سفر نامہ
عمرہ2022-23 ع
ڈاكٹر انوار احمد بگوي
زندگی یوں تو ایک ایسے سفر کا نام ہے جو یوم الست سے انسان کی آخری سانس تک تسلسل سے جاری رہتا ہے۔ زمین کے اوپر سے اس کے نیچے جانے کے مختصر ترین سفر کے بعد پھر ایک اور لامتناہی سفر درپیش ہوتا ہے جس کا ہم زبانی اعتراف تو کرتے ہیں مگرشعوری ادراک سے آنکھیں چرا لیتے ہیں ۔بے جان قبروں کی دل و جان سے پوجا کرتے ہیں مگر سمجھتے یہ ہیں کہ اس کے اندر کوئی اور ہے ہماری باری نہیں آنے کی! موت کی حقیقت سے یہ چشم پوشی اور پہلو تہی ، جو واعظ سے لے کر کاروباری تک ہم میں سے اکثر لوگوں کا عقیدہ اور ان کی زندگی کا چلن ہے۔ ورنہ آج مسلمانوں کی دنیا اتنی بری نہ گذرتی۔پاکستان معاشرتی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے اتنا مفلس اور بے لباس نہ ہوتا۔
دنیا کے ان سفروں میں ایک سفر حر مین کا ہے جس کا ایک چھوٹا سا حصہ عمرہ کہلاتا ہے۔
انسان زندگی بھر مختلف خوابوں کی تکمیل کے لئے تگ و دو کرتا ہے مگر کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل میں تو بسے رہتے ہیں لیکن محدود وسائل اور لا محدود مسائل کے باعث ان کی تعبیر اکثر خیالوں میں ہی آباد رہتی ہے۔ پھر یکا یک دل ہی سے پکار اٹھتی ہے لبوں سے نکلی ہوئی طلب کو جیسے بہانہ چا ہیے،یوں اچانک خیال ایک مصمم ارادہ بن جاتا ہے، غیب سے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور طالب دید حرم کی جانب کچے دھاگے سے بندھا اڑا چلا جاتا ہے!
زندگی روز مرہ کی ردٹین پر اپنے معمولات کے ساتھ بسر ہو رہی تھی ۔دور دور تک کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اچانک منزہ بیٹی نے عمرے کا فیصلہ کیا ، اس کے انتہائی مصروف شب روز میں یہ کرن کیسے پیدا ہوئی،یہ الگ داستان ہے ۔خواب سے تعبیر کا یہ سفر منزہ نے کیسے طے کیا یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ پہلے اس کے میاں تیار ہوئے ، پھر اس کی بیٹی رابعہ نے اپنی جمع پونجی ڈھیر کر دی۔جب منزہ نے اپنی ماں کو اپنے خواب کا بتایا اور تعبیر کے لئے دعوت دی وہ تودل میں پہلے ہی ارمان لئے بیٹھے تھی جیسے چنگاری کو شعلہ بنتے دیر نہ لگی۔ میں ابھی تک صرف ناظر اور سامع(Spectator & Listner)تھا اور کنارے پر لہروں کو گن رہا تھا۔جب اہلیہ نے سفر کی ٹھانی تو سوچا کہ اب تک زندگی کا ساراسفر ایک ساتھ کیا ہے، یہ آخری بھی ایک ساتھ ہو نا چاہیے۔ سو عصبیت اور محبت میں یہ درویش بھی مائل بہ پرواز ہو گیا۔
جدید ٹیکنالوجی نے زندگی کی ضرورتوں کوپورا کرنے کے لئے راستے بہت آسان بنا دیئے ہیں۔ اب کسی معلم یا گروپ لیڈر کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔ آپ آن لائن(On Line) معلومات، رہنمائی ،ٹکٹ، ویزہ، ہوٹل بکنگ(ہوٹل کے کمروں کی تصویر اور نر خوں کے ساتھ)، ٹیکسی اور دیگر لوازماتِ سفرو حضر گھر بیٹھے پورا کر سکتے ہیں۔ منزہ نے ایک مقامی ایجنسی اور ذاتی رابطے کے ذریعے سفر کے تمام مر حلے اکیلے سر انجام دیئے۔ بیرون ملک کا یہ واحد سفر ہے جس کے لئے ڈار اور بائیڈن یعنی ڈالر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حسب مقدور اور مطابق ضرورت لوکل مارکیٹ سے سعودی ریال باآسانی فراہم ہو جاتے ہیں۔ہم جیسے بزرگوں (Senior Citizens)کے لئے زیادہ تیاری تو ضرورت کی دواؤں کی دستیابی ہو تی ہے ۔سفر اور قیام کے لئے باقی سامان فرحت نے اپنے معمول کے تجربے کے مطابق بخوبی اور با آسانی فراہم کر لیا۔ گو مجھے سامان کے نگوں(Items ) کی تعداد سے وحشت ضرور ہوئی لیکن جب سارے کام خود ہی سر انجام پا رہے تھے اور ہر چیز ملک سے باہر جاکر وقت پر بہت کار آمد ثابت ہوئی تو یہ کڑھنا گویا عادت کا نتیجہ ہی قرار دیا جا سکتا تھا۔ورنہ عملاً سب اچھا اور خود بخود ہو رہا تھا!
اتفاق ہے یا سوء اتفاق کہ بکنگ PIA کے ذریعے ہوئی جو PDM کے دور میں روز قرقی کے دھڑکے سے دو چار ہے٭۔ٹکٹ کے مطابق ہوائی جہاز منگل 26 دسمبر2022 ع کو شام 5 بجے لاہور سے اڑنا تھا کہ خبر آئی کہ پرواز تاخیر کا شکار ہے۔پھر خبر آئی کی دھند کے باعث پرواز اگلے روز لاہور کی بجائے اسلام آباد سے اڑے گی۔
چنانچہ لاہور ایئر پورٹ کی بجائے دو گاڑیوں میں لدے موٹروے سے راولپنڈی پہنچے۔ شاہد بگوی اور ان کی حد درجہ مہمان نواز بیگم رفعت چشم براہ تھے۔ رات ان کی خاطر مدارات سے لطف اندوز ہوئے۔ اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے نکلے اورسوا گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد احمدمنصور بگوی کے ساتھ اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچے۔ لگتا تھا جیسے ایئر پورٹ کی سر گرمی سخت سردی کی وجہ سے ماند پڑچکی ہے۔داخل ہوتے ہوئے سکیننگ / سکریننگ پر بیٹھی ہوئی ائیر پورٹ کی خاتون نے ایک بیگ میں مشکوک سا عکس پایا۔ سکریننگ کے لوگ اپنے کام سے شناساہوتے ہیں لیکن فیملی کے پانچ ارکان کو دیکھ کر وہ غلط صحیح کا اندازہ نہ کر سکے۔ احتیاط اور مشکل سے پیک شدہ سامان کو بیگوں سے الٹوایا۔ اسے ٹٹولا ، پیندے کا سونگھا، ایک اور ماہر کھوجی کو بلا لیا، انہیں ملنا کیا تھا۔ بے وقت اورآغاز سفر میں پریشان کرنے کی کسی نے معذرت بھی نہ کی ۔مسافر یقیناً اس دفتری ڈرون حملے سے Embarrass ہوئے۔ اس بد نظمی اور غیر علامتی بد تمیزی سے نجات ملی تو بکنگ تک پہنچے۔ سامان بک کیا اور بورڈنگ کارڈ حاصل کئے۔ پھر امیگریشن سے گذرے اور آخر داخلی ویٹنگ ایریا میں جا کر دم لیا۔
یہ نیا ائیر پورٹ ہے جو معزول اور Disgraced وزیر اعظم نواز شریف کے عہد میں تعمیر ہوا تھا ۔ لوہا اور گلاس اور فائبر شیٹ ، ساری عمارت گویا ان تین عناصر پر مشتمل ہے۔ دو گھنٹے کے انتظار کے دوارن خبر ملی کہ جہاز صرف دو گھنٹے لیٹ ہے۔ اس وقت ہم اس لابی میں پہنچ چکے تھے جہاں سے مسافر جہاز میں بیٹھنے کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ یہاں پہنچے تو ایک اور اعلان ہوا کہ جہاز مزید ایک گھنٹہ لیٹ ہے اور اب2 بجے دوپہر روانہ ہو گا۔ بے کار، بے فائدہ انتظار کاٹنا کتنامشکل ہے۔
٭تمام تر معلومات اور ہدایات دینے کے باوجود PIA نے بکنگ میں پہلا گھپلا یہ کیا کہ ہمارے سب سے چھوٹے مسافر رابعہ کی بکنگ ہم سے ایک روز پہلے کی فلائٹ میں کر دی گویا وہ 12 گھنٹے پہلے سفر پرروانہ ہو گی اور مدینہ ایئر پورٹ پر اپنی فیملی کے آنے کا انتظار کرے گی؟ عامر اور منزہ پہلے پی آئی اے کے مین آفس اور پھر لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے وہاں کئی گھنٹے کی کوشش اور تعاقب کے بعدغلطی درست ہوئی اور اسے فیملی کے ساتھ اسی پرواز میں اور ساتھ نشست مل سکی۔ خدا خدا کر کے جہاز میں سوار ہوئے اور وہ ڈھائی بجے سوئے حرم روانہ ہوا۔
جہاز کے اندر کا نقشہ پیش کرنا تفصیل طلب ہے۔ بس یوں سمجھئے جو حال پاکستان کا ہے اس جیسا حال پی آئی اے کے اس جہاز کا تھا! غربت ایک عذاب ہے مگر بے حسی اور لا پروائی، دہرا عذاب، افلاس میں بھی ذرا محنت اور تھوڑی توجہ سے پرانی چیزوں کو اچھے سلیقے اور ڈھب سے بحال کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں سرے سے نیت نہ ہو، کوئی اس ملک اور اس کے اثاثے کو Own نہ کرتا ہو توکسی عمارت،ریلوے یا جہاز کاحشر پرائے مال جیسا ہوتا ہے۔ اندر پہنچ کر ہمیں جو دو سیٹیں دی گیئں وہ سرے سے غلط اور عام سیٹیں تھیں جبکہ منزہ نے 12 ہزار روپے اضافی ادا کر کے آنے جانے کے سفر میں ہماری آگے کی سیٹیں بک کروائی تھیں جہاں لمبے سفر کے دوران ٹانگیں پساری جا سکتی ہیں۔ کافی حیص بیص کے بعد عملے نے طے شدہ سیٹیں دیں ورنہ ایسی خالی سیٹوں کو دوران پرواز ہی نقد فیس لے کر بیچ دیا جاتا ہے۔ بہر حال یہ منزہ کی ہمت تھی کہ وہ عمرانی جذبے کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اورآخر اپنا جائز حق لے کر رہی۔
ہوائی میزبانوں نے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے جہاز اڑتے ہی شام سے پہلے ہی ڈنر سرو (Serve)کر دیا ۔ شاید لاہور کے کسی لنگر یا دربار کی بریانی ،اس خریدے ہوئے سرکاری کھانے سے زیادہ لذیذ ہو ۔ میزبان سے کافی کا کپ پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو ایک ماہ سے سپلائی نہیں ہو رہی!اس کے بعد پھر بحث کی تاب نہ رہی۔
مدینہ ایئر پورٹ پر اترنے اور اسے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ایک بار1995 ع میں شام کے سرکاری سفر سے لوٹتے ہوئے سہ روزہ عمرہ کیا تھا۔ تب جدہ میں اتراتھا اور میرے میزبان ملک کے معروف کنٹریکٹر مرحوم حاجی نذیر احمد صاحب تھے۔ وہ ممتاز منتظم ڈاکٹر خالد سیف اللہ خان صاحب کے پکے دوست تھے۔ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے یوں یہ درویش حاجی صاحب کی مہربانیوں سے فیض یاب ہوا۔دوسری بار 2014 ع میں خاندان کے ایک بڑے وفد کے ساتھ بھی جدہ میں اترا تھا۔تب جدہ کا ایئر پورٹ ابھی بدویانہ تھا۔ مدینہ ایئر پورٹ سادہ صاف اور اچھا نظر آیا۔ امیگریشن کے لئے لمبی لائینیں تھیں کیونکہ کئی ممالک کے زائرین ایک ساتھ جمع ہو گئے تھے۔کھڑے رہ کر انتظار کا لمبا اورمشکل مر حلہ درپیش تھا کہ اچانک ایک سعودی آفیسر کو دیکھا جو ایک خاتون کوجس کی گود میں چھوٹا بچہ تھا قطار سے الگ کر رہا تھا ۔پھر اس نے میری اہلیہ کو دیکھا جن کے ہاتھ میں چھڑی تھی تو اس نے مجھے ان کے ساتھ الگ ہونے کا اشارہ کیا اور ایک دوسری جانب جانے کو کہا۔ یہ بزرگوں اور بچوں والی خواتین کے لئے الگ امیگریشن کاؤنٹر تھا۔ میں نے بتایا کہ ہم پانچ زائر ہیں تو اس نے سب کو اکٹھا ایک لائن میں کھڑا کر دیا اور یوں سینکٹروں کے ہجوم میں سے اللہ نے جلد امیگریشن کی سہولت بہم پہنچائی۔ سعودی سٹاف کا بھی پہلی بارایسا اچھاانسانی اور اخلاقی رویہ دیکھا ۔ یقیناً یہ خوشگوار تبدیلی ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم دفتری مراحل سے فارغ ہو کر سامان لے کر باہر آ چکے تھے۔سامان کو ڈھونڈنے کے لئے کوئی زیادہ تر دد نہیں کرنا پڑا۔ سامان کے لئے ٹرالیاں بھی آسانی سے اور مفت مل گئیں۔چنانچہ مزدوری کے ساتھ ٹرالی کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔
ٹرمینل کے خروج کے دروازوں کے باہربنچوں پر سستانے اور بک ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران رابعہ نقد ادا کر کے لوکل SIM خرید لائی اور یوں ہم سعودی عرب اور مدینہ سے Connect ہو گئے۔ میں ویسے ہی برآمدے میں ٹہل رہا تھا اورسرے پر واقع ایک کیفے پر مشروبات کے نرخ پڑھ رہا تھا۔ اس دوران ایک سعودی نوجوان آیا جس نے کافی طلب کی ۔اس نے مجھے دیکھا توعربی میں کافی کے لئے اصرار کیا اور میرے انکار پر پانی کی بوتل پیش کی جسے میں نے شکر یے کے ساتھ قبول کر لیا۔ ایک عام سعودی شہری کا ایک عام زائر کے ساتھ از خود بات کرنا اور ایسا بر تاؤ کرنابہت اچھا لگا۔ یہ واقعی ایک تبدیلی ہے!تھوڑے انتظار کے بعد ٹیکسی پہنچ گئی۔ یہ ٹیکسی بہت کھلی تھی، اس میں بھاری بھر کم سامان کے ساتھ پانچ سات مسافر آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ سامان لادنے میں ڈرائیور نے بھی مدد دی حالانکہ وہ شکل اور زبان سے عرب ہی لگ رہا تھا۔ یہ عر ب یمن ، عراق، شام ، مصر کسی بھی عرب ملک سے ہوسکتا تھا کیونکہ ایسے کام سعودی نہیں کرتے۔ ائر پورٹ سے نکلتے ہی چیک پوسٹ پرڈرائیور کاپولیس سے ٹاکرا ہو گیا۔کافی بحث تمحیص کے بعد ڈرائیور کی جان چھوٹی۔ کیا ہوا؟ ڈرائیور کو سوائے عربی کے کوئی اور زبان اردو ، ہندی، انگریزی کی شدبُد نہ تھی اس لئے کچھ معلوم نہ ہو البتہ یہ نظر نہیں آیا کہ ڈرائیور نے اپنے کاغذات دکھاتے ہوئے ان کے درمیان پاکستانی انداز میں کوئی کرنسی نوٹ رکھا دیاہو گا؟بعد میں ڈرائیور عربی میں بڑبڑاتا رہا جو ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا۔
گھنٹہ بھر کی مسافت کے بعدحرم کے نزدیک پہلے سے طے شدہ نبراس ہوٹل پہنچے جو ظاہر وباہر سے پرانا لگ رہا تھا۔ چھوٹی سی لابی مہمانوں سے اٹی ہوئی تھی۔ پرانے مہمان ہجوم کی شکل میں لفٹوں کے سامنے اوپرجانے کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ نئے مہمان اپنے سامان کے ساتھ کمروں کے خالی ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔عربی شکل کے مالک دفتر میں گپوں میں مصروف تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ ہمارے لئے اس پرانے ہوٹل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی اثناء میں منزہ آرام سے نہیں بیٹھی۔لوکل سم کے ذریعے وہ مکہ کے بکنگ کارندے سے رابطے میں تھی۔ہمارے لئے وہ کسی اور ہوٹل کی تلاش میں تھا۔ادھر مسافروں کو بھوک لگنا شروع ہو گئی تھی۔ یہ معلوم نہ تھا کہ کب اور کہاں رات کا پڑاؤ ہو گا بس افرا تفری کا عالم تھا۔ہوٹل کے باہر کوئی کھابہ دکان نہ تھی۔ہوٹل کے اندر رابعہ اور میں تلاش میں نکلے۔ ہوٹل کی پہلی منزل پر میزیں بچھی تھیں اور چند لوگ بے دلی سے کھانا کھا رہے تھے۔ ہوٹل کا مالک اور اس کے بیرے تمام پاکستانی اور پنجابی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کھانا تو ختم ہو چکا ہے۔ البتہ کچھ چپاتیاں اور کڑھی دستیاب ہے۔ اس دعوت کو غنیمت جانا اور دو گروپوں میں Left over سے وقت گزارا اور اس پر الحمداللہ کہا۔چونکہ ہوٹل میں آخری کھانا تھا اس لئے روٹیاں جلی ہوئی اور سالن بھی تلے کا تھا۔ دہی پکوڑوں کی کڑھی اور آلو گوشت کی ایک ایک پلیٹ ، پانچ افراد کے لئے مطالبہ 25 ریال کا تھا جب کھانا ناکافی رہا اور منزہ نے کھایا بھی بہت کم تو 12 ریال پر IMF کے ساتھ ڈیل ہو گئی!اس دوران میں لوکل کارندے نے ایک ٹیکسی بھیجی اورڈرائیور کو فون پر عربی میں ہی ایک ہوٹل کا اتہ پتہ دیا۔یہ ڈرائیور صحیح اعرابی یا بدو تھا جیسے ہمارے ہاں کا سادہ لوح اور ان گھڑ دیہاتی۔ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت ساتھ ساتھ زبانی اور کبھی عامر کے فون پر کارندے سے الجھتا رہا ۔لہجہ یوں لگتا تھا جیسے پشتو میں سنا رہا ہے۔ ایک دائرے میں کافی دیر گھومنے کے بعد آخر کارندے نے ضروری سمجھا اور وہ خود ٹیکسی میں آ بیٹھا اور ہمیں فندق( ہوٹل) کرم طیبہ الماسی لے آیا۔ دو مختلف منزلوں پر کمرے ملے لیکن ان کو آرام دہ پایا۔ ہوٹل کا مینجر ایک بنگالی تھا ، ماحول پر سکون پایا۔ سامان رکھا ، غسل کیا اور رات گئے عامر، منزہ اور رابعہ کے ساتھ مسجد نبوی کو چل دیئے۔مدینہ میں رات گئے پہنچ کر جتنی کوفت اور بے آرامی ہوئی تھی اس ہوٹل الماسی نے سب کافور کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ ہوٹل اور مسجد نبوی کے بیرونی صحن کے درمیان صرف 15 فٹ کی ایک سڑک حائل تھی۔ معاًذہن میں مولانا محمد علی جوہرؒ کا مصرع گونجنے لگا:اک بندہ عاصی کی اوراتنی مداراتیں!
مسجد کے اندر باب سعودسے داخل ہوئے۔ خواتین کا گیٹ بھی پاس ہی تھا،۔ یہ توقع ہی نہ تھی کہ ہم مسجد نبوی کے اتنے قریب اس کے ہمسائے میں پنا ہ گزین ہونگے۔ مسجد میں آنا جانا اتناسہل ہو گا۔مسجد جتنی باہر روشن تھی اس سے کہیں روشن اس کا داخل تھا۔ جگہ جگہ گروپ نماز شاید عشا ادا کر رہے تھے۔ عشا کی نماز پڑھی اور ایک پارہ تلاوت کی۔
موسم لاہور جیسا تھایعنی سردی تھی مگر گوارا، سر پر ٹوپی اور منصور کا گرم پل اوور کام دے رہا تھا۔ اگلی صبح جلد تیار ہو کر تہجد کی اذان پر مسجد میں پہنچ گئے۔ہمارے پہنچتے پہنچتے مسجد کے داخلی دالان کھچا کھچ بھر چکے تھے۔اندر جا کرایک آخری صف میں بمشکل جگہ مل سکی۔ بیرونی صحن میں نمازیوں کی آمد جاری تھی۔ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی کثیر تعداد میں مگر حیران کن حد تک کہ مطلقاً شور یا ہنگامہ نہیں تھا۔ ورنہ جہاں چا ر جی اکٹھے ہوں وہاں ضرور اونچی آواز میں باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔شاید یہ مسجد نبوی کا ایک فطری احترام تھا جو ہر مسلمان کے دل میں نسبت رسول کے حوالے سے جاگزیں ہے۔
نماز،نوافل، تلاوت اور درود ،طواف کے بعد عبادت کے اہم عناصر ہیں۔ ویسے ہر نماز کے بعد صلوۃ الجنازہ کی صدا آتی ہے۔ روزانہ ہر نماز کے بعد لوگ ذمہ واری سے جنازہ پڑھتے ہیں اگرچہ بعد جماعت نوافل کم پڑھتے ہیں مگر فرض ادا کرنے کے بعد جلد نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے جیسے مسجد کے اندر بیٹھنا بھی وجہ سکون و راحت ہے۔اگلی صبح نماز کے بعد مزار اقدس کی طرف گیا۔ پہلے سامنے کا راستہ کھلا تھااب پارٹیشن کی وجہ سے راستہ تنگ ہو گیا ہے۔ سخت رش کے باوجود ہجوم آہستہ آہستہ اور کم و بیش بے آواز جنوبی سمت سرک رہا تھا۔ ہر زائرکا اپنی محبوب ہستی سے اپنائیت اور محبت کے اظہارکا اپنا ہی انداز تھا، کوئی درود پڑھ رہا تھا اور کوئی زیر لب اردو کا سلام دہرا رہا تھا،ایک زائرپنجابی کی نعت گنگنارہا تھا، جگہ جگہ مغربی دیوار کے ساتھ پہریدار ایستادہ اور صفائی والے لوگ شاپر پکڑے کھڑے تھے تاکہ استعمال شدہ ٹشو سنبھال لیں۔
مزار اقدس کی طلائی جالیوں کے سامنے چند فٹ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ یہ دیوارجالیوں تک جانے میں رکاوٹ ہے۔ پہلے جالیوں کے ساتھ عربی عملہ تعینات ہوتا تھا جو" شرک شرک" کی گردان کے ساتھ زائرین کو جالیوں کے چھونے سے روکتا تھا۔ اب چھوٹی دیوار اور جالیوں کے درمیان پہریدار کھڑے ہیں۔ زائرین کچھ فاصلے سے چند لمحوں کے لئےمواجہ شریف کو دیکھتے ہوئے شمالی دروازے سے باہرنکل جاتے ہیں۔مواجہ شریف کے لئے داخل ہوتے وقت کچھ لوگ الگ قطار میں چلے جاتے ہیں یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو رجسٹریشن کے بعد ریاض الجنہ میں دونفل پڑھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ پہلے صورت حال پاکستان جیسی تھی کہ جو ماردھاڑ کر کے اندر گھس جانا وہ ثواب کمالیتا تھا، اب ریاض الجنتہ میں جانے کا طریقہ مختلف ہے۔ کمرشلائز نہ ہوا تو نعمت مفت بٹتی رہے گی۔ درودو سلام پڑھنے کے باوجود ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے کہ ایک گنہ گار کیونکر یہاں پہنچ کر دل کھول کراپنا دکھڑا سناسکے۔ شمالی دروازے سے باہر نکلا تو ایک جگہ کچھ پاکستانی زائرسٹولوں پر اور کچھ کھڑے ہو کر ، مواجہ شریف کی منہ کر کے اور ہاتھ باند ھ کر نعتوں میں سلام پیش کر رہے تھے۔عقیدت کے ایسے اظہار کے لئے پہلے ڈر خوف تھا،شاید اب وسیع المشرب سیلمانی سرکار نے اپنے کاروبار کووسعت دی ہے؟ چنانچہ اب اس عمل پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ بہر حال عقیدت و محبت کا یہ اپنا انداز ہے جو باقی اقوام سے مختلف ہے۔مسجد نبوی کے چاروں طرف پورا چکر لگایا۔جماعت کے دوران امام سے پیچھے رہنے کے لئے مغربی سمت میں نشانات لگائے گئے ہیں تاکہ بیرونی صحن میں نماز ادا کرتے وقت مقتدی اپنے امام سے آگے نہ نکل جائیں۔ مسجد نبوی کے تمام دروازوں اور راستوں کے نمبر ہیں۔ ہر بڑے چھوٹے دروازے سے زائرین آجارہے تھے۔ گردا گرد بپھرتے ہوئے جنت المعلیٰ کی طرف گیا۔ مختلف زبانوں میں زیارت قبورکے آداب بڑے بڑے بورڈوں پر لکھے ہوئے ہیں ۔گو ان بورڈوں کو رک کرکوئی پڑھتے ہوئے نظر نہیں آیا لیکن قبرستان میں کہیں ان ہدایات کی Violations بھی نظر نہیں آئی۔یوں زائرسعودی ہدایات اور احکامات کی بظاہر پابندی کرتے ہیں۔ ہماری قبروں کی طرح سنگ وخشت کے نادر تعمیری اور اظہار امارت کے لئے مہنگے عجوبے نہیں ہیں بلکہ بس دور دور تک مٹی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ہیں جن میں اکثر پر کالے پتھروں کے ٹکڑے قبر کا نشان دیتے ہیں۔ کوئی نام اور نہ کوئی نشاں ، مجھے پاکستان کے قبرستانوں کا نقشہ یاد آیا۔ جہا ں ایک سے ایک بڑھیا، دلکش اور مہنگی قبر یں بنائی جاتی ہیں۔ سنگ مر مر، سنگ سرخ، نقش و نگار، پھولدار ٹائیلز، تعویذ،پورا تعارف، چھت، بجلی اور پنکھا ، بیٹھنے کے لئے نشست،پانی پینے کے لئے الیکٹرک کولر، گویا یہاں ایک قبر غریب کی کٹیا سے زیادہ مہنگی ہے۔جس عظیم الصفات نبی اقدس ﷺ سے ہم اظہار محبت کرتے ہیں ان کے اعزہ اور احباب کی قبروں کا نمونہ بھی ہمارے لئے قابل عمل ہونا چاہیے۔
سعودی حکومت کے نان کمرشل کاموں میں ایک بہترین کام یہ بھی ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی دونوں جگہوں پر اس کے اپنے شائع شدہ ایک جیسے مصحف رکھے ہیں۔ وہ مصحف جس میں رکوع اور پارے نہیں ہوتے وہ زیادہ تعداد میں ہیں، البتہ وہ مصحف جو ہندوستانی پاکستانی سٹائل میں شائع شدہ ہیں جن میں رکوع اور پارے موجود ہوتے ہیں وہ کم نظر آئے۔ مجھے پڑھنے کے بعد بک مارک بنانے میں دقت آئی۔ ایک آدھ ترجمہ تفسیر بھی مل جاتی ہے۔ بہر حال ایک ہی قراۃ کے ایک قسم کے مصحف ملّی وحدت اور اسلامی ہم آہنگی کا نشان ہیں۔ اب تو بہت سارے زائرین اپنے موبائلوں سے تلاوت کرتے نظر آئے۔ بہت خوب ، جب جی چاہاشیطان سے بھی علیک سلیک کر لی، ویڈیوز دیکھ لیں اور چیٹنگ سے جی بہلا لیا اور جب رحمان سے دوستی چاہی تو موبائل شریف میں قرآن کا ایپ کھول لیا اور اورادووظائف شروع کر لئے !
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مسجد نبوی اور حرم کعبہ دونوں مقدس مقامات پر نماز پڑھنے والے کسی زائر کے طریقہ نماز پر کوئی دوسرا اعتراض نہیں کرتا۔جو جس طرح نماز ادا کرناجانتا ہے یا اپنے ملک میں جس طریقے پر عمل پیرا ہے اسی کے مطابق نماز پڑھتا ہے۔ وہ مسلمان جو اپنی مسجدوں میں امین باالجہرپرمشتعل ہو جاتے ہیں ، رفع یدین پر شمشیر بکف ہو جاتے ہیں اوراذان پر بلوہ ہو جاتا ہے۔ یہاں اپنے ایمان کو کسی اور دھیان میں لگا دیتے ہیں۔یہاں کسی کو تبلیغ کرنے یا اصلاح کرنے کی ضرورت یا ہمت نہیں ہوتی، ان کٹر حنفیوں کا جذبہ ایمانی اور غیرت فقہی مصلحت کا شکار اور شرطوں کے ماتحت ہو جاتی ہے۔ یہاں کوئی مبلغ اسلام یا مجاہد پاکستان " اصلاح" کی جرأت نہیں کرتا۔ مسکینی اور شرافت سے کرنے اوردیکھنے کوجو مل جاتا ہے اس پر قانع ہو جاتے ہیں!
کاش ضبط واعتدال اور برداشت ورداداری کا یہ جذبہ وطن عزیز میں بھی عام ہو!
ہمارے بعض متشدد تو دوران نماز آگے سے گذرنے والے سے جزبرہوتے ہیں جیسے ان کی توجہ اللہ کی طرف یانماز کے الفاظ کی طرف نہیں ہوتی صرف یہ تاڑنے کے لئے ہوتی ہیں کہ کون ان کے آگے سے گذرنے اور ان کی نماز " توڑنے" کا سبب بنتا ہے؟ حالانکہ یہ بھی دیکھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہے اور عرب نمازی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے سے گذر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے عرب بھی ہیں جو سامنے سے گذرنے والے کوروکنے کے لئے اپنا ایک بازو بیئرر کے ڈنڈے کی طرح سامنے لے آتے ہیں۔اللہ کے مہمانوں کی ہر ادا بھلی ہے!
ہمارے ہاں جمعہ کے روز بعض نمازی شوقیہ اور بعض مجبوراً مسجد کے باہر صف بند ہوجاتے ہیں۔ ہمارے حنفی خطیب ایسی نماز کو باطل قرا دیتے ہیں کہ صفوں کے درمیان یعنی خلاء رہ جانے سے نماز نہیں ہوتی ۔مسجد نبوی اور بیت اللہ دونوں مقامات پر ایسی سختی نظر نہیں آتی۔ آپ مطاف میں ہیں یا دوسری منزل پر ، سعی کے لئے گئے ہیں یا دروازوں کے باہر کھلے صحنوں میں ، جہاں جگہ ملے نماز ادا کریں، اس کی قبولیت میں کوئی شرطہ یا خطیب حائل نہیں ہوتا۔حرم کے چاروں طرف ہوٹل ہیں۔ زائرین میں بوڑھے اور معذور بھی ہوتے ہیں۔ یہ سب ہر نماز پر حرم کے اندر نہیں جا سکتے ۔ اب ہوتا یوں ہے کہ شار ع ابراہیم خلیل اللہ کافی چوڑی اور دو رویہ ہے۔ دونوں طرف فٹ پاتھ اور درمیان میں ایک ڈیوائڈر فٹ پاتھ نما ہے۔ لوگ حرم میں امام کی تکبیروں کے ساتھ اس فٹ پاتھی ڈیوائڈر (Divider) پر دو دو تین تین کی تعداد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ حرم کے نزدیک سے شروع ہونے والی یہ چند شخصی قطاریں کئی فر لانگ بلکہ کلو میٹر دور تک چلی جاتی ہیں ۔ بعض سڑک پر نیت باندھ لیتے ہیں مگر ان کی نماز کو کوئی ناقص یا نا منظور قرار نہیں دیتا!
مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کا نظام الگ اداروں کے پاس ہے مگر دونوں شہروں کی بلدیہ کا عام حال پاکستان جیسا ہے۔ گلیوں ، کوچوں میں صفائی غیر معیاری ہے۔ سڑکیں نا ہموار، قابل مرمت ، بارش میں کمزورنکاس، فٹ پاتھ محدود، وہیل چیئرز کے لئے راستہ مفقود۔ تیزی سے اور اچھی طرح صفائی بھی نہیں کی جاتی۔یہ درست کہ اکثر ایشائی اور افریقی زائر صحت اور صفائی کے اصولوں کی جگہ اپنی مر ضی اور رضائے الٰہی کے تابع ہوتے ہیں لیکن یہی لوگ جب حر مین میں ہوتے ہیں تو ان کے پیدا کردہ ماحول کو عملہ بہت ذمہ داری اور محنت سے صاف کرتا اور صاف رکھتا ہے۔ اس بار مطاف میں اور سعی کے دوران میں بھی عملہ دیکھا جوبڑے بڑے شاپر لئے زائروں کے ٹشو اور گھٹلیاں اور ٹافیوں کے ریپر ان سے نقد وصول کر رہا تھا۔ دونوں مقامات پر اب عملہ بنگلہ دیشی ہے یعنی صفائی ، دھلائی اور سقائی(پانی فراہم کرنے)پر، پہلے پاکستانی ہوتے تھے اب کی بار ان کی تعداد بہت کم نظر آئی۔شاید اہل وطن پی ڈی ایم کے دور میں خوشحال ہوچکے ہیں؟
آب زم زم کے حوالے سے یہ تبدیلی بہت مناسب لگی کہ خوب ٹھنڈے پانی کے ساتھ روم ٹمپریچر پر بھی پانی دستیاب ہو تا ہے۔مسجد نبوی کی داخلی تزئین جتنی خوبصورت اور اعلیٰ ہے اتنی ہی قیمتی اور مہنگی ہے۔ سعودی عرب کے علماء خوب جانتے ہیں کہ موجودہ جنت المعلیٰ اورجنت البقیع کا نقشہ اور انداز وہی ہے جو رسالت مآب ﷺ ،خلفائے راشدین مہدین ؓ اور بنو امیہ ؒکے مبارک دور میں تھا۔دونوں عظیم قبرستان اس روایت پر پوری شدومّد سے قائم ہیں۔ مسجد نبوی میں وسعت یقینا ناگزیر ضرورت رہی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے زائرین کو سہولتیں دینا بھی از حد ضروری ہے لیکن آرائش و زیبائش اور ان کی 24/7 Maintenance پر جتنا خرچ ہو تا ہو گا کسی غریب افریقی مسلمان ملک اور اس کے عوام کی ضروریات زندگی سے اس کا موازنہ کریں تو ذہن میں کئی سوالات اٹھتے ہیں۔تر جیح کس کو ملنی چاہیے؟ مسلمانوں کی حقیقی ضرورتوں کو یا ان کے مصنوعی اور تعمیر کردہ آثار کو۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں حرمین ظاہری زیبائش کے بغیر بھی مسلمانوں کے دلوںمیں بستے ہیں اور اسی طرح قابل تکریم و لائق محبت ہیں اگر وہ سادگی کا مظہر ہوں۔
مدینہ منورہ کے درج ذیل آثار اور وہ بھی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے طائرانہ نظر سے گذرے:۔
مسجد علیؓ، مسجد عمرؓ، مسجد قبا،باغ سلمان فارسیؓ جہاں اب ایک سکول آباد ہے۔
سیّدہ فاطمہ الزہرہؓ کا گھر ، عجوہ کا باغ، جنت المعلیٰ( قبور سیّدہ خدیجہ ؓ ، جناب ابو طالب، جناب عبدالمطلب دوران " زیارت " ایک ڈبل ڈیکر بس نظر آئی ۔ ممکن ہے " ٹورسٹ زائرین " کے لئے ہو؟
جس پاکستانی ڈرائیور کے ساتھ لاہور سے رابطہ ہواتھا وہ ظہر کے بعد مکہ کے ہوٹل میں آن پہنچا ۔ زائر پہلے ہی سے تیار اور منتظر تھے۔ اس نے بڑی مستعدی سے سامان لادا اور ہم روانہ ہو گئے۔ راشدنامی نوجوان 9 سال سے سعودیہ میں ہے اور دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے7 دن سڑک گردی میں مصروف ہے۔ اس کی اپنی7 سیٹر گاڑی ہے جو ڈیزل پہ چلتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ سبز پوش عطاری ہے ۔ اپنی رہائش پہ محافل میلادد اورمجالس و مواعظ منعقد کرتا ہے مگر چھپ چھپ کر۔ حلقے کے لوگ باہم دگررابطے میں رہتے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے سراج الامتہ دعوت اسلامی کے بانی امیرمولانا عطاری اسلامی بھائیوں کے ساتھ عمرے پہ آئے تھے۔ چنانچہ اہل حلقہ خوب محظوط بلکہ تازہ دم ہوئے۔ راشد یہاں البتہ جس مقصد کے لئے آیا ہے وہ ریال ہے وہ اسی کے گرد مصروف طواف رہتا ہے، جیسے ڈالرجو ہمارے لئے ریال کا بڑا بھائی بلکہ سر پرست ہے!
مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر اسی شاہراہ سے کیا جاتا ہے جسے طریق الہجرہ کہا جاتا ہے ۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کم سے کم فاصلہ ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے اسی راستے سے بنی اقدس ﷺ اور ان کے رفیق لاثانی سید نا صدیق اکبر ؓ نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی تھی۔ مغرب کے بعد سفر میں پہلا پڑاؤ میقات ہے۔ پہلے سے درجنوں کی تعداد میں غیر ملکی زائرین کے قافلے موجود ہیں جو پر جوش بھی ہیں اور بے تاب بھی، وہ جذبے کے ساتھ حرم جانے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ کوئی نہا رہا ہے ، کوئی احرام باندھ رہا ہے۔کوئی احرام باندھنے کی کوشش میں مدد لے رہا ہے۔کیونکہ ہر گروپ کا احرام ایک جیسا ہے مگر زبانیں بالکل مختلف ہیں ۔ مقامی مسجد میں دھڑا دھڑ جماعتیں ہو رہی ہیں۔چونکہ دو نمازيںمغرب اور عشا ایک ساتھ پڑھنی ہیں اس لئے سمجھ نہیں آتا کہ کونسا گروپ کس وقت کی نماز پڑھ رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ امام حنفی ہے یا شافعی۔ مقتدی مالکی ہیں یا حنبلی ، ایک منزل کے لئے سارے مسافر بھی ایک ہیں! یہاں مغرب اور عشا کے ساتھ عمرے کی نیت کے ساتھ احرام باندھتے اور نفل بھی ادا کرتے ہیں۔
مغرب کے ایک گھنٹے کے بعد ڈرائیور نے فندق ندا المجداتارا۔ یہ ہوٹل شارع ابراہیم خلیل کی ایک گلی سندھی نام میں واقع ہے جہاں سے حرم دس منٹوں کی مسافت پر ہے ۔پہلے مسافروں کے جانے میں دیر تھی اس لئے لابی میں انتظار کرنا پڑا۔یہ مقامی معیار کے مطابق تھری سٹار ہوٹل دس منزلہ ہے ۔ کمرے ساتویں منزل پر ملے۔ اس مقصد کے لئے 5 لفٹیں 24/7 انتھک خدمت پر مامور ہیں۔ عملہ بالکل غائب۔ گھنٹہ بھر میں کمرہ کو ضرورت کے مطابق سیٹ کیا کیونکہ دو افراد کے لئے ایک چھوٹے سے کمرے میں چار عدد بیڈ بچھے ہوئے تھے۔ چلنا گذرنا محال ، میز کرسی ندارد۔ ہوٹل کے اندر رہنے والے زائروں کے لئے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ چنانچہ ہوٹل کے سامنے واقع سرگودھا کھابے سے منزہ سب کے لئے کھانا لے آئی۔کھانا کھا کر قافلہ سوئے حرم روانہ ہو گیا۔
خانہ کعبہ اور اس کے ساتھ منسلک عبادات اور مناسک تمام مذاہب عالم میں اپنی نو عیت اور اثرات کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ یہ اثرات شخصی بھی ہیں اور اجتماعی بھی،فوری بھی ہیں اور دائمی بھی، زمینی بھی ہیں اور آفاقی بھی، ظاہری بھی ہیں اور قلبی بھی، جب ایک زائر صدر دروازے سے داخل ہوتا ہے تو اسے پہلی نظر میں کعبہ دکھائی نہیں دیتا ۔وہ آگے بڑھتا ہے تو اسے سامنے ایک چھوٹی سی جھلک دکھائی دیتی ہے کالے کپڑے کی۔ وہ سیڑھیوں سے اتر کر جب حرم میں داخل ہو تا ہے تو یکبارگی اس کے سامنے ایک چوکور بہت اونچی سی تعمیر آتی ہے جو سیاہ چادر میں چاروں طرف سے لپٹی ہوتی ہے ۔جسے ممتاز مفتی اپنی ترنگ میں کوٹھا کہتا ہے مگر ہر ایک کے لئے پہلا تاثر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کی ایک جانب دروازہ ہے مگر کوئی کھڑکی اور روشندان نہیں ہے۔ چاروں طرف کے اس کالے پردے پر کلمہ طیبہ اورصرف قرآنی آیات کڑھی ہوئی ہیں اور وہ زیادہ تر دروازے والی سمت کی دیوار پر۔اچانک دیکھنے والے پر یکبارگی عظمت اور جبروت کی ہیبت چھا جاتی ہے۔ ایک سکتے کے بعد جب زائر سمندر کی ہلکی لہروں کی مانند اس تعمیر کے چاروں طرف انسانوں کا سمندر دیکھتا ہے جو دھیمے سروں میں ہلکورے کھا رہا ہوتا ہے، اور سفید کفن پوش اور سیاہ عبایہ پوش چاروں اور گھیرے ہوئے ہیں، اسے اپنی کم مائیگی ، عاجزی اور اصلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حرم کے اندر توحید ، کبریائی اور دیگر عالی صفات کا پرتو محسوس ہوتا ہے۔ بعض مسلم ممالک جیسے ملیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش کے زائر جس نظم اور ترتیب کے ساتھ مناسک ادا کرتے ہیں وہ قابل رشک ہے۔ شاید خالص اسلام کی شان بھی یہی ہے۔ دنیا کے مسلم ممالک میں غالباً پاکستاني واحد قوم ہے جو کسی نظم ، ترتیب یا سلیقے کے بغیر مناسک ادا کرتی ہے۔ بعض خاندان تو واقعی لائق تحسین ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں کو چھوٹے چھوٹے احرام پہنا کر ساتھ لاتے ہیں۔ بعض بچوں کو کندھوں پر سوار کر کے ڈبل طواف کرتے ہیں۔بچے بڑوں کے ساتھ بلند آواز میں تلبیہ ادا کرتے ہیں۔
آج مطلع ابر آلود ہے اور موسم بہت خوشگوار ۔ میں اور عامر ایک ساتھ اور تینوں مستورات کا گروپ ایک ساتھ نکلے۔ گو ہوٹل سے حرم زیادہ دور نہیں ہے لیکن اگر گُھٹنے پوری طرح ساتھ نہ د يںتو پھرمنٹ لمبے ہو جاتے اورنزدیک دور بن جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تو راستہ ناہموار ہے دوسرا نماز سے پہلے جانے والے کا اور نماز کے بعد لوٹنے والے زائرین کا سیلاب دریا کی مانند ہوتا ہے جو کسی ترتیب سے نہیں چلتا۔ اس ماحول میں تیز چلنا محال ہوتا ہے۔ سعودی ٹی وی کے مباشر کیمرے پر حرم بہت بڑا اور کھلا کھلا نظر آتا ہے مگر یہاں پہنچ کرمجھے پہلی نظر میں حرم چھوٹا لگا۔ کچھ تو حرم کے چاروں طرف اونچی اونچی عمارتوں نے نظری اثر ڈالا ہے اور کچھ مطاف میں کثرت اژدھام نے۔مطاف اب صرف احرام پوش زائرین کے لئے ہے اور سرسے پا ؤں تک حجاب میں مستور خواتین کے لئے مخصوص ہے۔ وہیل چیئر اور بغیر احرام کے زائرین پہلی اور دوسری منزل پر طواف کرتے ہیں۔ پہلے چند چکروں کے بعد عامر ایسے بچھٹرے کہ ہم دونوں آخرتک نہ مل پائے۔ طواف، نفل، زم زم کے بعد سعی ، اس وقت گذرگا ہیں زائرین سے اٹی پڑی تھیں، عمرے کے تمام مناسک سے رات 2 بجے فراغت ہوئی۔ نکلا تو بہت تیز بارش۔ تیز بارش میں حرم سے نکل کر میں Disorient ہو گیا یعنی ہوٹل کی طرف جانے والے راستے کے بارے میں گڑبڑی ہو گئی۔ جیب تو تھی نہیں احرام پر، کَسی ہوئی بیلٹ میں نہ موبائل تھا اور نہ ہوٹل کا نام نمبر،احرام تو پورا بھیگ چکا تھا۔ بارش رکنے کا انتظار کیا۔ پھر اللہ کو یاد کرنااندازے سے ایک سمت ہو لیا اور وہی صحیح راستہ تھا۔
رات اگرچہ لیٹ مگر گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے تھے مگر صبح4 بجے آنکھ کھل گئی۔ تیار ہو کر سوئے حرم چلے۔ آج طواف کے لئے میں نے پہلی منزل منتخب کی اور بے تکان غالباً سوا گھنٹے میں سات چکر مکمل کر لئے۔ حرم کے با م و در یعنی نقشہ پوری طرح سمجھنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتاہے۔درجنوں کے حساب سے ہال ہیں جو باہم متصل ہیں۔ چھوٹے بڑے دروازوں کی تعداد سوا سو سے زیادہ ہے مگر اندر جاکر دروازے کے باہروالا نمبر نظر نہیں آتا۔ پھر کہیں بھی حرم کے راستوں کا نقشہ موجود نہیں ہے۔ اس پر مستزادحرم کے گارڈ ، خدام، سقے اردو انگریزی سے بالکل نا بلد۔چنانچہ خروج یعنیEXIT کھو جانے کے بعد ٹھكانے تک پہنچناکارے دارد۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حرم کعبہ ہی سعودی عرب کا Hotspot ہے جہاں عالم اسلام کا دل دھڑکتا اور تمنائیں لبوں پر مچلتی ہیں۔ اس کی Up Keep یعنی صفائی، ستھرائی، روشنی ، ہوا،فرش پوش، ٹھندا معتدل آب زم زم، ساؤنڈ سسٹم غرض کہ ہر چیز ہر وقت فراوانی سے اور اعلیٰ انتظام سے دستیاب ہے۔ خدام اور سقہ مسلسل خدمت پر مامور ہیں۔ ان کو کوئی لمحہ نہیں جب ان کی توجہ خدمت سے ہٹتی ہو، ہونا بھی یہی چاہیے۔یہاں آنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ۔جب اللہ میزبان ہوتو کسی کمی کوتاہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پھر ہر مہمان سوائے پاکستان کے سیاسی حکمران ، عسکری اور انتظامی حکام کے جو اکثر مفت عمرہ حج کرتے ہیں ،مستعمیرین کثیر رقم خرچ کر کے یہ سہولیات خریدتے ہیں۔ حرم کے باہر شہر کے گلی کوچوں میں جہاں ایشائی مسلمان ہر کام اور ہر کاروبار میں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر شریک ہیں ، ماحول قابل اصلاح ہے۔ ہوٹل سے حرم تک پیدل جانا معمول اور ضرورت ہے مگر راستے ناہموار ، وھیل چیئر گذرنے کا عمل مشکل تر۔تیز بارش پر سڑک پر ندیاں بہہ نکلتی ہیں۔
حرم کے اندر اور باہر زائرین کے لئے مختلف زبانوں اورا شاروں میں خصوصاً اردو ، انگریزی، بنگالی، رشین ، فرنچ، ہندی وغیرہ زبانوں میں ہدایات دن اور رات کو نظر آنی چاہیں۔ مطاف کے گرد ، تینوں منزلوں میں کہیں کہیں سے نیچے کعبہ نظر آتا ہے۔ اگر کعبہ کی سمت مضبوط شیشے کی دیوار بنا دی جائے تو زائرین طواف کے دوران ہر منزل پر ہر گام پر حرم کے نظارے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں گے۔ان کے سفر کا اولین مقصد تو اللہ کے گھر کی زیارت اور اس کا طواف ہے۔سعودی عرب کے فقہا بھی اس کے خطباء کی طرح سر کاری ضرورت بلکہ مصلحت کے تابع ہیں ، خیال آتا ہے کہ طواف کے لئے تین منزلوں کی اجازت کے بعدشاید کسی روز وہ ڈرون کے ذریعے ہوا میں اڑتے ہوئے طواف کی اجازت بھی دے دیں تاکہ مزید زائرین کو سمیٹا جا سکے!
طواف کے مناسک کی ادائیگی کے بعد بمشکل رات 4 بجے صبح کمر سیدھے کر سکے۔ جذبات کی کیفیت ہی کچھ ایسی تھی کہ تھکن اور نیند کا احساس نہیں تھا۔ اصل مقصدتو یہ ہے کہ جس عظیم مقصد کے لئے گھر بار چھوڑا ، سفر کی صعوبت برداشت کی، محنت کی کمائی خرچ کی وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ اس کا فکر، اس کی چنتا ہر دم طاری رہے اور ذہن کسی دوسری مصروفیت یا ضرورت کی طرف بھٹک ہی نہ سکے۔ مگر حیرت ہے کہ دونوں شہروں میں ہر نماز کے بعد لوٹتے وقت جگہ جگہ خریداری کا سلسلہ برابر اور زور شور جاری رہتا ہے!
چونکہ آج حرم میں ہمارا پہلا اور سال 2022ع کا آخری جمعہ 30 دسمبر2022 ع کوہے اس لئے مناسب جگہ کے لئے جلد تیارہونا اور جلد پہنچنا ضروری ہے۔کو شش کے باوجود جگہ ایک ایسے ہال میں ملی جو حرم کے نظارے سے اور مکمل آواز سے محروم تھا۔ صرف زائرین کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی ورنہ بے صوت ،بے قرات۔12:30 منٹ پر موذن نے آذان دی جو حیران کن حد تک حرم کے اندر ، اس کے باہر، دور ہوٹلوں اور گلیوںمیں جیسے یکساں والیوم میں گونجتی ہے۔ اذان کے بعد امام جمعہ نے20 تک عربی خطبہ دیا اور سوشل رذائل پر قرآن و سنت کے اقوال سے کلام کیا۔ ایک بجے تک فارغ۔ جماعت کے بعد الگ سے دعا مانگنے کا یا نوافل ادا کرنے کایہاںکوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں بعض اہل دل کی "دوائے انتھک" یاد آئی جہاں منادی دعا ختم کرنا بھول جاتا ہے البتہ اللہ میاں کو بار بار متوجہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ دعا مانگنے والوں کے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں!جمعہ کی نماز کے ہال سے خانہ کعبہ کی معمولی سی جھلک، کوئی کنارا ، غلاف، مطاف کچھ نظر نہیں آیا۔لمبے چوڑے چکر کاٹ کر بالآخر مستقرپر جا پہنچا۔فر حت اپنی چھڑی کے ساتھ خود ہی آئیں ، کھانا کھانے کے بعد لمبی تان کر سوئے۔
بغلی بازار ناہموار اور وہاں دکانوں پر سامان کا ڈسپلے دیہاتی ساہے۔دکانوں کی کثرت سے بازار اور گلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اصل مکین عرب بلکہ مالکان تو مضافات میں اپنے ولاّز میں آرام کر رہے ہونگے۔ حرم کے ارد گرد میلوں تک زائرین کے لئے ہوٹل اور کھابے ہیں اور ان کی ضرورت کے سامان کے لئے دکانیں ۔سب میں غیرعرب زیادہ تر بنگالی یا ہندوستانی ، پاکستانی اکثر ہوٹلوں یا آرائش گیسو یعنی حجاموں کی دکانوں پر پائے جاتے ہیں۔ عملہ صفائی اور عملہ تہہ بازاری چکر لگاتا ہے مگر راستے صاف ملتے ہیں اور نہ تجاوزات پر موثر کنٹرول ہے۔ کئی جگہوں پر فٹ پاتھ غائب ہو چکے ہیں ۔ فٹ پاتھ بھی ڈھنگ کے نہیں ہے۔ہوٹل کے کمرے میں صفائی والابنگالی3-4 دن بعد دورہ کرتا ہے،کمرہ کھلا مل جائے تو مکینوں کی خوش قسمتی ۔ ہوٹل کے بیرون اوراندرون عدم توجہی سے Maintenance کمزورنظر آتی ہے۔
ایک روز کمرے میں خود سیب کاٹنے کا تجربہ کیا۔ چاقو تیز اور نوکدار تھا، اس کا سرا بائیں ہاتھ کے انگھوٹھے میں کئی ایم ایم اندر گھس گیا اور سرخ خون کی تیز دھار بہہ نکلی۔ڈسپنسری جانا تو محال تھا۔ اس کٹ پر دباؤ کے ساتھ اسے نل کے تازہ پانی کے نیچے رکھا۔ ساتھ میڈیسن بکس نکالا اور اس میں سے ایک سنی پلاسٹ ڈھونڈا۔ اتفاق سے دو سٹرپ مل گئے۔ چند منٹ کے بعد خون تھما تو کٹ پر پریشر سے پلاسٹر لگا دیا۔ معاملہ یوں ایک بار تو Settle ہو گیا۔ اب مسئلہ وضو اورغسل کا تھا ۔اس کے لئے ہنگامی تدبیر کی اور شاپر سے مدد لی ۔ یوں دو دن پھل کے شوق کی خوب قیمت چکائی۔ ایک صبح ہوٹل سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ہسپتال کا عربی بورڈ دکھائی دیا۔ سڑک کے اس پار دیکھا تو لمبی قطار نظر آئی ۔ دروازہ بند تھا اور مریض سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ عصر کے بعد گذرا تو بھی یہی نظارہ نظر آیا۔ اس صورت حال سے اپنی مسافرانہ ڈاکٹری بھلی۔
مریم اور رابعہ دونوں ماں بیٹی نے نئے سال کو نصف شب اپنے انتھک طوافوں سے خوش آمدید کہا اور دیر تک حرم میں رہیں اور جی بھر کر عبادت کی۔
31 دسمبر2022ع مکہ میں تیسرا اور ہفتے کا روز ہے اورسال2022 ع کا آخری دن،
آج ایک دیسی کھابے سے ناشتہ کیا ۔ دو ریال چائے کا کپ (Rs:130) 6 ریال دو انڈوں کا آملیٹRs:390) ) اور ایک پراٹھا نما مگر گرم روٹی2 ریال(130 روپے)۔
ابھی تک سب زائرین خیریت سے ہیں بغیر میرے گلے کے جو لاہور سے بلکہ2021 ع سے کرونا کی تیسی بوسٹر ڈوز کے بعد سےIMF کی طرح میرے درپے ہے لیکن ذاتی صوتی تاثر کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہوا یعنی بولنے والا متاثر ہے سننے والے پر کوئی اثر نہیں پڑتا! آج نماز ظہر سے پہلے حرم کی پہلی منزل پر ساتھ چکر لگائے ۔ نماز وہیں ادا کی۔ اس منزل پر زائر قدرے فری موڈ میں تھے۔ یہاں سے نیچے حرم اور مطاف بار بار اور زیادہ نظر نہیں آتا چنانچہ یہ زائر اصل مطاف کے مطابق عقیدت اور احترام کے پوری طرح پابند نہیں ہوتے ۔ غالباً مطاف اور عدم مطاف کے چکروں میں یہ فرق بہت خاص ہے، فاصلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ کعبہ نظروں کے سامنے ہو تو طواف کرنے والوں کا جذبہ اور تعلق مختلف ہوتا ہے۔ اوپر کے طواف میں جب چاہیں بیچ میں سستایا جا سکتا ہے۔ آب زم سے پیاس بجھائی جا سکتی ہے ۔ کسی ایک سپاٹ پر سٹاپ کر کے آرام کیا اور کچھ کھایا پیا بھی جا سکتا ہے۔بچوں کے لئے زیادہ کھلا ماحول ہے۔مطاف میں یہ سب نا ممکن ہے۔
پہلی منزل کے طواف کے لئے میں نے عام استعمال کے چپل پہن لئے جس سے چلنے میں مزید آسانی ہو گئی۔ ویسے بھی طواف کا فرش کافی سخت ہے۔ میرے پاس 7 ۔منکی تسبیح نہیں تھی اس لئے چکروںکی تعدادگننے کے لئے جوتوں کے تھیلے کی رسیوں پر گرھیں لگا کر گنتی شمار کی ۔دونوں جگہیں زائرین سے لبالب تھیں۔حرم سے نکلا تو سامنے عظیم الجثہ مکی ٹاور کے نیچے بورڈ پر لکھے مستشفیٰ جیاد(ڈسپنسری) کی تلاش شروع کی۔کسی سے رہنمائی تو نہ ملی۔تہہ خانے کی نچلی منزل پر دکانوں کے پاس ایک جگہ نظر آئی۔باہر ہلال احمر یا ہسپتال کی کوئی علامت نہ تھی، وہاں پر موجود چوکیدار یا وارڈ بوائے نے بھانپ کر اشارہ کیا۔ بعد میں اندازا ہوا کہ لوہے کی کرسیوں پر مختلف عمر کے10,8 عورتیں مرد بیٹھے ہیں ، وہ اپنے علاج کے لئے آئے ہیں۔ ان میں کوئی ایمر جنسی مریض نہیں تھا ۔وارڈ بوائے کسی کو کھڑے نہیں رہنے دیتا تھا۔ قطار کے سرے کا مریض اندر چلا جائے تو وارڈ بوائے عربی میں اگلے مریض کو سرے کی کرسی پر بٹھادیتا ہے اور پچھلی قطار کو آگے چلنے کا اشارہ کرتا ہے۔ اس نشست میں مرد ، عورت ، بوڑھے ،بیمار، زخمی جوان کا کوئی فرق نہیں تھا۔ اس اثناء میں حرم کی گاڑی آئی جس کے دروازے نہیں ہوتے شکل سے جیب لگتی ہے مگر نیچی ہوتی ہے۔ اس سے ایک پاکستانی بزرگ ایک خاتون کے ساتھ نیچے اترے۔ مرد کے کپڑوںپر خون کے چھینٹوں کے نشان تھے۔ناک کے ارد گرد بھی خون تھا جیسے دوران طواف گر کر زخمی ہوئے ہوں۔ گاڑی سے فوراً اتار کر وارڈ بوائے وہیل چیئر پر اندر لے گیا۔ اب پھر انتظار ۔شاید یہ ایمر جنسی عملے کو پہلے دیکھنی تھی شاید یہ مر کز ایمر جنسی مریضوں کے لئے خاص ہے؟خدا خدا کر کے میری باری آئی۔دروازے کے اندر ماسک کے بغیرفرنٹ ڈیسک پر ایک سیاہ فام مگر سفید یونی فارم میں ملبوس نرس بیٹھی تھی۔ اکتائی ہوئی، سڑا ہوا لہجہ، بیزار بیزار،مجھے شکایت یہ تھی کہ میرا گلا خراب ہے، نگلتے ہوئے مشکل درپیش آتی ہے ، اصل میں میرے گلے کا UVULA (کوا) جیسے پُھولااہوا ہے! نجانے میری انگریزی سے وہ کیا سمجھی۔ اس نے مجھے ایک سادہ سی چٹ پکڑائی جس پر لکھاتھا Temperature یعنی بخار چیک کیا جائے۔ اتنا کام تو وہ خودبھی کر سکتی تھی ۔ویسے مجھے کوئی بخار نہیں تھا۔چند قدموں کے فاصلے پر کرسیاں پڑی تھی جہاں پر ایک خاتون پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی،دوسری کر سی پر میں بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے کافی دیر ہو گئی، ادھر عصر کی اذان گونج اٹھی۔ تنگ آکر اٹھا اور نرس سے کہا کہ یہ کام تو بہت چھوٹا سا ہے کہنے لگی یہ ایمر جنسی سنٹر ہے پہلے ایمر جنسی مریض دیکھے جاتے ہیں ۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور اللہ اللہ کر کے تہہ خانے کے شفا خانے سے اوپر حرم کے سامنے نکل آیا۔ زائرین کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کے لئے جگہ جگہ ڈسپنسریوں کی ضرورت ہے۔
اب ایک اور دریا کا سامنا تھا۔نماز عصرکے لئے دور نزدیک ہوٹلوں ، گلیوں سے زائرین کے قافلے چیونٹیوں کی طرح امڈے چلے آرہے تھے ۔ہر طرف سر ہی سر، کہیں سفید احرام اور کہیں کالے عبایہ۔ نماز کے لئے حرم کے باہر والانوں تک پہنچنا نا ممکن تھا کہ تکبیر کی آوازبلند ہوئی۔جو جہاں کھڑا تھا اس نے اسی جگہ ہاتھ باندھ لئے۔ میں غسل خانے کے باہر دوسری سیڑھی پر قدم جمائے کھڑا تھا ، نہ آگے جانے کا راستہ ، نہ پیچھے ہٹنے کا موقع۔ میرے سامنے ایک صاحب غسل خانے (WC) کی دو سیڑھیوں پر کھڑے تھے یعنی ایک پیر ایک سیڑھی پر اور ایک پیر دوسری سیڑھی پر۔ تکبیراولیٰ پر انہوں نے جوش عقیدت میں اسی حالت سفر میں اپنے ہاتھ باندھ لئے۔ رکوع بھی بنا لیا لیکن سجدے میں کیا کرتے۔ ایک ہاتھ ایک سیڑھی پر اور دوسراہاتھ دوسری سیڑھی پر! اب سجدے کے لئے سر کہاںپر رکھیں۔ کھسیانے ہو کر نماز منقطع کی اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔ کئی زائرین اس طرح بڑی مشکل اور گرانی سے نماز ادا کر رہے تھے۔ اس حالت میں جماعت کے بعد الگ نماز پڑھنابدر جہا بہتر ہے۔یہ شاخسانہ کثرت ہجوم کا ہے اس لئے کہ زائرین کو کثیر تعداد میں بلانااور ان سے زرمبادلہ لینا ایک بزنس ہے اور دنیا میں ہر جگہ بزنس خود غرض بے رحم اور بے حس ہوتا ہے۔بزنس کو اس کی پروا نہیں ہوتی کہ کتنے لوگ اپنے مقصد کے مطابق فیض یاب ہوئے، کون پوری عبادت کر سکا؟ 5 بجے ہوٹل لوٹا تو طبیعت بشاش نہ تھی چنانچہ دوا کھائی اور آرام کیا۔مغرب اور عشا کی نماز یں ہوٹل کی مسجد میں ایک ساتھ ادا کیں۔
ہوٹل کا ڈیزائن اچھا ہے۔ پانچ لفٹوں کے دونوں طرف سیڑھیاں بھی ہیں مگر بہت کم استعمال ہوتی ہیں،سوائے ضروری عملے کے۔ عام مسافر اترنے چڑھنے کی مشقت سے دور رہتے ہیں۔ بجلی وافر ہے لیکن ایک روز بریک ڈاؤن کے تجربے سے گذرے جب بجلی دوپہر 2 بجے سے رات 7 بجے تک غائب ہوگئی۔ کئی مسافر لفٹوں میں پھنس کر رہ گئے۔ صفائی صرف ہوٹل کے برآمدوں میں کی جاتی ہے کمروں کی باری دنوں ہفتوں کے بعد آتی ہے کیونکہ کرایہ داروں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ جب گندے کمرے دھڑا دھڑا پیسہ کما رہے ہوں تو ان پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت؟ ایک کے بعد ایک ، مجبوری کے مسافروں کی کیا پرواہ۔عام خرابی جلد رفع نہیں ہوتی، گرم پانی البتہ وافر ہے۔جیسے پہلے بتایا کہ کمرے چھوٹے اور بستروں سے ٹھسے ہوئے۔ واش روم بہت ہی ننھے منے۔ وضو میں پاؤں دھونے کا انتظام اور طہارت کے لئے BIDET (استنجا کرنے کا جدید مہذب طریقہ) کاشاور ہو نا چاہیے۔ ہوٹلوں کے بنگالی اور پاکستانی بیرے اردوبول سمجھ لیتے ہیں مگر ان کے اختیارات بہت محدود ۔ہوٹلوں میں بھی تمام نشانات زائرین کی ضرورت کے مطابق ان کی زبانوں میں لکھنے لازمی قرار دیئے جائیں تاکہ مختلف براعظموں کے زائر اپنی زبان میں پڑھ سکیں۔ہوٹلوں کے مالک عرب ہیں شاید سعودی ہی ہونگے۔ وہ خود بھی صرف عربی ہی جانتے اوربولتے ہیں۔جانے والے مسافروں سے فیڈ بیک(تاثرات) لینے کا کوئی رواج نہیں ورنہ ساتھ ساتھ بہتری ہوتی رہتی۔
مدینہ کا قیام بہت مختصر ہے ۔وہاں ہجوم بھی قابو میں دکھائی دیا۔زائرین میں بھی ٹہراؤ ہے البتہ مکہ کے زائرین کا لوڈ زیادہ بہتر طور پر Manage کرنا چاہیے۔
سفر میں ضرورت کی جو دوائیں ساتھ لایا تھا ان کو پیک کرتے وقت پوری احتیاط کی تھی مگر ایک دوا کا معاملہ گڑ بڑ ہو گیا۔ وہ دوا Tamsolin-S تھی۔ دریافت کرنے پر ایک فارمیسی سے مل گئی ۔ مجھے تو چند گولیاں ہی درکار تھیں ۔ سیلز مین نے بتایا کہ وہ چند گولیاں نہیں بلکہ پورا پیک بیچتے ہیں۔ اور اس پیک کی قیمت محض 72 ریال یعنی پاکستانی 4680 روپے تھی جب کہ پاکستان میں اس دوا کی قیمت چند سو روپے تھی۔ میری پاکستانیت غالب آئی چنانچہ دوا تو نہ خریدی بلکہ اپنی بقایا دوا ؤں میں ردو بدل کرنے سے چند دن آرام سے گذرے۔ پاکستان میں بد ترین مہنگائی کے باوجود وہاں دواؤں کے نرخ معقول بلکہ انسانی معلوم ہوئے ۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے اپنی ناقص اور غلامانہ پا لیسیوں سے مجموعی طورپر قوم کو پیچیدہ اور سنگین بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے لیکن شکر ہے کہ دواؤں کے نرخ پر ابھی تک کنٹرول ہے۔پاکستان میں دیگر تمام اشیاء قیمتوں کے کنٹرول سے بے نیاز ہیں۔ ہوٹل میں زائرین کے لئے پینے کا پانی مفت یا قیمت پر بھی دستیاب نہیں ہے چنانچہ ہر بار 2 ریال یعنی Rs:130 فی بوتل(250 م ل)بازار جا کر خریدنا پڑتا ہے۔حالانکہ زائرین کے لئے ہوٹل میں میٹھا پانی تو مفت فراہم ہو نا چاہیے۔ امید ہے پاکستا ن کے بر عکس ان بازاری بوتلوں کی کوالٹی محفوظ اور بہتر ہو گی ۔ان بوتلوں پر بھی ساختہ سعودی عرب لکھا ہے۔ہوٹل کی گلیوں میں اور کمروں میں فریم میں جڑے خوبصورت قطعات آویزاں ہیں ، ان میں قرآن کی مختصر آیات بہت اعلیٰ اور ماہر خطاط کے موئے قلم سے لکھی ہوئی ہیں۔
ہوٹل میں کھانے کا انتظام تھا مگر دیر سے معلوم ہوا ۔ ہوٹل کے ریسٹوران پر پہلے صرف ان مسافروں کے لئے انتظام تھا جو ریگولر گروپس اور مقامی ایجنٹ کے توسط سے وارد ہوئے تھے۔ ان میں انڈین ، انڈونیشین ، بنگلہ دیشی لوگ تھے۔ ہم چونکہ Freelancer تھے، سو کھانے سے محروم رہے۔ غالباً آخری دن انتظامیہ نے ایک پاکستانی کو ٹھیکہ دیا جس نے ڈائننگ ہال کے ایک کونے میں ہمارے لئے الگ سے میز لگوادی اور پاکستانی کھانوں کا بندوبست کیا۔چپاتی اور سالن معقول تھا۔
آج یکم جنوری2023 ع ہے۔ نئے عیسوی سال کا آغاز ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سے پیغامات قطار اندرقطار چلے آرہے ہیں جیسے ان کو نئے سال کا پہلی بار علم ہوا ہو! کمروں کے اندر ہی ناشتے کرنے کے بعد پانچوں زائر سوئے حرم چلے۔ بچوں کے اصرار پر آج بانو کرسی نشین تھیں۔پہلے وہ اکثر اپنے عزم اور ارادہ اورجذبہ و شوق سے پیدل ہی آتی جاتی تھیں۔ وہیل چیئر کو سب سے زیادہ منزہ اور عامر نے دھکیلا اور سب سے زیادہ ثواب کمایا! پہلے ہوٹل سے حرم تک، پھر پہلی منزل پر طواف کے7 چکر، وھیل چیئر یہاں اوپر چلتی ہے اور ایک چکر قریباً ایک کلو میٹر کے برابر ہے۔ ٹمپریچر بہت معقول بلکہ خوشگوار کہ پسینہ نہیں آیا۔ زم زم کا جگہ جگہ انتظام ، بیٹھنے کے لئے سنگل پسلی فولڈنگ کرسی، وہیل چیئر ز عام طورپر سائیڈ پر چلتی ہیں جہاں تیز تیز چلنے والے بعض زائر بھی زد میں آجاتے ہیں چنانچہ کئی زائرین کی ایڑیوں پر رگڑ کے نشانات نظر آتے ہیں۔ وہیل سواروں میں ضیعف مائیں، بوڑھے والد اور شیر خوار بچے تھے، بزرگ ماں اور باپ کو زیادہ تر ان کے جوان بلکہ ادھیڑ عمربچے ہی دھکیل رہے تھے۔ کہیں کہیں بزرگ بھی اپنی زندگی بھر کی ساتھی کی خدمت کر رہے اور گویا آخری ثواب کما رہے تھے !تب معلوم ہوا ہو گا کہ کتنے بوجھ کے ساتھ زندگی کا سفر کاٹا ہے!زائریں میں خواتین کی تعداد یقیناً 50 فیصد سے زائد ہے۔طواف کرنے والوں میں میں ایشیائی، افریقی، سنٹرل ایشیائی ، مشرق بعیدکی مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ غیر معمولی طور پر ایرانی زائر نظر نہیں آئے۔ وہ ہمیشہ منظم گروپوں کی صورت میں چلتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر گذر اکچھ اقوام کے زائر وہ آزاد مسلمان ملک کے شہری ہوں ہو یا کسی غیر مسلم معاشرے کے شہری، مہذب اور منظم طریقے سے آتے ہیں۔ ان کو ا ن کی عادات ، نشانات اور ظواہر سے جانا جا سکتا ہے۔ اس کے بر عکس 75 سال سے آزاد مسلمان ملک پاکستان کے شہریوں کی پہچان گویا ان کی الگ سے کوئی پہچان کا نہ ہونا ہے! تہہ بند یا دھوتی کولیجئے۔ بر صغیر سے مشرق بعیدتک یہ ایک جانا پہچانا متمدن اور بہت سادہ پہناوا ہے۔ یہ سلیقے اور طریقے سے باندھا جاتا ہے جیسے بنگلہ دیشی، انڈونیشی زائرین مگر پاکستان کے مسلمان کی تہند یا چادر باندھنے کا انداز بہت اصلاح طلب ہے کسی مولوی یا مصلح نے اس پر توجہ نہیں دی۔ سب سے زیادہ بھکاری پاکستانی اور بعض افریقی مسلمان دیکھنے میں آئے۔پاکستانیوں کی بطور جماعت یا گروپ ان کی کوئی شناخت نہیں ۔ اکٹھے بھی ہوں تو اپنے جدا گانہ فکر کی مانند بکھرے بکھرے اور خفا خفا نظر آتے ہیں۔پاکستانی زائرین کا سامان باندھنا اورساتھ رکھنا بھی اصلاح طلب ہے۔ان کا سفری سامان اتنی جزئیات اور اتنی پوٹلیوں اور نگوں میں منقسم ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کہیں صدقہ یا تحفہ تقسیم ہو رہا ہو تو ان کے لئے قطار کو ملحوظ رکھنا بے عزتی اور خلاف شان لگتا ہے ۔جیسے وہ آزاد پیدا ہوئے تھے وہ کیونکر غلام رہ سکتے ہیں!ناخواندگی کی بیچارگی کا کیا کہنے! ہماری زائرخواتین کو کعبتہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ پیار حرم کے کبوتروں سے ہوتا ہے ۔ خدا جانے کہ انہیں کبوتروں میں اماں حوا کی کیا خصوصیات من بھاتی ہیں یا ان میں کیا جلوے نظر آتے ہیں؟ان کو دانا ڈالتی ہیں۔ ان کو پچکارتی ہیں۔ ان کے کھابے میں سے جو کے دانے چنتی ہیں؟اب پاکستانی" زائروں" کی ایک تیسری قسم سامنے آئی ۔ بزرگوں اور معذوروں کے لئے یہاں وہیل چیئر کی مفت سہولت دستیاب ہوتی ہے ۔ اس خدمت کے لئے رجسٹرڈ شدہ اوربا وردی Wheel Pushers مبلغ150 ریال کے عوض مل جاتے ہیں،ان کی شناخت ہو تی ہے۔ طواف اور سعی کی خدمت بجا لاتے ہیں، بہت مستعد۔ یہ تیسری قسم ایسے پاکستانیوں کی ہے جوزیادہ تر جنوبی پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی کہانی ہے کہ مکہ میں کیوں قیام پذیر ہے اور کس کے ستم کا شکار ہے۔ وہ مقرر ہ نر خوں سے کم ریال پر تیار ہو جائیں گے۔ خود اس نے پہلے سے ایک میلا سااحرام باندھ رکھاہو گا۔ مہربانی سے وہ آپ کوہوٹل تک اتار آئے گا۔ یہ بھی کہے گا اگر کسی سرکاری اہلکار نے دریافت کیا تو زائر کہہ دیں کہ یہ میرا عزیز ہے! اپنا فون نمبر بھی دیتے ہیں کہ جب اور جہاں ضرورت پڑے اسے بک کر سکتے ، بلوا سکتے ہیں!
خانہ کعبہ کے گرد مطاف کے اندرطواف کے دوران انسان کی کیفیت عجیب ہوتی ہے۔ اس کے گھر کو دیکھیں تو اس کی کبریائی ، وحدانیت وجبروت، عظمت و قدرت اور اختیار و اقتدار سامنے آتا ہے۔ کیا اپنے اعمال اور کردارکے ساتھ ہم اسے منہ دکھانے کے قابل ہیں؟کیا مسلمان خصوصاًپاکستانی اپنے کرتوتوں کے باعث رب کعبہ کے گھر کو دیکھنے کے اہل ہیں؟ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے مسلمانوں خصوصاً پاکستانی قوم کے کرپٹ، نااہل، بد دیانت سر براہوں کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔اس کی باقاعدہ فلم بنتی ہے جو سعودی کیمرہ مین ہی بناتے ہیں اور اس کی جگہ جگہ نمائش ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے سعودی حکمرانوں کو اس گھر کی حرمت کا پاس نہیں ہے۔ حرم میں بھی ان کی سیاست چلتی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟وہ گھر جو ہزاروں سالوں سے اربوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن ، ان کی عبادات کا محور، ان کے لئے ملجی اور ماویٰ ا ور دھرتی پر توحید کا آفاقی سمبل ہے۔کیا یہ سعودی عمل اللہ کے گھر کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ طواف کرنے والوں کا ولولہ بھی دیدنی ہے۔ آنسو ہیں کہ بہے جارے ہیں۔ دل ہے کہ نکلا جا رہا ہے ، اعمال ہیں کہ فلم کی طرح آنکھوں کی سامنے گذر رہے ہے، لب ہیں کہ تقدس تحمید کے نغموں سے سوکھ رہے ہیں۔ انتہائی لاچار اور ضیعف بھی ہیں اور باپ کے شانوں پر سوار ننھے بچے بھی، ماؤں کی گود میں دودھ پیتے نونہال بھی ہیں اورنوجوان بیٹے کا ہاتھ پکڑے بوڑھی ماں بھی، ہر رنگ ہر روپ ہر نسل کا مسلمان موجود ہے ،فرق لباس کا ہے اور نہ زبان کا۔یہاں ہر کلمہ گو کی ایک ہی سمت ، ایک ہی راستہ اور ایک ہی منزل ہے اور وہ کعبتہ اللہ ہے! اسی گھر کے مالک نے اپنے بندوں کے لئے اپنا رسول بھیجا اور اپنی کتاب عنایت کی۔مگر یہ کیفیت صرف مطاف تک محدود ہے، یہاں سے باہر نکل کر وہی دنیا داری،دو نمبر ی، فرقہ بازی، گروپ بندی، امریکی مفادات اور پیسے کی غلامی اور من مانی زندگی گذارنے کے انداز۔منافقت اور مداہنت اور کیا ہے؟کئی زائر طواف کے دوران غلاف کعبہ سے چمٹے اور سسکتے نظر آتے ہیں ۔حجراسود کو چھونے یا بوسہ لینے کے لئے بڑی ہمت اور اچھی صحت چاہیے۔ ہم جیسے زائروں کے لئے استلام ہی کافی ہے۔ خانہ کعبہ کا دروازہ فرش سے کافی اونچائی پر واقع ہے۔ اس کے اندر جانے کے لئے خصوصی سیڑھی لگائی جاتی ہے۔ چونکہ کعبتہ اللہ کی عظمت کا احساس پوری طرح دل میں پیدا نہیں کیا جاتا اس لئے بعض زائر بالخصوص نوجوان طواف کے اس عمل میں غیر سنجیدہ بھی ہوتے ہیں جیسے چکروں کے دوران میں گھر دنیا کی باتیں ، سیلفی کا شوق، دوسرے زائرین کو دھکے، نوجوان خواتین گو پورے حجاب میں مگر اپنے خاوند کے بازو پر لٹکی محو طواف۔۔۔ اسی لئے تو رب کعبہ نے پہلے ہی Warn کر دیا تھا:وَلَا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ
ڈیوٹی پر مامور سعودی پولیس کے شرطوں کی یہ بات تو ماننے اور کر نے والی ہے کہ وہ انسانی ٹریفک کے بہا ؤ کو جاری رکھیں ۔ اگر وہ کسی رکاوٹ کو فی الفور نہ ہٹائیں تو اس سے Stampede (پائوں میں روندے جانے) کے خوفناک حادثے جنم لے سکتے ہیں ۔ جیسے کسی راستے میں بیٹھ جانا یا سامان رکھنا ، ایک سمت کے مخالف جانے کی کوشش کرنا،بند راستے میں گھسنا ، اس سلسلے میں شرطے کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ لحاظ کریں تو وہ راستہ Choke ہو جائے۔ مگر ایک تو ان کا عربی زبان میں حد درجہ خشک لب و لہجہ، کرخت انداز زجروتو بیخ، دوسرے شرطوں کی کوئی کمانڈ اردو، فارسی، انگریزی ،فرنچ،روسی، ہندی، ملائی، انڈونیشی یا سواحلی، کسی اور زبان میں نہیں ہوتی اور نہ کسی بورڈ پر کہیں لکھی جاتی ہے،اس لئے ہجوم کی نا فہمی یا کم تعاون کا جواز موجود ہے۔
مکہ اور مدینہ دونوں شہروں میں ٹی وی کے گنے چنے ہی چینل نظر آتے ہیں چنانچہ شکر ہے کہ میڈیا اور اشتہاروں سے لتھڑے بلکہ زہرآلود ہ اذہان کو یہاں چند روز آرام مل جاتا ہے۔ اگرچہ اہل شوق یہ کمی جدید آئی فون سے پوری کر لیتے ہیں اس لئے وہ ٹی وی سے بے نیاز ہیں۔ان چینلزسے مختلف زبانو ں میں حرمین یا قیام سعودیہ کے بارے میں تعلیمی، تر بیتی اور معلوماتی پروگرام مختلف زبانوں میں نشر کئے جا سکتے ہیں۔ یہ کام بھی سعودی کی زیر ترقی ٹورسٹ انڈسٹری کا نہایت ضروری اور مفید حصہ ہو گا! حرم کے باہر اور حرم کے اندر آنے جانے ٹھہرنے کے آداب اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کے قواعد اور ضوابط بھی، جب تک زائر ین کو ان کا علم نہ ہو گا وہ اپنے سفر کی سہولیات اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون اور ان سے مزیداستفادہ سے محروم رہے گا۔
عمرے کے سارے سفر میں پانچوں مسافروں نے فیس ماسک كو چہرے كا مستقل حصہ بنائے رکھا۔ میں نے تو مطاف میں چکروں کے درمیان N-95 برابر لگائے رکھا اور اس کا ضرور فائدہ بھی ہوا کیونکہ لوٹ کر کسی بیماری نے حملہ نہیں کیا ۔ الحمدللہ
مکہ کے ہوٹل میں بعض نمازیں ادا کیں ۔یہ نماز گاہ ہوٹل کی تیسری منزل پر بنائی گئی ہے۔ مردوں عورتوں کے لئے الگ الگ حصے ہیں۔ طہارت خانے، وضو گاہ۔ یوں تو سارا مکہ ہی حرم ہے ،شہر میں جہاں بھی نماز ادا کی جائے، حدود حرم کے اندر شمار ہو گی۔ ایک روز ہوٹل کی نماز گاہ میں زیادہ لوگ مغرب کے وقت اکٹھے ہو گئے۔ ایک صاحب نے امامت کی۔ پہلے تو وہ حرم کی اذان سنتے رہے۔ جب اذان ختم ہوئی تو صف بند ہوئے۔ حرم کی تکبیر اوراقامت مکمل ہوئی تو ہوٹل کی مسجد کے اس امام نے تکبیر اولیٰ کہہ دی۔ حرم کی قرات اور تکبیر ات کو فالو کیا اور یوں لوگوں نے ہوٹل کےاندرباجماعت نماز حرم کے ساتھ ادا کی۔ میرے لئے یہ امر حیران کن تھا۔ ایک روز دوسرا سین دیکھا ۔ غالباً بنگالی زائر تھے۔ اس بار داخلی اذان ہوئی، اقامت کے بعد امام نے مقامی طور پر سورتیں پڑھی اورنماز مکمل کی۔یہ امر پہلے سے بالکل مختلف تھا ۔کیا یہ دونوں طریقے درست ہیں؟ واللہ اعلم با الصواب
ہوٹل کے نزدیک واقع محلے میں مسجد محمد حسن فارسی دکھائی دی۔ سیاہ فام امام، وہی موذن ، وہی مکبر۔جماعت پر سکون، قرات سادہ۔ مختلف جگہوں اور طاقوں پر قرآن کی نسخے مگر پڑھنے میں قدرے دشوار ۔ مسجد میں منبر بھی ہے اور محراب بھی۔ اذان کے بعد دس منٹ کا وقفہ ۔زیادہ تر نمازی بنگلہ دیشی تھے۔ بعض دھوتی باندھے ہوئے۔ سرٹوپیوں سے ڈھکے ہوئے ، آمین کی آواز زیادہ او نچی نہیں تھی۔ نماز ی کافی تعداد میں تھے۔ عورتوں کے لئے الگ سے راستہ اور علاحدہ جگہ تھی۔ اصولاًیہ مسجد بھی تو حرم کا حصہ ہے۔ ہوٹل کی نماز گاہ سے یہ مسجد کہیں بہتر اور موزوں ہے۔ نماز کے وقت مسجد کے دروازے کھولے جاتے ہیں ورنہ مسجد بند رہتی ہے۔ ایک ضیعف اور بیمار بنگالی خادم صفائی کرتا نظر آیا۔ مسجد میں یہ ہدایت بھی موجود ہے: اغلاق الجلود( موبائل بند رکھیں)۔
محلہ اجیاد میں واقع یہ مسجد خاصی بڑی ہے۔ شروع میں خواتین کے لئے گیلری ہے جس کا راستہ مشرقی جانب باہر سے جاتا ہے۔ مسجد کے صحن پر ایک گنبد ہے۔ نیچے کا قالین پرانا ہے مگر صاف اور بے بو۔ دیواریں اونچی اور اے سی وافر تعداد میں۔ میں نے مسجد کے چاروں طرف چکر لگایا ہر طرف کئی منزلہ عمارات ہیں۔ شاید ان میں مسافر ٹہرے ہو نگے یا علاقے میں کام کرنے والے لوگ ، عرب نہیں تھے۔ مسجد کے ساتھ کسی جگہ طہارۃ خانہ یا وضو خانہ نظر نہیں آیا جیسے نمازی گھر سے تیاری کر کے آتے ہیں۔ مسجد کی مغرب کی جانب محراب بنایا گیا ہے جہاں امامت کے لئے امام کھڑا ہو تا ہے۔ محراب کے بائیں جانب ایک دروازہ ہے جوپیچھے سے ہوتا ہوادائیں جانب سیڑھیوں پر کھلتا ہے، یہ منبر ہے۔ محراب کے مصلیٰ کے پاس لکڑی کاسٹینڈ ہے جس میں کتابوں کے لئے آٹھ خانے بنے ہوئے ہیں، ان کے نیچے لکھا ہے:عربی ، اردو، ہندی ، بنگالی، انڈونیشی، فلپائنی، ملاوی
اردو میں مولانا محمد جونا گڈھی کا ترجمہ اور علامہ یوسف اسلام کی تشریح ہے۔
انگریزی میں عبداللہ یوسف علی کا (ترجمہ )جسے ضرورت ہو مفت مانگ سکتا ہے۔
4 جنور ی بروز بدھ حرم سے لوٹ کر شارع ابراہیم خلیل کے ایک ریستورنٹ میں ناشتہ کیا۔ یہ بنگلہ دیشی ریسٹورنٹ تھا ۔ دال، پراٹھا، حلوہ، چائے(18 ریال+ 2 ریال راشد بیرے کو)کھانا صاف ستھرا اورذائقے دار تھا۔زیادہ لطف بنگالی بھائیوں کی میزبانی سے آیا۔ ہم ان کا حصہ تھے وہ ہماری زیادتیوں سے تنگ آکر جدا ہو گئے اورہمیں ان سفاکوں اور ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے جو ابھی تک وطن عزیز کو بری طرح جھنجھوڑ رہے ہیں۔ جیسے ہمارا کوئی مستقبل نہیں ؟ہم اپنے وطن میں اجنبی ہیں۔
2 جنوری کوتیار ہو کر صبح 8 بجے نکلے ۔ عثمان نامی پاکستانی ڈرائیور اپنی 7 سیٹر ویگنز کے ساتھ منتظر تھا ۔ اس کے ساتھ مکہ کے مضافات میں چند مقامات کی" زیارت" کی، جنہیں آثار بھی نہیں کہا جا سکتاکیونکہ یہاںکوئی پرانے آثار نہیں پائے جاتے۔اول تو وہاں سوائے پہاڑ کے جو اپنی اصلی حالت میں زمین میں گڑے ہوئے تھے،دوسری کسی عمارت میں کوئی پرانی چیز موجو د نہ تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ گائڈ کی زبان کی تاثیر تھی جو اپنی لسانی طاقت کے بل بوتے پر چودہ سو سال پرانی عمارت کا وجود خیال میں تعمیر کر رہا تھا!
غار حرا ، غار ثور، جبل اسماعیل، کوہ احد، مسجد قبلتین،مقام خندق، مسجد حارثہ جو غزوہ احد کے بعد استعمال میں آئی، منازل/ مقامات حج(منا، مسجد نمرہ، غرمات، قربان گاہ، جبل رحمت)غار حرا کے آغاز میں نوٹس جو مختلف زبانوں میں تحریر ہے:
پیارے مسلمان بھائی: نبی ﷺ نے ہمارے لئے اس پہاڑ پر چڑھنا، یہاں نماز ادا کرنا، یہاں کے پتھروں کو چھونا، یہاں کے درختوں پر گرہ لگانا اور یہاں کی مٹی ، پتھروں اور درختوں میں سے کچھ ( ساتھ) لینے کو مشروع نہیں کیا ہے۔ جب کہ ساری بھلائی آپ ﷺ کی سنت کی پیروی میں ہے۔ لہٰذااس ( ہدایت/ نوٹس) کی مخالفت( خلاف ورزی) نہ کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:(لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ)" یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کے اسوہ میں عمدہ نمونہ ( موجود) ہے" ۔
میں تو کہیں بھی گاڑی سے نہیں اتراسوائے مسجد قبا کے جہاں کے آزاد منش اور ان کے بعد دوستانہ کبوتروں کو دیکھتا رہا۔ حقیقت میں یہاں سعودی عرب میں مسلمانوں کی تاریخ کے کوئی آثارموجود نہیں ہیں۔خلفائے راشدین سے سیّدنا عثمان غنی ؓ تک دارالخلافہ مدنیتہ النبی ﷺ تھا۔ سیّدنا علی ؓ کا دارالحکومت کوفہ میں اور سیّدنا معاویہ کا دارالحکومت دمشق میں تھا۔ تب آثار اور عمارات کو کوئی الگ سے اور خاص وجود نہیں تھا۔اگر کوئی عمارت یا آثار تھے بھی توموجودہ سعودی حکمرانوں کے بڑوں نے توحید کے جوش میں ان سب آثار، عمارات اور نشانات کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا ۔ اب اگر ان کی موجودہ نسل مذہبی ٹورازم کو فروغ دینا چاہتی ہے تو اسے مغرب کے ماہرین کی مدد سے نئے صنم تراشنے ہو نگے!
واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں مذہبی آثار اور ان کی زیارت کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اصل میں یہ عجمی فکر ہے جو ماضی پرست ہے اور فانی نشانات کا متلاشی ۔بعض مذاہب صرف ماضی کے نشانات پر قائم ہیں۔ ایر ان اور ہندوستان کے مذاہب اور تہذیبیں خاص طور پر اس فکر کی حامل ہیں۔ ان آثارکا اسلام کے ساتھ کہیں دور پرے کا بھی تعلق ہوتا یا مسلمانوں کے لئے کوئی افادیت ہوتی تو خلفائے راشدینؓ اور خلفائے بنو امیہؒ کے مبارک عہد میں ان علامات کی حفاظت کی جاتی ، ان آثار میں توسیع اور تزئین کی جاتی۔ اب چونکہ سفر سعود یہ، ٹورسٹ انڈسٹری میں تبدیل ہو رہا ہے، ممکن ہے نيا دور مغربی اور امریکی تہذیب کے زیر اثران مقامات کو نیا رنگ و روپ عطا کرے۔ ان آثار کی تاریخ گھڑی جائے اور وہاں کچھ بہروپ ڈالا جائے۔ اس " اعلیٰ" مقصد کے لئے پاکستان کے پاس بڑے زرخیز دماغ اور شاداب قلب و نظر ہیں۔یقین نہ ہو تو میلاد النبی ﷺ کے موقع پر مقامی ماڈل دیکھ لیں ۔ہے کوئی خدمات مستعار لینے والا؟
" زیارت" کے آخر میں جعرانہ پہنچے۔ پہلے سے موجودمسلمان عمرے کے آغاز کے مختلف مراحل سے گذررہے تھے۔ چنانچہ غسل کیا ، نیت کے ساتھ احرام باندھا اور مسجد میں دو نفل ادا کئے۔ خواتین نے اپنے حصے میں وضو اور نفل ادا کئے۔فارغ ہو کر سیدھے حرم پہنچے، ظہر کی اذان ہو چکی تھی۔ ابھی طواف جاری تھا کہ زوردار بارش شروع ہو گئی۔کچھ طواف ہلکی بوندا باندی میں کیا۔ پہلی منزل کے مقابلے میں مطاف میں کم وقت لگا۔
سعودی عرب کے سفر کے دوران عمرہ ایک بہت مصروف رکھنے والی عبادت ہے، ذہنی، قلبی اور جسمانی ہرسہ اعتبار سے ۔چنانچہ اس کے دوران اول تو میل جول (Socialize) کرنے کا وقت نہیں ہوتا دوسرا کوئی اتنا فارغ بھی نہیں ملتا جو کہہ سکے کہ" ہور سنائو فیر کی حال چال اے! ـ" ایسی ملاقاتوں سے پس پردہ جذبات ، بے روک تاثرات اور سینہ گزٹ خبریں ملتی ہیں۔ عام رابطے کی کمی کے باوجودیہ احساس جگہ جگہ پایا جاتا ہے کہ موجودہ سعودی سرکار اصل میں بزنس سرکا رہے جس کو ڈر ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں اس کے تیل کے ذخائر دم توڑنے والے ہیں۔ساتھ پٹرول کے مہنگے داموں کی بناپر سائنس دان توانائی کے نئے ذرائع اور وسائل تلاش کر رہے ہیں جو غریب ملکوں کے لئے سستے اور اتار چڑھائو کے بغیر دستیاب ہوں گے۔ ظاہر ہے اگر ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تو پھر سعودی عرب پرانے زمانوں کی طرح جب وہ عربی لباس میں ملبوس پاکستان کے شہروں ،قصبوں میں جمعہ کے اجتماعات میں نظر آتے تھے اور مسلمان ان کے لباس اور عربی زبان سے متاثر ہو کر ان کو صدقہ خیرات دیا کرتے تھے ، شاید اس طرف تو نہ لوٹ سکے۔مادہ پر ستی کے زیر اثر وہ زرکو" قاضی الحاجات اور ستار العیوب" ضرورقرار دے چکے ہیں۔اب وہی ان کا مطمح نظر ہے۔
چنانچہ معاشی اور تجارتی مفادات کے پیش نظر اب عمرہ اور حج کو Commercialize کیا جارہا ہے۔ مسجد نبوی اور حرم کعبہ سے وابستہ قریبی پرانی عمارات دھڑا دھڑا گرا کر نئے کثیر منزلہ جدید ترین سہولیات والے ہوٹل بنائے جارہے ہیں۔ خانہ کعبہ میں گرائونڈ کے علاوہ اس کے ارد گرد دو منزلیں توفضائی طواف کے لئے تقریباً مکمل ہیں۔ اب تیسری منزل زیر تعمیر ہے۔ شیندہے کہ محمد بن سلمان حجاج کی موجودہ تعداد میں 2 سے 3 گنا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ کام بہت بڑا اور سعودی منصوبہ سازوں کے لئے شاید آسان ہومگر مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کو اور کتنا چوڑا کیا اور پھیلایا جا سکتا ہے؟ زائرین اور حجاج کی ایک بہت بڑی تعداد ایک بہت بڑی چار دیواری کے اندرتو آجائے گی مگر جب انہیں اللہ کا گھر ہی نظر نہ آئے ،مزار مبارک کا دیدار نصیب نہ ہو،عبادات کے لئے سکون مفقود ہو تو وہ سنگ مر مر سے کتنا دل بہلائیں گے؟ ایک صورت تو زیر زمین جانے کی ہے اور دوسری فضامیں بلند ہو کر مناسک ادا کرنے کی؟کثرت اژدھام سے عمرہ اور حج محض خانہ پری بن کر رہ جائیں گے ۔ مناسک ، عبادات اور نوافل نا ممکنات میں سے ہو کر جائیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی مقامی مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ عالم اسلام کے سوچنے کا ہے۔ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم جسے OIC ( آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کہا جاتا ہے، میسر ہے مگر عملاً تو یہ لفظی ادارہ پلیٹ اور فارم دونوں سے فارغ ہے۔ جس طرح اقوام متحدہ امریکہ کی تابعدار ہے اسی طرح OIC سعودی عرب کا ،مگر یہاں کون سا امریکہ یا یورپین یو نین سے کچھ مانگنا یا ان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔OIC اپنے دیسی حاکموں یعنی سعودیوں سے اجازت لے کر اہم اجلاس بلائیں اور حر مین میں جانے والے بے زبان مسلمانوں کی مجبوریوں ، عملی حالت زار اور مسلسل توسیع سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات سے آگاہ کریں۔یہ تو رہی آئندہ کی بات۔ ایک کام تو زیادہ تاخیر کے بغیر ابھی سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ عمرہ کے لئے سعودیہ میں قیام کی مدت کو کم کر دیا جائے اور یہ اجازت صرف 7 دن کے لئے ہو۔ اگر چہ سعودی مکہ اور مدینہ کا انسانی ٹریفک بخوبی کنٹرول کرتے ہیں مگر بیک وقت عمرے کے عارضی اقامے اتنی تعداد میں جاری کئے جاتے ہیں کہ کثرت اژدھام سے عبادت کا مقصد مجروح ہو جاتا ہے۔
پی آئی اے سے ہماری واپسی کی فلائٹ مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے جدہ سے روانہ ہوناتھی چنانچہ 5 جنوری2023 ع کی سہ پہرکو بر وقت سامان چیک کر کے مقررہ ڈرائیور کا انتظار کرنے لگے۔ اصولاً تو ہمیں اپنے کمروں میں رہنا چاہیے تھا لیکن ہو ٹل انتظامیہ نے شور مچا دیا کہ" کمرے خالی کریں،ان کے اگلے کرایہ دار" آنے والے ہیں اور عملے نے کمرے تیار کرنے ہیں" ۔ چنانچہ اپنے درجن بھر نگوں کے ساتھ کمروں سے نکلے اور ہوٹل کی لابی میں کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے انتظار کے دوران ابھی تک " کرایہ دار"وارد نہیں ہوئے تھے۔ادھر تیز بارش شروع ہو گئی۔ ہوٹل جس گلی میں واقع تھا وہاں پہنچنے کے لئے ڈرائیور کو شارع ابراہیم خلیل پر ٹریفک کے کھلنے کا انتظار کرنا تھا کیونکہ مقررہ اوقات سے پہلے گلی میں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ فلائٹ کے لئے جدہ ٹرمینل پر بر قت پہنچنے کے لئے عامر نے ہمت کی اور دوسر ی گلی سے ایک بڑی ٹیکسی کرائے پر لے آئے۔ یہ ٹیکسی مسافر وں اور سامان کو لے کر اس جگہ پہنچی جہاں پہلے سے عام ٹریفک چل رہی تھی اور ہمارے جدہ کے سفر کا ڈرائیور راشد انتظار کر رہا تھا۔ ایک آدھ کلو میٹر کا یہ فاصلہ 50 ریال میں پڑا ۔ بوندا باندی میں سامان کو ٹیکسی میں منتقل کیا اور سوئے جدہ روانہ ہو گئے۔
پہلا پڑاؤ انواریہ نام سروس سٹیشن تھا ، رو شنیوں اور فلیکسوں سے یہ مستقر یورپ کا کوئی پڑاؤ لگ رہا تھا۔ ایک فاسٹ فوڈ سے پیٹ پو جا کی کیونکہ ایئر پورٹ پر کھانے پینے کے انتظام کی زیادہ توقع نہ تھی۔ جدہ پہنچ کر پہلے تو دو ٹرالیاں بہت مہنگوں داموں ملیں جن کے مزدور پٹھان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ریال دے کر ٹیکسیاں لاتے ہیں۔ پی آئی اے نے جو ٹوکن دیئے تھے ان پر زم زم کے 10 لیٹر کے پانچ پلاسٹک کنستر حاصل کئے۔ جس جگہ پاکستانی مسافر اپنے سامان کے ساتھ موجود تھے وہاں شدید کولنگ تھی ۔مسافر لوگ اپنے ساتھ کے ساتھ دبکے بیٹھے تھے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ فلائٹ غیر معمولی طور پر لیٹ ہے۔ اب وہ رات کی بجائے اگلی صبح 6 بجے پاکستان روانہ ہو گی! سامان کے ساتھ بڑے لاؤنج میں ٹھكانہ بنایا۔ اس جگہ کوئی پاکستانی اہلکار موجود نہ تھا۔ اتنی تاخیر کی وجہ سے لازم تھا کہ ایئر پورٹ کے مسافروں کی کچھ خبر گیری رکھی جاتی۔ کافی انتظار کے بعد سعودی عملے نے لاؤنج میں آکر بتایا کہ بورڈنگ شروع ہے۔ بورڈنگ کارڈ لے چکے تو بتایا گیا کہ اب امی گریشن اور سامان کی سکریننگ کے لئے ایک اور جگہ جائیں، کسی نشاندہی یا رہنمائی کے بغیر مختلف جگہوں سے گذرتے ایک لمبے راستے سے، پھر ایک لفٹ کے ذریعے پہلی یا دوسری منزل پر پہنچے۔ آگے بڑھے تو ایک جگہ زائرین کی دو قطاریں تھیں۔ ایک مردانہ اور ایک زنانہ۔ یہاں سامان کی سکریننگ بھی ہو رہی تھی اور امی گریشن کی مہر بھی لگ رہی تھی۔اندر ہال میں داخل ہوئے تو ہر طرف کرسیوں کی قطاریں تھیں،دستی بیگوں کے ساتھ کرسیوں پر برا جمان ہو گئے۔ غالباً رات کے 2 یا 3 بجے کا وقت ہو گا۔ آہستہ آہستہ یہ ہال بھر گیا۔ یہ وقت بھی خوب تھا کہ کر سی پر بیٹھے بیٹھے پتہ نہ چلا کہ کب نیند حملہ آور ہوئی۔ جب آنکھ کھلی تو چیک ان کا آغاز ہو چکا تھا۔
خدا خدا کر کے جہاز میں سوار ہوئے۔ جیسا کہ اکثر ہوائی کمپنیوں کا معمول ہے وہ مسافروں کے بیٹھتے ہی پہلا کام کھانا فراہم کرنے کا کرتی ہیں۔حیرت ، بے بسی اور مجبوری کا اندازہ کریں جب کھانا سرو ہوا تو وہ ناشتے کی بجائے گذشتہ رات کا " ڈنر" تھا جو پاکستانی مسافروں کو ملنا تھا، اب صبح کے وقت وہ چاول اور دہی کی شکل میں پیش کیا جا رہا تھا۔ اتفاق سے آج کافی موجود تھی چنانچہ ایک کیک پیس کے ساتھ اسی پر گذارا کیا ۔
جہاز قریباً 12 بجے دن اسلام آباد کے ائر پورٹ پر اترا۔منصور گاڑیوں کے ساتھ منتظر تھے۔ موٹروے سے لاہور روانہ ہوئے ، راستے میں وہ پر تکلف ناشتہ نما کھانا کھایا جو شاہد احمد اور ان کی بیگم کی طرف سے خصوصی طور پر بھیجا گیا تھا۔شام 6 بجے کے قریب طویل سفر کے بعد اپنے غریب خانے پر پہنچ گئے۔