سماجيات
علما كے چھ فلٹرز
محمد مدثر
علماء کسی نئی ایجاد کو قبول کرنے سے پہلے اس کو چھ فلٹرز میں سے گزارتے ہیں ۔
الیاس قادری صاحب کا ایک نایاب اور پرانا بیان سنیے، جس میں وہ اردو ادب کا یہ شاہکار پیش کرتے ہیں:توڑ دے TV کو، VCR کو---کر لے راضی رب اور سرکار کو
بپا جانی فرماتے ہیں کہ میں کل بھی TV مخالف تھا آج بھی اس کے خلاف ہوں اور مرتے دم تک اس کے خلاف رہوں گا، اور کبھی اپنے چہرے کو ٹی وی پر نہیں لاؤں گا۔اس کی وجہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک عرصے تک تصویر اور ویڈیو کو حرام مانا جاتا رہا ہے، اب بھی کسی حد تک حرام ہی مانتے ہیں لیکن اپنی ضرورت کے تحت جواز کےلیے راستے اور تاویلات نکالی جا چکی ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی ہم تک پہچنے سے پہلے ہمارے مذہبی طبقے کے چھ mood swings سے ہو کر گزرتی ہے۔
1-جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو اسے فوراً حرام قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کے حرام ہونے کے "واضح" دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں، گویا اس پر کوئی دوسری رائے ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی لبرل یا "جدت زدہ" مذہبی شخص اسے حرام نہ مانے تو وہ نفس پرست قرار پاتا ہے جو دین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
2- کچھ عرصے بعد بعض علما کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تو کچھ فائدے بھی ہیں، لیکن چونکہ پہلے بہت شدت سے مخالفت کی جا چکی ہوتی ہے، اس لیے اب اچانک "حلال" کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا خاموشی سے اسے حرام سے مکروہ کے درجے پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
3-پھر جب وہ چیز دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگتی ہے تو بیان کچھ یوں بدل جاتا ہے کہ: "علما کا اس بارے میں اختلاف ہے، کچھ جائز کہتے ہیں، کچھ ناجائز، لہٰذا یہ اجتہادی مسئلہ ہے۔ شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ تمام علما ہمارے سروں کے تاج ہیں۔"
4- پھر جب وہ چیز عام لوگوں کی ضرورت بن جاتی ہے اور اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب لوگ یہ استعمال کیے بغیر نہیں رہیں گے تو مؤقف یہ ہو جاتا ہے کہ "ضرورت کے تحت جائز تو ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ اس سے احتیاط کی جائے۔"
5- جب وہ چیز خود علما کی بھی ضرورت بن جاتی ہے تو پھر کہا جاتا ہے: "یہ تو بالکل جائز ہے، جمہور علما اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ جو بعض علما اسے ناجائز کہتے ہیں، وہ اس مسئلے میں غلطی پر ہیں۔"
6-یہ آخر والا تو سب سے کمال کا پوائنٹ ہے جب اس طبقے کو پتا نہیں اچانک سے کیا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ "انگریزوں نے یہ چیز قرآن سے ہی دیکھ کر ایجاد کی ہے، انگریز جو چیزیں آج بنا رہا ہے، قرآن نے 1400 سال پہلے ہی اس کے بارے میں بتا دیا تھا۔"
یہ رویہ صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہبی طبقے میں پایا جاتا ہے۔
مثلاً جب یورپ میں سٹریٹ لائٹس لگائی گئیں تو وہاں کے پادریوں نے انہیں "حرام" قرار دیا۔ وجہ یہ دی گئی کہ اللہ نے رات کو ایک خاص مقصد کے تحت اندھیرا بنایا ہے، اس میں روشنی کرنا خدا کے نظام میں مداخلت ہے۔
ہم کسی بھی نئی چیز کو اس وقت اپناتے ہیں جب اس کا انکار ممکن نہیں رہتا۔
اور تب تک باقی دنیا اس چیز سے آگے بڑھ کر نئی ٹیکنالوجی کی طرف جا چکی ہوتی ہے۔ اور پھر ہم ان نئی چیزوں کے بارے میں ایک بار پھر وہی چھ نکاتی چکر شروع کر دیتے ہیں۔
ویڈیو کے دوسرے حصے میں ایک صاحب ٹی وی توڑ رہے ہیں اور ساتھ کیمرے سے ویڈیو بھی بنوا رہے ہیں۔ یہاں تو شریعت بھی کنفیوز ہو گئی۔