان لوگوں کی بات کی جن کے بچے ڈھیر سے رزق چنتے ہیں ۔ اس شاعر کو عشق کی حد تک چاہنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہجر و وصل کی قید و بند میں نہیں رہا ۔ شاکر کا منفرد اسلوب دیکھئے کہ شاکر غریبوں کے حق کے لیے خدا کے سامنے بھی آواز اْٹھاتا ہے ، میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ شاکر کا خدا سے کتنا گہرا تعلق ہے ، دیکھئے کس خوبصورتی سے وہ خدا سے گفتگوکرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے
جے روٹی رات دی پوری کریندے شام تھی ویندی
یعنی میرے رازق رعایت کریں اور نمازیں رات کی کر دیں ،اس لیے کہ رات کی روٹی پوری کرتے کرتے شام ہو جاتی ہے،بھلا مزدور روٹی پوری کرے یا نماز یں پڑھے ، مزدور بیوی بچوں کی فکر کرے یا تیرے آگے سر جھکائے ۔ یہ مطالبہ وہی کر سکتاہے جو غربت کی گھاٹیوں سے گزر کے آیا ہو، اوریہاں مجھے وہ حدیث یا د آرہی ہے جو غریب کے متعلق ہے کہ قیامت والے دن غریب جب اپنے تھوڑے عملوں کے ساتھ رب کی بارگاہ میں حاضری دے گا تو رب تعالیٰ فرمائیں گے غریبودنیا میں تم میرے تھوڑے رزق پہ راضی ہو گئے تھے آج میں تمہارے تھوڑے عملوں پہ راضی ہوں ۔ شاکر نے اس طبقے کی بات کی جس کی لاج رب رکھتا ہے ، شاکر نے اس طبقے کی بات کی جس کے ہاتھ میرے نبی نے چومے ، شاکر کو کیوں نہ چاہا جائے شاکر کبھی خدا سے کہتا ہے کہ مالک آپ نے جنت میں مسلمانوں کو بہتّر حوریں دینی ہیں ، میں ایک پہ گزارہ کر لوں گا اکتہر کے بدلے مجھے اتنی روٹی دے دیں کہ سکون سے زندگی گزارسکوں۔ کبھی شاکر دیکھتا ہے کہ غریب کے بچے کو روٹی میسر نہیں اور امیر کا کتا کھیر کھا رہا ہے ،تو پھر وہ یوں کہتا ہے کہ:
کسے دے کتے کھیر پیون ، کہیں دے بچے بکھ مر ن
رزق دی تقسیم تے ھک وار ول کجھ غور کر
یعنی کسی کے کتوں کو کھیر ملے اور کسی کو بھوک ملے یہ کیسی تقسیم ہے ، رازق رزق کی تقسیم پہ غور کر اشرف المخلوقات بھوک سے مر رہی ہے اور کتے کھیر پی رہے ہیں ، دیگر کئی جگہوں پہ شاکر نے کمال لکھا ، کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی کہ مزید کچھ لکھوں ، لیکن ایک سوال پوچھنا چاہوں گا آج کے شعراء سے کہ لوگ شاعروں سے دور کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟پاکستان عوام میں شاعر ی ذوق کیوں ختم ہوتا جارہا ہے ؟ شاعری صرف الماریوں تک کیوں محدود ہوگئی ہے ؟ لوگ فیض احمد فیض ، حبیب جالب کو آج بھی کیوں پسند کر تے ہیں ؟ ہمارے لکھنے والوں نے کبھی غور کیا ہے ؟ عوام رومان سے محروم ہو گئی ہے، عوام میں جذبہ نہیں رہا انقلابی شاعری مارکیٹ میں آنا بند ہو گئی ہے ، آج دو چار شاعر جمع ہو کے ایک دوسرے کی شاعری پہ ہی واہ واہ کرتے ہیں ، کتابیں خود چھپوا کے ایک دوسرے کو گفٹ کرتے ہیں ۔ یہ المیہ ہے جس زمانے کے دانشور اور شاعر نامقبول ہو جائیں وہ قوم ختم ہو جاتی ہے، میری شعراء سے گزارش ہے کہ وہ اپنی ذات سے نکلیں، زمانے کے تقاضے بدل گئے ہیں ، ایک عجیب بات جو میں آج تک سنتا آیا کہ اخبار کا صفحہ عوام کے لیے ہوتا ہے اس میں ذاتی بات نہیں ہونی چاہئے ، ذاتی چیزیں اخبار میں ڈسکس کرنا اچھی بات نہیں ، بہت اچھا لیکن یہ شاعری جو شائع ہو تی ہے اس میں محب اور محبوب کے علاوہ کیا ہوتا ہے ۔شاعر ذاتی دکھ لکھے تب بھی کوئی بات نہیں اور کالم نگار لفظِ ’میں‘ لکھ دے تو اسکی تحریر مسترد ہو جاتی ہے ، شاعر خدا سے باتیں کرنے کے بجائے خدا کے منکر ہوگئے ۔ فضول بحثیں شروع ہو گئیں ، میں چاہتا ہوں کہ میرا شاعر طبقہ جاگے اسے اتنی عزت ملے جتنی شاکر شجاع آبادی ، فیض اور جالب کے مقدر میں آئی لیکن یہ سب کچھ دکھوں کی وجہ سے ہو تا ہے ، فیض اور جالب نے جیل دیکھی ، شاکر نے غربت دیکھی جبکہ موجودہ شاعر ٹھنڈے اور پر سکون ماحول میں شاعری کرتے ہیں،
اس کا اثر ان لوگوں پہ خاک پڑے گا جو کڑی دھوپ میں جلتے ہیں ؟؟؟