قسط -۹
ایران سے واپسی پر اب ہم آپ کو ایرانیوں کے مذہب کے بارے میں بتاتے ہیں
شیعہ مذہب
شیعیت اسلام کا ایک فرقہ ہے جس کے عقائد راسخ الاعتقاد سنی فرقے سے بالکل مختلف ہیں۔ شیعوں کے اندر تین بڑے فرقے ہیں۔ پہلا اثنا عشری یا بارہ امامی ہے۔ یہ 1501ع میں صفوی عہد سے ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ تعداد کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا فرقہ ہے ۔ یہ لوگ ایران ، عراق ، افغانستان، پاکستان، لبنان اور شام کے علاوہ سعودی عرب کے مشرقی حصے میں اور بعض خلیجی ریاستوں میں موجود ہیں۔ زیدی یا پنج امامی شیعہ یمن میں رہتے ہیں۔ اسماعیلی یا ہفت امامی ہندوستان ، پاکستان ،ایران ، شام ، مشرقی افریقہ اور وسطی ایشیا ء میں آباد ہیں۔ ان تین بڑے شیعہ فرقوں کے مزید فرقے اور شاخیں بھی ہیں۔
شیعہ کے لفظی معنی گروہ یا پارٹی کے ہیں۔ یہ اسلام کا قدیم ترین فرقہ ہے جس کا آغازاس وقت ہوا جب نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کا نزاع پیدا ہو گیا تھا ۔ شیعوں کے نزدیک سیدنا علی المرتضیٰؓ کو نبی اکرمﷺ سے خصوصی روحانی کمالات عطا ہوئے تھے۔ اس بنا پر وہ امامت کے خصوصی منصب پر فائز ہیں۔ یہی کمال اور فضیلت آپ کی اولاد میں جاری ہے جنہیں امام کہا جاتا ہے۔ شیعی فرقوں میں فرق کی بنیاد امام کی پہچان اور اس کی تخصیص سے ہے۔ امام کے اختیار میں بعض فرقے غلو میں چلے گئے ہیں مثلاً علی الہٰی ،تا ہم اثنا عشری کا شمار معتدل فرقے میں کیا جاتا ہے ۔ اس کے نزدیک امام کو روحانی اور سیاسی تفوق کے ساتھ خصوصی مقام ، اختیارات ، مخفی علم اور خدا کی خاص عنائت حاصل ہے جو کسی عامی کو نصیب نہیں ہوتی۔ وہ نور محمدی کا راستہ ہیں اور وہ گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔ امام کے وجود سے نہ صرف تخلیق قائم ہے بلکہ انہی کے دم سے بشر کی نجات ہے۔ امام جعفر صادقؒ کے بقول:
‘‘جو اپنے وقت کے امام کو جانے بغیر مرا وہ کفر کی موت مرا’’ ۔
گویا شیعوں کا امام بندے اور خدا کے درمیان واسطہ ہے۔ اس کے بالمقابل سنی مذہب میں نماز کی جماعت کرانے والا امام ہوتا ہے یا احتراماً وہ شخص جو علمی حیثیت میں ممتاز ہو یا فقہی معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اپنا اجتہاد اور رائے رکھتا ہو۔ سنی امام کے پاس کسی قسم کا روحانی ، سیاسی ، دینی اختیار یا اعزاز نہیں ہوتا۔بس وہ فقہی امور میں رائے دیتا ہے’ جسے قبول یا رد کیا جا سکتا ہے ۔تا ہم سنی، شیعہ اماموں کا احترام کرتے ہیں۔
بارہ اماموں میں سید نا حضرت علیؓ(م:661ع) ، سید نا حضرت حسنؓ(م:669ع)، سیدنا حضرت حسینؓ(م:680ع)، اور سید زین العابدینؓ (م:712ع)کے علاوہ حضرت محمد الباقر ؒ( م:731ع)، حضرت جعفر صادقؒ (م:765ع)، حضرت موسیٰ کاظمؒ (م:818ع)، حضرت علی رضاؒ (م:818ع) ، حضرت محمد التقیؒ (م:835ع)، حضرت علی النقویؒ ( م:868ع) اور حضرت حسن العسکریؒ (م:873ع) شامل ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت حسنؓ ، حضرت زین العابدینؒ، حضرت محمد الباقر ؒ اور حضرت جعفر الصادقؒ کے مزارات مدینہ میں ہیں۔ حضرت علی رضاؒمشہد اور باقی کے چھ امام عراق میں دفن ہیں۔
بارھویں امام حضرت محمد بن حسن العسکری ہیں جنہیں امام غائب، المہدی المنتظر، القائم ، صاحب الزمان بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ 15شعبان869ع کو پیدا ہوئے اور اپنے والد کی وفات کے بعد صغر سنی میں غائب ہو گئے ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ حیات اور موثر ہیں۔ قیامت کے نزدیک وہ بطور مہدی ظاہر ہوں گے۔ کفار سے جنگ کریں گے اور ان کے دم سے اسلام پھر دنیا میں غالب آئے گا۔ حضرت علیؓ پہلے امام ہیں۔ اکثر سنی صوفیا سیدنا علیؓ کو اپنے سلاسل کا بانی سمجھتے ہیں سوائے چند خصوصاً نقشبندیوں کے جو اپنا سلسلہ سید نا ابو بکر صدیقؓ سے جوڑتے ہیں۔ گویا نبی اکرم ﷺ کے تمام روحانی اور باطنی علوم بقول سنی صوفیا کے صرف حضرت علی ؓ کو منتقل ہوئے ہیں باقی صحابہ کرامؓ کو کوئی حصہ عطا نہیں ہوا۔
شیعوں کے مختلف فرقوں اور جماعتوں میں امامت اور دیگر عقائد کے بارے میں نظریات یکساں نہیں ۔ ایران کا حال قدرے مختلف ہے جہاں پچھلے پانچ سو برس سے اثنا عشری فکر اور فقہ اس کا سرکاری مذہب ہے۔ اصولی مکتب فکر کی وجہ سے وہاں نظریاتی ترقی، عقیدے کا استحکام اور فکری ہم آہنگی ہے۔ علماء اور مجتہدین کا مضبوط نظام قائم ہو چکا ہے۔ تاہم بڑے علماء اور مجتہدین میں متعدد اہم عقائد اور اصولوں پر اختلافات ہیں جن کا وہ مہذب انداز میں اظہار بھی کرتے ہیں۔ تا ہم اس اختلاف سے معاشرے کے امن میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایران کے علماء اور مذہبی طبقوں میں پاکستان کی طرح تقسیم در تقسیم اورمخالفت برائے مخالفت کی فضا نہیں پائی جاتی۔
شیعی عقائد کے پانچ ستونوں میں توحید، نبوت اور آخرت کے ساتھ امامت اور عدل بھی شامل ہیں۔ ہر شیعی فرقے یا جماعت کی اپنی فقہ ہے جو دوسروں سے مختلف ہے۔ اثنا عشریہ، حضرت جعفر صادقؒ کے حوالے سے فقہ جعفریہ پر کار بند ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام مالک بن انسؒ، دونوں امام جعفر صادقؒ کے شاگرد تھے تا ہم ان کے فقہی اصول اور استنباط اپنے استاد سے بالکل مختلف ہیں۔ چنانچہ سنی فقہ اور شیعہ فقہ میں بہت فرق ہے۔ شیعہ فقہ بعض معاملات میں بہت آسان اور بعض میں بہت سخت ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے ادوار گزرے ہیں جب پارٹی بازی کی بنا پر جید اصحاب اور خلفاؓ کے نام لے کر ان پر سبّ و شتم کیا جا تا تھا۔ یہ کام سر منبر خصوصاً جمعہ کے خطبہ میں ہوتا۔ شیعوں کے نزدیک نبی اکرم ﷺ کے وصی اور ولی ، ان کے کزن اور داماد سید نا علی المرتضیٰ ؓ تھے جنہیں خلیفہ اوّل ہونا چاہیۓ تھا۔ اسی طرح علویوں کے خلاف ظلم اور زیادتی کے بعض واقعات شیخینؒ اور بعض سُنی خلفاء سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ اس بنا پر بعض شیعہ تقیہ کے ساتھ تبرا بھی اپنے مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تحریک مدح صحابہ ؓ قیام پاکستان سے قبل ایسے ہی رویے کا رد عمل تھی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد تقیہ اور تبرا، دونوں سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔ ویسے بھی یہ سیاسی اور وقتی مطالبے تھے جن کی اب ضرورت نظر نہیں آتی۔
مذہبی اور روحانی لیڈر شپ شیعہ مذہب کی ایک بنیادی ضرورت اور اس کے عقیدے کا تقاضا ہے ۔ ایسی قیادت جو ایک صرف خدا کی طرف سے عطا کردہ مرتبے اور اس سے جڑی ہوئی ہو اور دوسری طرف فقر ،سخاوت، عقل ، جرأت اور دیگر اعلیٰ صفات اور کمالات سے متصف ہو۔ یہ وہ مقام ہے جس پر سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو فائز سمجھا جاتا ہے اور وہ شیعہ علماء و عوام اور سنی صوفی حضرات، دونوں کے مرجع ، مربی اور محور ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ شیعہ مذہب میں عزا داری اور عید غدیر کا آغاز آل بویہ (1062۔932ع) کے دور حکومت سے ہوا جب جعفر الدولہ(م:962ع) نے انہیں رسمی ادارے کی شکل دی ۔ ایران میں صفوی خاندان نے سیاسی استحکام پیدا کرنے اور اصل دعویداروں کو ختم کرنے کے لیے ماتم حسینؓ کو ایسے رنگ میں ڈھالا کہ شیعیت محض اسی کا نام ہو کر رہ گیا۔شیعہ مذہب کے اصول ، عقائد ، عرفان، حکمت، تفسیر ، فقہ، معاملات غرض تمام دینی اور علمی مظاہر پس پشت میں چلے گئے۔
ایران میں شیعیت:
اثنا عشری شیعیت ایران کا ریاستی مذہب ہے۔ اس لیے ایرانی ریاست کے سارے ستون اورعوامی ادارے (Public Institutions ) بارہ امامیت کے مظاہر ہیں۔ لباس کے سیاہ رنگ سے لے کر چوکوں اور بازاروں کے ناموں تک یہ اظہار پہلے بھی تھا، انقلاب اسلامی اور عراقی جارحیت میں جہاد اور شہادت نے اسے اور رنگین بنا دیا۔ ایرانی عوام کے اندر آئمہ اہل بیت ؓ سے عقیدت و محبت ہمیشہ رہی ہے۔ یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے اور اسی میں ان کی اخروی نجات ہے۔ حضرت موسیٰ رضاؒ اور حضرت فاطمہ معصومہؒ کے مزارات کی مرکزیت اور دنیا بھر کے شیعوں کی زیارت…… اہل ایران کی زندگی میں ایک ممتاز امر ہے۔
تا ہم پاکستان اور ایران کے شیعوں میں واضح فرق ہے۔ دونوں اپنے اپنے ماحول اور تاریخ کے مطابق عمل پیرا ہیں۔ ایران کا شیعہ مذہب پاکستان کے شیعہ مذہب سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کے شیعہ عزا داری کو اپنے مذہب کا لازمی حصہ قرار دیتے ، نماز اور دیگر فرائض کو عملاً ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ ایران میں عزا داری کی نہ شدت ہے اور نہ اس قدر اہمیت! محرم کے دنوں میں سانحہ کربلا پر سٹیج ڈرامے کئے جاتے ہیں۔ لیکن اظہار غم میں اتنا کچھ ہی کیا جاتا ہے جو نارمل نظر آئے ۔ تجاوز اور مبالغہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ہمارا گمان ہے کہ ایران کے محرم میں تعزیہ ، گھوڑا ، پنگھوڑا اور مہندی وغیرہ جیسی رسومات نہیں ہوں گی۔ ایران میں ماتم کے لیے پس منظر میں موسیقی استعمال کی جاتی ہے خصوصی ٹی وی اور کیسٹوں میں ۔ ایران کے علماء اپنی تعلیمات میں قرآن، توحید ، نماز ، تفسیر، احادیث ، حکمت،فقہ اور عرفان پر زور دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کا شیعہ مذہب مقبول نہیں ہے۔ دسویں کے جلوسوں میں اب نمازوں کا اہتمام شروع ہوا ہے۔ یہاں زیادہ زورایسے نیم خواندہ بلکہ ان پڑھ ذاکروں ، سوز خوانوں اور قصہ گویوں پر ہے جو زیادہ سے زیادہ مبالغہ، لفاظی اور رنگ آمیزی کر سکیں۔ایران میں عشرہ ولادت کی تقریبات میں سوز خوانی کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ مزار معصومہؒ کے مقرروں کے وعظ کے دوران نالہ و شیوان مفقود تھا۔ کہیں بھی ماتم کا عنصر نظر نہ آیا۔ قبرستان میں بھی ذاکر/ ملا اگر چہ مرحوم اور آئمہ کے حوالے سے نوحہ کناں تھا لیکن ماتم صرف وہاں نظر آیا جہاں حال ہی میں دفن ہونے والے کے لواحقین کچی قبر کے گرد دعا کر رہے تھے۔
ایران کے چاروں شہروں میں کسی مکان پر کالا علم دکھائی دیا اور نہ کسی جگہ دھاتی پنجہ ۔ کسی ایرانی کو ہاتھوں یا پیروں میں کڑا پہنے نہیں دیکھا۔ البتہ رنگدار پتھروں کی انگوٹھیاں اور تسبیح کا استعمال لوگوں میں بہت مقبول ہے۔امام زاد گان جو آئمہ اہل بیتؒ کی اولاد ہیں، ان میں سے کسی کے مزار پر لمبے کرتے ، لمبے بال ، خصوصی لٹ والا کڑے پوش کوئی ملنگ یا سائیں نظر نہیں آیا ۔ ہمارے ہاں یہ لوگ خود کو ‘‘ علی دا ملنگ’’ کہتے اور دین کے تمام فرائض سے معاف سمجھتے ہیں۔ ان کا ڈیرہ اکثر شہر سے باہر کسی قبرستان کے اندر ، بھنگ نوشی کے لیے مشہور ہوتا ہے۔ مشہد میں صاف لباس والا عام کپڑے پہنے ایک سائیں نظر آیا مگر انکشاف ہوا کہ موصوف پاکستانی اور پاکستانیوں کی خوشی طبعی کا سامان بنے ہوئے ہیں۔
ایران میں بارہ اماموں اور دیگر اہل بیت کے نام تو نظر آتے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند کی طرح کہیں بھی ‘‘ پنجتن ’’ کا تصور نہیں۔ غالباً یہ ہندوستانی ثقافت کا اثر ہے جس سے ایرانی تہذیب متاثر نہیں ہوئی ۔ ایران میں شیعیت معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں یہ امتیاز اور انفرادیت ہے۔ اگر یہاں بھی یہ معمول بن جائے،تو یقینا اختلاف اور انتشا ر کم ہو جائے گا۔
امریکہ اور عالم اسلام:
مغربی پراپیگنڈے کے زیر اثر ہم سادہ مسلمان امریکہ کو دنیا میں جمہوریت ، حریت اور مساوات کا چمپئین سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ۔ اصل میں یہ ایک مغربی طاقت ہے جو اپنے مفاداور برتری کے لیے اوّل روز سے جبر و استداد، ظلم و زیادتی اور پس پردہ جوڑ توڑ پر یقین رکھتی ہے۔ یہ سامراجی طاقت خدا ، انسانیت اور اخلاقیات پر ایمان نہیں رکھتی اور اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے ہر چیز پر اور ہر جگہ من مانی کرنا چاہتی ہے۔ معاملہ ریڈانڈین کا ہو یا عراق کے تیل کا ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی پرورش ہو یا فلپائن کے مارکوس کو بچانے کامعاملہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا ، جھگڑا صومالیہ کا ہو یا بوسنیا کا ۔ یورپ کے سوا جو امریکیوں کا آبائی وطن ہے، ہر خطے اور ہر قوم کے ساتھ اس کے معاملے کبھی دوستانہ اور منصفانہ نہیں رہے۔ مسلمان اور عالم اسلام توجنگ عظیم دوم کے بعد سے امریکہ کا خاص ہدف ہیں۔
پہلے یورپ اسلامی خطوں کا استحصال کرتا تھا، اب امریکہ حیلے بہانوں سے ویسا ہی استعماری بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سٹریٹجی کے تحت ہر عشرے میں امریکہ عالم اسلامی میں اپنے ‘فدائی اور اعتباری’ لیڈر تیار کرتا ہے جو ترقی ، روشن خیالی اورا من کی آڑ میں ایک طرف امریکہ سے اسلحہ خریدتے ،ملک میں آمریت قائم کرتے اور اپنے ہی عوام کو فتح کرتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کے مفادات اور مقاصد کی بھر پور نگہداشت کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ایران ہی کا رضا شاہ پہلوی جو پچھلی صدی کے کئی عشروں تک ممتاز مہرہ بنا رہا۔ اس بساط میں دوسرے کئی ممالک کے ساتھ پاکستان بھی دوسرے درجے کا مہرہ بنا ۔ رضا شاہ نے ملک کے آئین اداروں اور ان افراد کو کچلنے کے لیے تمام سفا کانہ حربے استعمال کئے جو مذہب ، قومیت ، اخلاق اوردستور کی بات کرتے تھے۔ ایک فرد واحد تھا جو ملک کے مستقبل اور قوم کے مقدر سے کھیل رہا تھا۔
حامد انصاری نے امام خمینی کے حوالے سے ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے:
The Narrative of Awakening
A Look at Imam Khameini's Ideal, Scientific and Political Biography
جسے ڈاکٹر سید منو چہر موسوسی نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک قابل قدر تحریر ہے۔ اس میں ایران کے تاریخی واقعات کو مثبت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ انقلاب حامی لٹریچر کی طرح یہ محض خود ستائشی ہے اور نہ مخالفین کے لتے لیے گئے ہیں۔ 375 صفحات کی اس کتاب کو The Institute for Compilation and Publication of the Works of Imam Khomeini (International Affairs Division) نے تہران سے شائع کیا ہے ۔
مسلم قیادت:
عالم اسلام ایمان کی آسمانی دولت اورکثیر زمینی وسائل کے باوجود شروع سے بد قسمت خطہ رہا ہے۔ یہاں اصول ، اخلاق اور عوام کی امنگوں کے بر عکس ایسی قیادتیں مسلط ہوتی چلی آئی ہیں جنہوں نے قومی غیرت کے سودے کئے اور اپنے اقتدارکو دوام بخشنے کے لیے تمام قانونی، دستوری اور اخلاقی قدروں کو پامال کر دیا۔ ان کے اقتدار میں ملک کی ضرورت اور عوام اور علماء حق کے مطالبے ایک طرف ، فرد واحد کی آمریت اور ذاتی اغراض اور قوم فروش فیصلے دوسری طرف ہوتے۔ دین اور قوم کے داعیے ایک جانب اور ضمیر فروش، غریب کش اور سامراج ایجنٹ قیادت کے طور طریقے دوسری جانب ہوتے۔ انہوں نے حکمران بن کر یہ واضح دو عملی اختیار کیے رکھی مراکش سے انڈونیشیا تک امریکی تائید و اعانت سے اکثر ممالک میں ایسی ہی قیادت مسلمانوں پر مسلط رہتی ہے خواہ وہاں ووٹ کا رسمی یا نمائشی استعمال کیوں نہ رہا ہو۔
ایرانی ملائیت:
ایران بھی ایسی ہی بد قسمتی اور بے نصیبی کا شکار رہا ۔تا ہم ایران ایک لحاظ سے دیگر اسلامی ممالک سے مختلف ہے کہ یہاں ملائیت بہت پہلے سے ایک مضبوط و منظم طاقت رہی ہے۔ اس کے پاس خمس اور اوقاف کا سرمایہ ہے اور تعلیم و تنظیم بھی ، عوام تو شروع سے اس کے گرویدہ ہیں۔
یہ نظام کس طرح وجود میں آیا، اس کا موجودہ ڈھانچہ کیا ہے، غلط افکار اور غلط روش سے بچنے کے لیے داخلی آڈٹ کیا ہے اجتہادی یا سیاسی اختلاف رائے کو کیسے سمویا گیا ہے،علماء سو ہیں تو ان کا کیا سد باب کیا ہے، یہ نظام حکومت اور عام زندگی میں شہریوں کو کتنا متاثر کرتا ہے، موجودہ نظام میں ملاؤں کا اثر و نفود کتنا ہے اور اس پر چیک کون رکھتا ہے ؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب جاننے کے لیے ہمارے پاس فرصت، وسائل اور رابطے مفقود تھے۔ تا ہم حقیقت یہ ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے لانے، اسے چلانے اور آئندہ بچانے کے لیے یہ ادارہ یانظام از حد ضروری ہے۔ اسے کوئی نام بھی دے لیں۔ اسلامی انقلاب کی بقا اور تسلسل کے لیے یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مغربی افکار اور جدید میڈیا کی یلغار کو ایک تعلیم یافتہ ’ترقی پسند اور پرُ اعتماد مذہبی قیادت ہی روک سکتی ہے۔
علامہ جمال الدین افغانیؒ:
1891-92ع میں ایران کے قاچاری باد شاہ،ناصر الدین شاہ نے ایک انگریزکمپنی کے ساتھ تمباکو کی پیداوار کا سودا کر لیا تو عوام سرپا احتجاج بن گئے۔ اس تحریک میں آیت اللہ میسرزئی شیرازی نے عوامی جدوجہد کی قیادت کی، آخر کار ناصر الدین کو اس سودے سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہی دور تھا جب حریت، جمہوریت اور وحدت کے عظیم داعی اور مصلح سید جمال الدین افغانیؒ مصر ، ترکی، ہندوستان ، افغانستان اور ایران کے دوروں میں مصروف تھے۔ وہ اپنی زبان اور قلم سے مسلم ممالک کے جابر و خود سر اورمطلق العنان بادشاہوں کے کردار اور انگریزوں کی استعماری پالیسی پر کڑی تنقید کر رہے تھے۔علامہ افغانیؒ کو ناصر الدین شاہ نے دو مرتبہ ایران کی حدود سے نکالا۔
علامہ افغانیؒ نے پیرس سے ‘‘ عروۃ الوثقی ’’ نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا جو انگریز کے جو رواستبداد اور دوسری قوموں کو غلام بنانے کی پالیسی کے خلاف تھا۔ اسی نام سے آیت اللہ سید محمد کاظم طبا طبائی یزدی نے 1956ع میں ایک کتاب لکھی جس پر امام خمینی نے ‘‘تعلیقات علی العروۃ الوثقی’’ کے نام سے اضافہ اور حاشیہ لکھا۔اس اعتبار سے ایرانی علماء میں حریت فکر ، جمہوریت، عوام دوست اور وحدت ملی کے اثرات پرانے اور بلاد اسلامیہ کے قدم بقدم ہیں۔
رضا خانی جبر و استبداد:
مسلم امہ کے لیے انگریز،امریکی اور فرانسیسی ،تینوں اقوام سنگین خطرہ ثابت ہو چکی ہیں۔ گو یورپ کی تمام اقوام بشمول روس نے اپنی بساط اور موقع کے مطابق مسلم اقوام کو لوٹا، غلام بنایا اور اپنی تہذیب اور زبان کے پجاری فوجی و سول نوکر شاہی اور سیاسی جانشین باقی چھوڑے تا ہم افریقہ میں فرانس ، ایشیا میں برطانیہ اور عالمی سطح پر امریکہ کے جو رواستبداد اور اثر و نفوذ کا کوئی حساب نہیں ہے۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد ترکی میں کمال اتا ترک ، ایران میں رضا خان اور مشرق وسطیٰ میں متعدد حکمرانوں کو تہذیبی ، مذہبی اور سیاسی تبدیلیوں کے لیے آگے لایا گیا۔ وہ خود تو ان پڑھ تھا مگرمغرب کا آلۂ کار بن کر رضا خان پہلوی نے پوری سختی اور شدت کے ساتھ مغربیت اور الحاد کو فروغ دیا۔ علماء کے خلاف محاذ آرائی کی ، وعظ و تذکیر اور تبلیغات پر سنسر شپ عائد کر دی اور پردے کی جگہ مغرب کی بے حیائی اور سکرٹ کو فروغ دیا۔ ظلم وستم کے لیے پولیس اور فوج کو اسلحے اور اختیار سے مضبوط کیا۔ اتنی اطاعت اور تابعداری کے باوجود جنگ عظیم دوم میں روس اور برطانیہ نے اسے تخت سے دستبرداری پر مجبور کر دیا۔ پھر اس کا نو عمر بیٹا رضا شاہ دوم وقت کے سامراج کا نیا آلۂ کار بن گیا۔ یہ باد شاہی علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں کچھ ایسی تھی:
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
جنگ عظیم دوم کے بعد مسلم ممالک برطانیہ کی جگہ امریکہ کے زیر نگین آنے لگے۔ ان میں اُردن، لبنان، عراق، مصر، سعودی عرب، ترکی ، ایران اور پاکستان نمایاں ہیں۔ سعودیوں کے سواباقی سب قیادت نے تجدد، مغربیت بلکہ امریکیت کا نیا مذہب اختیار کر لیا۔ پاکستان میں خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان قابض تھا۔ ایران میں خود ساختہ آریہ مہر رضا شاہ دوم نے اپنے والد کی مغرب زدہ ، الحاد آمیز اور امریکہ نواز پالیساں جاری رکھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ کے زمانے کا تہران خرابات میں پیرس ، لندن اور کیلے فورنیا کا ہم پلہ تھا۔ ایران کو مغربی لبادے اورامریکی غازے میں لپٹانے کے لیے رضاشاہ نے موثر تعداد میں اپنے حواری پیدا کئے۔ جن افراد اور اداروں سے مخالفت کا خطرہ تھا، ان کو سختی سے کچل ڈالا۔ من پسند لوگ وہ جن میں بہائی بھی شامل تھے، حکومت کا اختیار سونپ دیا۔ ملک کے وسائل چند مخصوص افراد اور اپنے خاندان تک محدود کر دیئے۔ چنانچہ ایران میں رحمانی طاقتیں پابند سلاسل اور شیطانی قوتیں آزاد اور طاقت ور قرار پائیں۔ (جاری ہے )