اس وقت میری عمر دس سال سے زیادہ نہ تھی جب وہ میری نانی کے گھر میں اُن کی سب سے چھوٹی بہو بن کر اتری تھیں ۔میرا خیا ل تھا کہ اوروں کی طرح وہ بھی مجھ سے پیار سے بات نہ کریں گی لیکن مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب انہوں نے مجھ سے نہ صرف پیار سے بات کی بلکہ مجھے پڑھانا بھی شروع کر دیا۔اس زمانے میں گورنمنٹ سکولوں میں انگریزی زبان کا عذاب چھٹی جماعت سے نازل ہو ا کرتا تھا۔اور اے سے ایپل اور بی سے ‘‘بنانا’’ ہوا کرتاتھا۔ بنانا کا تلفظ مجھ سے صحیح ادانہ ہوتا تو وہ کہتیں چلو بنیا ن سمجھ لو۔ میں کہتا کہ شکل تو کیلے کی بنی ہوئی ہے اور آپ بنیان کہہ رہی ہیں تو وہ کہتیں اصل میں بنیان ہے تمہیں کیلا نظر آر ہا ہے ۔ میں اصرار کرتا تو وہ خوب ہنستیں اور پھر میری بات مان لیتیں کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو‘ بنانا’ ہی ہے آج مجھے انگریزی زبان کے جو دو چار حرف آتے ہیں تو اس کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی اور اگر انگریزی پڑھانے پہ کوئی ثواب ملتا ہے تو یقینا یہ بھی انہیں ملے گا۔اسی زمانے میں ان کے جڑواں بچے پیدا ہوئے (بیٹا اور بیٹی ) جو اس قدر چھوٹے سے تھے کہ انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میری یہ ممانی خود بھی بہت چھوٹی سی تھیں او راوپر سے اللہ نے یکدم دو بچوں کا بوجھ لاد دیاتھا اور وہ بھی وقت سے پہلے لیکن ان کھلونوں کومیری اس چھوٹی سی ممانی نے جس محنت سے پال کر بڑا کیا وہ بھی یقینا ایک قابل ذکر واقعہ ہے اگرچہ اس محنت میں میری نانی جان کا بھی بہت بڑا حصہ تھا لیکن اصل کریڈ ٹ بہر حال انہیں کو جاتا ہے ۔
ان بچوں سے مجھے بھی بہت پیا رتھا اورمیں حیران ہوتا تھا کہ کس طرح یہ ‘‘گڈے ’’ اور ‘‘گڑیا ’’ سے ہنستے کھیلتے بچے بن گئے ہیں۔یہ بچے جن کی آغو ش میں پل کر پاؤں چلنے لگے اور پھر دوڑنے لگے ان میں میری گود کا بھی ایک حصہ ہے ۔ اب یہ بچے نہ جانے کہاں رہتے ہیں جہاں بھی ہوں اللہ انہیں خوش رکھے اور اپنی ماں کی طرح کا نیک طینت اور محبت کرنے والا رکھے ۔
میرے بچپن کی کتنی ہی یادیں ان سے وابستہ ہیں۔ رمضان کا زمانہ آتا تو میں اور میری یہ ممانی قرآن پڑھنے کی دوڑ لگایا کرتے کہ کون کتنے کم وقت میں سیپار ہ پڑھ لیتا ہے اور میں ہمیشہ ان کو ہرا دیا کرتا ۔ ایک برس تو ہمارے اس مقابلے میں ان کی چھوٹی بہن بھی شریک ہوئیں لیکن وہ بھی مجھ سے نہ جیت سکیں۔میری ممانی کی اس چھوٹی بہن نے اس زمانے میں مجھے ایک بہت ہی خوفناک کہانی سنائی تھی اور عجیب بات یہ ہے کہ آج چالیس برس بعد بھی میں اس کہانی کو نہیں بھول پایا اور آج بھی اس کہانی کو یاد کرکے مجھے ایسے ہی ڈر لگتاہے جیسے اس وقت لگتا تھا۔بھول جانا بھی ایک بڑی نعمت ہے لیکن نہ جانے بعض باتیں انسان چاہتے ہوئے بھی کیوں نہیں بھول پاتا۔
میری یہ ممانی جب میری نانی کے گھر آئیں تھیں تو ان کو کھانا پکانا اور سینا پرونانہیں آتا تھا لیکن ان میں سیکھنے کا جذبہ پوری طرح موجود تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سیکھنے میں کوئی عار محسوس نہ کی اور میری نانی کی کامیاب ترین بہو قرار پائیں ۔ یہ اردو سپیکنگ فیملی سے تعلق رکھتی تھیں لیکن چند سالوں میں پنجابی بھی خوب بولنے لگیں مگر اسی طرح جیسے ہم انگریزی بولتے ہیں۔
اپنے سکول اور پھر کالج کے زمانے میں ، میں ہمیشہ کسی نہ کسی حوالے سے ٹاپ کر تا رہا لیکن اس پر بہت کم لوگ خوش ہوا کر تے تھے اور ان خوش ہونے والے چند لوگوں میں میری یہ ممانی بھی شامل تھیں۔میرے رزلٹ پریہ ہمیشہ میرے لیے اور ترقی کی دعا کیا کرتیں اور بہت خوش ہوتیں۔ ان کی ایک اور بڑی خوبی ان کی اپنے مذہبی نظریا ت سے کمٹمنٹ تھی ۔ جوہر گرم اور سرد حالات میں ان کے ہاں موجود رہی۔
وقت کا پنچھی لیل ونہار کے پر لگاکر تیزی سے اڑتا رہا اور میں بچے سے بڑا ہوا ،بڑے سے اور بڑا ہوا، اور روزگار کی تلاش میں لاہور آن پہنچا اور پھر یہیں کا ہو رہا لیکن جب بھی واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ جاتا تو وہ مجھے اسی بچے کی طرح ملتیں جس کو وہ چھٹی جماعت میں پڑھایا کرتی تھیں اور ان کا یہ پیار مجھے بھی بہت پیار اتھا۔حتی کہ میری شادی کے بعد بھی میں ان کے لیے وہی بچہ رہا جو ہمیشہ سے تھا۔ میری وجہ سے ان کو میری بیوی سے بھی بہت پیار تھا اور وہ اس کے گلے لگ کر دیر تک جھومتی رہتیں اور میں ہنستا رہتا اور کہتا ممانی جان اب چھوڑ بھی دیں۔میرا خیا ل تھا کہ لاہور میں جب میرا اپنا گھر ہو گا تو میری یہ ممانی وہاں آ کر رہا کریں گی ایک ماں کی حیثیت سے، بڑی بہن کی حیثیت سے اور ایک استاد کی حیثیت سے مگر میرا گھر تو بن گیا لیکن وہ وہاں نہ آ سکیں کیونکہ حالات سدا ایک سے نہیں رہتے ۔ اب ہمارے درمیان نظریات ، حالات اور واقعات کی بہت سی دیواریں حائل ہو گئیں تھیں اور پھر وہی ہوا کہ جیسے کسی نے کہا ہے کہ
وقت دیوار بنا بیٹھا ہے
وہ اگر لوٹ بھی آنا چاہے
پچھلے بیس پچیس برسوں میں میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ان سے ملاقات ہو جائے ۔مگر نہ ہو سکی کچھ انہو ں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ چھوڑ دیااور کچھ میں پردیس کا ہو رہا ۔کتنی ہی باتیں ایسی ہیں کہ انسان چاہنے کے باوجود بھی نہیں کر سکتا اور کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں انسان چاہنے کے باوجود بھی نہیں مل سکتا۔ اس دنیا کی limitations ہی کچھ ایسی ہیں۔ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ اگر سب چاہتیں اسی دنیا میں پوری ہو جائیں تو پھر جنت کی ضرورت ہی کیا رہے اور پھر انسان کے چاہنے سے ہوتا بھی کیا ہے ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہے وما تشاء ون الا ان یشا ء اللہ۔
اس برس کے رمضان میں، میں نے پختہ ارادہ کیا کہ اب کے تو ضرور ان سے مل کر جانا ہے اگرچہ یہ عجیب سا لگتا تھا کہ اب وہ بوڑھی ہو چکی ہو ں گی لیکن پھر سوچاکہ مجھ پہ تو بھی ماہ و سال کی کتنی تہیں چڑھ چکی ہیں لیکن مجھے میری بیگم نے بتایا کہ وہ تو‘ یوکے’ گئی ہوئی ہیں اس لیے اب کے بھی ان سے ملنا ممکن نہ ہو گا اور پھر اچانک ہی یہ خبر بھی آ گئی کہ وہ نو ستمبر کو اللہ کے حضور بھی سدھا ر گئیں۔ ان کی موت کی خبر سن کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے چالیس برس کا فاصلہ سمٹ کر رہ گیا ہے او ر میں ایک بار پھر ان سے اے ایپل اور بی ‘بنانا’ یا بنیان پڑھ رہاہوں۔لیکن زندگی کے حقائق بہت تلخ ہیں محسوسات کے ساتھ کب تک جیا جا سکتا ہے آخر مجھے ماننا پڑا کہ ضلع چنیوٹ کی سر زمین پر پلنے اور بڑھنے والی بچی اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سر زمین پر اپنی زندگی کی بہاریں گزارنے والی نیک طینت اور پاک خصلت عورت واقعی نو ستمبر کواس دنیا سے رخصت ہو کر پند رہ ستمبر کو برمنگھم کے گرتھ روڈ کے قبرستان میں منوں مٹی نیجے اتر چکی ہے۔ سچ کہا اللہ کریم نے کون جانتا ہے کہ وہ کس سر زمین پر مرے گا وما تدری نفس بای ارض تموت۔۔۔