خمینی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : دسمبر 2011

قسط -۱۰

ایرانی علماء کی جدوجہد:

            اس تناظر میں ایران کے علماء نے کسی تفریق کے بغیر زبر دست جدوجہد کی۔ داخلی طور پر وہ متحد اور منظم رہے۔ انہوں نے تعلیم و تربیت اور اصلاح و فلاح کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ عوام کے مسائل کو اپنی تکالیف جان کر ان کا ساتھ دیا۔ قومی معاملات میں جمہوری رہنمائی کی۔ ملکی مفاد کے منافی فیصلوں پر جرأت سے اختلاف اور آمریت وقت کے استبدادی ہتھکنڈوں کا جانفروشی اور استقامت سے مقابلہ کیا۔ایک بار شاہ ایران اور اس کے وزیر اعظم ،اسد اللہ عالم کے نام ایک تار میں امام خمینی نے کہا:

            ‘‘ میں تمہیں ایک بار پھر متنبہ کرتا ہوں کہ اللہ کی اطاعت کرو۔ آئین کی پاسداری کرو اور قرآن کے احکام اور علماء کے فتاویٰ کی نا فرمانی سے باز رہو۔ ملک کو بلا وجہ خطرات میں مت ڈالو ورنہ مسلم علماء تمہارے خلاف اپنے نظریات بیان کرنے میں آزاد ہوں گے ’’۔ (صThe Naraative of Awakening 56)

انہوں نے ایران کے سینٹ کو مخاطب کر کے کہا:

            ‘‘ مسلم امہ اور اسلام کے علماء زندہ اور ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ وہ ان ہاتھوں کو کاٹ ڈالیں گے جو اسلام کی بنیاد سے غداری کے مرتکب ہوں گے اور اسلام کی پاک دامنی اور عفت میں مداخلت کریں گے’’۔ (ص58 ایضاً)

امام خمینی نے پھر علماء کو یاد دلایا:

            ‘‘ آج کی خاموشی کا مطلب ایک جابر اور ظالم کا ساتھ دینا ہے’’

             ‘‘ سرکاری دربار ی ہونا دراصل لوٹ مار کرنے والوں کے ساتھ ہونا ہے’’ (ص65ایضاً)

            5جون 1963ع / 15خورداد1342قمری شمسی/ 10محرم الحرام1383قمری ہجری کے دن امام خمینی نے حوزہ فیضیہ قُم میں وہ تاریخی خطاب کیا جس سے شاہ ایران کے خلاف عوامی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس تقریر میں انہوں نے رضا شاہ اور اس کے خاندان کے قومی جرائم بیان کیے اور امریکی وساطت سے ہونے والے ایران اسرائیلی گٹھ جوڑ کی حقیقت کھول دی جو اصل میں ایران، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک گہری ساز ش تھی۔اس عوامی جدوجہد کو دبانے کے لیے شاہ نے تمام ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ سیکڑوں ہلاک اور لا تعداد لوگ گرفتار کر لیے جن میں امام خمینی اور بہت سے علماء بھی شامل تھے۔ اسی روز تہران اور قُم میں مار شل لا نافذ کر دیا گیا ۔

رہائی کے بعد خمینی شاہ اور اس کے حواریوں پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ وہ لکھتے ہیں:

             ‘‘ ایرانی قوم اور مسلم امہ کی تمام مشکلات کا سر چشمہ امریکہ اور سامراجی طاقتیں ہیں۔ مسلم اقوام سامراج سے بالعموم اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کرتا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو اس لیے مضبوط بناتا ہے تا کہ وہ فلسطینی عربوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرے’’( ص92ایضاً)

            5جون1963ع کے قومی سانحے کے ایک سال بعد خمینی کو جبراً تر کی جلاوطن کر دیا گیا۔ اس دوران وہ 11ماہ پابند رہے۔ ان کی غیر حاضری میں شاہ نے امریکی خواہش پر روشن خیال اسلام لانے کے لیے اصلاحات کا سلسلہ تیز کر دیا اور ساتھ ہی علماء و دیگر مخالفین پر جبر و ستم بھی۔اس جلاوطنی کے دوران عبدالسلام عارف عراق کا صدر تھا۔ عراق میں خمینی صاحب کا قیام 13سال پر محیط ہے۔

مفاہمت اور مزاحمت:

            جلاوطنی کے دوران امام خمینی کا ایران کے علماء اور ایران کے عوام سے مسلسل رابطہ رہا۔ وہ دنیا اور ایران کے حالات حاضرہ پر تبصرے اور شاہ ایران کے کاموں اور احکام پر کڑی تنقید کرتے رہے۔ ان کے پیغامات اور ارشادات تحریری طور پر اور آڈیو ٹیپ کے ذریعے پورے ایران میں وسیع پیمانے پر نشر ہوئے۔ شاہ کی خصوصی فورس ،ساوک اور دیگر تعزیری ادارے رابطے کے اس راستے کو بند نہ کر سکے۔ 1977ع میں خمینی کے فرزند، آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اورسرکاری جشنِ تقریبات کے ردّ عمل میں عوامی جدوجہد ایک نئے جذبے سے ابھری سارا ملک ہنگاموں ، ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ شاہ ایران نے امریکی ہدایت اور حمایت کے ساتھ بار بار پینترے بدلے۔ فوج، سول انتظامیہ اور میڈیا کو پوری طرح استعمال کیا۔ نئے نئے طریقوں سے قومی مفاہمت کا ڈرامہ رچایا۔ انتخابات اور آئینی اصلاحات کی آڑ لی۔ کنگز پارٹی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی مگراُسے ہر جگہ اور ہر بار نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکی افسروں کے دورے کسی کام نہ آ سکے۔

            آخر امام خمینی کی تشکیل کردہ انقلابی کونسل کے اعلان کے ساتھ ہی فوجی کمان نے فرد واحد کی پشت پناہی چھوڑ دی۔ اس کے بعد دسمبر1978ع میں شاہ نے ایران چھوڑ دیا۔

            انقلاب اسلامی کی یہ پہلی منزل تھی جو ایرانی قوم نے اپنے رہبر کی چودہ سالہ جلا وطنی کے دوران بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی۔ اب دوسر امرحلہ اس انقلاب کو مستحکم اور مضبوط بنانا تھا۔ مشیت ایزدی سے یہ راہ ان مفاد پر ستوں نے آسان بنا دی جو ‘‘ قومے فرو ختند وچہ ارزاں فروختند’’ کے مصداق تھے۔ ان میں سابق شاہ ایران کے درباری، حواری،مراعات یافتہ ملازمین ، جا گیر دار اور امراء ، ساوک کے کارندے ، کمیونسٹ اور مجاہدین خلق کے لوگ شامل تھے۔یہ سب اسلام کے قوانین اور اللہ کی حکمرانی سے خائف تھے۔ ان کے مالی اور دنیوی مفادات بادشاہت اور فرد واحد کی آمریت کے ساتھ وابستہ تھے۔یہ بڑے طاقت والے اور اثر رکھنے والے لوگ تھے۔ ایران کی دولت اور اقتدار انہی کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ ملک کے تمام اداروں پر قابض تھے۔ جلد ہی یہ تمام طبقے انقلاب اسلامی کے خلاف صف بستہ ہو گئے۔

            شاہ کے ایک جرنیل نے آخری چال کے طور پر شاہ کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنایا مگر امام خمینی کی پکار پر عوام تہران کے کوچہ و بازار میں نکل آئے ۔ پورے شہر میں بھر پور عوامی مزاحمت کا آغاز ہو گیا۔ اس شدید ردّ عمل سے حکومت خوفزدہ ہو گئی اور یوں باد شاہ کا آخری وار بھی نا کام ہو گیا ۔

            2فروری1979ع کو شاہ کی وفا دار مگر آخری کٹھ پتلی حکومت ختم ہو گئی۔

ضیائی اسلام:

            اس موقع پرایک بات قابل غور ہے ۔ جب ایران میں انقلاب اسلامی کی جدوجہد پورے عروج پر تھی، پاکستان میں فوج نے جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔یہ یاد رہے کہ جمہوری نظام پر شب خون مارنے میں فوج کی ساری قیادت بقائمی ہو ش و حواس نہ صرف شامل ہوتی ہے بلکہ ‘‘ فتح’’ کر نے کے بعد ہر جرنیل بقدر ‘جثہ’ اپنا حصہ وصول پاتا ہے۔ بعد میں ‘‘ اختلاف یا غیرت’’ دکھانے والا کوئی شجاّع اس وقت ضمیر کی کسی آواز پر بطور احتجاج کبھی مستعفی بھی نہیں ہوتا۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو مذہبی رنگ دینے اور اُسے لمبا کرنے کے لیے ‘‘ اسلام پہلے’’ کا نعرہ لگایا۔جس طرح اس کے جانشین جنرل پرویز مشرف نے ‘‘ پاکستان پہلے’’ کا نعرہ لگایا تھا ۔ اس مقصد کے لیے ضیاء الحق نے دائیں بازو کے قومی اتحاد پر بھی سواری کی اور ایک ایسا اسلام پیش کیا جس کا آغاز نعت خوانی اور کوڑے مارنے سے ہوا اوراختتام بنکوں کے سودی کھاتوں اور شتر و گھن پر!

            وہ اسلام جو عمومی کردار کو بدلتا ، رہن سہن میں تبدیلی لاتا، تمام نظام ہائے حیات کو مختلف بناتا اور سر فروشوں کی ایسی ٹیم پیدا کرتا جو فکراً ، عملاً مسلمان ہوتی،ایک جرنیل کے ہاتھوں مصلحت و منافقت اور امریکہ نوازی کا شکار ہو گیا۔ اس بد عملی کی اصل وجہ جنرل ضیاء الحق کی خود غرضی، مفاد پرستی، آئین سے غداری اور عوام اور خدا سے دھوکا تھا۔امریکہ نے جب ایران میں شکست کھائی تو اس نے انقلاب کی بر آمد روکنے کے لیے ضیائی اسلام کی پیٹھ ٹھونکی۔ چنانچہ ایران کا انقلاب اسلامی پاکستان میں آنے سے روکنے کے لیے جنرل ضیاء نے ایک مسخ شدہ اور امریکہ زدہ اسلامی ایڈیشن پیش کیا اور ایسے گروہوں کی پشت پناہی کی جو فرقہ واریت اور لسانیت کے پر چارک تھے۔

            یوں فوجی عہد میں اسلامی نظام کی منزل پاکستان میں دور ہوتی چلی گئی اور ملک پر امریکی اثرات کے سائے گہرے ہوگئے۔

تہذیب و تمدن

مسجد اور رواداری:

            جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ،ایران میں مساجد گنی چنی ہیں لیکن مردانہ اور زنانہ نماز خانے لا تعداد ہیں اورعوام کی سہولت کے لیے جگہ جگہ قائم کئے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں توجہاں چندہ اکٹھاکرنے کے لیے کوئی کمرشل جگہ موزوں نظر آئے ،‘‘ با کمال لوگ ’’جھٹ مسجد یا مزار کا سنگ بنیاد رکھ دیتے ہیں۔اس کام کے با قاعدہ اجزاء یہ ہیں: ایک صندوقچی ، ایک لاؤڈ سپیکر اور ایک تنخواہ دار اعلان کرنے والا جو مسلسل بلند آواز سے فضائی آلودگی میں اضافہ کرتا رہے۔ فقہ جعفریہ میں نمازوں کے تین اوقات ہیں۔ فجر حنفی اذان سے بہت پہلے ، دوپہر کو ظہر اور عصر کے لیے اور شام کے بعد مغرب اور عشاء کے لیے۔ انہی تین اوقات میں مساجد کھلتی ہیں اور بعد میں بند رکھی جاتی ہیں۔ مساجد میں جوتے رکھنے، وضو کرنے اور مطالعہ کتب کے لیے خاص اہتمام ہے۔معلوم ہوتا ہے جیسے زیادہ تر لوگ نمازیں گھروں یا قریبی نماز خانوں میں ادا کرتے ہیں۔ جمعہ کی جماعت میں زیادہ لوگ شریک نہیں ہوتے۔ تا ہم ہر جگہ مستورات کے لیے علیحدہ جماعت نماز کا انتظام ہے ۔ایران میں ہماری مساجد کے مانند صدر دروازے پر نہ تو یہ لکھا ہے کہ یہ فقہ حنیفہ، بریلویہ، دیو بندیہ،سلفیہ یا اثنا عشریہ کی ہے اور نہ کسی دوسرے مذہب یا فرقے کو داخلے سے منع کیا جاتا ہے۔مسجد کو صرف مسجد قرار دیا گیا ہے۔ اپنے محدود قیام کے دوران کسی جگہ سنیوں یا حنفیوں کے لیے الگ سے کوئی مسجد یا نماز خانہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسلام بلکہ کسی بھی فقہی مکتب فکر میں الگ سے گروہی مسجد کا تصور نہیں۔ہم نے کسی مسجد یا مزار کے پاس اپنے سوا کسی دوسرے کو ہاتھ باندھ کر حنفی نماز پڑھتے نہیں دیکھا ۔ راقم نے جہاں تحیۃ المسجد ادا کئے یاقصر نماز پڑھی، ایسے معلوم ہوا جیسے کسی نے ہاتھ باندھنے یا رفع یدین نہ کرنے پر نوٹس نہیں لیا۔ مسجد میں فوٹو گرافی یا ویڈیو بنانے پر کوئی معترض نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سُنی زائرین کا ہاتھ باندھنا اور اپنے طریقے سے نماز ادا کرنا ایرانیوں کے لیے نہ تو نیا ہے اور نہ ہی ممنوع، ورنہ ہمارے ہاں تو مسجد کے دروازے پر لکھاجاتا ہے کہ یہ مسجد غوثیہ/ رضویہ ہے یا دیو بندی / اہلحدیث ، کیونکہ یہاں تو آمین بالجہر پر ہی مسلح رفع یدین ہو جاتا ہے۔!

             بعض ان پڑھ پیش امام تو دوسرے مسلک کے نمازی کے کھڑے ہونے والی جگہ پاک کرنے کے لیے دھلواتے ہیں۔ ایک روایت ہے کہ کسی متشددمولوی نے فرش کا وہ حصہ اکھڑوا کر نیا لگوایا جہاں غیر مسلک والے مسلمان نے نماز ادا کی تھی کہ یہ ٹکڑا نا پاک ہو چکا ! جدیددور میں بھی لاہور کے ایک عالم نے دوسرے عالم کو محض اختلاف رائے پر اپنی مسجد سے بالجبر نکال دیا حالانکہ دونوں روشن خیال اور غیر روایتی مولوی ہیں۔

            ایران میں مساجد ،علماء کی تنظیم اور درجہ بندی کے بارے میں کسی سے ہمیں معلومات نہیں ملیں ۔تا ہم یہ ضرور واضح ہوا کہ ایران کے چار بڑے شہروں میں اثنا عشری آبادی کا تناسب 100فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مسجد تو نمازیوں کی تسکین اور ان کی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیۓ۔ مساجد اور مزارات کے زائرین سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سب لوگ شیعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ورنہ کوئی تو سنی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا یا کسی جگہ قرآن حکیم کی تلاوت میں مصروف نظر آتا۔

فقہی اختلاف:

            دکانوں پر مذہب و معارف کی جو کتابیں نظر آئیں مجھے ان میں ایسا کوئی عنوان دکھائی نہیں دیا جو فقہی اختلافات یا مسلکی امتیازات سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ کتابیں مختلف اسلامی اور مذہبی موضوعات پر علماء کی توضیح و تائید پر ہیں۔ مخالفانہ لٹریچر موجود نہیں یا مخالف کا استیصال بھی ان کا موضوع نہیں۔ ہمارے ہاں اپنے مسلک اور افکار کو تو مقدس اور آسمانی قرار دیا جاتا جبکہ مخالف کے خیالات کو خارج از اسلام اور گردن زنی ٹھہرایا جاتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق ٹخنوں تک شلوار ، بلند آواز سے آمین کہنے یا صلوٰۃ و سلام/ نور و بشر / حاضر ناظر کا مسئلہ ہو۔ افتراق امت کی ایک بڑی وجہ اپنے کو حق بجانب اور دوسرے فقہی مظہر کو غلط قرار دینے میں ہے۔ ہم اپنی فکر تو نرم کرنے پر تیار نہیں ہوتے مگر دوسرے کے خیال کو سختی سے دبانا چاہتے ہیں۔ یہی فساد کی جڑ ہے۔

             شیعہ مذہب میں چھ سے زائد بڑے بڑے فرقے ہیں۔ ان میں زیدی، اسماعیلی، بابا صدا حسین ، نصیر یہ وغیرہ شامل ہیں۔ خود امام خمینی کے نظریات خصوصاً ولایت فقیہ کے خلاف معاصر علماء کی تحریریں موجود ہیں جیسے علامہ سیستانی مگر ان اختلافات کے باوجود نہ تو مساجد الگ ہیں اور نہ اختلاف نکتہ نظر نے ملی وحدت میں دراڑیں ڈالی ہیں۔ بہت سے وحدانی کاموں کے سبب ایران کا مذہب اور اس کی قوم ایک نظر آتی ہے۔

صدقہ و خیرات:

            صدقہ و خیرات یوں لگتا ہے جیسے انقلاب اسلامی کے بعد ایرانیوں کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔ ایران میں بلا مبالغہ لاکھوں اور ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں دھاتی صندوق لگائے گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے سٹینڈ پر موجود ہیں جس کی شکل دعا کرتے دو کھلے ہاتھوں جیسی ہے۔ یہ صندوق بازاروں ، مراکز ، مقابر ، دفاتر غرض ہر اس جگہ موجود ہیں جہاں سے لوگ گزرتے ہیں ۔ لوگ ہر وقت ان میں صدقہ و خیرات کے پیسے ڈالتے رہتے ہیں۔ اس رقم سے مستحق افراد کی مدد کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں کسی جگہ بالخصوص مساجد اور مقابر کے باہر ،بازاروں اور اڈوں پر بھکاری نہیں ملتے۔ چوک میں اشارے کا انتظار کرتی گاڑیوں کے شیشے صاف کر کے بخشش طلبی ہمار ے ہاں معمول ہے۔ مغرب میں چوراہوں پر نوجوان لڑکیاں یہ کام کرتی ہیں۔ ایران میں ایسا کوئی نظارہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ عطیات اکٹھا کرنے کا کام سرکاری کارندے کرتے ہیں اور شاید اس مقصد کے لیے ایک محکمہ بھی قائم کیا گیا ہے جیسا کہ ہمیں ایک بند گاڑی سے اندازہ ہوا ۔ صدقہ و خیرات کے ان آہنی صندوقوں پر فارسی میں جگہ کی مناسبت سے اقوال لکھے ہوئے ہیں مثال کے طور پر:

             روزی رابا صدقہ دادن بر خود نازل کنید

             (صدقہ دے کر اپنے رزق کو بڑھائیں) ۔ امام صادقؒ

            من ذی الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضا عفہ ولہ اجر عظیم ۔( القرآن)

ہدایا و نذرانے:

            اہم مقابر پر خصوصی دفتر موجود ہیں جہاں ہدیہ اور نذرانہ وصول کیا جاتا ہے اور باقاعدہ رسیددی جاتی ہے۔ ان جگہوں کو پاکستان کے محکمہ اوقاف کی طرح محض پیسہ کمانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا تا بلکہ دیانتداری اور ذمہ داری سے زائرین کی امانت اکٹھاکی جاتی اور اعلیٰ مصرف میں لائی جاتی ہے۔

معاشرت:

            اکثر نو جوان جینز میں ملبوس نظر آئے۔ لمبے بال ، جیکٹ اور بعض کی پونی۔ لڑکوں کی ڈاڑھیوں اور سر کی گتوں کے مختلف سٹائل تھے۔ تنگ فٹ پاتھ پر مرد عورتیں ساتھ ساتھ بلکہ ٹکراتے ٹکراتے گزرتے ہیں۔ مگر نظر بازی، چھیڑ خانی یا ہاتھ لگانے کا کوئی منظر دکھائی نہیں دیا۔ نو جوان جوڑے…… شادی شدہ یا منگیتر ہاتھ تھامے، ساتھ جڑے یا موٹر سائیکل پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔لیکن عوامی سطح پر فحاشی بالکل نہیں ہے۔ موٹر سائیکل سوار ٹریفک کی اکثر خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس میں میں نو جوان اور عبا پوش مذہبی عالم، دونوں برابر ہیں۔

            تہران میں نو جوانوں کے بعض گروپ کان چھدوائے اور مرکیاں پہنے ، مغربی طرز کے ہیئر سٹائل کرائے اور کئی موٹر سائیکل پر ریس لگاتے دکھائی دیئے مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ حضرت معصومہؒ کی یوم ولادت کے سلسلے میں نو جوانوں کا ایک جلوس دیکھا جو سوئے مرقد رواں تھا۔جیپ پر چند نو جوان نعرے لگاتے ہوئے ، اکثر کے ہاتھوں میں گلاب کا ایک پھول ، جوابی نعرے لگاتے پیدل رواں تھے۔ لیکن زائر قطاروں میں نظم سے چل رہے تھے اور ٹریفک بے روک چل رہا تھا۔

            عورتوں کے لباس میں ٹخنوں تک فراک ، پا جامہ جسے ایرانی شلوار کہتے ہیں اور مغربی پتلون مع جینز شامل ہیں۔ اکثر خواتین نے سیاہ عبایا پہن رکھی ہوتی ہے۔ بعض چادراوڑھتی ہیں جسے فارسی میں بھی چادر کہتے ہیں،صرف لہجہ مختلف ہے۔ حجاب یا سکارف ایک مختصر دوپٹہ ہے جو ہر ایرانی عورت بلکہ تمام غیر ایرانی عورتوں کو بھی لازماً سر پر لینا پڑتا ہے ایران کے چاروں شہروں میں جہاں ہم گئے، گلیوں، بازاروں ، محلوں ، بسوں ، پارکوں ، دفتروں، ہوٹلوں غرض ہر جگہ بلا امتیاز وقت ،جگہ ، عمر، حجاب سروں پر پایا۔ سکولوں کی طالبات بلکہ 5سال سے کم عمر کی بچیوں کو بھی بڑے شوق سے حجاب اوڑھے دیکھا۔یہ حجاب اتنا مضبوط ہے کہ پاکستانی دوپٹے کی طرح نہ رسی بن کر رہ جاتا ہے اور نہ ہوا کے دوش پر اڑتا ہے۔

            ایرانی خاتون میں بلا کا اعتماد ہے۔ 60فیصد کے قریب عورتیں مقبروں ، مسجدوں، سڑکوں اور بسوں میں نظر آتی ہیں کیونکہ زیادہ تر مرد ایران عراق جنگ اور انقلاب کی ابتدائی کشمکش میں جان بحق ہو چکے ہیں۔ بوڑھے تعداد میں کم ہیں۔ پاکستان کی بد قسمتی کہ یہاں مغرب زدہ اور امریکہ نژاد سول اور فوجی طبقہ حکمران بن گیا ہے۔ جب ملک کی 98فیصد خواتین سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہیں اور یہی لوگ ٹیکس ،آبیانہ اور بل دیتے ہیں، تو 2فیصد اشرافیہ کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی پسند کا روشن خیال کلچر اور فرنچائز ڈ اسلام میڈیا کے ذریعے مسلط کرے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا بھر میں مسلم خاتون کی پہچان سر ڈھانپنا ہے۔ ایشیا،یورپ ، روس ، چین، شمالی اور جنوبی امریکہ ، افریقہ غرض تمام دنیا میں مسلمان عورت سر پر دوپٹے سے پہچانی جاتی ہے بجز عربوں ، پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے چند طبقوں کے۔ پاکستان اور ہندوستان میں تو ہندو ، عیسائی اور سکھ عورتیں بھی اپنے سر ڈھانپتی ہیں۔ مگر ہمارے بیمار حاکم مصر ہیں کہ ترقی وتہذیب کے لیے عورت کا سر ننگا رہنا چاہیۓ۔

             مشرف دور میں پی ٹی وی کی مسلمان خاتون اناؤنسر وں نے سر سے دوپٹہ بالکل اتار دیا۔ لیکن دوپٹے کے ساتھ ایرانی عورت انتہائی پر اعتمادنظر آتی ہے۔ یہ صلہ اسے اپنے احساس تحفظ،آزادی کا ر اور عزت نفس سے ملا جو اسلام کا مرہون منت ہے۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہے ۔اسے مخاطب کر کے معلومات دریافت کریں تو اس کے اعتماد ، اظہار اور کام سے لگن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ہمارے برقعے اور دوپٹے نے پاکستانی عورت کو اتنا پُر اعتماد نہیں بنایاکیونکہ اُسے اس معاملے میں شکی بنا دیا گیا ۔ یہی حجاب ہے جس کی بنا پر ایرانی عورت ایران کی زندگی میں نصف سے زائد موثر کردار ادا کر رہی ہے۔اور یہی وہ بنیاد پرستی ہے جس سے مغرب پریشان ہے ۔ حالانکہ اسی بنیاد پرستی میں عورت کا احترام ، آزادی ، عزت اور وقار سب کچھ موجود ہے۔

            پاکستان کی آزاد سوسائٹی میں سر عام تھوکنے ، فارغ ہونے اور مرضی کے مطابق گندگی پھیلانے اورکھانے پینے کی اجازت ہے۔ طور خم سے لانڈھی اور کوئٹہ سے قصور تک ان شخصی اور انفرادی آزادیوں پر کوئی قد غن نہیں۔ معاشرے کے ذمہ دار افراد مثلاً معلم، مولوی ، سیاست دان ،منتظم، بزرگ کوئی بھی ان آزادیوں کی مخالفت نہیں کرتا۔ لیکن ایران میں آپ کوکوئی شخص تھوکتا ، فارغ ہوتا یا چلتے پھرتے کھاتا پیتا اور چھلکے پھیلاتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایرانی ہماری طرح چائے ، پان،مشروبات اور سگریٹ کے رسیا نہیں ۔ ان چیزوں کی در آمد پر پاکستان اربوں روپے سالانہ صرف کرتا ہے ۔ جگہ جگہ سگریٹ ،پان، چائے اور مشروبات کے کھوکھے ہیں۔ ایران ان عوامی کھوکھوں سے محروم ہے اوراس کے ساتھ ان عوارض اور اسراف سے بھی جو ان اشیاء کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دراصل ان باتوں کا تعلق ابتدائی تعلیم و تربیت ،گھریلو ماحول،میڈیا کے استعمال ،با اثر لوگوں کے کردار اور قومی مزاج سے ہے۔

            قیام کے دوران کسی گلی کوچے ، بازار ، سڑک ، دکان یا پارک میں دو ایرانیوں کو آپس میں لڑتے ،الجھتے اور دست بگر یباں ہوتے نہیں دیکھا۔ زبان کی شستگی اور شیرینی تو ہے ہی ، معاملات میں صلح جوئی اور مروّت بھی کردار کا حصہ ہے ۔ بسوں میں چڑھتے اترتے اور مقابر و مساجد میں نکلتے داخل ہوتے وقت کسی جگہ دھکم پیل ، بے صبری اور ‘‘ میں پہلے ،’’ کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔گو ‘‘ پہلے آپ ’’ بھی کوئی نہیں کہتا ۔ ایرانی مختلف رنگوں کے پتھروں سے مزین انگوٹھیاں شوق سے پہنتے ہیں۔ بعض لوگ ایک ہاتھ میں،دوسرے دونوں میں مختلف رنگوں کی کئی کئی انگوٹھیاں پہنتے ہیں۔ تسبیح کا استعمال بہت عام ہے ۔ پٹھانوں کی طرح جن کی آنکھیں ، زبان، کان اور ہاتھ کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں، مگر انگلیاں مسلسل تسبیح کے دانے رولتی رہتی ہیں۔ (جاری ہے )