مدیر محترم
سلام مسنون
گزشتہ دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ہندستان کے مقابلے میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور اس پر حکومت او رعوام نے یکساں جوش و خروش سے جشن منایا۔
میری اچھی یابری عادت ہے کہ میں مختلف معاملات کو روحانی نقطہ نظر سے دیکھتا ہوں ۔ چنانچہ جب میں نے اپنے بیٹے سے معلومات حاصل کیں تو اندازہ ہوا کہ ہماری کرکٹ ٹیم کو بہت لمبے عرصے کے بعد یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ورنہ یہ مختلف اوقات میں تسلسل کے ساتھ ہارتی چلی آرہی تھی۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس یعنی ۲۰۰۴ میں اس نے پاکستان کے اندر انڈیا سے شکست کھائی اس کے بعد سر ی لنکا میں فائنل میں نہ پہنچ سکی اور ایشیا کپ ہار گئی ۔ اس کے جواب میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو یہاں بھی اس سے شکست کھائی ۔ اسی طرح ہالینڈ میں آسٹریلیا سے ہار گئی۔ گزشتہ ستمبر میں انگلینڈ کے اندر ویسٹ انڈیز سے سیمی فائنل میں شکست کھا گئی اور کم از کم چھ بار ہماری ٹیم مسلسل ہارتی رہی ، لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور یہ شاندار فتح سے ہمکنا ر ہوئی۔
قارئین گرامی! میرے نزدیک اس فتح کا سبب یہ ہے کہ متذکرہ ٹیم کے کیپٹن انضمام الحق ایک باعمل نوجوان ہیں ، ٹیم کے دوسرے اہم رکن شاہد آفریدی بھی صاف ستھرے کردار کے حامل کھلاڑی ہیں اور انہوں نے وہاں چھکوں کا ریکارڈ قائم کیا۔ ظاہر ہے کیپٹن انضمام الحق نے دوسرے کھلاڑیوں کے روز مرہ کردار اور اخلاقی رویے کو بھی کنٹرول کیا ہو گا۔ چنانچہ ہمارے کھلاڑیوں کی پاکبازی اس فتح کا سبب بن گئی، جبکہ ماضی میں ٹیم کے اندر ایسے کھلاڑی بہت نمایاں تھے جو اچھے کردار کے حامل نہیں تھے۔ اور عورت و شراب کے رسیاتھے چنانچہ ان کی نحوست ٹیم کے ہمرکاب رہی اور وہ مسلسل ہارتی چلی گئی۔
کاش ہم یاد رکھیں کہ کسی بھی میدان میں مسلمان کی فتح و شکست میں لیاقت، محنت اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ روحانی عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان روحانی عوامل کے مثبت یا منفی ہونے میں اصل دخل ہمارے اخلاقی رویوں کا ہوتا ہے ۔ اللہ کے ماننے والوں کے ساتھ اللہ کا ضابطہ اور قانون ان سے بہر حال مختلف ہوتا ہے جو اللہ کو نہیں مانتے۔
ڈاکٹر عبدالغنی فاروق
منصورہ ، لاہور