صحبت ِ یار آخر شد‘‘جدہ میں دو دِن
(۱۴ اور ۱۵۔ اگست ۲۰۱۹ء)
دراجہ چوک،بابا آدم کی سائیکل:
جو لوگ سعودیہ میںکام کرتے ہیں،اُن کے بقول حج کے دنوں میں اُن لوگوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ہمارے کافی ،جاننے والے اور پیار کرنے والے حضرات وہاں رہتے ہیں ،جس سے بھی بات ہوئی اُس نے یہی بتایا البتہ مدینہ طیبہ میں وہ حاضر ہوسکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اکرم صاحب اور شکیل صاحب کے عزیز،اُن سے ملنے مدینہ پاک تشریف لائے تھے جن کا تذکرہ میں کر چکا ہوں۔جدہ سے آنے والے شکیل بھائی کے عزیز،برادرم آصف صا حب ، جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ،جیسے ہی حج ختم ہوگا،میں مکہ شریف آجاؤںگا اور آپ لوگوں کوجدہ لے جاؤںگا۔ہماری بھی بڑی خواہش تھی کہ جدہ شہرکی سیر کریں۔
حج کی ہماہمی میں ،مجھے تو یہ بات یاد نہ رہی تھی اور اب جب کہ ہم فارغ ہوچکے تھے اور اپنے ہوٹل واپس آچکے تھے توشکیل بھائی نے بتایاکہ’’ بھائی آصف صاحب باربارجدہ آنے کاصرار کر رہے ہیں اورکل صبح وہ آئیں گے اور ہمیں لے جائیں گے۔ میں نے عرض کی یہ اُن کی محبت ہے ،جی تو میرا بھی بہت چاہتا ہے،حج کی تھکاوٹ بھری مصروفیت کے بعدتھوڑی سی سیر وتفریح لازمی ہے۔چلو،اُن کاصرار ہے توایک دِن کے لیے چلے چلیں گے۔‘‘ایک پرابلم تھا کہ ہمارے محترم بزرگ ،حاجی محمد یونس صاحب منیٰ سے واپس آتے ہی بیمار پڑ گئے تھے۔نہ وہ ہمارے ساتھ جانے کے قابل تھے اور نہ اُن کو ہم کمرے میں اکیلا چھوڑ سکتے تھے۔آج جب نماز فجر ادا کرنے کے لیے جانے لگا تو دیکھا کہ ہوٹل لابی میں رنگ برنگی جھنڈ یاں لگائی جا رہی ہیں، پوچھنے پر ایک نوجوان نے بتایا کہ آج چودہ اگست ہے،تو مجھے یکدم یاد آیا کہ آج تو ہمارا یوم آزادی ہے۔وطن عزیز میں یہ دِن بڑے شان و شوکت سے منایا جاتا ہے یہاں وطن سے دُور،یہ لوگ ،یہاں بھی تھوڑا بہت ہلہ گلہ کر لیتے ہیں،یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی۔نمازپڑھ کر واپس آیا تو،ماشاء اللہ،اِن بچوں نے لابی اوراُس سے متصل طعام گاہ کو خوب سجا لیا تھااور اِن بچوں نے بتایا کہ دس بجے دِن ،وہ یہاں ہلکا پھلکا پروگرام کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ بے انتہا خوشی ہوئی اور ارادہ کیا کہ اِس پرو گرام میں شرکت کریں گے لیکن اُس سے قبل ہی ہمیں جدہ جاناپڑ گیا۔ حاجی صاحب کی بیماری کے سبب اور چودہ اگست کے اِس پروگرام کے سبب ،میری خواہش تھی کہ کوئی ایسی بات ہو جائے کہ ہمیں نہ بھی نہ کرنی پڑے اور ہم کسی طرح رک جائیں۔لیکن برادرم آصف صاحب کی محبت نے ایسا کچھ نہ ہونے دیا ،انھوں نے دِن چڑھتے ہی اپنے چھوٹے بھائی کو ہمارے ہوٹل میں بھیج دیا،ہم لاکھ بہانے کرتے رہے لیکن وہ ہمیں اپنی گاڑی میں’’ لادنے ‘‘میں کامیاب ہوگئے۔بیماری کی حالت میں حاجی صاحب کو تنہا چھوڑنا پرلے درجے کی نالائقی تھی ،شکیل بھائی اور خاکسار اِس معاملے میں از حد شرمندہ تھے لیکن آصف اور عارف نے ہماری ایک نہ چلنے دی،اُدھر محترم حاجی صاحب نے بھی کمال مہربانی سے ہمیں جانے کی اجازت دے دی اور یوں،بادل نخواستہ ہم تینوں ، عارف کے ساتھ ہوٹل سے نکل آئے۔گھنٹہ بھر تو ہم مکہ شریف کی وسیع وعریض سڑکوںپرہی پھرتےرہے۔عارفصاحب راستہ بھولے ہوئے تھے اور ہماری مکہ شریف کی سیر ہورہی تھی۔آخر وہ ہمیں مکہ شریف کی سڑکوں کے جال سے نکالنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور جدہ کی طرف رخ کرلیا اور گھنٹہ بھر کی مزید ڈرائیو کے بعد ،جدہ میں واقع اپنی رہائش گاہ میں لے آئے جہاںبرادرم آصف صاحب نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔ یہ علاقہ بوادی کہلاتا ہے،شاہراہ ستین پر خشب پل کے پاس ،اِن کی رہائش واقع ہے۔سادہ سا گھر اور سادہ سا علاقہ ،اپنے پاکستان جیسا!
جدہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے،کافی دیر تک جدہ کی سیر ہوتی رہی۔ایک چوک پر سجاوٹ (decoration)کے طورپر بڑی سی سائیکل ،جس کے بڑے بڑے پہیے تھے ،سجی تھی ،جیسے ہمارے ہاں ،بحریہ ٹاؤن والوںنے یہ ٹرینڈ ڈالا ہے کہ انھوں نے اپنے ٹاؤن کے چوکوں پر آرٹ کے بڑے شاندار اور خوبصورت نمونے گاڑے ہوتے ہیں۔سائیکل دیکھ کر میں بہت حیران ہوا،ایک توآرٹ کی یہاں سعودیہ میں یوں پذیرائی دیکھ کر اور دوسرے یہ سوچا کہ یہ سعودی عرب ہے ، یہاں تو چوک پر کسی مرسڈیز یا بینز کار کو لٹکا ہونا چاہیے تھا،یہ سائیکل تو ہمارے جیسے غریب ملکوں کی سواری ہے، یہاں کے لوگوں کو بھلا اِس میں کیا کشش ہوسکتی ہے۔ کسی زمانے میں، ہمارے ہاںسائیکل ایک نہایت شاندار سواری ہواکرتی تھی۔ہمارے ہاں مسلم لیگ (ق) کا یہ انتخابی نشان بھی تھاتو اِس حوالے سے جب آصف صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ازراہ تفنن کہا کہ بھائی یہاں ،جدہ میں، سائیکل ایک چوک پر لگی تھی تو کیا یہ اپنے چودھری شجاعت صاحب (صدرپاکستان مسلم لیگ۔ق ) نے تو نہیں رکھوائی تھی یہاں؟اِس پر سب کھلکھلا کر ہنسے۔آصف صاحب کہنے لگے ،’’ڈاکٹر صاحب!یہ سائیکل جس چوک پر رکھی ہے اِسے دراجہ چوک کہتے ہیں ، ہمارے قریب ہی ہے یہ چوک۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں جدہ میں اماّں حوا کی قبر ہے۔ ہمارے گاؤں کے کچھ نیم خواندہ اورناپختہ عقیدے کے لوگ عمرہ پرآئے تو میں اُن کو یہاں جدہ لے آیاجس طرح آپ کو لے آیا۔اُن کو سیر کرواتے ہوئے اماں حوا کی قبر والی جگہ پربھی لے گیا اور پھر اِس چوک پر اِس سائیکل کے پاس لایا اور ازراہ مذاق کہا کہ یہ سائیکل بابا آدم کی نشانی ہے۔میرا یہ کہنا تھا کہ ایک بابا گاڑی سے نکلا اورسائیکل کے پاس جاکر اِس کو چومنے لگ گیا کہ ہمارے بابا کی نشانی ہے۔‘‘ بابا نے یہی سمجھا کہ اگر امّاںحوا کی قبر یہاں ہے تو پھر بابا آدم کی سائیکل بھی تو یہاںہو سکتی ہے ،قبر تو اِن لوگوں نے چومنے نہیں دی ،چلو سائیکل کی زیارت ہوگئی تو عقیدت سے ،اِسے چومنا تو بنتا ہے۔بہرحال وہ سائیکل آرٹ کا اتنا اعلیٰ نمونہ تھی کہ میرا دِل کرتا تھا کہ سائیکل کو تو نہیں البتہ اُن ہاتھوں کوضرور جا کر چوموںجنھوں نے یہ تخلیق کیا تھا۔
جدہ ،مکہ کا دروازہ:
یہ شہر دِل نوازمنطقہ مکہ میں ،مکہ شریف سے تقریباً اسی کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ آبادی کے اعتبارسے ،جدہ سعودی عرب کا دوسرا بڑاشہر ہے۔تقریباً پچاس لاکھ لوگ یہاں آباد ہیں۔یہ شہر بحر احمر کے کنارے صدیوں سے آباد ہے۔ آجکل یہ سعودی عرب کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اورمعاشی حب بھی ہے۔ سب سے بڑا ائیرپورٹ بھی اِسی شہر میں ہے۔زمانہ قدیم سے ہی اِس شہر کو باب مکہ کہا جاتا ہے ،یعنی مکہ کا دروازہ،کیونکہ زمانہ قدیم سے ہی مکہ المکرمہ میں موجود خانہ کعبہ کی زیارت کرنے کے لیئے آنے والے زائرین کرام،سب سے پہلے جدہ ہی آتے تھے اور آج بھی دنیا بھر سے آنے والے زائرین ،جدہ کے بین الاقومی ایئرپورٹ پر ہی اُترتے ہیں اور یہیں سے ہی اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاتے ہیں۔تقریباً اُنیس سال پہلے ،عمرہ پر جب میں آیاتھا تو جدہ میں کافی آنا جانا رہا تھا۔اُس وقت کا جدہ اور آج کا جدہ،دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا،اُس فرق کو بیان کرنے کی نہ تو اب کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ مقابلہ کرنا اِس کتاب کا موضوع ہے ۔ ویسے بھی اِن بیس سالوں میں دنیابہت بدل گئی ہے کس کس بات کابندہ تذکرہ کرے ۔ مکہ ،مدینہ اور یہ جدہ ،بھی ،ترقی کرتی دنیا کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے چلے آئے ہیں اور یہاں کی دنیا بھی بدل گئی ہے۔ عارف صاحب نے ہمیں اِس شہر کی خوب سیر کروائی لیکن اُن کے بقول ،’’وہ ہمیں شہر کے حسن کا عشر عشیر بھی ،اِن دو دنوں میں ، نہیں دِکھا پائے۔صرف ساحل سمندر اور اُس پر کیئے گئے ترقیاتی اور سجاوٹی کام اور ساحل کی رونق اور شان و شوکت کو دیکھنے کے لیے ہی ہفتوں کا قیام درکار ہے۔‘‘ہم نے جو چند گھنٹے ساحل سمندر پر گزارے وہ اُن کی اِس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیا شاندار ساحل سمندر تھا!بہت دُور تک ہم گئے،مہا ترقیاتی اور سجاوٹی کام ہوا ہے،انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ہم سارا ساحل نہیں دیکھ پائے،حتیٰ کہ ،قریب سے ، وہ فوارہ بھی نہیں دیکھ پائے جو دنیا کا سب سے اُونچا فوارہ ہے اور جس کی شہرت چار دانگ عالم میںپائی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ اِس فوارے کا پانی ایک ہزار فٹ اُونچائی تک جاتا ہے۔اِس کانام’’شاہ فہد فوارہ ‘‘ہے۔اِس ساحل پر سیاحوں کی دلچسپی کے لیے کیا کچھ نہیں تیار کردیا گیا ۔ بعض چیزیںاو ربعض نظارے اور اِن کے بارے میں عارف صاحب کی ہوش ربا معلومات تو ہمارے نوزائیدہ حج کو بھی آلودہ کر رہی تھیں۔اُن کے بقول یہاں راتیں جاگتی ہیں اور دِن کو اُلو بولتے ہیں ،اور اِس بات کا تجربہ ہم کر ہی رہے تھے کیونکہ ہم اصرار کرکے دِن کے اُجالے میں ،ساحل سمندرکا نظارہ کرنے حاضر ہوئے تھے جب یہاں نہ کوئی بندہ تھا اور نہ کوئی بندہ نوازالبتہ اِس محرومی نظارہ کو ،عارف صاحب کا رواں تبصرہ بخوبی پورا کر رہاتھا۔
وسیع کشادہ سڑکیں ،سڑکوں پر رنگ برنگ کی نئی نویلی دوڑتی بھاگتی گاڑیاںاور سڑکوں کے کنارے ایستادہ کثیر المنزلہ شاندار عمارات،یہ سب کچھ تو مکہ مکرمہ میں بھی تھالیکن یہاں پہاڑ نہیں تھے۔یہ ایک میدانی شہر ہے۔ سڑکیں سیدھی اور متوازی ہیں۔بڑے بڑے چوراہے اور اُن پر بنا خوبصورت آرٹ ورک،ایک قابل دید چیز ہے۔ البلد کے نام سے وہ قدیم علاقہ بھی دیکھا جس میں پرانے اور تاریخی شہر کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔کافی پرکشش علاقہ ہے۔رہائشی ایریا تو نہ دیکھ سکے ،ہم نے صر ف تجارتی مراکز دیکھے۔ لاہور کے انارکلی طرز کا بازار اور عمارتیں معلوم ہوتی تھیں۔ شاندار اور وسیع وعریض کنگ عبداللہ روڈ پر واقع ایک جدید شاپنگ پلازہ ’’دی مال آف عریبیہ ‘‘میں بھی گھس گئے۔یہاں ایک مرد شبیہ کار(male modal)دیکھا۔ایک خوبصورت نوجوان اداکار جو ایک کیبن کے باہر کھڑا ماڈلنگ کر رہا تھا۔اُس نے ہمیں مال میں داخل ہوتے دیکھا تو مسکرا کر ، اشارے سے ہمیں اپنی طرف بلایا۔اُس کا لباس بڑا دیدہ زیب تھا۔عام سعودی لوگوں والا نہیں تھابلکہ کسی مخصوص علاقے یاکسی مخصوص کلچر کی نمائیندگی کر رہاتھا جیسے ہمارے ہاں کے چترالی لوگوں کا لباس ہوتا ہے۔اُس نے پہلے عربی میں استقبالی کلمات کہے،پھر انگریزی میںگفتگو کرنے لگا۔ہم نے بھی انگریزی میں ہی اُس سے چند منٹ گفتگو کی۔اُ س نے ہم سے پوچھا ،’’آپ لوگ ابوجہل کو جانتے ہیں۔‘‘ہم نے کہا ،’’جی ،بالکل جانتے ہیں،آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔‘‘ اُس نے بتایا کہ’’ اُس نے جو لباس پہنا ہوا ہے ،ابوجہل بھی اِسی طرز کا لباس پہنا کرتا تھا‘‘ میں نے اردو میں کہا،تیرا ستیا ناس ،تو ابوجہل کی ماڈلنگ کر رہا ہے۔اِس کے لیے تجھے ابوجہل ہی کیوں نظر آیا۔ہم وہاں سے آگے نکل گئے۔شکیل بھائی کہنے لگے ،’’تو کیا وہ کسی صحابی کی ماڈلنگ کرتا؟ وہ آپ کو اچھا لگتا۔‘‘ہاں واقعی ،یہ تو میں نے خیال ہی نہیں کیا تھا۔بہر حال یہ نازک موضوع تھا ہم نے اِس پر مزید گفتگو نہ کی اُس کی گفتگو سے پتہ چلا کہ جس شاپ کا وہ ’’اشتہاری‘‘ تھاوہاں پرانے تاریخی ملبوسات برائے فروخت موجود تھے ۔ مجاہدین کے لباس،سپاہیوں اور کمانڈرز کے پہناوے ،عام لوگوں کے لباس، بادشاہوں اور طبقہ امراء کے ملبوسات وغیرہ کے ڈیزائن تیار ہوتے اور فروخت ہوتے تھے۔مال کے اندر دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ہمیں بھی وقت کی تنگی کا احساس تھا اور ہمارے میزبان بھی بار بار یہ کہہ کہہ کر ہمیں تنگی وقت کامزید احساس دلاتے تھے ،’’کہ بھائی !یہ چیز دکھانے کی ہے ،وہ چیز دکھانے کی ہے ،یہ جگہ سیر کرنے کی ہے ،وہ جگہ سیر کرنے کی ہے ،یہاں یہ دلچسپی کا سامان ہے اور وہاں اُس دلچسپی کا سامان ہے،مجھے سمجھ نہیں آتی ،اتنے قلیل وقت میں آپ لوگوں کو کہاں کہاں کی سیر کرواؤں۔‘‘
ہم دودِن جدہ میں آصف صاحب اور عارف صاحب کے مہمان رہے۔آصف صاحب کے چھوٹے بھائی عارف نے ہمیں شہر کی خوب سیر کروائی۔شہر سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔باتوں کے بادشاہ ہیں اور شہر کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ہم نے اُن کی صحبت کو خوب انجائے کیا۔
آخری جمعہ شریف ۱۶۔اگست ۲۰۱۹ء
اب ہم اپنے سفر ِ حج کے آخر میں آگئے تھے۔لمحہ بہ لمحہ ہم وطن واپسی کے قریب ہورہے تھے ،اِس دوران میں ، خواہش تو یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت حرم پاک میں ہی گزارا جائے لیکن اب ہماری رہائش حرم سے دُور ہو چکی تھی جس کے لیے ہم یا تو انتظامیہ کی کوسٹر سروس کے محتاج تھے جس کا انتظار خود ایک مسئلہ تھا یا پھرخود سے ٹیکسی استعمال کرتے جس کے لیے رقم ،ہمارے پاس تھی نہیں،لہٰذا بڑی مشکل میں تھے ۔ پھر بھی ،الحمد للہ ،منیٰ شریف سے واپسی کے بعد،دودِن تو جدہ کی سیر میں گزرے ،اُس کے بعد کا بیشتر وقت حرم پاک میں ہی گزرا۔حج کے فوری بعد ،جدہ جانے کی بھی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خاکسار کا یہ اندازہ تھا کہ حج کے بعد ،ایک دو دِن میں،حرم پاک میں رش کم ہوجائے گا ،بہت ہی کم،اِس طرح طواف وزیارت میں سہولت ہو جائے گی اور پھر لطف اُٹھائیں گے ۔یہ خیال اِس لیے تھاکہ حج کے بعد زائرین کرام ،یا تو اپنے اپنے ملکوں کو واپس جانا شروع ہو چکے ہوں گے، اور ایسا ہوبھی رہا تھا، یایہ توقع تھی کہ جو زائرین کرام حج سے پہلے مدینہ پاک نہیں گئے تھے وہ حضرات، مدینہ طیبہ روانہ ہو جائیں گے ، ایسا بھی ہو رہا تھا ،لیکن ،اب جب ،جدہ سے واپس آکر حرم میں حاضر ہو ئے تو ہماری توقع سے برعکس ،بیت اللہ میں رش کم نہ ہواتھا بلکہ ہمیں تو زیادہ لگتا تھا،،جب بھی جائیں مطاف ،برآمدے اور بیرونی صحن وغیرہ زائرین کرام سے کھچا کھچ بھرے ہوتے تھے۔دودِن تو جدہ میں گزر گئے،۱۶ ۔اگست کو جمعہ شریف تھا۔جمعہ کے دِن اور
اُ س سے پہلی رات کو،حرمین شریفین میں ، ویسے بھی معمولاً رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔اب بھی یہی توقع تھی۔ہمارا یہ آخری جمعہ تھا،میری یہ خواہش تھی کہ صبح سویرے ہی حرم پہنچا جائے اور سارادِن حرم میں گزارا جائے،لیکن سواری کے مسائل کے باعث،احباب غرفہ نے مشورہ کیا کہ ناشتے کے بعد ہم سب،تقریباً ۹ بجے اکٹھے،کمپنی کی سواری پر، حرم چلیں گے۔نو بجے بھی بہت لیٹ ہی تھا لیکن ساتھیوں کے ساتھ رہنا بھی مجبوری ہوتی ہے۔المختصر یہ کہ صبح ،تیار ہوتے ہوتے ،اور گاڑی کا انتظار کرتے کرتے اورہوٹل سے نکلتے نکلتے ہمیں ساڑھے دس بج ہی گئے۔مجھے خدشہ لاحق تھا کہ اب ہم جمعہ شریف میں بمشکل ہی مسجد کے اندر جا پائیں گے۔یہ بھی شکر ہے ہم نکل آئے،حاجی اکرم صاحب ،شکیل بھائی اور میںساتھ ساتھ تھے۔حاجی صاحب تو بیمار ی اور کمزوری کے باعث ساتھ نہ آسکے۔گاڑی نے ہمیں مسفلہ کبری پر اُتارا تو اُس کے نیچے ،صفیں بنی ہوئی تھیں تو یہ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکاکہ،ابھی توپونے گیارہ بجے ہیں اور صفیں مسفلہ کبری تک بھی بن چکی ہیں،تو آگے کیا ہوگا۔بہرحال ہم کسی طرح وہاں سے نکلے اورحرم کی طرف رُخ کیے، شاہراہ ابراہیم خلیل پر ہو لیے۔یہ شاہراہ کافی کشادہ سڑک ہے، دورویہ ہے، دائیں طرف والے حصے پر تو مکمل صفیں ترتیب پا چکی تھیں،البتہ بائیں طرف والا حصہ خالی تھا۔خالی اِن معنوں میں کہ ابھی اِس پر صفیں نہیںبنی تھیں،جہاں تک تعلق تھا لوگوں کی بھیڑ کا ،تو وہ یہاں بھی بے پناہ تھی۔اکثر لوگ تو حرم کی طرف منہ کرکے جا رہے تھے اُن میں ہم بھی شامل ہوگئے تھے اور کچھ لوگ وہاں سے واپس آتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہم حرم کی طرف چل رہے تھے لیکن کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔لوگوں کوبائیں طرف والے حصے میںجہاں جگہ ملتی تھی صفوں میں(adjust) ہوتے جا رہے تھے۔ ہم اور آگے ،اور آگے ،بڑھ رہے تھے ۔ ہم اِس اُمید پر تھے کہ شاید حرم کے قریب ، کہیں جگہ بن جائے۔چلتے چلتے ، کبوتر چوک پر پہنچے تویہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُس میں بھی صفیں ترتیب پا چکی تھیں اور کڑی دھوپ میں زائرین بیٹھے نماز جمعہ کا انتظار کر رہے تھے۔سخت دھوپ تھی۔ شدید گرمی تھی لیکن لوگوں میں اِس چیز کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔
آس اُمید کا دامن تھامے ،چیونٹی کی چال چلتے،ہم آگے بڑھ رہے تھے۔حرم کے قریب والی کبری میں پہنچے تو رش کے باعث ،اب ہمارا مزید آگے بڑھنا محال ہو گیا۔اب ہم بلاک ہو چکے تھے ،نہ آگے بڑھ سکتے تھے اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتے تھے۔اب ہم مکمل طور پر ہجوم کے رحم و کرم پر تھے۔اب تک تو ہم تینوں اکٹھے تھے لیکن اب اِس بھیڑ بھاڑ میں بھائی اکرم صاحب ہم سے جدا ہوگئے ۔بے پناہ رش تھا،جس کے باعث ،اب میرے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ذکرباری تعالیٰ تو جاری تھاہی اور لبوں پر آسانی کی مانگ بھی جاری تھی لیکن ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھیڑ میں کچلے جانے کا خوف بھی پرورش پا رہا تھا ۔ بھیڑ میں کچلے جانے کے کئی واقعات پڑھ چکا تھا ،وہ سارے واقعات ذہن میں آتے توجھرجھری سی آ جاتی ۔ دوپہر کے پونے بارہ بج چکے تھے ۔ ہجوم کبھی آگے دھکیلتا اور کبھی پیچھے دھکیلتا۔اِس دھکم پیل میںہم کبری کے نیچے آگئے حتیٰ کہ جہاں پولیس نے روک لگا رکھی تھی وہاں تک ہم پہنچ گئے۔ایک فائدہ ہواکہ ہم کم از کم دھوپ سے بچ گئے کیونکہ کبری کے سائے میں آچکے تھے۔ اب تو،اِس جگہ سے آگے جانے کی اُمید، تقریباًدَم توڑ چکی تھی۔آگے پیچھے ،جہاں تک نگاہ جاتی لوگ ہی لوگ تھے۔حتیٰ کہ بعض محترم خواتین بھی اِس ہجوم میں پھنسی تھیں۔اذان کی صدا بلند ہوئی،وقفہ رہا،لوگ حرم میں سنت نوافل ادا کر رہے ہونگے اور ہم یہاں ہجوم میں پھنسے کھڑے تھے۔نماز تو کجا ،اِدھر اُدھر ہِل بھی نہیں سکتے تھے۔ خطبہ جمعہ شر وع ہوا ، ہم کھڑے ہوئے ہیں۔پچھلے آدھے گھنٹے سے ایک ہی جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ خطبہ جمعہ سن تو رہے تھے لیکن لطف مفقود تھا۔مزا نہیں آرہا تھا ۔میرے ایک طرف ویل چیئر پر ایک بابا جی ہیں،پیچھے ایک دو خواتین ،نہ جانے کس ملک کی ہیں،لوگوں کے درمیان پھنسی بیٹھی ہیں۔لوگ جہاں جہاں کھڑے تھے ،ہمہ تن گوش خطبہ جمعہ سماعت کر رہے تھے۔نہ جانے کیسے گنجائش بنی ،میں نے اپنی جائے نماز بچھائی اور دوبندوں کے بیٹھنے کی جگہ بنالی اور شکیل کو ساتھ بلالیا۔ خطبہ ختم ہوا،تکبیر کی آواز بلند ہوئی،ہمارے ہجوم میں تھوڑی سی ہل چل ہوئی جس سے ہمارے لیئے سجدے کی جگہ بھی بن گئی۔نماز شر وع ہوئی تو ہم اِس حال میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ہماری کہنیاں ایک دوسرے کے جسموں میں گھسی جاتی تھیں ۔ہمارے ارد گرد لوگوں میں بیشتر لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پرسجدے کر رہے تھے اورکھڑے کھڑے التحیات پڑھ رہے تھے اور اشاروں سے نماز ادا ہو رہی تھی،آج تو عجیب نماز ادا ہو رہی تھی،پہلے کبھی ایسی نماز دیکھی نہ سنی۔ہمارا آخری جمعہ شریف عجیب تجربے میں گزرا۔امام صاحب نے سلام پھیرانماز ختم ہوئی لیکن وہاں سے ہماراقیام ختم نہ ہوا۔ہم یہاں (packed) ہوچکے تھے، ہمارے آگے بھی اور ہمارے پیچھے بھی یہی کیفیت تھی۔کہیںپندرہ بیس منٹ بعدجا کر،ہم یہاں سے ہلنے کے قابل ہوئے ،وہ بھی ہم آگے کو نکلے ،پیچھے نہیں جا سکتے تھے۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔گرمی نے الگ پریشان کر رکھا تھا۔پیاس سے بھی برا حال تھا،ہم لوگوں کی ایک ایسی ندی میں پھنسے چل رہے تھے جو حرم کے صحن کی طرف جا رہی تھی۔صحن میں پہنچے اور کھسکتے کھسکتے توحید بلڈنگ کے برآمدے میں پہنچ گئے،سایہ میسر آیا کچھ دَم میں دَم آیا،اُ س لمحے کہیں سے پانی کی بوتل بھی عطا ہوگئی تو گویا عید ہوگئی۔سانسیں بحال ہوئیں،ہوش ٹھکانے آئے۔ کچھ دیروہیں فرش پر بیٹھے رہے،کچھ راستے صاٖ ف ہوئے توہم بلڈنگ کے اندر ایک ریستوران میں پہنچے اور دوپہر کا کھانا کھایا۔اِس دوران میں،ایک فون کال سننے کے بعد، شکیل بھائی کہنے لگے کہ میرے تو کچھ مہمان آرہے ہیں، مجھے توبلڈنگ میں واپس جانا پڑے گا۔میں نے عرض کی کہ،’’ ٹھیک ہے لیکن اگر مجھے اجازت دیں تو، اب آئے ہیں تو ، میں نمازعشاء پڑھ کرہی واپس جانا چاہوں گا۔‘‘
مجھے توشکیل بھائی نے بخوشی اجازت دے دی لیکن خود بادِل نخواستہ واپس چلے گئے اور میں حرم میں آگیا اور ایک بار پھر دیدکعبہ کے’’ لوشے‘‘ لینے لگاگویامچھلی پانی میں واپس آگئی تھی۔الحمدللہ ۔
جی چاہتا تھا کہ کعبہ کو لپٹ لپٹ کر جھپیاں ڈالوں،چوموں چاٹوں،لیکن کعبے کے دیگر متوالوں نے،مجھ سے بڑے عاشقوں نے ہجوم کیا ہوا تھا۔کعبے کو جپھی ڈالنا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔کعبے کو چمٹنا ، اصطلاح میں التزام کہلاتا ہے اور جس جگہ پر میرے آقاؐ،کعبے کی دیوار سے چمٹ کر کعبے کو چوماکرتے تھے اور دعائیں مانگا کرتے تھے اُس کو ملتزم کہتے ہیں۔یہ جگہ کعبے کے دروازے اور حجر اسود کے کونے کادرمیانی حصہ ہے۔چونکہ ، رش کے دنوں میں ملتزم تک پہنچنا محال ہوتا ہے اِس لیے چاہنے والوں کو کعبے کے جس حصے سے بھی چمٹنے کا موقع ملتا ہے ،وہ اُسے چمٹے ہوتے ہیں،لیکن میرے جیسے کمزور لوگوں کو تو یہ موقع بھی نہیں ملتا ۔ہم توصرف آنکھوں آنکھوں سے ہی ، پیارے کعبہ کو چوم لیتے ہیں،صرف نظری بوسے لینے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اوراِسی سے اپنا جی بہلالیتے اور خوش ہو رہتے ہیں۔لیکن آج میں نے تہیہ کیا ہوا تھاکہ کعبہ سے ضرور بغل گیر ہوں گا اور پھر نہ جانے کیسے یہ لذت بھی پانے میں کامیاب ہوگیا۔
الوداع حرم پاک الوداع
۱۷۔اگست ۱۹ء:
جمعہ کا دِن حرم میں گزرا۔رہ رہ کر یہ خیال آتا کہ خطہ حجاز میں آخری جمعہ ادا کرنے کی سعادت مل چکی ہے تو ،اب، گویا، یہاں سے ہمارے کوچ کے دِن شروع ہوچکے ہیں ۔اب ہر گزرتا لمحہ ہمیں پیارے بیت اللہ سے دُور لے جا رہا ہے تو ایسے میں آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اوردِل کرتا کہ کعبہ سے نظر نہ ہٹائی جائے،نہ جانے پھر اِس طرح دیدار کا کب موقع ملے ، ملے بھی کہ نہ ملے۔ہمارے ایرانی دوست یہاں سے الوداع ہوکر مدینہ طیبہ جا چکے اور وہاں سے اپنے وطن روانہ ہوجائیں گے۔ اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ جہاز بھر بھرکر حجاج کرام کو حرم سے دُور لے جارہے ہیں۔ ہماری جدائی کی باری بھی آنے والی تھی،بس ،یہ سوچ آتے ہی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔وسط جولائی میں جب یہاں آیا تھا تو کیسے حالات تھے اور اب وسط اگست میں کتنا کرم ہو چکا تھا کہ اِس دوران میں حج کی سعادت حاصل ہوچکی تھی ،یہ خاص میرے مالک کا کرم تھا،بس جیسے ہی یہ خیال آتا ،تشکر کے جذبات اُبھرتے اور چشم تر سے موتی ٹپکنے لگتے اور بے اختیار ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ جایاکرتے کہ’’ مولا!یہ سعادت بخشی ہے تو اِسے قبول بھی فرما اورمیرے اِس حج کو حج مبروربھی بنا ۔ ‘ ‘ جمعہ کوعشاء پڑھ کر،کمپنی کی مہیا کردہ سفری سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے،واپس ہوٹل میں آگیا اور صبح ۱۷۔اگست کو پھر دس بجے دِن حرم میں حاضر ہوگیا۔حرم میںرش کا وہی عالم تھاجو کل تھا۔مجھے تویہ لگتا تھا کہ حج کے بعد تو یہ رش بڑھ گیاہے۔الحمد للہ کہ ا ٓج بھی طواف کی سعادت حاصل ہوئی۔یہ طواف پہلے کے تمام طوافوں سے لمبا اور مشکل تر تھا لیکن ،اللہ کے فضل سے بہ سہولت ہو گیا۔ حرم میں ہی ایک دوست کا فون آیا کہ آپ اگر چاہیں توآپ کو طائف کی سیر کروائی جا ئے۔ یہ پیش کش ،اگر حج سے پہلے ملتی تو یقیناً میں قبول کر لیتا،لیکن اب جب کہ ہمارا حجاز سے وقت جدائی قریب آرہا تھا میںبقیہ وقت کا بیشتر حصہ حرم میں ہی گزارنا چاہتا تھا۔ویسے بھی خاکسار ابھی چند ماہ قبل جب عمرہ پر حاضر ہوا تھا تو طائف بھی حاضری دی تھی۔سیدی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی میں سفر طائف اور شہرطائف ایک اہم سنگ میل ہیں،اِس لیئے وہاں بار بار جانے کو دِل کرتا ہے لیکن لمحہ موجود میں ،کمی وقت کے سبب،بندہ اِس سفر کو اختیار کرنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا ،اِس لیے اُس پیارے بھائی کو انکار کرنا پڑا۔ میں جس چہرے پر نظر ڈالتا جہاں اُس کے چہرے پرفریضہ حج ادا کر چکنے پر اطمینان ہوتاتھا وہاں وہ مجھے، کعبہ سے جدائی پر، افسردہ ہی نظر آتاتھا۔ حقیقت یہی ہے کہ میری طرح ہر زائر کے یہی جذبات تھے۔حرم سے جدائی سب کے لیے مشکل امر تھا۔یہ کیسا مظہر (phenomenon)تھا،کہ مختلف ممالک اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے
رکھنے والے لوگ،مختلف سماجی ومعاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے بندے ، یہاں حرم پاک میں،مجھے ایک ہی جیسے جذبات واحساسات میں گرفتار نظر آتے تھے۔ہر آدمی ایک ہی طرح کی سوچ رکھتا تھا۔یہ بات صرف میرے سوچنے اور لکھنے کی نہیںبلکہ کئی لوگوں سے خاکسار نے اِن دو دنوں میں گفتگو کی،ہر آدمی یہی کہتا نظر آیا کہ حج ادا کرلیا ،اب یہی دعا ہے کہ رب تعالیٰ اِس دوڑبھاگ کو قبو ل فرمائے اور یہ کہ اپنے اپنے گھروں کو جانا توضرور ہے لیکن یہاں سے جانے کو دِل نہیں کرتا،کعبہ کی جدائی کاتصور رُلائے رُلائے دیتا ہے۔
اُ س بوڑھی خاتون کو کیسے بھول سکتا ہوں،نہ جانے کس ملک کی تھی،سپید رنگت اور کھلے ڈلے لباس سے غالباً جنوب ایشیائی ریاستوں کی لگتی تھی،چہرے پر جھریاں اُس کی پیرانہ سالی کی غماز تھیں،مسجد الحرام کے برآمدے کے فرش پرپڑی تھی ،روئے جارہی تھی ،اُس کے لواحق اُسے اُٹھاتے تھے اور وہ فرش کو چمٹ چمٹ جاتی تھی ۔ مجھے اُس کی زبان کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن اُس کی بدن بولی صاف بتلا رہی تھی کہ امّاں جی سے کعبہ کی جدائی برداشت نہیں ہورہی ہے۔اُس کے بیٹے اُسے کھینچتے ہیں گھر لے جانے کے لیے لیکن وہ اللہ کے گھر کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ یہاں پراِس طرح کے مناظر تو ان گنت ہیں ،کس کس کا تذکرہ کروں۔
دس ذوالحج سے جہاززائرین کو واپس لے جارہے تھے اور آج سولہ ذوالحج ہو گئی تھی،لوگ دھڑا دھڑاپنے اپنے وطن واپس جارہے تھے لیکن یہاں حرم میں رش کم نہیں ہو رہا تھا۔میرے لیے یہ بڑی بجھارت تھی جو حل نہیں ہورہی تھی تو میںنے ایک باباجی سے یہی بجھارت ڈالی۔میرے ساتھ وہ ، مغرب کی نماز کے انتظار میں صف میں بیٹھے تھے،انڈیا سے تعلق تھا،ساتواں حج کر رہے تھے،اُردو کم ،انگریزی زیادہ بولتے تھے۔میرا سوال سن کر ہنس پڑے اور فرمایا،’’بیٹا ، ایک اندازہ ہے کہ کم و بیش تیس لاکھ لوگ ،میدان عرفات میں تھے۔اُس تیس لاکھ کے تیس لاکھ نے آخری طواف بھی کر کے جانا ہے ۔اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ یہ پچیس تیس لاکھ کب بھگتیں گے اور کتنے دِنوں میں یہ رش ختم ہوگا۔بہر حال کسی لمبے چوڑے حساب کتاب کی ضرورت نہیں تھی ،میری بجھارت حل ہوگئی تھی۔بابا جی نے بتایا کہ،’’ میں طواف وداع کے لیے ہی آیا ہوں،کل ہماری روانگی ہے۔منیٰ سے واپسی کے بعد آج ہی حرم حاضری ہوسکی ہے ۔‘‘میں نے بابا جی سے پوچھا کہ آپ نے پہلا حج کب کیا تھا۔’’کہنے لگے کہ تیس سال پہلے اللہ پاک نے پہلی باررحمت فرمائی تھی اور حاضری کا اذن بخشا تھا۔ وہ بھی شدیدگرمی کے دِن تھے،غالباً جولائی کی کوئی تاریخیں تھیں جب ہم یہاں تھے۔ یہاں حرم میں ،منیٰ میں اور عرفات وغیرہ میں بڑے سخت موسمی حالات تھے۔اُس کے بعد بھی حج و عمرہ پر کئی بار آنے کی سعادت ملی اِس لیے سب یادیں مکس ہوچکی ہیں صرف ایک ہی یادباقی رہ گئی ہے اور وہ ہے اللہ کی یاد!‘‘
طواف وداع:18۔اگست ۱۹ء:
حج کے مناسک تو مکمل ہوچکے تھے البتہ ، ہمارا،ایک واجب ،ابھی رہتا تھا،یعنی ابھی ہم نے طواف وداع کرنا تھا۔ہمارے گروپ نے ،طواف زیارت کے وقت ہی یہ طے کر لیا تھاکہ ہم ،طواف وداع ،اتوار کے دِن ،۱۸۔اگست کوکریں گے کیونکہ ہم نے،اُس سے اگلے دِن ۱۹۔اگست کو وطن واپس جانا تھا۔اور پھر، وہ دِن بھی آگیا جب ہم نے سوہنڑے کعبہ سے ،اپنے پیارے رب کے گھر سے ،الوداعی ملاقات کرنی تھی ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ، جب اپنے آخری حج پر تشریف لائے تو اپنے سفر حج کے آخر میں طواف وداع فرمایا روایات میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ ،دس ہجری کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے۔مناسک حج مکمل کرنے کے بعد،۱۳۔ذوالحج کو منیٰ سے نکل کر ،منیٰ اور مکہ شریف کے درمیان وادی محصب میں رات کا قیام فرمایا۔سحری کے وقت سے ذرا پہلے قافلے کو،مدینہ کی طرف کوچ کا حکم صادر فرمایا۔قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوگیا ،تو پہلے میرے آقا ﷺ مکہ تشریف لائے،بیت اللہ کا الوداعی طواف فرمایا،پھر حرم میں ہی نماز فجر پڑھائی اور نماز کے بعدمدینہ شریف کے لیے روانہ ہوگئے۔ طواف وداع کی روح یہ ہے کہ آپ کے سفر کا آخری کام بیت اللہ میں حاضری اور اِس کا طواف ہو نا چاہیے۔اِسی میں خیرو برکت ہے اور اِسی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔لیکن ،ظاہر ہے، ہر زائرکسی نہ کسی قافلے کا حصہ ہوتا ہے۔عام طور پر لوگ یہ سفر مبارک اجتماعی طور پر کرتے ہیں،تو اِس صورت میں اجتماعی نظم و ضبط کا پابند رہنا پڑتا ہے اورنظم اجتماعی کی پابندی میں ہی رب تعالیٰ نے خیر رکھی ہے ۔ ہمیشہ سے ہی ،اُمت اپنے سفر حج کے آخرمیں ،مکہ سے روانگی سے عین پہلے، طواف وداع کا اہتمام کرتی آئی ہے۔لیکن ہمارا دین آسان ہے ،اِس لیے اِس میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ طواف وداع کے نام سے طواف کر لینے کے بعد،آپ مکہ میں رہ ہی نہیں سکتے یاعبادت کا کوئی عمل یا کوئی دوسرا دُنیاوی کام بھی، کرہی نہیں سکتے ،نہیں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ بہر حال ہم نے ،طواف وداع کو ایک ایونٹ کے طور پر منانے کا اہتمام کیا ہواتھا۔ہم اِن آخری لمحات کو یادگار بنانا چاہتے تھے۔اِس لیے ہم احباب اربعہ نے یہ فیصلہ کیا کہ طواف وداع کے لیے اکٹھے جائیں گے،اکٹھے رہیں گے،اکٹھے طواف کریں گے ،البیک سے کھانا کھائیں گے اور اکٹھے ہی واپس ،ہوٹل میںآئیں گے۔ نماز فجر محلے کی مسجد میں ،باجماعت اداکی۔اِس مسجد میں رش کم ہو گیا تھا۔بہت سے لوگ واپس جا چکے تھے۔ ہمارے ہوٹل کے بندے اور کچھ بنگلہ دیشی نظر آرہے تھے۔محلے کی اِس مسجد کے ساتھ بھی ایک قسم کا اُنس پیدا ہو گیا تھا ۔آج ہم نے بیت اللہ شریف کو تو، آج الوداع کہہ آنا تھا لیکن ابھی اِس مسجد میں ہماری نمازیں ہونی تھیں لیکن پھر بھی اِس کے لیے الوداعی جذبات پیدا ہو رہے تھے۔ہوٹل واپس آکر ناشتہ کیا،غسل کیا اور کپڑے تبدیل کیئے۔ ہم چاروں تیار ہوکر لابی میں آ گئے،آج ہوٹل کی گاڑی بھی جلدی مل گئی اور ہم بڑی آسانی سے دس بجے دِن حرم پہنچ گئے۔حاجی محمد یونس صاحب ،حسب معمول اصحاب اربعہ کی قیادت فرما رہے تھے۔حاجی صاحب اور شکیل نے ، دوسری منزل کے برآمدے میں اور اکرم بھائی اور اِس خاکسار نے مطاف میں طواف کرنے کا فیصلہ کیا۔حسب ِتوقع آج بھی غیر معمولی اژدہام تھالیکن اب ہم اِس رش کے عادی ہو چکے تھے اور ذہنی طور پر تیار رہتے تھے کہ وقت بھی زیادہ لگے گا اور دِقت بھی زیادہ اُٹھانی ہوگی اِس لیے کسی قسم کا خوف ، اب نہیں ہوتا تھا۔طواف وداع کی نیت کر کے ،ہم اِس تلاطم طواف میں داخل ہوگئے یہ ایک سیل رواں تھا اور ہم تنکوں کی مانند اِس میں بہے جا رہے تھے۔پہلا چکر ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درودسلام کا ہدیہ پیش کرنے میں صرف کیا۔اِس لمحے ،پیارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت یاد آئے۔ آپ ؐ کا طواف وداع یاد آیا۔آپ کا قیام مکہ یاد آیا،اُس دوران کے مصائب و آلام یاد آئے تو بس پھر رویا کیے ،نیر بہایا کیے اور پلک جھپکنے میںپہلاچکر مکمل،دوسرے چکر میں اپنے گناہوں کی پوٹلی کھول لی۔درِتوبہ کھلا تھا۔اپنے رب کے حضور اپنے ایک گناہ کوپیش کر کے معافی طلب کر رہا تھا۔خطاؤں کا ڈھیر لیے خطا کار اپنے پالنہار کے سامنے ایک ایک خطا پرعفو ودرگزر کا طالب تھا۔ایک یہ عاجز کیا، یہاں ہر بندہ اپنے پروردگار سے مخاطب تھا۔ہر بندہ اپنے مالک سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔
طواف کرنے والے قدموں کی چاپ کی ایک مخصوص آواز ہوتی جس کے ترنم اور سحر میں آدمی کھو سا جاتا ہے۔ سسکیوں،آہوں اورآہ و فغاں کی دھیمی دھیمی آوازیں انسان کو سحر زدہ کر دیتی ہیں۔اِس آخری طواف میں ،التجا و مناجات کا رنگ ہی اور ہو جاتا ہے۔
کڑاکے کی دھوپ پڑ رہی تھی۔پسینے نکل رہے تھے لیکن اللہ کے بندے معافی طلب کرنے میں ڈٹے ہوئے تھے ،نہ دھوپ کی پرواہ تھی اور نہ بہتے پسینے کی۔اللہ کا شکرانے ادا کیے جارہے تھے۔آئندہ کے بلاوے کے لیے درخواستیں پیش کی جارہی تھیں۔عزیزواقارب ،دوست و احباب سب کے لیے برابر دعائیں جاری تھیں۔ ایک چکر تو اپنے فوت شدہ عزیز واقارب کی بخشش کی دعاؤں کے لیے وقف تھا۔اِن میں قریب ترین فوت ہونے والی تو میری والدہ مرحومہ تھیں۔اُن کی یاد تو ہمیشہ رہتی ہے لیکن اِس الوداعی طواف میں تووہ بے تحاشا یاد آئیں۔اُن کے ساتھ گزرے ہوئے ساٹھ سالوں کا ایک ایک لمحہ اُن کی محبتوں کا،پیار کا ،قربانیوں کا اور شفقت و محبت کا یاد آتا تھا اور آنکھوںسے خون کے آنسوٹپکتے تھے۔سات چکر مکمل ہوگئے۔ لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا ،اورہم طواف کے بھنور سے باہر نکل آئے۔باب اسماعیل کے قریب دورکعت واجب الطواف ادا کی۔حاجی محمد اکرم صاحب تو مجھ سے بچھڑ گئے تھے ،البتہ یہاں باب اسماعیل کے اندر،حاجی صاحب اور شکیل بھائی ،مجھے اتفاقاًمل گئے۔ہم تینوں باہر نکل آئے۔ اب محمد اکرم صاحب سے رابطہ کیا،فون بند جارہا تھا۔ہم چلتے چلتے ہلٹن ہوٹل والی عمارت کے اندر چلے گئے۔اُس کی لابی میں شاندار نشست گاہ تھی۔اکرم بھائی کی آمد تک وہاں آرام کرتے رہے۔آج ہم نے حج مکمل کر لیا تھا۔بیت اللہ کی زیارت اور اُس کا طواف کر آئے تھے۔یہ الوداعی لمحات تھے۔جہاں اِس سفر سعادت کی کامیاب تکمیل کی خوشیاں تھی اور ڈھیروں خوشیاں تھیں،وہاں کعبہ سے ،مسجد الحرام سے اور مولد ومسکن رسول اللہ سے جدائی کا غم بھی تھااور یہ غم بھاری تھا۔کعبہ سے اور کعبہ کے ماحول سے ہماری آخری ملاقاتیں جاری تھیں۔اِن عجیب وغریب کیفیات میںہم حرم پاک کی ایک ایک چیز کا نظارہ کر رہے تھے۔یہاں کا گزراہواایک ایک لمحہ یادوں میں بسا تھا ۔ سب یادیں لذت آمیز تھیں۔یہ یادیں ہمارے لیے قیمتی سرمایہ حیات ہیں۔اکرم بھائی کے آجانے پر ،ہم یہاں سے اُٹھے اور کھانا کھانے کی نیت سے جبل عمر کی طرف چلے۔یہاں ،سوق الخلیل میں البیک کا ایک آؤ ٹ لیٹ(outlet) ہے۔وہاں پہنچ کر بھائی شکیل تو البیک والوں کے سامنے لگی لمبی لائن میں لگ گئے اور ہم نے ،کھانے کے لیے خالی میزوں کی تلاش شروع کر دی اور بڑی مشکل سے ایک سیٹ پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔اصحاب غرفہ کی میزبانی کا شرف ،آج اِس خاکسار کو حاصل ہورہا تھا۔بڑا پرلطف اور مزیدار ظہرانہ تھاجس کو ہم چاروں نے خوب انجائے کیا۔ اب تک تو ہمیں البیک کے چرغے کھانے کا تجربہ تھا آج پہلی بار اِس عظیم الشان ادارے کی مچھلی کا تجربہ کیا جوکہ انتہائی شاندار رہا۔نماز ظہر کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہاں سے نکل کرمسجد کی طرف آئے تو انسانوں کا ایک سیلاب مسجد کی طرف بڑھ رہاتھا۔ہمیں اندازہ ہوگیا کہ مسجد کے اندر جانا تو اب محال ہے سو ہم نے ایک بار پھر ہلٹن ہوٹل کی بلڈنگ میں واقع نماز گاہ کا رُخ کیا۔یہ بلڈنگ مسجد الحرام کے جنو ب مغربی باہری صحن سے متصل ہے اِس بلڈنگ کے اندر دوبڑے بڑے ہال ، صرف نماز کے لیے مختص کیے گئے ہیں ۔ یہاں پر نماز امام کعبہ ہی کے اقتدا میں ادا کی جاتی ہے۔اتنے میں اذان ظہر کی صدا بھی آنے لگی۔حرم میں یہ ہماری آخری نماز تھی جو ہم نے امام کعبہ کے پیچھے ادا کی۔ الوداعی خیالات کے باعث نماز میں خاصی رقت انگیزکیفیت طاری رہی۔نمازظہر ادا کر لینے کے بعد، ہم ،’’الوداع الوداع اے حرم پاک الوداع‘‘ کہتے کہتےٹیکسی اسٹینڈ کی طرف آئے اور ٹیکسی کرکے کدائی بلڈنگ پہنچ گئے۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔
وطن واپسی:
20اگست ۱۹ء:
۲۰۔اگست کو پونے تین بجے صبح ہمارے جہاز کی جدہ سے لاہور کے لیے روانگی تھی۔
ٹریول ایجینسی کی انتظامیہ نے ہمیں ،۱۹۔ اگست کو چار بجے سہ پہر تک کا وقت دے رکھا تھا کہ اِس وقت جدہ لے جانے کے لیے بسیںآجائیں گی۔لہٰذاہمیں اِس دیئے گئے وقت کے اندر اندر تیار ہوکر اپنے سامان سمیت لابی میں آجانا تھا۔اسی شیڈول کے تحت ہم کل ہی بیت اللہ سے وداع ہو آئے تھے۔آج محلے کی مسجد میں ہی نماز فجر ادا کر کے ہم چاروںنے اپنا سامان سمیٹنا اور باندھنا شروع کر دیا۔ میرے سامان کی ساری سمیٹ سنبھال اور پیکنگ ،میرے ہم غرفہ ساتھیوں نے کی ۔ اللہ کریم اِن حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے،پورے اہتمام اور مکمل احتیاط سے اِن لوگوں نے یہ خدمت انجام دی۔نماز ظہر کے وقت تک ،ہم چاروں مکمل طور پر تیار ہو چکے تھے۔ نمازظہر اور عصرمقامی مسجد میں ادا کیں اورمسجد کو الوداع کہہ آئے۔ چار بجے بسیں بھی آگئیں۔سامان وغیرہ لادا جانے لگااور تقریباً سوا پانچ بجے ،بسیں ہمیں بٹھا کر ،موقف کدائی سے باہر نکل آئیں۔
ہم سب کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھی۔بس میں اُداسی چھائی تھی اور یوں برستی آنکھوں میں ہم مکہ مکرمہ کو چھوڑ آئے ۔ مکہ مکرمہ میں ہم نے عزیزترین وقت گزارا تھا۔ایک ایک لمحہ اب یاد آرہا تھا۔رہ رہ کر میں ،مکہ کی شاہراہوں پر دوڑتی بھاگتی بس کی کھڑکی سے مکہ ٹاور کو دیکھتا رہتا،جو کبھی قریب اور کبھی دُور ہوتا اور کبھی غائب اور کبھی حاضر ہوتا اور مکہ ٹاورسے آنکھ مچولی کھیلتے ،ہم مکہ شریف سے،گھنٹہ بھر بعد، باہر نکل آئے۔ ۱۹ ۔اگست کا سورج ،انھی شاہراؤں پرہی ،ہمیں الوداع کہہ کرغرب میں غروب ہو گیا۔ سوا پانچ بجے کے چلے، رات کے آٹھ بجے، ہم جدہ ایئرپورٹ پر پہنچے۔ائیر پورٹ پر پاکستانی رضاکاروں نے ہمارا استقبا ل کیا اوراُن کی رہنمائی میں ایئر پورٹ کی اوپن انتظار گاہ تک پہنچے۔نماز مغرب و عشاء اِسی انتظار گاہ میں،جمع کرکے ادا کیں۔اِن رضا کاروں کی طرف سے ، ہلکے پھلکے کھانے کا بھی اہتمام تھا جو ڈبوں میں بند شکل میں ہر زائر تک پہنچایا گیا۔یہ لوگ ،نہ جانے کون تھے اور کس کے کہنے پر ہماری خدمت کر رہے تھے ،مجھے نہیں معلوم ، لیکن اِن کی وہاں موجودگی ہمارے لیے بے پناہ آسانی اور آسودگی کا باعث تھی ۔ انھی رضاکاروں کی رہنمائی میں ہم چیک اِن ہال میں پہنچے۔سوا گیارہ بجے رات چیک اِن شروع ہوا۔مجھے سامان کے بارے میں تھوڑی بہت پریشانی تھی لیکن ، الحمدللہ بڑی نرم تفیش و پڑتال کے بعد ، ہمارا سامان بک ہوگیا اور ہم بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج میں آگئے۔اِس سارے عمل کے دوران میں تاریخ بھی بدل کر ۲۰۔ اگست ہوگئی۔پی آئی اے کی پروازٹھیک وقت پر جدہ سے روانہ ہوئی اور بڑی ہموار اُڑان بھرتے ہوئے ،یہ جہاز اپنے وقت پر ہی سوا دس بجے دِن ،لاہور ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
رُوئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد