‘‘بنیاد ’’پر تبصرے

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : ستمبر 2011

            محمد صدیق بخاری ماہنامہ ‘‘سوئے حرم’’ کے نام سے ایک جریدہ گزشتہ آٹھ برس سے شائع کر رہے ہیں ۔ اس میں ان کے قلم سے ‘‘آوازِ دوست ’’ کے عنوان سے شذرے اور کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔انہی شذرات اور کالموں کا مجموعہ ‘‘بنیاد’’ کے عنوان سے مارکیٹ میں یکجا دستیاب ہوا ہے۔

            ان کالموں یا شذروں میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ ہر کام کی ایک بنیاد ہوتی ہے ، اگر بنیاد صحیح اور درست انداز میں اٹھائی جائے تو عمارت بہترین کھڑی ہو گی ۔ انہوں نے اپنے کالمیات میں بعض اخلاقی ، مذہبی ، قومی ، ملی ، سیاسی ، ثقافتی اقدار کی بنیاد اٹھانے کے لیے اسلامی رہنمائی کی ضرورت پر ادیبانہ انداز میں کلام کیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کی بے عملی ، اسلامی سوجھ بوجھ کی کمی اور اچھے اطوار کی کمیابی کا فقدان عروج پر ہے ۔ اسلام کی کھری اور بہترین تعلیمات کو نظر انداز کر کے اچھے بھلے تعلیم آشنا افراد بھی دیکھا دیکھی معاشرتی جھمیلوں کی نظر ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مصنف نے اپنے قلم سے ا یسے واقعات کثرت سے درج کیے ہیں جن کا تعلق آج کے تعلیم یافتہ طبقے سے ہے ۔ اہل ذوق کے مطالعے کے لیے یہ ‘‘آوازِ دوست ’’ ‘‘بنیاد’’ کی صورت میں ایک مفید کتاب ہے ، اور ایک اچھی ‘‘بنیاد’’ ثابت ہوسکتی ہے ۔ مضبوط جلد ، کمپیوٹر کمپوزنگ ۔ مفید کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ( تبصرہ نگار : محمد سلیم چنیوٹی)

 ( ہفت روزہ الاعتصام ،لاہور 15 تا 21 جولائی 2011 )

٭٭٭

            صدیق بخاری صاحب کی کتاب ‘‘ بنیاد’’میرے سامنے ہے جو نہ صرف اپنے موضو ع کے لحاظ سے ایک انوکھی اورمنفرد کتاب ہے بلکہ اپنے انداز تحریر کے اعتبار سے بھی ایک الگ حیثیت کی حامل ہے ۔بنیادمیں مصنف نے اپنے درد دل کو بیان کیا ہے اور درددل رکھنے والے حضرات ہی کے لیے اس میں جاذبیت اور چاشنی ہے ۔ اس کا ٹائٹل بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اگر اسلام کے پودے کی درد کے ساتھ آبیاری کی جائے تو اس کی سر سبزی و شادابی سے ساری انسانیت کو فائد ہ پہنچے گا۔بخاری صاحب کو عمار ت سے زیادہ اس کی بنیادوں کی فکر ہے اورا ن کے خیا ل میں دینی، ملکی ، قومی ، ملی اوراخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں اغیار اور اپنے سب شامل ہیں۔انہی بنیادوں کی مضبوطی کی دعوت کا نام ‘‘بنیاد’’ ہے ۔

            ماہنامہ سوئے حرم میں بخاری صاحب ‘‘آوا ز دوست ’’ کے نام سے کالم لکھتے رہے ہیں ۔ انہی کالموں کے مجموعے کانام ‘‘بنیاد ’’ ہے ۔یہ کتاب مختلف حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ مثلاً اس کا پہلا حصہ دینی بنیادوں کی اصلاح کے بارے میں ہے اور انہیں از سر نو اپنی اصل کے مطابق تعمیر کی دعوت ہے۔ اس حصے میں مصنف نے مذہبی ، مسلکی عدم برداشت کی جھلک پیش کی ہے ،تنگ نظری کی بیماری کارونا رویا ہے اورنبی کریم کی اہم سنت ‘‘ وسعت نظری اور رواداری کے طرف توجہ دلائی ہے ۔‘‘نیم ملا خطرہ ایمان’’ میں نیم ملاؤں کی دکانداری کی بارے میں خبر دار کیا ہے اور ‘‘قرآن مجید کی محبت ، چند سوالات’’ میں قرآن مجید کے حوالے سے مسلمانوں کے تعلق کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے ۔‘‘ نفرت کے شراروں کو گلابوں میں بدل دے ’’ میں مصنف نے نفرت کی شناعت اورمحبت کی اہمیت واضح کی ہے۔‘‘ کس کی جیت’’ میں اس اہم نکتے کیطرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیں اپنی جیت سے زیادہ اسلام کی جیت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ عملاً دنیا میں یہ ہو رہا ہے کہ اسلام ہار رہاہے اورمسلمان جیت رہے ہیں۔تقلیدو جمود کی شناعت اور مردو عورت کے میدان کار کی بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی گئی ہے۔ملکی مسائل کے حوالے سے بخاری صاحب کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں باقی سب ہے مگر انسان نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستا ن کے تمام مسائل کاحل انسان بنانے کی تحریک چلانا ہے۔اسی طرح ملی ، تعلیمی ، ملکی ، قومی او راخلا قی بنیادوں کی از سر نو مضبوطی کی دعوت دی گئی ہے ۔ میری رائے ہے کہ اس کتاب کے پیغام کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے گھر گھر اس کتاب کو پہنچانا یقینا ایک کار خیر ہو گا۔

(عبدالمعز صدیقی ،ایم فل، حیدر آباد دکن)