تہران
عالم مشرق کا جنیوا
ہماری واپسی کی پرواز رات کے 2بجے تھی۔ ہمارا ارادہ اصفہان سے مشہد بذریعہ جہاز پرواز کرنے کا تھا اور مشہد سے تہران بذریعہ ریل ۔ مگر ایران میں فضائی سفر عام ہو گیا ہے۔ ہوائی اڈے مسافروں سے بھرے رہتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق ٹکٹ لینا اور مرضی کے مطابق سفر کرناہجوم کی وجہ سے مشکل ہو گیا ہے۔ مشہد سے تہران واپسی کی نشستیں بھی ہمارے مہربان کی محنت اور کوشش کے بعد مل سکی تھیں۔9:30بجے ائیر پورٹ پر پہنچ گئے۔ روانگی کے وقت ٹیکسی ڈرائیور نے ایک نو جوان عالم کو ساتھ بٹھا لیا۔ جب پوچھا کہ یہ مسافر کون ہے، توٹیکسی ڈرائیورنے جواب دیا کہ وہ اس کا بیٹا ہے اور ائیر پورٹ تک ساتھ جائے گا۔ آج کل پاکستان میں یہ حال ہے کہ علما فضلا کی اولادبھی مولوی بننے پر شرمندہ اور مولوی کہلانے پر پریشان ہو جاتی ہے۔ اب کسی عام سے دنیا دار خصوصاً ٹیکسی ڈرائیور کے بیٹے کا مولوی بننا کم از کم ہمارے لیے حد درجہ حیران کن اور حوصلہ افزا تھا۔ دونوں باپ بیٹا باتیں کرتے رہے۔ دو ایک باتیں ٹوٹی پھوٹی عربی فارسی میں ہم نے بھی کیں۔ مگریہ طے نہ کر سکے کہ نو جوان عالم کی عربی زیادہ رواں ہے یا فارسی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایران کے علماء کی علمی زبان عربی ہے جس پر انہیں خاصا عبور حاصل ہوتا ہے۔یہ پہلا ڈرائیور تھا جو کرایے کے بارے میں معقول ثابت ہوا اور جس نے ڈگی سے سامان نکالنے میں بھی ہاتھ بٹایا۔
مشہد ائیر پورٹ اگرچہ بین الاقوامی ہے لیکن چھوٹا اور سادہ سا ہے۔ مسافروں کی آمد و رفت کے دونوں راستے ملے جلے ہیں۔ایران میں مکئی کے اُبلے دانوں کا ملغوبہ ملتا ہے جس میں مسالے، کھٹائی اور چٹنی ڈال کر بہت لذیذ بناتے ہیں۔ یہ کھا کر پھلوں کا جوس پیا۔ چائے نہ مل سکی۔ نماز خانہ میں قضا نمازیں ادا کیں۔ اس دوران میں اکادکا نمازی آتے رہے اور نماز ادا کر کے جاتے رہے۔ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہوئے ہمیں کئی خواتین اور مردوں نے صرف ایک نظر دیکھا اور وہ بھی حد ادب کے ساتھ۔ کوئی ایرانی مخل ہو ا اور نہ معترض ۔ ائیر پورٹ پر دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں۔ یہاں سے روزانہ قریباً70پروازیں جاتی ہیں۔ ان میں سے 24کے لگ بھگ صرف تہران کے لیے ہوتی ہیں۔ عنقریب اس ائیر پورٹ کا نام فرودگاہ بین الملی شہید شمی نژاد کیا جا رہا ہے۔
پرواز ہموار تھی مگر حسبِ توقع کافی نہ مل سکی۔ 3:30بجے صبح جب تہران کے سعد آباد ہوائی اڈے پر اترے تودرجہ حرارت منفی تھا۔ 6بجے تک خروج کی انتظار گاہ میں وقت گزارا۔ ایک سٹال سے کافی مل گئی تو جان میں جان آئی۔ فجر کی نماز کے لیے نمازیوں کا ہجوم تھا۔ لوگ وضو کے لیے باری کا انتظار کر رہے تھے۔ نمازی الگ الگ نماز پڑھ کر جا رہے تھے۔
آستان مقدس امام زادہ صالح ابن موسیٰ الکاظمؒ:
یہ آٹھویں امام کے ایک صاحبزادے کا مرقد ہے جو شہر کے اندر آ گیا ہے۔ مزار کے صدر دروازے سے باہر 5قبریں شہدائے گمنام کی ہیں۔ ملحق مسجد بھی ہے اور خرید و فروخت کا بازار بھی۔ قبروں کے اوپر چھت ہے اور چاروں طرف جنگلہ امام بھی ہے۔ قرآن حکیم اور اورادوادعیہ کے نسخے بڑی تعداد میں رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن صاحب مزار کے بارے میں بروشر یا کتاب موجود نہ تھی۔ مزار پر حاضری کے لیے عربی زبان میں دعا لکھی ہے ۔ مزار پر سبز قبہ اور واحد مینار ہے جو زیر مرمت ہے۔ مزار کی تعمیر اور باقی لوازمات اسی طرح ہیں جس طرح ایران کے دوسرے شہروں میں دیگر مزاروں پر کئے گئے ہیں۔ قبر ایک دھاتی صندوق نما پنجرے میں ہے۔ مردوں اور عورتوں کے داخل ہونے اورمزار تک جانے کے راستے یا عبادت کرنے کے الگ الگ حصے ہیں۔ اس کے نزدیک کتاب خانہ صالحیہ ہے گو چھوٹا سامگر آرام دہ اور کتابوں سے بھرا ہوا صاف ستھرا۔ کتابیں قرینے سے لگی ہوئیں۔ عملے میں زیادہ تر خواتین تھیں اور تمام کی تمام خاموشی سے اپنا اپنا کام کر رہی تھیں۔یہاں بھی صاحب مزار کے بارے میں اُردو انگریزی میں کوئی تحریر نہ مل سکی۔
اس مزار کے ساتھ ایک بہت بڑا لاری اڈا ہے جہاں سے شہر کے مختلف حصوں کے لیے بسیں ملتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بیس تیس سیکنڈ بعد ایک بس داخل ہو رہی یا نکل رہی ہے ۔ شہر میں ایسے سات آٹھ اڈے ہیں جہاں بسیں شہر کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی روانی، بسوں کی اچھی حالت اور اڈے پر صفائی اور نظم وضبط قابل توجہ ہے۔
جماران
تہران کے مضافات میں جماران ایک بستی کوہ البرز کے دامن میں واقع ہے۔ عملاً یہ تہران کا حصہ ہے ۔ پہاڑی کے دامن میں ہونے کے سبب وہاں پہنچنے کے لیے کافی چڑھائی طے کرنی پڑتی ہے۔ انقلابِ اسلامی کے بعد اس کے فکری اور روحانی رہنما امام خمینیؒ نے اسی بستی میں قیام کیا اور تادم آخر وہیں رہے ۔ یہ ایک سادہ سا مکان ہے جو چھوٹی اینٹوں سے بنا ہوا ہے۔ اس کا سادہ صحن اور چھوٹا سے برآمدہ ہے۔ اس کے ساتھ جماران کا حسینیہ ہال ہے ۔مکان سے حسینیہ ہال میں آنے کے لیے لکڑی کا پل بنایا گیا ہے۔ امام خمینی ہر روز اپنے دو کمرے کے مکان سے نکلتے اور پل کے راستے آنے والے لوگوں سے ملتے۔ گھر میں ایک کمرہ ملاقاتیوں کے لیے مخصوص تھا جہاں دنیا جہاں کے اہم افراد آتے اور شرف باز یابی پاتے تھے۔ امام خمینی کی خواہش پر حسینیہ ہال کو پہلے کی طرح ہی سادہ رکھا گیاہے۔
امام خمینیؒ:
جناب سید احمد ، امام خمینی کے دادا تھے جو 1839ع میں خمین میں مستقل آباد ہوئے۔ وہ نجف کے فارغ التحصیل عالم تھے۔ ان کے بیٹے سید مصطفی نے اصفہان اور نجف اشرف سے دینی تعلیم اور روحانی تربیت مکمل کی۔ وہ مجتہد بنے اور ‘‘حجۃ الاسلام’’ اور ‘‘ فخر المجتہدین’’ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ مقامی جاگیرداروں کے ہاتھ شہید ہو کر نجف میں دفن ہوئے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ تین بیٹوں میں سب سے چھوٹے روح اللہ مصطفوی خمینی تھے۔ خمینی ابھی 4ماہ کے تھے کہ والد کے سائے سے محروم ہو گئے۔ 16سال کے ہوئے تو والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد35 سال کی عمر میں درجہ اجتہاد سے سر فراز ہوئے۔ ان کی شادی حجۃ الاسلام والمسلمین ثقفی کی صاحبزادی خدیجہ خانم سے ہوئی جن سے ان کے 5بچے ہوئے ۔ دو لڑکے، سید مصطفی خمینی اور سید احمد خمینی اورتین لڑکیاں ،صدیقہ، فریدہ، فہیمہ۔ 4جون1989ع کو امام خمینی انتقال کر گئے۔
ان کا مرقد تہران کے نواح میں زیر تعمیر ہے۔
امام بارہ یا حسینّیہ مرکز:
ایران کے شہر وں میں کہیں بھی وہ مجمع گاہ نظرنہیں آئی جسے برصغیر میں پہلے امام باڑا یاامام بارہ اور اب امام بار گاہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو یہ ایک کھلا صحن ہوتا ہے ۔ جس کے اطراف میں چند کمرے اور چاروں طرف چار دیواری اور ایک مرکزی دروازہ ہوتا ہے ۔ یہاں محرم اور ذکر اہل بیت کے حوالے سے مجالس منعقد کی جاتی ہیں جن سے شیعہ علماء خصوصاً ذاکر اور واعظ خطاب کرتے ہیں۔ ان جگہوں پر سیاہ علم اور جھنڈے لہرائے اور دھاتی پنجے نصب کئے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر سیاہ کپڑے اور ہاتھوں پیروں میں لوہے کی کڑے پہنے اور زنجیروں کے ساتھ ایسے غمگسار موجود ہوتے ہیں جن کے سرو ں پر بالوں کی ایک لمبی لٹ ہوتی ہے۔ یہ سیاہ پوش اور آہن پوش ‘‘ علی دے ملنگ’’ کہلاتے ہیں۔ تعلیم ، تلاوت ، نماز، صلوٰۃ ، طہارت اور حقوق و واجبات سے بالکل بے نیاز ۔ ایران میں حیرت انگیز حد تک نہ کوئی امام باڑا دکھائی دیا اور نہ کوئی ملنگ ہی نظر آیا۔ اس کی بجائے غالباً حسینّیہ مرکز کے نام سے ہر شہر اور بستی میں ایسی عمارات مخصوص ہیں جن میں ہال ، کتاب خانہ اور نماز خانہ بنایا گیا ہے۔ صدر دروازے پر نام کی تختی لگی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی امتیازی نشان نہیں ہے ۔ نہ جھنڈا نہ پنجا، نہ علم نہ ہار ۔ خطاب کرنے والے کی آواز یا ماتم کرنے والوں کی صدا چار دیواری سے باہر بہت کم سنائی دیتی ہے۔ مجالس کا پرو گرام دروازے کے باہر چسپاں کر دیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ذکر ہوتا اور شرکاء شامل ہوتے ہیں۔ بیٹھنے کے لیے قالین بچھے ہوتے ہیں۔ مقرر کے لیے علیحدہ سے کوئی منبر نہیں ہوتا۔ جماران میں امام خمینی کی رہائش کے ساتھ ایسا ہی ایک حسینیہ مرکز ہے۔
جمران کا حسینیہ مرکز:
ڈھلوان سڑک کے راستے اوپر جاتے ہوئے یہ ایک گلی میں واقع ہے۔ باہر دیواروں پر خوبصورت فارسی خطاطی میں تہنیتی اور تبریکی فقرے تحریر ہیں۔ مین ہال میں جانے کے لیے سڑک کی سطح پر صدر دروازہ ہے۔ جوتے ادھرباہر اتارے جاتے ہیں۔ ہال دو منزلہ ہے اور رقبے میں مستطیل ۔ دونوں چھتیں غالباً بارہ آ ہنی ستونوں پر ایستادہ ہیں۔ ہال میں سبز اور سیاہ رنگ نمایاں ہیں۔ درمیان میں رکاوٹ نہیں۔ جس سے اوپر والے حاضرین نچلے والے حصے سے الگ نہیں ہوتے بلکہ خطاب کرنے والے کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہال میں ہوا ، روشنی اور آواز کا خصوصی انتظام ہے۔ سامنے ایک پلیٹ فارم ہے جہاں امام خمینی اپنے گھر سے نکل کر آتے اور حاضرین سے خطاب کرتے تھے۔ پلیٹ فارم کے سامنے لکھا ہے :
ھیھات منا الذلۃ۔
ساتھ ایک تصویرہے جس کے مرکز میں خانہ کعبہ ہے ۔تصویر میں ایک طرف روضہ امام کے مینار اور گنبد ہیں۔ نیچے دونوں طرف احرام پوش اور باریش زائرین دست بد عا ہیں جن کی جانب سے بہہ کر سرخ خون کعبہ کے بالکل نیچے جمع ہو گیا ہے۔ دوسری جانب امام خمینی کی تصویر ہے۔ پلیٹ فارم پر ان کی کرسی کی نشست موجود ہے۔ اس کے اوپر طغریٰ لٹکا ہوا ہے جس پر لکھا ہے :
اللہ ھو العلٰی
رہائش گاہ:
رہائش گاہ میں امام خمینی کی انتظار گاہ ، خواب گاہ اور مطالعہ گاہ میں ان کے زیر استعمال سامان کو اصل حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے ۔ یہ سارا سامان بہت سادہ اور عام سا ہے آرائش او رتعیش سے پاک۔ سامان اسی طرح کا ہے جس طرح کسی بھی خدا پرست عالم کا ہونا چاہیۓ۔ جس نے دنیا کی سرائے میں اپنافرض ادا کرنا اور چند روزہ مسافرت کے بعد اپنے اصلی اور دائمی گھر لوٹ جانا ہے۔
اسے دیکھ کر پاکستان کے ہر فرقے کے ممتاز علماء کاشاہانہ رہن سہن ، امیرانہ بود و باش اورپُر آسائش کرّو فرا ور جاہ و چشم یاد آجاتا ہے۔ان علماء اور امراء میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
ہمیں وطن عزیز کے وہ علماء بھی یاد آئے جو ٹی وی چینلوں کے مقبول چہرے ہیں۔ جن کے روابط ملک کی اہم سیاسی جماعتوں اور قیادتوں سے ہیں۔ جو احیائے دین کے لیے یورپ ، امریکا ، مشرق اوسط اوربھارت کے دوروں کے لیے پادر رکاب رہتے ہیں۔ جو امیگریشن پر درجنوں کے حساب سے وی آئی پی پا سپورٹوں کا پلندہ اٹھائے ہوتے ہیں۔ جو مہنگی گاڑیوں اور اعلیٰ لباس کو امام ابو حنیفہؒ کی سنت قرار دیتے ہیں۔ ان کے دربان اور محافظ جدید اسلحے کے ساتھ مالکوں کی جان بچاتے ہیں۔ غالباً ایسے لوگ علم کو سستا اور تقویٰ کو آسان نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کے جاگیردارانہ سٹائل اور بیورو کریٹک انداز ہی سے عوام کو مرعوب کیا اور خود کو ممتاز بنایا جا سکتا ہے ۔ سو ان کا فکر اور ان کا چلن اسی راہ پر گامزن ہے۔
نگار ستان جمران:
حسینیہ منزل سے پہلے گلی میں ایک دروازہ کھلتا ہے جس پر ایک تختی لگی ہے: نصر من اللہ و فتح قریبحسینیہ منزل کے انچار ج ہمیں پچیس سیڑھیوں کے راستے اوپر لے گئے۔ یہ چھوٹے چھوٹے چند کمرے ہیں جہاں امام خمینیؒ کی حیات اور ان کی خدمات کی تصویری کہانی دکھائی گئی ہے۔ بچپن سے سفر آخرت تک۔ اس میں عراق ،ترکی اور فرانس کی جلا وطنی بھی ہے اور شاہ ایران کے خلاف جدوجہد بھی ۔امام کا فکری سفرہے اور علمی سر گرمیاں بھی۔ ایک پاسپورٹ میں امام خمینی کا نام سید روح اللہ، ان کا خاندان مصطفوی اور پیدائش شہر ستان خمین درج ہے۔ تصاویر کے علاوہ امام کے مضامین ، کتابیں، مسودے ، فارسی کلام ، خطوط، نوٹ بکس اور ذاتی ڈائریاں بھی موجود ہیں۔ امام خمینی کا فارسی خط بہت شستہ، صاف اور خوبصورت ہے۔
ایک نوٹ بک میں آخری سطریوں نظر آتی ہے:
‘‘ کہ امام عالی مقام احمد بن حنبل در مسند خود سند بانس بن مالک سارنند’’
ہمارے ہاں تو کوئی حنفی یا سلفی یا اثنا عشری عالم کسی دوسرے فقہی امام کو اتنے کھلے لفظوں میں عالی مقام نہ قرار دے۔ اتنی اہم جگہ پر پھر زبان آڑے آتی ہے۔ سیاحوں کے لیے مختلف زبانوں میں بروشر ضرور ہونے چاہییں تا کہ وہ حسینہ منزل خصوصاً یاد گار نوادروں کے متعلق ضروری معلومات حاصل کر سکیں۔ بہر حال انچارج صاحب نے انگریزی میں ایک کتاب اور ایک بروشر دیا اور لذیذ چاکلیٹس سے تواضع کی۔ ہم خاصے بے وقت گئے تھے۔ مگر انہوں نے تر شروئی یا جھلاہٹ کے بغیر مہمانوں کی پذیرائی کی اور ہمیں نگارستان دیکھنے میں مدد دی۔
رہائش ، مرکز اور تصاویر دیکھ کر امام خمینی کی شخصیت، فکر اور ان کی جدوجہد سامنے آجاتی ہے۔ ‘‘ہیر و ور شپ’’ توہر قوم کا حصہ ہے۔ لیکن ہیرو ا گر سادگی واخلاص ، علم و عمل اور للہیت کا نمونہ ہو تو پھر وہ قوم کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی تعلیمات حزر جان بن جاتی ہیں۔ اس کی شخصیت آنے والوں کے لیے رول ماڈل ثابت ہوتی ہے۔
آستان قدس امام زادہ قاسم بن ابی الحسنؒ:
تہران کی اہم زیارتوں میں ایک یہ بھی ہے۔ مرقد پہاڑ کی اونچائی پر واقع ہے۔ کچھ عمارات اس سے بھی اوپر چوٹی کے قریب ہیں۔ رات کے وقت بلندی پر تعمیر کردہ فوجی مستقر کی روشنیاں اور نیچے میلوں تک پھیلے ہوئے تہران کی روشنیاں بہت بھلی لگتی ہیں۔ تحیۃ المسجد کے علاوہ ظہر و عصر کی قصر نمازیں اور مغرب کے فرض ادا کئے۔ اس مزار کا طرز تعمیر بھی باقی مزارات کی طرح ہے۔ رات کے سبب زائر کم تعداد میں تھے تا ہم کثیر روشنیاں، شیشہ کاری سے انعکاس اور شام کی خنکی نے خوبصورت ماحول پیدا کر دیا تھا۔
حضرت عبدالعظیم الحسنیؒ:
تہران کی سب سے مقدس زیارت گاہ حضرت عبدالعظیم الحسنیؒ کا مزار یا آستان ہے۔ وہ 173ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 252ھ میں وفات پائی ۔ ان کے تعارفی کتابچے میں ان سے 15احادیث آئمہ مروی ہیں۔ (1)گناہان کبیر( ترک کنندہ نماز) (2) مقابلہ با شیطان(3)حقوق والدین(4)ارزش کار ہائے خوب(5) در فوائد تدبیر قبل از عمل۔
پہلی روایت کے تحت لکھا ہے:
‘‘ حضرت عبدالعظیم از امام موسیٰ کاظم نقل کرتے ہیں۔ از جملہ گنا ہان کبیرہ ترک نماز ازروئے مقصد و عمد است و یا ترک عملی راکہ خدا وند واجب کردہ است خداوند فرمودہ:
ہر کس نماز را ازروئے مقصد و عمد ترک نماید ازذمہ پروردگار و پیغمبر ش بیرون خواہد شد’’
یعنی جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کی اللہ اور اس کے رسول ؐپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
اس کے ساتھ عربی میں سلام ہے جس کا آغاز ابو البشر حضرت آدم صفی اللہ کے نام سے ہوتا ہے ۔اور ایک ایسی دعا پر ختم ہوتا ہے جس میں شاد مانی، آسودگی، شمار د رز مرۂ پیروان جدبز رگوار حضرت محمدؐ، طلب رضا، سعادت آخرت، شفاعت ، ورودبہشت، عزت و رحمت اور عا فیت طلبی ہے۔ اس مقبرے میں امام زادہ حمزہ ؒ اورامام زادہ طاہرؒ بھی مدفون ہیں۔ان دونوں بزرگوں کے لیے عربی میں الگ الگ سلام ہیں۔ ان تمام سلاموں کے ساتھ فارسی میں ترجمہ بھی دیا گیا ہے ۔
طویل راستہ طے کر کے جب مرقد پر پہنچے تو جھٹپٹے کا وقت تھا ۔پہلا صحن جہاں سے اندر جانے کا راستہ ہے،زائرین سے بھرا ہوا تھا ۔ ہر عمرکے مرد و زن موجود تھے۔ زیادہ تر لوگ کھڑے تھے۔ ویسے تو یہاں ہر روز زائرین کثیر تعداد میں آتے ہیں مگر اس روز جمعرات کی وجہ سے میلے کا سماں تھا ۔ تفریح اور زیارت ،دونوں کام ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔کچھ ایک جانب سے داخل ہو رہے اور کچھ صحن کی دوسری جانب سے باہر آ رہے تھے۔ مزار پر دومینار اور تین قبے ہیں۔ حضرت عبدالعظیمؒ کے قبہ پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے ۔ باقی دو پرنیلی ٹائیلیں لگائی گئی ہیں۔ طلائی گنبد کی چوٹی پر اللہ کا دھاتی طغریٰ اور اس کے اوپر سبزجھنڈا لگایا گیا ہے۔
مزار کا انداز دوسرے اہم مزاروں کی طرح ہے ۔ زائر جوتے سنبھالنے کے بعدمختلف راہداریوں، کمروں اور کونوں سے گزرتا ہے ۔ شیشے کا کام، کاشیہ کاری اور سونے کا وافر استعمال کیا گیا ہے۔ دیکھنے میں ایرانی عورتیں گہنے لتے کی زیادہ دلدادہ نظر نہیں آتیں مگر محبت و عقیدت کے مقامات پر سونا فراخدلی سے نچھاور کیا گیا ہے۔
اس احاطے میں امام زکریا رازیؒ کا مزار بھی ہے مگر اس کے بارے میں کہیں کوئی ذکر یا اشارہ نہیں ملتا۔ ابتدائی صحن میں ، خواجہ ربیع کے صحن کی طرح قطار اندر قطار قبروں کی الواح(Slabs )ہیں جن پر مدفون کا نام نمبر درج ہے ۔منقش دروازے ، دیواروں پر کتبے، دعائیں، حضرت امام باقرؒ کی دعا کا طریقہ…… رواق بین الحرمین…… مزارات کے درمیان ایک لمبا، منقش اور آراستہ برآمدہ، جا بجا دعائیں پڑھتے ، نوافل اور نماز ادا کرتے زائر۔ کسی کو قرآن پڑھتے نہیں دیکھا حالانکہ بہت بڑی تعداد میں نسخے جگہ جگہ رکھے ہوئے ہیں۔ اتنی عقیدت اور محبت کے باوجود کسی زائر کو مزار پر سجدہ تعظیمی کرتے بھی نہیں دیکھا۔
حضرت عبدالعظیم ؒ کا مزار سرکاری اوقاف کے تحت منظم ہے اور بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے ۔ جو چند ادارے ناموں کے اعتبار سے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں:
اتنے ہجوم اور لوگوں کی مسلسل آمد و رفت کے باوجود شور و غوغا اور دھکم پیل نہ تھی۔ کچرا اور گندگی نہ تھی۔ کہیں فالتو پانی نہ کھڑا تھا عملہ برابر صفائی کررہا تھا۔ زیارت اور فراغت’ دونوں کاموں میں ایک رکھ کھاؤ تھا۔
دلچسپی میں فرق:
مزار سے نکل کر ہم واپس اس بازار کے اندر سے ہوئے جو زائرین کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ بازار میں مختلف قسم کا سامان ضرورت موجود تھا اور زائرین خریداری کر رہے تھے۔ کیسٹوں کی ایک دکان پر بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی چل رہا تھا ۔ ایک سکرین پر 5’6سالہ بچہ سوز خوانی کر رہا تھا ۔ بچے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں تھی۔ معلوم ہوا کہ بچے کے والدین کئی ماہ سے محنت کر رہے ہیں کہ یہ چھوٹا سا بچہ جلد ذاکربن جائے۔ چونکہ کام میں ندرت ہے، اس لیے گمان ہے کہ بچہ کامیاب فنکار ثابت ہو گا اور زرِ کثیر کمانے کا باعث بنے گا۔ اس کے ساتھ ایک ٹی وی سکرین پر آذر بائی جان کے شیعہ بڑے جوش خروش سے ماتم کر رہے تھے۔ زبان سے کلماتِ ماتم کا ورد اور ہاتھوں کے زور سے سینوں سے اٹھتی آواز ماتم کا شور ، پس منظر میں ہم ساز موسیقی ایک آہنگ اور ردھم کے ساتھ سنائی دے رہی تھی ۔ ماتمیوں کے سامنے سید نا علی المرتضیٰ ؓ کی تصویر / شبیہ موجود تھی۔ تیسرے ٹی وی کی سکرین پر ایک عالم وعظ کر رہا تھا۔ سیاہ عمامے اور سیاہ جبے میں ملبوس ، خطاب میں متانت اور علمیت نمایاں تھی۔
ناظرین اور سامعین تو تینوں سکرینوں کے سامنے موجود تھے مگر سب سے زیادہ بچے کے سامنے اور سب سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر عالم دین کے سامنے!
مزار خمینی:
وسط شہر سے مزار امام خمینی تک سڑک کے راستے مسافت قریباً اڑھائی گھنٹے کی ہے۔ مگر زیر زمین میٹرو کے ذریعے یہ گھنٹے پون کا سفر ہے۔ مزار ایک کمپلیکس ہے جو وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ دو گنبد ، دو مینار اور مزار تعمیر ہو چکے ہیں۔ مگر ارد گرد کا ڈھانچہ زیر تعمیر ہے۔ اس وقت آہنی ستونوں پر چھت معلق ہے۔ کتاب خانہ اور یونیورسٹی مکمل نہیں ہوئے۔ ہوائے گرم و سرد کے لیے Ducting موجود ہے۔ مزار تک جانے کے لیے مرد وں عورتوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ دیواروں پر جہازی بینر آویزاں ہیں جن پر ائمہ کے اقوال لکھے ہیں۔ مزار پنجرہ نما احاطے میں ہے۔ سامنے امام خمینی ؒ کی قبر ہے اور ان کے ساتھ ان کے فرزند اکبر کی ، دونوں پر قرآن حکیم کے نسخے دھرے ہیں۔ چاروں طرف زائرین نے کرنسی نوٹ اور سکے نچھاور کر رکھے تھے۔مزار کے ساتھ ہال ابھی نا مکمل ہے۔ لیکن جگہ جگہ شیلف پڑے ہوئے ہیں جن پر قرآن اور دعاؤں کے نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے جن میں اکثر تفریحی موڈ میں تھے۔
مرحوم خمینی حالیہ اسلامی انقلاب ، شاہ کی رخصتی اور اپنی تعلیمات کے حوالے سے ایک ایسے امام ہیں جنہیں ایران کے ہر مقام پر اور قوم کے ہر مظاہرے میں بخوبی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے فقہی سکول اور سیاسی اصولوں کے تربیت یافتہ ممتاز شاگرد علماء بشمول ڈاکٹر شریعتی اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوری نظام اور تمام شہری امور میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔امام خمینی محض فکری اور سیاسی لیڈر نہیں بلکہ اپنی قوم کے روحانی اور دینی رہنما بھی ہیں۔ ان کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ ان کا مرقد، تعلیمات اور ان کی ہدایات آنے والے ہر دور کے لیے نا گزیر ہیں۔ ( جاری ہے )