( ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ طب مشرق ،قرشی یونیورسٹی ،لاہور )
عورتوں پر تشدد ،ظلم و ستم اور ان کا استحصال دنیا کے تمام معاشروں میں ایک عام شکایت ہے ۔تمام تر تعلیم، صنفی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے باوجود یورپ اور امریکہ میں بھی عورت جبر اور زیادتی کا شکار ہے ۔اس ‘‘مردانہ ’’ کام میں دنیا کے تمام مرد ‘‘ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی وطیرے ’’پر گامزن ہیں مردوں میں اس ‘‘مردانہ عمومیت ’’ کی وجہ سے اس غیر اخلاقی اور غیر انسانی اظہار کا ہر جگہ اور عام پایا جاناہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر مردوں کا اپنے خاندان کی خواتین کے ساتھ بالخصوص اور باہر کی خواتین کے ساتھ بالعموم رویہ اور سماجی برتاؤ مہذب اور شائستہ ہوتا ہے تاہم تشدد پسند اور اذیت پرست مر د گو تعداد میں قلیل سہی مگر اپنے افعال کے برے اثرات اور برائی کے انتشار اور تشہیر کے باعث ہر جگہ پہچانے اور برے سمجھے جاتے ہیں ۔
تشد د کی مختلف انواع کی ایک بدترین شکل عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنا ہے ۔اس گھناؤ نے جرم کے ارتکاب کا مقصد اس چہرے اور ان آنکھوں کو مسخ کرنا ہوتا ہے جو مجرم کو پسند نہیں کرتا ۔اب وہ چاہتا ہے کہ جو عورت اس کی نہیں بن سکی اس بدقسمت کو کوئی بھی پسند نہ کرے ۔وہ مسخ شدہ صورت دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بن جائے بد قسمت عورت مرے بھی نہیں لیکن وہ مری ہوئی سے بھی بدتر شمار ہو ۔ذاتی نفرت اور انتقام کی یہ ایک بھیانک تصویر ہے ۔
جن عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کا روزانہ کا حال اور آخری حالت نا گفتنی ہوتی ہے ۔تشدد اور تضحیک کے لئے گالم گلوچ ،مار کٹائی لعن طعن ،سر مونڈنے اور سر عام کپڑے اتارنے سے لے کر بچیوں بوڑھیوں کے انتقامی اور اجماعی ریپ ہڈیاں توڑنے ،اعضاء کاٹنے ،زندہ جلانے اور مارنے کے بعد مثلہ کرنے تک کے بھیانک ظلم و تشدد موجود ہیں ۔ایسے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ تو الیکڑانک میڈیا کا فعال ہونا ہے جو ا ب ان واقعات کو عام دکھاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے سماجی ،عمرانی ،معاشی، نفسیاتی اور خاندانی عوامل بھی شامل ہیں ۔مجرم کو خوف زدہ کرنے والا سب سے اہم امر ملک کا قانون اور نظام تعزیر ہوتا ہے چنانچہ تشدد کے بھیانک مظالم کی سب سے بڑی وجہ ہماری پولیس اور ہماری عدالتوں کا سست ہونا اور جرم کی کم سزا ہو نا ہے ۔ظلم کے ہاتھ اسی معاشرے میں لمبے ہوتے ہیں جہاں ظالم طاقتور اور عدل و تفتیش کا کمزور نظام مسلط ہو ۔اگر کھلے وسائل اور سیاسی تحفظ میسر ہو تو ایک کامیاب وکیل کے ساتھ ایک کرپٹ جج کو بھی HIRE کیا جا سکتا ہے ۔زندہ درگور عورت سسکتی رہتی ہے اور بااثر مجرم بے اثر نظام عدل کے باعث سزا سے بچنے کے منصوبے بنا تا رہتا ہے ۔
اس تناظر میں اگر عورتوں پر تشد د کا گراف بڑھ رہاہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے پاکستان کے انحطاط پذیر معاشرے میں یہ صورت حال بہت گھمبیر ،بھیانک اور مایوس کن نظر آتی ہے ۔لیکن اسلامی جمہوریہ ایران سے آنے والی ایک خبر تاریکی میں روشنی کی کرن دکھائی دیتی ہے ۔یہ خبر روزنامہ ‘‘ڈان ’’ میں شائع ہوئی تھی ۔
جرائم کے روک تھام میں دو باتیں باقی چیزوں سے زیادہ موثر کردار ادا کرتی ہیں ایک تو بے لاگ فوری تفتیش اور نظام عدل کا جلد منطقی انجام کو پہنچنا ۔دوسرا جرم کے مطابق شدید سزا کا سر عام نافذ ہونا اسلامی سزاؤں پر تنقید کرنے والے اسے غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ قانونیت اور شدت پسندی ختم کرنے کے لئے ہر انقلاب نے جلد اور موثر نظام عدل کو اپنایا ہے ۔ان دو بنیادی عوامل کی غیر موجودگی میں ہمارے معاشرے کی اہم اکائی ،خاندان توڑ پھوڑ کا شکار ہے اور اس ستم کا سب سے بڑا نشانہ اس اکائی کی کو نے کی اینٹ یعنی عورت ہے ۔ایران ایک مسلم ملک ہے جہاں جز ا و سزا کا نظام عدل جعفریہ شریعت کے مطابق نافذ ہے اس قانون شریعت کے تحت ہر جسمانی جرم و ایذا کی سزا آنکھ کے بدلے آنکھ کے آفاقی اصول پر قائم ہے۔چنانچہ اس بنیادی قاعدے کے مطابق شرعی عدالت نے طے کیا ہے کہ ایک مجرم کو اس کی سزا کے طور پر تیزاب کے قطروں سے اندھا کیا جائے گا ۔اس مجرم نے چند سال پہلے ایک خاتون امینہ بہرامی کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اسے محض اس لئے اندھا کر دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شاد ی کرنے سے انکاری تھی ۔
مقدمے کے واقعات کے مطابق مجرم ماجد مواحدی ایک تیس سالہ ایرانی نوجوان ہے جس نے اس گھناؤ نے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔جج کے فیصلے کے تحت پہلے مواحدی کو ایک عدالتی ہسپتال میں انیستھیزیا دے کر بے ہوش کیا جائے گا ۔خاتون امینہ بہرامی مجرم کی دونوں آنکھوں میں تیزاب کے قطرے ڈالے گی ۔اس طرح مواحدی کو اندھا کرنے کی سزا میں اندھا کیا جائے گا مگر اتنی سفاکی سے نہیں جتنی بے رحمی اس نے ایک معصوم عورت کے ساتھ روا رکھی تھی ۔
۲۰۰۴ میں یہ واقعہ ہو ا جب بہرامی نے مواحدی سے شادی سے انکار کر دیا تھا مواحدی نے انکار سن کر بدلہ لینے کی ٹھان لی وہ موقع کی تلاش میں رہا کہ وہ کیسے بہرامی کو اس کے انکار کا مزا چکھائے ۔ایک سہ پہر جب خاتون اپنی ڈیوٹی سے لوٹ رہی تھی مواحدی تاک میں کھڑا تھا ۔اس کے ہاتھ میں تیزاب سے بھرا ہوا شیشے کا جار تھا ۔جب وہ اس کے سامنے سے گزری تو مواحدی نے بہرامی کا نام لے کر پکارا اور بھرا ہوا جار اس کے چہرے پر انڈیل دیا ۔تیزاب نے جہاں چہرے کو جھلسا کر مسخ کر دیا وہاں بہرامی کی آنکھوں کی بصارت بھی ختم کر دی ۔کیس عدالت میں چلتا رہا۔بہرامی نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا کہ اسلامی قانون قصاص کے تحت مجرم سے بدلہ لینے کا حق رکھتی ہے تیزاب سوزی کا جرم ثابت ہونے پر جج نے قصاص (RETRIBUTION ) ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصول پر سزا ملے ۔عدالت نے مجرم کو یہ بھی کہا کہ وہ اپنے اس گھناؤ نے جرم کے بدلے میں مظلومہ کو معاوضہ بھی ادا کرے گا ۔بہرامی نے مجرم سے معاوضہ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے کہا ‘‘ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے مجرم کو اسلامی قانون کے مطابق سزا کے بعد اسے ویسی ہی (عبرت نشان ) زندگی گزارنے دیجئے جیسی زندگی وہ اب گزار رہی ہے ۔’’
٭٭٭