سماجيات
سسٹم كيسے چلتا ہے
نعمان عالم
آپ اگر گورنمنٹ ملازم ہیں یا پرائیویٹ جاب کرتے ہیں ، آپ کی تنخواہ میں سے حکومت انکم ٹیکس کاٹ لیتی ہے ، یوکرین میں جنگ سے پہلے کوئی سترہ سے بیس فیصد تک تنخواہ ٹیکس کی مد میں کاٹ لی جاتی تھی ، جرمنی میں اس سے زیادہ ہے ، کینیڈا میں جرمنی کے آس پاس یعنی اگر آپ کی تنخواہ سو ڈالر ہے تو سمجھیں آپکو اٹھہتر یا اس سے بھی کم ملیں گے ، ہو سکتا ہے یہ پرسنٹ ایج کچھ کم یا زیادہ ہو -آپ ان اٹھہتر ڈالرز یا یورو سے جو خریداری کریں گے ، اس پر جی ایس ٹی دیں گے ، کینیڈا میں جی ایس ٹی بھی ہے اور پی ایس ٹی بھی ہے ، جی ایس ٹی اور پی ایس ٹی ہر صوبے میں مختلف ہے ، جرمنی میں بھی یہی حال ہے ، کسی اسٹیٹ میں کم کسی میں زیادہ ہے ، یوکرین میں صرف جی ایس ٹی ہے ، وہاں علاقائی ٹیکس نہیں ہے ، کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں اگر آپ نے ایک ڈالر کی کافی لی ہے تو آپ کو تیرہ سینٹ صرف پی ایس ٹی دینا ہو گا ، اور اس کے علاوہ سات یا آٹھ پرسنٹ پی ایس ٹی ہے ، یعنی کافی ایک ڈالر کی اور کوئی بیس بیس سینٹ ٹیکس اور پھر یہ ٹیکس ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے ، فریج لیں یا گھڑی آپ نے اپنی کمائی میں سے ٹیکس دینے کے بعد یہ والے ٹیکس دینے ہی دینے ہیں جنکا کچھ حصہ سال کے آخر میں آپ کو واپس مل جاتا ہے ، یعنی اگر آپ نے ایک سال میں کوئی تین ہزار جی ایس ٹی دیا ہو تو سمجھیں کوئی تیس پینتیس فیصد یا کچھ صوبوں میں چالیس فیصد تک آپ کو واپس مل جاتا ہے- اسکو ٹیکس ری بیٹ کہا جاتا ہے -
اب آتے ہیں بزنس کی طرف --یوکرین ، جرمنی ، کینیڈا ، تینوں کیا بلکہ یورپ کے کسی بھی غریب سے غریب یا امیر سے امیر ملک میں آپ ایک ٹماٹر تک نہیں بیچ سکتے جب تک آپ نے اپنے بزنس کی رجسٹریشن نہ کروائی ہو ، اگر رسک لیں گے تو شاید دو چار دن یا ہفتے دو ہفتے تو کام چل جائے اس سے زیادہ نا ممکن ہے ، سسٹم ہی ایسا ہے ، اگر اللیگل بزنس کرتے پکڑے گئے تو گئے ، سسٹم ایسا ہے کہ آپ کو جکڑ لیتا ہے اتنا محدود کر دیتا ہے کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یار چلو اب کام کرنا ہی ہے تو پھر ٹھیک طریقے سے کریں -
بزنس کرنے کے لئے سب سے پہلے بزنس رجسٹریشن کروانی ہوتی ہے ، پھر آپکو بزنس نمبر مل جاتا ہے ، اس بزنس نمبر پر آپ نے بزنس اکاونٹ کھولنا ہوتا ہے ، یعنی آپ جو بھی بیچیں گے ، خریدیں گے اسی بزنس اکاونٹ سے ساری ٹرانزیکشن ہو گی تاکہ آپ گورنمنٹ کو دھوکہ نہ دے سکیں ، پھر آپ کی ٹیکس رجسٹریشن ہو جاتی ہے ، پھر کچھ اور رجسٹریشنز ہوتی ہیں جو لازمی ہیں ، پھر آپ نے اپنے بزنس کی انشورنس کروانی ہوتی ہے ، میں نے پیس کیفے ون کے سات سو ڈالر اور پیس کیفے ٹو کے بارہ سو ڈالر انشورنس والوں کو دیے ، جو اگلے سال پھر سے دینے ہیں -مجھے ایک مہینہ پہلے منسٹری آف فائنانس سسکچوان کی کال آئی اور انہوں نے پوچھا نعمان بات کر رہے ہیں ، مجھے آپ سے تھوڑی لمبی بات کرنی ہے ، میں نے کہا جی بتائیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کی جو پہلی اور دوسری کافی شاپ ہے اسکی آیکپمنٹ یعنی جوسر ، بلینڈر ، کافی مشین ، برف بنانے والی مشین ، فریج ، فریزر ، جو جو کچھ بھی ہے اسکی ایک لسٹ بنائیں ، اگر آپ کے پاس انکی خریداری والی رسیدیں ہیں تو ٹھیک ، نہیں تو ایک آئیڈیا لگائیں ، مثال کے طور پر آپ نے برف بنانے والی مشین کسی سے فیس بک پر لی تھی ، وہ آپ کو ایک سو ڈالر کی پڑی تو لکھ دیں ایک سو ڈالر ، آگے چلیں اور اسی طرح سے ہر چیز کی لسٹ بنا کر اسکی قیمت لکھیں ، اسکا ٹوٹل نکالیں ، مثال کے طور پر اسکا ٹوٹل دس ہزار ڈالر بنتا ہے ، تو آپ کو سالانہ ایک مرتبہ اپنی ان تمام چیزوں کا پانچ فیصد پی ایس ٹی دینا ہو گا ، میں نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ، کیوں ؟ تو وہ ہنس کر کہتی ، آپ ان چیزوں کو استعمال میں لا کر چائے کافی ، سمودی ، ملک شیک ، سینڈوچ بناتے ہیں یعنی مینوفیکچر کرتے ہیں تو ان چیزوں پر آپ کو سالانہ پانچ فیصد پی ایس ٹی دینا ہو گا ، فلانی تاریخ تک یہ لسٹ بنا کر ہمیں دے دیں ، ایک ایک ڈیڑھ مہینے بعد ٹیکس ادا کرنا ہو گا ، اگر نہیں کر سکتے تو ہم اسکی قسط بنا دیں گے لیکن ٹیکس دینا ہو گا -مجھے میرے بزنس پر جو بجلی کا کنکشن ہے اسکا بل گھر سے تگنا آتا ہے اور اس پر بھی پھر سارے ٹیکس لگے ہوتے ہیں ، انٹرنیٹ گھر پر جو لگا ہے پچاس ڈالر ماہانہ ہے ، جو کیفے میں لگوایا ہے اس کے ایک سو چالیس ڈالر دیتا ہوں کیونکہ بزنس کنکشن ہے –
اب آتے ہیں فائدوں کی طرف
مجھے بزنس اونر ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ میں ابھی جا کر ایک انتہائی بہترین سی گاڑی لے سکتا ہوں جو پاکستان میں کوئی ایک کروڑ روپے تک کی ہو گی ، مجھے اسکی ماہانہ قسط بھرنا ہو گی وہ بھی پانچ سو سے ہزار ڈالر مہینہ تک یعنی جتنی مہنگی گاڑی اتنی ہی اسکی قسط زیادہ ، مجھے کوئی بھی ڈاکومنٹس جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے کوئی تنخواہ والا کرتا ہے ، مجھے گھر آسانی سے کرائے پر مل جائے گا ، یعنی مجھ سے صرف بزنس کا نام سن کر ہی باقی سارے سوالات ختم ، جبکہ تنخواہ دار بندے سے اسکی بنک اسٹیٹمنٹ ، پچھلے مالک مکان سے ریفرنس وغیرہ وغیرہ ....مجھے بہت سے اسپورٹس کلب فری میں ممبر شپ دینے کو تیار ہیں ، بلکہ فون کرتے ہیں ، یہی ممبر شپ تنخواہ دار بندے کو پیسے دے کر لینا ہوتی ہے -مجھے بنک نے جو کریڈٹ کارڈ دے رکھے ہیں ان پر اچھی خاصی کریڈٹ لمٹ ہے ، جو کہ ایک تنخواہ دار بندے کو نہیں ملتی ، اسکو میرے والی لمٹ تک پہنچتے پہنچتے کوئی چار پانچ سال لگ جانے ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ -مجھے کچھ جگہوں پر بطور بزنس مین سامان کم قیمت میں مل جاتا ہے ، پی آر اپلائی کرنے میں بہت ہی زیادہ آسانی ہو گی ورنہ مجھے مستقل جاب ڈھونڈنی ہوتی ، ایک سال کام کرنا ہوتا ، مالک کے نخرے برداشت کرنا ہوتے ، اسکی باتیں سننا ہوتیں ، اور دیسی تو لیٹر بنا کر دینے کے دس سے پندرہ ہزار ڈالر بھی مانگتے ہیں جو کہ مکمل طور پر الیگل کام ہے ، اگر میرا بزنس نہیں چلتا تو میں اپنے اکاونٹنٹ سے کاغذی طور پر یہ ثابت کرواؤں گا کہ یہ بزنس نہیں چل رہا ، یا تو مجھے مزید کریڈٹ مل جائے گا ، یا پھر میں بنکرپٹ ڈکلیئر کر جاؤں گا اور مجھے حکومت بے روزگار الاؤنس دے گی جو مہینے کا کوئی ہزار ڈالر بنتا ہے ، لیکن وہ بھی کوئی چھ آٹھ مہینے تک ، پھر وہ بھی بند ہو جائے گا -اگر میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور میں لنگڑا ہو جاؤں تو مجھے مستقل طور پر معذوری الاؤنس ملے گا جو شاید بارہ یا تیرہ سو ڈالر ہے جو ہر مہینے ملے گا ، اسکے علاوہ میرے بیٹے آدم کو چار سو کچھ ڈالر ہر مہینے اٹھارہ سال تک ملتے رہیں گے ، یہ اسکی جیب خرچی ہے جو ماں کے اکاؤنٹ میں آتی ہے ، سمجھیں یہ والدین کو وہ کمپنسیٹ کرتے ہیں جو وہ بچے پر خرچ کرتے ہیں یعنی گورنمنٹ ہمیں کم از کم آدھے پیسے واپس کرتی ہے جو ہم آدم پر خرچ کرتے ہیں ، جرمنی میں بھی یہی ہے ، یوکرین میں بھی یہی ، یوکرین میں اگر کنورٹ کریں تو شاید کوئی سو ڈالر ماہانہ بنتے ہیں ، اور اگر ماں یا باپ مر جائیں ، یا کوئی ایک مر جائے ، یا ایک دوسرے کو طلاق دے دیں تو کچھ اور بھی ملتے ہیں بچے کو ماہانہ خرچ کے طور پر -کینیڈا ، جرمنی ، یوکرین میں بجلی ، پانی کے جو بل آتے ہیں ، ان میں نہ صرف بجلی پانی کی قیمت بلکہ جو پائپ پانی لے کر آتے ہیں انکا کرایہ بھی الگ سے ہوتا ہے ، یعنی سو روپیہ پانی کا بل ، پچاس روپے پائپ کا کرایہ اور آپ تک پانی پہنچانے کی سروس ..میرے خیال میں یورپ میں ہر جگہ یہی ہے ، کینیڈا امریکہ میں بھی یہی چلتا ہے ، میرے گھر کے باہر سے جو گاڑی ہفتے میں ایک مرتبہ کوڑا اٹھا کر لے جاتی ہے اسکا بل کوئی اڑتالیس پچاس ڈالر ماہانہ بنتا ہے ، آپ یہاں کوڑا ایسے ہی نہیں کہیں پھینک سکتے جرمانے ہیں اور بہت زیادہ ہیں ، اگر آپ نے اپنا پرانا فرنیچر پھینکنا ہے تو اسکو گاڑی پر ڈال کر جس جگہ جا کر چھوڑ کر آتے ہیں ، یعنی ڈمپ سائٹ ، وہاں آپ کو اپنا ہی سامان پھینکنے کے پیسے دینے ہوتے ہیں ، کوئی دس ڈالر شاید -
جو لوگ پاکستان میں کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں ، وہ شاید جی ایس ٹی کو ٹیکس کہتے ہیں ، ہے وہ بھی ٹیکس لیکن انکم ٹیکس پاکستان انڈیا میں نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے ، مجھے اتنا معلوم ہے کہ بڑی فیکٹریاں ، گورنمنٹ ملازمین انکم ٹیکس دیتے ہیں ، باقی جو دکاندار ہیں ، جو روزانہ کام کرتے ہیں یا کہیں پرائیویٹ کوئی جاب کرتے ہیں ، انکم ٹیکس نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، ابھی نظام بننا ہے ، اور بننا چاہیے ، میں نے پڑھا ہے کہ آئی ایم ایف وغیرہ اب پاکستان جیسے ممالک کو قرضہ دے کر ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ یہ قانون بناؤ ، یہ قانون بناؤ تو قرضہ ملے گا ، تعلیم پر بھی آ رہے ہیں ، صحت پر بھی آ رہے ہیں ، وہ بنوائیں گے سارے قوانین ، اس میں بہت وقت لگے گا ، پاکستان انڈیا میں فی گھنٹہ اجرت پر بھی کام ہو رہا ہے ، ہو سکتا ہے اگلے چند سالوں تک کوئی رزلٹ سامنے آئے -یورپی ممالک میں ، کینیڈا امریکہ میں بزنس کھولنا خالہ جی کے گھر کا چکر لگانے والی چیز نہیں ہے-آپ کو بہت سے سرٹیفیکٹ لینے ہوتے ہیں ، بہت سے قوانین کو فالو کرنا ہوتا ہے ، اسکی آسان سی مثال یہ ہے کہ پیس کیفے ٹو میں کچن میں جو ٹوٹیاں ٹھیک کروائیں ، وہ ایک فرم سے کروائیں، ایسا نہیں ہے کہ خود ہی کر لوں ، اسکی اجازت ہی نہیں ہے ، باقاعدہ بندہ آیا ، ٹھیک کر کے مجھے رسید دے کر گیا ، میں خود سے نہیں کر سکتا تھا ، کیونکہ سٹی گورنمنٹ کا بندہ جو آتا ہے سب مانگتا ہے کہ یہ کس نے ٹھیک کیا ہے ، اسکی رسید دو یا کوئی ڈاکومنٹ دو-پاکستان انڈیا میں کیا ہے ، دوکان کرائے پر لی ، چل کھول کر بیٹھ جا ، کوئی آئے گا تو پانچ سو لگا کر چلتا کر دینا .... یہاں میرا مینیو تک چیک کیا ہے ، کون سی چیز کیسے بناؤں گا ، کہاں سے سامان لاؤں گا ، تھرما میٹر ، روزانہ کی صفائی ستھرائی ، اور کسی بھی وقت ہیلتھ والوں کا بندہ آ کر چھاپا مار سکتا ہے اور کوئی ہینکی پھینکی کی تو لائسنس ضبط کر لے گا -اپنے مسائل ہیں انکے ، ہاں سسٹم ہے ، جو بہت سے لوگوں کو پسند ہے ، لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر وہ مر بھی جائیں گے تو گورنمنٹ انکے بچے کو بے آسرا نہیں چھوڑے گی ، وہ لنگڑے ہو جائیں گے تو گورنمنٹ انکو نہیں چھوڑے گی ، وہ بے روزگار ہو جائیں گے تو گورنمنٹ انکو سہارا دے گی ، وہ پینسٹھ سال سے زیادہ کے ہو جائیں گے تو گورنمنٹ انکو پنشن دے گی بھلے ہزار ڈالر مہینہ ہی ہو دے گی ، بجلی کے بل آدھے ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ ......