دو متضاد رويے

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جولائی 2025

سماجيات

دو متضا د رويے

 محمد فھد حارث

شمائلہ اور حنا دونوں چچا زاد بہنیں ہیں جنہوں نے بچپن میں اپنے گھروں میں اپنے والدین کے درمیان تعلقات کو کشیدہ ہی دیکھا جہاں عموماً زیادتی ان کے والد کی طرف سے ہوتی تھی جس میں یہ عنصر نمایاں ہوتا تھا کہ بطور مرد وہ گھر کے پالنہار ہیں، پس وہ جیسے چاہیں اپنی بیوی سے سلوک روا رکھ سکتے ہیں اور بیوی کو ان کی ہر صحیح غلط بات کو ماننا اور اس پر سر اطاعت تسلیم خم کرنا ہے کہ یہی چیز ایک اچھی بیوی ہونے کی نشانی ہے۔پھر شمائلہ اور حنا دونوں کی شادیاں ہوگئیں اور کچھ دنوں بعد وہ بال بچوں والی ہو گئیں۔ایک روز شمائلہ کی بیٹی نادیہ روتے ہوئے اس کے پاس آئی۔ پوچھنے پر نادیہ نے بتایا کہ اس نے اپنی گڑیا کے لیے کارڈ بورڈ کا جو گھر بنایا تھا، اس کے بھائیوں نے وہ گھر اس کو ستانے کے لیے توڑ دیا۔ شمائلہ نے نادیہ کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے دلاسا دیا کہ "میری جان! اتنی سی باتوں پر دل چھوٹا نہیں کرتے۔ لڑکیوں کی زندگیوں میں کئی بڑے مسئلے آتے ہیں، اگر آپ ان چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر یوں رونے بیٹھ جاؤگی تو آگے آنے والے بڑے مسئلوں سے کیسے نبرد آزما ہوگی؟ آپ نے خود کو دکھی بالکل نہیں کرنا ہے بلکہ دوبارہ گھر بنالو اور بھائی پھر اسکو توڑنے آئیں تو ان کو توڑنے دينا، آپ کی طرف سے مزاحمت نہ پاکر وہ کچھ بار کے بعد سے آپ کو تنگ کرنا چھوڑ ديں گے۔   بیٹی کو یہ سبق دیکر شمائلہ مطمئن ہوگئی کہ اس نے اپنی بیٹی کو آگے آنے والی زندگی کے لیے ایک اچھا سبق باور کروادیا ہے۔ جبکہ بیٹوں کو بلا کر ایک لفظ تنبیہ کا نہ کہا ، اس سوچ کے تحت کہ "لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔"

ماں کا یہ طرز عمل دیکھ کر شمائلہ کے لڑکے نے یہ سیکھ ليا کہ بہنوں یا لڑکیوں کو تنگ کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ ہم لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔ پس بڑے ہونے کے بعد بیوی کے ساتھ اسکا برا رویہ ایک نارمل بات ہی ہوگی اسکی دانست میں۔

اب آئیے حنا کو دیکھتے ہیں۔

حنا کی بیٹی انیلہ اس کے پاس روتے ہوئے آئی کہ بھائی مجھے تنگ کررہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ بھائی نے اس کی گڑیا کے کپڑے روشنائی لگا کر خراب کردئیے ہیں۔ حنا نے اسی وقت اپنے بیٹے خرم کو بلایا اور اس کو سختی سے ڈانٹا کہ" مجھے تمہاری ہر شرارت منظور ہے لیکن شرارت کے نام پر بہن کو تنگ کرنا یا اس کے رونے پر مسرت محسوس کرنا کسی طور سے گوارا نہیں۔ اگر آئندہ تم نے بہن کو رلایا تو بالکل اچھا نہ ہوگا۔ جو لڑکے بہنوں یا کسی بھی لڑکی کو تنگ کرتے ہیں، ان کو رلاتے ہیں، وہ بہت گندے بچے ہوتے ہیں"

ساتھ ہی حنا نے انیلہ کو بھی سمجھایا کہ "بیٹا اتنی چھوٹی باتوں پر خود کو دکھی نہیں کرتے۔ موڈ ٹھیک کرو اور جاکر بھائی کے ساتھ کھیلو۔ بہن بھائی کھیل کود میں ایک دوسرے کی چیزیں خراب کردیتے ہیں، اس پر زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ ہاں اب اگر خرم آپ کو دوبارہ تنگ کرے تو مجھے آکر بتانا۔"خرم کے لیے ماں کی تنبیہ و ڈانٹ ایک سبق بن گئی جس نے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے  کہ خواتین کے ساتھ برا رویہ رکھنے والے لڑکے بہت گندے و خراب ہوتے ہیں۔ پس بڑے ہونے پر نہایت قوی امکان ہے کہ وہ اپنی بیوی سے کسی قسم کا غیر مناسب رویہ روا رکھے کہ اس کی دانست میں یہ تو نہایت برا انسان ہونے کی نشانی ہے۔

یہ ہیں وہ  متضاد روئیے جو ہمیں اپنے معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور جن کی بنیادوں پر ہماری بیٹیاں اپنے سسرالوں میں اچھی زندگی گزاریں گی یا پریشان حال ، یہ طے ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو شمائلہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ شمائلہ جب اپنے گھرمیں اپنے بھائی کو اپنی بھابھی سے بدتمیزی کرتے، اونچی آواز میں بات کرتے یا جھگڑتے دیکھتی ہے تو پوری نیک نیتی سے جھگڑا رفع کرنے یا بات کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اپنی بھابھی کو یہ کہتے ہوئے خاموش رہنے کا مشورہ دیتی ہے کہ "لڑکے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔" جبکہ بھائی کو ایک لفظ نہیں کہتی۔

شمائلہ کا یہ طرز عمل دراصل اس کے بچپن کے اس ٹراما کے نتائج ہیں جو اس نے اپنے والدین کے ریلیشن شپ میں دیکھے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ ان چیزوں سے ایجابی طور پر سیکھ لیتی اور ایسے اقدامات کرتی کہ نہ اس کی بھابھی کے ساتھ اور نہ اس کی بیٹی کے ساتھ دوبارہ وہ کریہہ سلوک دہرایا جائے، جس سے اس کی والدہ گزریں، وہ ان واقعات سے منفی سیکھ لیتی ہے اور اپنی بیٹی اور بھابھی کو ایسے کریہہ روئیے برداشت کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔گویا غلط روئیے یا ظلم کو روکنے کے بجائے مظلوم کو اسے برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنا اور ساتھ ہی غلط کار یا ظالم کو اسکے غلط روئیے یا ظلم کے لیے مزید شہہ دینا اس احساس کے ساتھ کہ وہ کچھ غلط نہیں کررہا۔

شمائلہ جیسی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ان کے اندر منفیت ڈیرہ ڈال لیتی ہے اور بجائے اس کے کہ یہ غلط کو دیکھ کر اسکو سدھارنے کی کوشش کریں یہ اپنے دل و دماغ کو اسے تسلیم کرنے پر آمادہ کرلیتی ہیں اور پھر یہی چیز و غلط رسم  نسل در نسل آگے منتقل کرتی جاتی ہیں۔جبکہ دوسری جانب حنا جب اپنے بھائی کو اپنی بھابھی سے بدتمیزی کرتے یا اونچی آواز میں بات کرتے دیکھتی ہے تو وہ برملا بھائی کو ٹوکتی ہے۔ اپنے بیٹے کو بہن کے ساتھ برا رویہ روا رکھتے دیکھتی ہے تو اسے تنبیہ کرتی ہے۔ اس تنبیہ و روک ٹوک سے حنا کا بھائی ہو یا بیٹا ،ان کی تربیت ہوتی جاتی ہے کیونکہ حنا اپنے بچپن کی تلخ یادوں اور ٹراما کے ضمن میں یہ تہیہ کرچکی ہے کہ جو کچھ اس نے اپنی والدہ کے ساتھ ہوتا دیکھا، جس نہج پر اس نے اپنے والد کو اپنی والدہ کو برتتے دیکھا، وہ ہرگز اس غلط طرز عمل کو اپنے بیٹے یا بھائی میں پروان چڑھنے نہیں دے گی۔ پس اس نے اپنے منفی ماضی سے ایجابی سيکھ لی اور کوشش کی کہ یہ غلط طرز عمل ایک نسل کے بعد مزید آگے منتقل نہ ہو اور یہ تسلسل یہی ٹوٹ جائے۔لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں حنا جیسی خواتین بہت کم ہوتی ہیں۔

آپ کو مزے کی بات یہ بتاؤ ں کہ شمائلہ اور حنا، یہ دونوں بدلے ہوئے ناموں کے ساتھ حقیقی کردار ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور دکھ کا مقام تو یہ ہے کہ ان میں سے شمائلہ وہ خاتون ہیں جو نہ صرف نہایت مذہبی ذہن کی مالک ہیں بلکہ باقاعدہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی میرج کونسلنگ بھی کرتی ہیں لیکن ان کی میرج کونسلنگ میں صرف ایک پیغام نمایاں ہوتا ہے کہ عورت کو گھر چلانے کے لیے اپنے جائز حقوق سے بھی دستبردار ہونا پڑے تو اس کو ہوجانا چاہیئے، صرف اسی کو ہر قسم کی قربانی دینی چاہیئے، حتی کہ مرد اسکو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھے تو بھی بچوں کی خاطر ایسا برداشت کرلے ، جبکہ جہاں تک مردوں کی بات ہے تو مردوں کو معاملہ اللہ خود دیکھ لے گا کیونکہ " لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔"اور مقامِ صد افسوس یہ ہے کہ وہ ان تمام ناجائز نصائح پر قرآن و حدیث کے نصوص کو توڑ مڑور کر فٹ کرتی ہیں۔شمائلہ اپنے گھر میں مکمل نہ سہی لیکن کسی قدر ناخوش اور اپنے شوہر کےبعض غلط رویوں کا شکار رہتی ہے کیونکہ شمائلہ کے نزدیک اسکے شوہر کا طرزعمل "نارمل" ہے کیونکہ "مرد عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں۔" جبکہ حنا کے گھر کا ماحول پرسکون ہے کیونکہ پہلے دن سے ہی جب بھی اس نے اپنے شوہر میں کوئی غلط بات دیکھی تو نہایت جزم لیکن احترام و حکمت کے ساتھ اپنے شوہر کو اس کے غلط روئیے پر متنبہ کردیا اور اس کام میں حنا کی ساس اور نند کی بھی اس کو حمایت و مدد حاصل رہی۔

شمائلہ سے سیکھ لینے والی بھابھی کی شادی شدہ زندگی اور شمائلہ کی والدہ کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں جبکہ حنا کی وجہ سے اس کی بھابھی کی زندگی کسی قدر پرسکون ہے کیونکہ حنا بھائی کی طرف سے معمولی سرزد ہوتی زیادتی پر بھی فوراً اسے ٹوک دیتی ہے۔ پس اپنی بہن اور والدہ کی تنبیہ کے سبب بھائی خود بھی کوشش کرکے بیگم سے حسنِ سلوک ہی روا رکھتا ہے۔

پس اپنی بیٹیوں کو صبر و تحمل کا مشورہ ضرور دیں لیکن صبر و تحمل کے نام پر انہیں ظلم برداشت کرنے کی تلقین کبھی نہ کریں۔ ان کو بتائیے کہ اپنے ساتھ غلط ہوتا دیکھیں تو اس پر شوروغوغا کرنے کے بجائےاسے حکمت سے ڈیل کریں لیکن ہرگز ہرگز حکمت کے نام پر مداہنت کا اظہار نہ کریں۔

میاں بیوی کے رشتے میں بندھنے کے بعد زوجین کے لیے یہ رشتہ اور اس کے تقاضے نئے ہوتے ہیں جنہیں انہیں وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنا ہوتا ہے۔ ایسے میں میاں بیوی اولاً اور ان کے گھر والے بعداً ان کو سکھاسکتے ہیں کہ اس رشتے میں باہمی حرمت و عزت کا پاس کرتے ہوئے کیسے رہا جاسکتا ہے۔ کونسا طرز عمل لاڈ و مذاق ہے اور کونسا طرز عمل بدتہذیبی و غیر شائستگی۔ اگر بیوی کو اجازت نہیں کہ وہ شوہر سے بدتمیزی یا اونچی آواز میں بات کریں تو ہرگز ہرگز شوہر کو بھی اجازت نہیں کہ وہ بیوی سے بدتمیزی یا اونچی آواز میں بات کرے۔ شاید یہ بات بہتوں کو عجیب لگے لیکن ہر رشتے کی طرح میاں بیوی کے رشتے میں بھی باؤنڈریز سیٹ یعنی حدیں مقرر ہونی چاہیئے تاکہ کسی صورت بھی زوجین ایک دوسرے کی حرمت کی پامالی یا دل آزاری کا سبب نہ بنیں جبکہ یہ غلط کاری کسی ایک فریق کی طرف سے بطور حق سمجھتے ہوئے کی جارہی ہو تو اس کی قباحت سوگنا بڑھ جاتی ہے۔