خمینی و فردوسی کی سرزمین

مصنف : ڈاکٹر انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2011

قسط -۶

             ٹریفک کی ہدایات کے لیے سرعت گیر ( سپیڈ بریکر ) کنترل سرعت ( سپیڈ لمٹ ) کے اشارے نظر آئے۔

            صنعتی ایریا کے بعد ایسی زمینیں بھی آتی ہیں جو بنجر اور بے آباد ہیں۔ پھر درختوں میں گھری ہوئی وہ عمارت اور پائیں باغ نظر آتے ہیں جہاں عظیم شاعر فردوسی آرام کر رہا ہے۔ تاحدِ نظر کوئی بستی یا آبادی دکھائی نہیں دیتی۔ صدر دروازے کے پاس ٹکٹ لے کر جب اندر داخل ہوتے ہیں تو سامنے ایک گول چکر میں گھاس، پودے اور گلاب خیر مقدم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایرانی پرچم لہرا رہے ہیں۔ بعض درختوں پر پت جھڑ نمایاں تھی۔ راستوں اور پلاٹوں میں بھی خزاں کے اثرات نظر آرہے تھے۔ مقبرے کی عمارت کے سامنے پانی کا تالاب ہے جس میں فوارے چل رہے تھے۔ آہستہ آہستہ شائقین اور سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ مقبرے کی عمارت ایک چوکور چبوترہ ہے جس کے چاروں طرف سنگ مر مر کی درجن کے لگ بھگ سیڑھیاں ہیں۔ بڑا مرکزی چبوترا چاروں طرف سے ایک جیسا نظر آتا ہے ۔ اس کے ستونوں کے انداز سے کسی رومی عمارت کا گمان ہوتا ہے۔ چبوترے کے چاروں اطراف شاہنامہ فردوسی کے اشعار انتہائی خوش خط کھدے ہوئے ہیں جن میں سیاہ رنگ بھر اہوا ہے ۔ چبوترہ پُر شکوہ ، باوقار ، سادہ اور اثر انگیز ہے ۔

کنگرۂ جہانی بزر گداشت فردوسی ھزارہ تدوین شاہنامہ
 بنام خدا وند جان و خردکزیں بر تر اندیشہ نگذرد

مجسمہ:

            چبوترے کے ساتھ ایک پائیں باغیچہ ہے ۔ یہاں درمیانے سائز کے تالاب میں ایک فوارہ چل رہا ہے ۔ فوارے اور کنارے کے ساتھ تالاب کے اندر حکیم ابو القاسم فردوسی کا مجسمہ ہے ۔ یہ سنگ مر مر سے تراشا گیا ہے جس کے تین اطراف میں بلند و بالا درخت جیسے اسے آغوش میں لیے ہوئے ہیں۔ فردوسی ایک اونچی نشست پر ایستادہ ہے۔ سر پر علماء کی سی سفید پگڑی بغیر کلاہ، چہرے پر بلا کی سنجیدگی، آنکھیں سوچتی اور دور دیکھتی ہوئی۔ گلے میں پٹکا، سفید شلوار قمیص پر صدری، بائیں ہاتھ میں پارچہ سفید جو بائیں گھٹنے پر رکھا ہوا ہے۔ بایاں ہاتھ جیسے پڑھتے بولتے وقت اشارے کے لیے اٹھتا ہوا۔ دونوں پاؤں کے درمیان غالباً نوشتہ صحیفے ہیں۔ ڈاڑھی اور ناک سے یونانی حکما ارسطو اور سقراط سے مشابہت۔ مجسمہ بہت پر شکوہ اور متاثر کن ہے۔ گویا فن کار نے فردوسی کو اس کے اصل روپ میں منجمد کر دیا ہے۔ جیسے فردوسی ایران کی عظمت کے گیت گنگنانے سے تھکا نہیں شکست و ریخت اور تعمیر و ترقی کے ساز پر ایران کے نئے نغمے تخلیق کر رہا ہے۔ یہی تو تاریخ اور ادب کا جاری عمل ہے جو ہر حال میں اور ہمیشہ رواں رہتا ہے ۔ صرف حکمرانوں کے کردار اور چہرے بدل جاتے ہیں۔ دھرتی اور عوام تو وہی رہتے ہیں جو ابتدا سے چلے آ رہے ہیں۔

مزار اور لوح مزار:

            فردوسی کا مزار سنگی چبوترے کے نیچے ایک تہ خانے میں بنایا گیا ہے۔یہ ایک وسیع ہال ہے جس کے مرکز میں مزار ہے ۔ چاروں طرف دیواروں پر ایران کے معروف خطاطوں، فنکاروں اور مجسمہ سازوں کے شاہپارے ہیں جن کا تعلق شاہنامے کے مختلف واقعات اور اہم کرداروں سے ہے۔ اکثر میورل موقع کے مطابق مصروف عمل ہیں۔ یہ مناظر بہت جاذب اور موثر کن ہیں۔ شیشے کے فریموں کے اندر اطراف سے روشنی پھوٹتی اور مجسموں کو نمایاں کرتی اور غور کرتی دکھاتی ہے۔دیوار وں پر ان میورلوں کے حوالے اور غیر حوالے سے شاہنامہ کے بند اور نظمیں کھدی ہوئی ہیں۔ دن کے وقت خاندانوں اور جوڑوں کی کثیر تعداد مقبرے میں موجود تھی۔ سکول کی طالبات کا ایک گروپ بھی آیا ہوا تھا۔ ٹیچر لڑکیوں کو لوح مزار پر اور پھر مختلف میورلز کے سامنے رُک کر تفصیل سے بتا رہی تھی۔ تمام طالبات سکول یونیفارم میں اور پورے حجاب و عبایہ کے ساتھ توجہ سے سن رہی تھیں ۔کچھ کاپیوں میں دورے کے نوٹس لے رہی تھیں۔ تصویر کشی کے معاملے میں ایرانی خاصے لبرل ہیں۔ تصویر کے لیے قبر کی لوح پر چڑھنے بیٹھنے پر کوئی معترض نہیں ہوا۔ ہماری طرح ایران کی ہر قبر اس طرح واجب احترام نہیں جیسے اس کے اندر مد فون زندہ ہوں اور زائرین سے تنگ ہو رہے ہوں۔ مزار کے چاروں طرف بچے بھاگ رہے تھے۔ شائقین تفریح اور معلومات حاصل کرنے کے موڈ میں تھے۔

             فردوسی کی قبر کے پتھر پر یہ عبارت کندہ ہے:

طوسی است کہ سخناں او زندہ است
و مزار او دردل مردم ایں است

جاویدان است

تاریخ تولد 329 ہجری قمری

تاریخ وفات 409 ہجری قمری

تاریخ بنائے آرام گاہ

1353ہجری قمری

            ایک پائین باغ میں فردوسی میوزیم تھا۔ شاہنامہ کے حوالے سے زیادہ تر مخطوطات ، جنگ کا سامان ، استعمال کے برتن اور وقت کے باد شاہوں کی چند یاد گاریں رکھی تھیں۔ یہاں پہلی بار شاہنامہ سے متعلق کتابیں اور کتابچے نظر آئے جو انگریزی زبان میں تھے۔ اُسامہ ، سرمد، رابعہ اور مجتبیٰ کے لیے چند کتابچے خریدے۔ آخر ہم پاکستانی ٹھہرے انگریزوں کے جانشین اور انگریزی زبان کے وارث۔ مزار پر کوئی پاکستانی سیاح یا کسی دوسرے ملک کا سیاح نظر نہیں آیا۔ تمام کے تمام سیّاح ایران کے باشندے تھے جو ملک کے دور دراز حصوں سے اپنے قومی آثار دیکھنے آئے تھے ۔ یوں لگتا ہے یا تو پاکستانی زائرین ان آثار سے باخبر نہیں یا بطور زائر اپنے گناہوں کی معافی اور غلطیوں کی تلافی سے انہیں فرصت نہیں ملتی کہ ادھر کارُخ کریں۔

خانقاہ غزالی:

            طوس ایک انتہائی مردم خیز خطہ رہا ہے ۔ امام غزالی جو مسلمانوں میں پہلے حجۃ الاسلام کہلائے ،ان کا تعلق بھی طوس سے ہے۔ سننے میں آیا تھا کہ یہیں کہیں وہ خانقاہ واقع ہے جہاں امام غزالی گوشہ نشین ہوئے، روحانی مدارج طے کئے اور متعدد علمی اور فکری کام کئے۔ لیکن دریافت کے باوجود کسی کو باخبر نہ پایا۔ ممکن ہے، امام غزالیؒ کی تعلیمات اور افکار موجودہ حکومت کے مقاصد اور فلسفۂ انقلاب سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ ورنہ ایسی مشہور اور فاضل شخصیت کی خانقاہ کو منظر عام پر رہنا چاہیۓ۔ بعض سیاحوں کے لیے تو اس نام میں فردوسی جیسی جاذبیت ہو سکتی ہے۔

             مقبرے کی حدود سے باہر بھی چند قبریں ہیں۔ ان کے گرد نہ کوئی دیوار ہے اور نہ کسی قسم کا اہتمام ہے۔ کچھ اس قسم کا بورڈ لکھا ہوا ہے:

             آرام گاہ سریند گان معاصر خراساں

استاد غزل عماد خراسانی (1382م) مہندس آدیژن(فرزند فردوسی)

استاد احمد کمال پور( قصیدہ سرای توانائی خراساں1379م) استاد احمد گلچین ہانی

عشرت قہر ماں ( نکسیا ) شاعرہ غزل سرا

            واپسی پر بلیوارڈ خاتم اور خیابان انصار سے گزرے۔ یہاں بسوں اور ٹرکوں پر ان کے اطراف یا آگے پیچھے پاکستانی انداز میں قدرتی مناظر کی نقاشی ، جانداروں کی تصویرکشی، عشقیہ شاعر ی اور مختلف تصویریں نہیں نظر آئیں جن میں ایوب خان، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور مسرت شاہین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے نیم خواندہ اور خود تربیت یافتہ رنگ ساز، نقاش اور رنگ ریزبسوں اور ٹرکوں کو صنف لطیف شمار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تزئین و آرائش کے لیے اپنی فکر اور موئے قلم کی تمام توانائیاں وافر طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان سٹیل اور پی ایس او کے ‘‘باذوق’’ منیجروں نے ان شاہپاروں کی نظم و نثر پر مجموعے مرتب کررکھے ہیں۔ ایران اس عوامی آرٹ اور متحرک اظہار سے محروم دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سڑکوں اور چوراہوں پر ملک کی سیاسی قیادت کی تصاویر یا انتخابی معرکوں کے دیو ہیکل اشتہار بھی نظر نہیں آتے۔ اس لحاظ سے ایران ہم سے پیچھے ہے کہ اس کے پاس جنرل پرویز مشرف، چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہٰی ، میاں نواز شریف، ارباب غلام رحیم، الطاف حسین ، عشرت العباد اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری رہنماؤں کی شدید کمی ہے۔ ملک کے درو بام چنانچہ خالی خالی نظر آتے ہیں گویا مفت کی عوامی تفریح سے محروم۔

مزار خواجہ ربیعؒ:

            ربیع ابن خثیم ابن عائذر المعروف خواجہ ربیعؒ مشہور صحابی رسول حضرت ابن مسعودؓ کے معاصر تھے۔ خواجہ ربیعؒ اصل میں سید نا علیؓ کے اصحاب میں سے ایک ہیں۔ان کا تعلق بنی تمیم کے قبیلہ ثور اور اہل کوفہ سے تھا۔ ہجرت سے قبل پیدا ہوئے اور 80سال کی عمر میں 42ہجری میں فوت ہو کر اپنے نام کے باغ میں مدفون ہوئے۔بقول امام رضاؒ ‘‘ ہمارے خراسان آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر یہ کہ زیارت ربیع ابن خثیم ؒ حاصل ہوئی۔’’

             1021ھ میں شاہ عباس صفوی نے موجودہ شکل میں پر شکوہ گنبد کے ساتھ مزار تعمیر کیا۔ مرقد کے گرد آٹھ پہلو صندوق ہے۔ چاروں طرف چاندی کی جالیاں۔ اندر ایرانی کرنسی نوٹوں کی بھر مار۔ دیواروں اور گنبد کے اندر کا شیکاری، معرق ، مزین اور اعلیٰ خطاطی نقش ہے۔چھت پر حضرت علیؓ کا یہ قول لکھا ہے :تعلیم القرآن فانہ ربیع القلوب۔‘‘ قرآن کی تعلیم دلوں کی بہار ہے ۔’’

            جابر بن عبداللہؓ کی وہ حدیث بھی لکھی ہوئی ہے جس میں رسول اکرمﷺ کے حوالے سے 12اماموں کے مشاہدے کا ذکر ہے۔ مزار تک جانے کے لیے مردوں اور عورتوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ مزار کے ساتھ جنگلا انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ زنانہ حصے میں عورتیں مردانہ حصے میں مرد نماز ادا کر رہے تھے ۔ کچھ اذکار میں مصروف تھے۔

قبرستان خواجہ ربیعؒ:

            مزار کے ساتھ وسیع رقبے پر قبرستان ہے۔ بر آمدے، کمرے، صحن ، دالان سب میں قبریں ہی قبریں ہیں۔ انہی کے اوپر اِدھر اُدھر راستے جاتے ہیں اور قبروں پر چلنے پھرنے، بیٹھنے کھڑے ہونے کو کوئی معیوب نہیں سمجھتا۔ دراصل اہم بات اس قبرستان میں جو ایک نامی بزرگ سے منسوب ہے، دفن ہونے کی سعادت ہے۔ جہاں بھی جگہ مل جائے۔ معمول کے سنگی کتبے تھے۔ حسب روایت ایک لمبائی میں 3کتبے اور یوں ایک قبر کے اندر تہہ بہ تہہ 3میتیں دفن ہیں۔اکثر الواح بیٹوں کی جانب سے ہیں جن پر فارسی کی رباعیات اور چند ایک پر فارسی کے اشعار کندہ ہیں۔ ایک بغلی کمرے میں دیوار پر الواح سنگ جڑے ہوئے ہیں۔ اوپر حجۃ الاسلام والمسلمین حاج شیخ مرتضیٰ کافی، حاج مرزا محمد کافی ( والد) او ر حاج شیخ احمد کافی واعظ خراسانی کی تصاویر ہیں۔

کتاب خانہ میں بڑے پلے کارڈ پر لکھا ہے:

بین کفر و اسلام ترک نماز است(حدیث)

حفظ این جمہوری اسلامی ازا عظم فرائض است( امام خمینی)

قبریں:

            ماں، بہن، بیٹا، باپ کی جانب سے بعض لوحوں پر مدفون اصحاب کی شکلیں کھدی ہوئی ہیں۔ بعض ناموں کے ساتھ حاج کا سابقہ درج ہے جوپاکستانی حاجی یا الحاج کا مترادف ہے۔ مگر کسی نام کے ساتھ حافظ، قاری ، ذاکر یا مولوی نہیں لکھا دیکھا۔ ایک لوح مزار پر یہ تحریرہے:

آرام گاہ

مادری مہربان وہمسری دلسوز

 مرحومہ شاہزادہ بندہ زادۂ

فرزند ملا محمد حسین تولد وفات

رباعی ب4ر37ش1وسط

سری11،2ردیف5شمارہ 25زیر

            بعض الواح پر کتاب ، انگریزی ہیٹ، صراحی ، گلاب، پھول، چڑیا، کبوتر کی شکلیں کھدی ہوئی ہیں۔ ممکن ہے مد فون کو ان چیزوں سے رغبت ہو یا محض نشانی کے لیے یہ علامت چن لی گئی ہو۔ چاروں طرف بر آمدے ہیں اور برآمدوں میں کمرے۔ سب کے فرشوں پر سنگی الواح اور کھدے ہوئے کتبے ہیں۔اس قبرستان کی کئی منزلیں ہیں۔ سب سے نچلی منزل پر تدفین ہو رہی تھی۔ ایک قبر پر سوز خوانی ہو رہی تھی۔ عام کپڑوں میں ملبوس ادھیڑ عمر کا ایک شخص کچھ پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد شرکاء جو نیم دائرے میں کھڑے تھے، سینہ کوبی اور ماتم کرنے لگے۔ میت کو قبر میں اتارنے کے لیے کشتی نما پلاسٹک کے Container تھے۔ جس میں لٹا کر میت کو زمین میں منتقل کیا جاتاہے۔ ہمارے ہاں میت کو اتارنے کا یہ کام چادر یا کھیس سے لیا جاتا ہے۔ ایک دوسرا گروپ صدر دروازے سے داخل ہوا تو شرکاء کے آگے ایک فرد کے پاس پھولوں کا وہ گول گلدستہ تھا جوقبر پر رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ بھی پہلے بیان، پھر سوز خوانی اور آخر میں ماتم میں مصروف ہو گئے۔ بعد میں مختلف اطراف کو منہ کر کے دعائیں پڑھی گئیں، غالباً نجف اشرف اور کربلائے معلی کی سمتوں میں۔ایک گزر گاہ پرقبر کے ارد گرد اعزہ سر نہیوڑائے کھڑے تھے۔ ان کے سامنے ایک کمزور سا سیاہ عبایہ پوش مولوی سوز اور سلام پڑھ رہا تھا۔ الفاظ سے معلوم ہوتا تھا کہ سوز خواں پیشہ ور ہے اور شرکاخصوصاً ماں اور بہنوں کے حوالے سے بین کررہا ہے تا کہ بیان زیادہ جذباتی اور موثر بن سکے۔ پاکستان میں تدفین کے موقع پر بعض پروفیشنل امام مسجد یا نیم خواندہ مولوی بھی اب کچھ ایسا ہی کردار ادا کرنے لگے ہیں۔دفن کرنے کے بعد میت کو آرام نہیں کرنے دیتے۔

راہ آہن:

            خواہش تھی مگر وقت کی کمی کے سبب ہم اصفہان یا مشہد تک ریل کا سفر نہ کر سکے ۔ آج ارادہ تھا کہ اور نہیں توایرانی ریلوے کا سٹیشن ہی دیکھاجائے۔ دراصل کسی قوم کے اجتماعی اور شہری نظم کو دیکھنے کے لیے سٹاپ/ اڈے/ مسجد/ سٹیشن ایک دلچسپ اور اہم جگہ ہے۔ انہیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار نے عوام کی ضروریات اور آسائشیں کے لیے کس قسم کے اقدام کئے ہیں۔اور عوام کیا ان سہولیات سے مطمئن ہیں۔ مشہد ریلوے سٹیشن کا پتا پوچھتے پوچھتے مشکل سے روحان تک پہنچے۔ روحان دراصل روز مرہ کی فارسی کا راہِ آہن ہے اورفارسی میں ریلوے یا ریلوے اسٹیشن کو کہتے ہیں۔

            عمارت باہر سے بند نظر آتی ہے ۔ داخل/ خارج یعنی Arrival / Depature کا انداز، ائیر پورٹ/ فرود گاہ جیسا ہے۔ داخل ہوتے ہی بہت بڑا ہال / سالن، وسیع پیمانے پر آ ہنی مگر آرام دہ کرسیاں، ٹی وی ، چاروں طرف مختلف سروسز کی سہولتیں، دکانیں، دفاتر، بنک، اطلاعات، نقشے۔ اسٹیشن کی عمارت گو پرانی اور خستہ مگر صاف اور حفاظت سے رکھی ہوئی۔ نماز خانے مردانہ، زنانہ۔ مسافروں کی رہنمائی کے لیے لاؤڈ سپیکر پر فارسی میں اعلانات ۔ ہال کے چاروں طرف اشتہاروں کے ساتھ رہنماؤں کے اقوال اور فرمان مثلاً

٭ پوشیدگی زن بہ جانش بہترا است و زیبائی اش راپا ئدار ترمی سازد۔

عورت کا ڈھکا رہنا اس کی زندگی کے لیے بہتر ہے اور اس کی زیبائش کو پائدار بناتا ہے۔ ( حضرت علیؓ )

٭ ولایبد ین زینتہن الا ماظہر منہا۔

وزنان مومن زینت خود را خبر آنچہ نمایاں است( صورت و دستہا تامچ )

برنا محرمان آشکار نکنند( سورہ مبارکہ نور آیت31)

٭ شوریٰ امر بہ معروف و نہی از منکر…… مدیریت رجاء خراساں

زیر زمین راستے:

            شام کا اندھیرا بڑھ رہا تھا اور ساتھ نومبر کی سردی بھی۔ واپسی کے لیے ہم نے ریلوے سٹیشن سے نکل کر مختلف راستے عبور کئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سٹاپ ڈھونڈتے رہے۔ بس تھوڑی ہی دیر کے بعد حرم کے نزدیک جا کھڑی ہوئی مگر یہ کوئی دوسرا دروازہ تھا۔ ہمارے پاس دو کیمرے تھے اورانہیں ساتھ لیے حرم میں سے گزرنا ممکن نہ تھا۔ اگر کیمرے چیک پوائنٹ پر چھوڑ جاتے تو باب الجواد سے کیسے باہر نکل سکتے تھے؟ اس مخمصے میں ہم نے عافیت اس میں جانی کہ حرم کے ساتھ کسی گلی میں ہو لیں اور گردا گرد ہو کر اس جگہ جا نکلیں جہاں سے ہم اپنی قیام گاہ کو پہنچ سکیں۔

            اب ہوا یہ کہ بجائے باب الجواد تک جانے کے، ساتھ والی گلی کسی اورجانب جارہی تھی۔ لوٹ کر صحیح راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر کوئی انگریزی جاننے والا ملا اور نہ ہی کوئی سمت بورڈ جو رہنمائی کرتا۔ اس کوشش میں ہم ایک ایسی زیر زمین سڑک پر جا نکلے جو حرم کے نیچے سے میلوں کا سفر کر کے اس کے کسی دوسرے سرے پر جا نکلتی ہے۔ یہاں گاڑیاں برق رفتاری سے گزر رہی تھیں۔ گاڑیوں کا شور ، نیم تاریکی، مسلسل گڑگڑاہٹ کی آوازیں۔ کسی جگہ پر ایک سڑک الگ ہو جاتی یا کوئی نئی آ کر مل جاتی۔ کوئی اشارہ تھا نہ سگنل ، روشنی ضرور تھی مگر اندھیرے سے سہمی ہوئی ۔ کوئی ذی روح اس طلسماتی ماحول میں موجود نہ تھا۔ بہت عرصے پہلے وکٹر ہیو گو کا ناول Le Miserableپڑھا تھا۔ اس کاایک کردار زیر زمین نالوں اور چو بچوں کے راستوں سے فرار ہوتا ہے جو آبِ بارش کے نکاس کے لیے تعمیر کئے گئے تھے۔ بس اسی جیسا پر ہیبت اور پر اسرار ماحول تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم چلتے رہیں گے اور کبھی روشنی کی منزل نہ پا سکیں گے۔

            ا چانک ایک شخص نظر آیا جو ایک شاپر پکڑے سڑک کے دوسری جانب تیز تیز جا رہا تھا۔ اسے آواز جا سکتی تھی اور نہ اشارہ دکھائی دے سکتا تھا۔ ہمت کر کے تیز ٹریفک کی چار لین بھاگ کر عبور کیں اور اپنی بے بسی کے ساتھ مطلوبہ منزل بتانے کی کوشش کی۔ للہ الحمد وہ تھوڑی سی انگریزی سمجھ لیتا تھا ۔ اس حضرت نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اب بھاگتی چار لین کو پار کرنے کی خانم کی باری تھی۔ ہمت کر کے اور تیز گاڑیوں سے بچتے بچتے وہ بھی آ گئیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس شخص نے اشارے سے بتایا کہ ‘‘ ادھر جائیں اور ایک راستے سے اوپر چلے جائیں۔ ہماری قسمت اگریہ اوپر کھلا مل جائے’’۔ اس انسانی ہدایت و حمایت کو غنیمت جانا اور غیر مستعمل تعمیراتی سامان کے درمیان سے گزرتے ان سیڑھیوں تک پہنچے جو حرم کے باہر ایک طرف جا کھلتی ہیں۔ یہ دراصل دیکھ بھال کرنے والے عملے کے لیے راستہ بنایا گیا ہے۔ کئی منزلیں چڑھنے کے بعد اچانک ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے نے باہر کی فضا کا احساس دیا۔ سب سے بڑھ کر زندگی سے بھر پور روشنیاں نظر آرہی تھیں اور ہماری سلامتی کا راستہ بھی کھلا ہوا تھا۔ پوچھتے پوچھتے مختلف گلیوں اور محلوں سے گزرتے بالآخر خیابان خسروی نو پر آ نکلے۔ یہیں سے بازار سر شو ر شروع ہوتا ہے۔

            مزار کے نیچے سے کئی سڑکیں گزرتی ہیں جو تین مختلف اطراف سے جڑی ہوئی ہیں۔ غالباً ہر ٹنل سے چار چار سڑکیں تعمیرکی گئیں ہیں۔ ہر سڑک میں دو یا تین لین ہیں۔ خیابان صفوی ، خیابان طبرسی اور خیابان شیرازی سے ٹریفک بلاروک ٹوک اور پوری رفتار کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ نہ کہیں ٹریفک جام ہوتا ہے اور نہ کہیں آلودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں حرم کے گرد ونواح میں یا بڑی سڑکوں پر کہیں پارکنگ ایریا یا کارپوریشن کا آہنی چرخہ جو غلط جگہ کھڑی گاڑیوں کو اٹھاتا ہے، دونوں نظر نہیں آئے۔ غالباً پارکنگ کے لیے الگ جگہ ہے زیر زمین کوئی نظام ہے جو نظر نہیں آتا مگر موثر طور پر فعال ہے۔ ہمارے شہروں میں آلودگی اور غلاظت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ٹـریفک کا ہے۔ کسی اہم جگہ یا اہم تقریب کے موقع پر ہماری ٹریفک انتظامیہ کے پاس یا تو بجانے کے لیے سیٹیاں ہوتی ہیں یا دکھانے کے لیے نت نئی آرام دہ سرکاری گاڑیاں اور اب جنرل مشرف اورچودھری برادران کی روشن خیالی کا مظہر چست مغربی لباس میں ملبوس ٹریفک پولیس کی جاذب نظر نو جوان لڑکیاں! مگر پاکستان بھر میں عام آدمی کے لیے ہر جگہ ٹریفک اور پارکنگ کا نظام انتہائی اذیت ناک ہے۔ ایران کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ لگتا ہے جیسے یہاں کا ٹریفک خود کار ہے۔ نہ نظر آنے والے ہاتھ اور نہ سنائی دینے والی سیٹیاں ٹریفک کو بے تکان رواں رکھتے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے من مانی پارکنگ ، ریڑھے ٹھیلے ، آہستہ رو اور غیر مشینی گاڑیاں غرض ٹریفک روکنے یا آہستہ روی کے سارے عوامل غائب ہیں۔

مقبرہ نادر شاہ:

            مزار امام کے قرب میں ایک چوک واقع ہے۔ اس کے ایک طرف خوبصورت سا باغ ہے جس کے درمیان نادر شاہ افشار کا مقبرہ تعمیر کیا گیا ہے۔ عمارت ڈیزائن کے اعتبار سے جدید ہے۔ایک بلند عمارت پر پتھر کے مجسمے تراش کر رکھے گئے ہیں۔ سب سے آگے پگڑی باندھے ، طنا بیں کھینچے اپنے گھوڑے پر نادر شاہ سوار ہے۔ گھوڑے کی اگلی ٹانگیں ہوا میں بلند ہیں۔ نادر شاہ کے ہاتھ میں ہتھوڑا نما آہنی ضرب ہے۔ اس کے پیچھے محافظ فوجی ہیں جو حالت جنگ میں دکھائے گئے ہیں۔ اتنی اعلیٰ مجسمہ سازی، جذبات کا اظہار ، پھر اتنے بھاری پتھروں کو اتنی بلندی پر لے جا کر قرینے سے جوڑنا…… اعلیٰ درجے کی فنکاری ہے۔

             نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور یہاں کے روشن خیال حاکم محمد شاہ کو جو رنگیلا کے نام سے مشہور ہے، شکست دی۔ دہلی میں بد ترین قتل عام اور لوٹ مار کے بعد وہ کوہ نور ہیرا بھی چھین کر لے گیا۔ نادر شاہ نے دہلی کو بے دردی سے لوٹا۔ علماء و فضلاء کو تہ تیغ کیا۔ شہر کے علمی مراکز بر باد کئے۔ اس کے بعد بار بار لٹتی ہوئی دہلی پھر شاداب نہ ہو سکی۔ رہی سہی کسر برطانیہ کے انگریز لٹیروں نے پوری کر دی۔

            نادر شاہ کی قبر کا انداز مختلف ہے۔ زیر زمین تہ خانے میں ایک تختہ ہے جس پر ابھرا ہوا لکھا ہے:

 ھوالحی الذی لا یموت

آرام گاہ شہر یا ر توانائی ایران

 نادر شاہ افشار

             اس کے ساتھ عجائب گھر ہے جس میں مختلف آلاتِ جنگ ، کلات نادری اور افشاری عہد کے نوادرکھے گئے ہیں۔ ایک جگہ مولانا روم کا یہ شعر لکھا ہے :

آنکہ یک دیدن کند ادراک آں
سالہا نتواں نمودن بابیاں

            سکولوں کی طالبات اپنی ٹیچروں کے ساتھ غول در غول موجود تھیں۔ ٹیچرمزار پر جا کر نادر شاہ کی تاریخ بتا رہی تھی۔ مزارات پر کسی کو فاتحہ پڑھتے نہیں دیکھا۔شاید زائرین اہل بیت النبی کے مزاروں پر بھی مغفرت اور بلندی در جات کا تحفہ دینے کی بجائے اپنی ضروریات اور حاجات حاصل کرنے اور کچھ مانگنے کے لیے جاتے ہیں!

نمائش گاہ دریائے معرفت با موضوع تفاسیر شیعہ:

            آستان قدس کی مین لائبریری میں داخل ہونے سے پہلے بائیں جانب ایک بڑے ہال میں نمائش کتب جاری تھی۔ اس نمائش میں قرآن حکیم پر شیعہ علماء کی تفاسیر پیش کی گئی تھیں۔ وقفہ ہونے والا تھا ۔ اس لیے دلجمعی سے دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ مکارم شیرازی کی تفسیر نمونہ مطبوعہ لاہور واحد اُردو تفسیر تھی جو انتخاب میں شامل تھی۔ زیادہ تر تفاسیر فارسی میں کچھ عربی میں، انگریزی ، اطالوی اور سندھی میں بھی نسخے تھے۔

            فقہ القرآن…… ھذا کتابنا ینطق بالحق از بک بانوی ایرانی، تفسیر شہید الصدر، تفسیر ابوالفتوح رازی۔

             دروازے کے پاس ان 15علماء کی تصاویر اور مختصر سا تعارف لکھا ہوا تھا جو مفسر قرآن ہیں۔ ان میں خمینی اور خامنہ ای اور علامہ طبا طبائی (1360-1281ھ) بھی شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے شیعہ علماء نے درجن سے زائد اُردو، فارسی میں تفاسیر لکھی ہیں۔ ان سب کے نمونے موجود تھے۔ قرآن کے تفسیری مواد کی نمائش میں دنیا کے ہر طبقے اور ہر جماعت کے علماء کی علمی کاوشیں بلا تخصیص موجود ہونی چاہئیں، آخر الکتاب تو سب فرقوں اور جماعتوں میں یکساں ہے۔ قرآن حکیم صرف شیعوں کی کتاب نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ام الکتاب ہے۔ یہاں ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ شیعہ ایران میں غالباً پہلی بار اتنی اعلیٰ سطح پر اور اتنی ذمہ داری سے قرآن حکیم کی تعلیم اور اس کی تفسیر پر توجہ دی گئی ہے ۔ اس ملک میں جہاں علم اور ادب کا عام چرچا ہے ، جہاں ہر لوح مزار پر رباعی لکھی ہوئی ہے ۔ اور سیکڑوں شعراء اور اساتذہ فن ہیں، تفسیر اور حدیث میں کم کام نظر آتا ہے۔حالانکہ رہبرانقلاب ، امام خمینی ؒنے یہ لکھا ہے:

 ھیچ مکتبی بالا تر از قرآن نیست

 قرآن حکیم سے بالا و بر تر کوئی اور پیغام نہیں ہے۔

عجائب گھر آستان قدس:

            حرم کے اندر ایک جانب چار منزلہ عمارت ہے۔ یہ ایران کے چند بڑے عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ اس میں بہت نفیس ، نادر اور گراں قدر اشیا کا ذخیرہ ہے جو باد شاہوں ، امیروں ، سرداروں اور عقیدت مندوں نے امام رضاؒ کے خدمت میں بطور ہدیہ نذر گزاری ہیں۔

             ایرانی تہذیب کا یہ پہلو بہت دلچسپ ہے۔ یعنی جب آپ ایسی محترم جگہ جائیں تو نماز پڑھیں ،زیارت کریں دعا مانگیں، پڑھنا چاہیں تو لائبریری اور دارالمطالعہ سے استفادہ کریں۔ تاریخ و تہذیب کا سفر کرنا چاہیں تو چند گھنٹے میوزیم میں گزاریں۔ کھانا پینا چاہیں تو آستان کے کسی صحن بر آمدے یا کونے میں بیٹھ جائیں…… یہ تمام سہولتیں اور آسائشیں ایران کے مقدس مقامات پر میسر ہیں۔ منتظمین اور علماء اس پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان سہولتوں میں اضافہ کرتے اور ان کی نگہداشت کرتے ہیں۔

            عجائب گھر کے اندر ایک جگہ آستان سے متعلق فلم چھوٹی سکرین پر مسلسل چل رہی تھی۔مختلف ادوار میں مرقد کے گرد دھاتی صندوق نما پنجرے بدلتے رہے ہیں۔ پرانے صندوق نما پنجرے محفوظ کر لیے گئے۔ زائرین بڑی تعداد میں ان پر کرنسی نوٹ پھینکتے ہیں۔ میوزم دیکھنے سے معلوم ہوا کہ آستان میں یہ اشیا محفوظ ہیں :

            پانی کے لیے پتھر کی تراشی ہوئی بہت بڑی دیگ، منقش پیالے، آفتابے، کوزے چلمچی( دستر خوان پر ہاتھ دھونے والا برتن) ظروف سعالی لعابدار جو حرم کے ارد گرد سے حاصل ہوئے۔ مختلف عربی دعائیں…… آہن اور رنگ کے ساتھ۔ دست نقرہ زائرین سے نذرانے وصول کرنے کے لیے، گلکیر شمع ( Steel Candle Scissor)،مرقد کا پنجرہ فولاد تیسرا اور چوتھا،کاشی مصور، کاشی زریں، کاشی ستارہ، کاشی ستارہ ہائے زریں، کاشی ہشت ضلعی، کاشی بالعاب، کاشی برجستہ، کاشی شش بر مصور (Steel Standard ) (جلوس ماتم کے آگے لے جانے والاعصا ، آ ہنی اور جانوروں و پرندوں کی شکلوں اور پروں سے بنا ہوا )۔ آیۃ الکرسی سونے کے پتروں سے لکھی ہوئی ۔ شمع دان متفرقہ ، حرم کی چابیاں، تالے،چابی دان، محراب کاشیکاری، منقش بر جستہ زریں، مختلف ممالک اور ایران کے سکے۔

             ایران کے درج ذیل ڈاک ٹکٹ جومختلف مقدس مواقع پر گاہ بگاہ جاری ہوئے مثلاً:

            ہفتہ وحدت، میلاد رسول اکرمؐ۔ بعثت رسول اکرمؐ۔ ولادت پیامبر گرامی اسلامؐ۔ عیدقربان ۔ عید سعید فطر۔ آغاز پا نزد ہمیں قرن ہجرت۔ ہزارہ نہج البلاغہ۔ ولادت حضرت فاطمہؓ۔ وفات سید رضیؓ ۔ بزرگداشت سال امیر المومنین علیؓ ابن ابی طالب۔ سالروز تولد امام علی بن موسیٰ رضاؓ ۔ ولادت حضرت زینبؓ۔ حج۔ ولادت حضرت مہدیؓ ۔ ڈاکٹر محمد مصدق۔ فردوسی۔ تسخیر سفارت امریکہ۔ سعد ی۔ بیا د شہدا۔ علماء۔ قومی ہیرو۔ ملا صدر۔ امام خمینیؒوغیرہ۔

             ایران کے اور دیگر ممالک کے پرانے کرنسی نوٹ بھی دیکھنے کو ملے۔ پاکستان کا ایک پراناسو روپے کا سرخ نوٹ جو اب متروک ہو چکا ہے، موجود ہے۔ پاکستان کے صرف دوٹکٹ تھے۔ ایک علامہ اقبالؒ اور مولانا رومؒ کا اور دوسرا محمد علی جناؒ ح کے بارے میں۔ ہمارا سفارت خانہ شاید ایسے مقامات کو سفارتی اہمیت دینے کا قائل نہیں۔ ورنہ وہ تھوڑی سی محنت سے پاکستان کی نئی پرانی کرنسی ،سکے اور ڈاک ٹکٹ وغیرہ بڑی آسانی سے مہیا کر سکتا ہے ۔ اس سے پاکستان کی شناخت اور ایران کے ساتھ تعلق کو اجاگر کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ ایک جگہ آستان قدس کا بڑا خوبصورت واضح اور روشن ماڈل بنایا گیا ہے جس سے اس جگہ کی تمام تفصیلات سمجھ میں آجاتی ہیں۔ طبقہ اول میں حضرت علی ؓ کی پینٹنگ یعنی ہاتھ سے بنائی ہوئی شبیہ ہے اور ایک تصویر میں علی اصغر کے حلق میں تیر ترازو ہے۔

            ایران میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ کسی قوم کی ساخت پر داخت اور اس کی معاشرت اور مزاج میں باغات ، عجائب گھروں اور کتب خانوں کا گہرا عمل دخل ہے۔دراصل ان اداروں کے ساتھ ہر قوم کا حال، ماضی اور مستقبل ہوتا ہے۔ انہی مقامات میں اس کی خوش مزاجی ، خوش ذوقی، خوش فکری ، فخر، وقار اور علم دفن کی آبیاری محفوظ ہوتی ہے۔ پاکستان تمام تر وسائل کے باوجود ان تینوں اداروں کے سلسلے میں غریب اور مسکین واقع ہوا ہے۔بات یہ ہے چونکہ ہماری ہر شے پر نوکر شاہی مسلط ہے۔ اس لیے ہم نے زر کثیر کے ذریعے انگریزوں کے بوچڑ خانے یعنی ٹولنٹن مارکیٹ کو زندہ کرنے اور مال روڈکو پہلے جیسا بنانے پر توجہ صرف کر دی۔ یہی حال ہماری افواج کا ہے جہاں انگریزی اقتدار کی ہر روایت اور ہر شناخت کو باقی رکھا گیا ہے۔دونوں حکمران طبقوں میں مقامی’ مغل اور مسلم عنصر نمایاں نہیں ۔

رہن سہن:

            قُم اور مشہد دونوں شہروں کے مکین مزاجاً نرم طبع اورزائرین کے عادی ہیں۔ مشہد کے لوگ نمود و نمائش، کھانے پینے اور ملبوسات کے دلدادہ نظرنہیں آتے۔ ان کا رہن سہن سادہ، غیر آرائشی اور بے تکلف سا ہے ۔ عشرۃ ولادت کے حوالے سے شہر میں بینر یا پوسٹر کے علاوہ کوئی اضافی نمائشی عنصر موجود نہیں تھا۔ مزار پر دن کوتھوڑی سی جھنڈیاں تو تھیں مگر رات کو مختلف رنگوں کے بلب جھلملاتے یا بھڑکتے نظر نہ آتے۔ شہر صاف ستھراتھا اور غلاظت ، عفونت، کچرے ، شاپروں سے پاک۔ عملہ صفائی قُم کی طرح مستعد، دستانے، ماسک، حفاظتی ہیلمٹ اور فل بوٹ پہنے ہوئے۔مشہد میں ایک ریسٹوران میں پیپسی کولا اور کو کا کولا نظرآئے۔ کراچی اور لاہور میں اکثرباتوں میں نمایاں فرق نظرآتا ہے ۔ لاہور ، پشاور دونوں میں بہت ساری چیزیں مختلف ہیں۔لیکن قُم ، اصفہان اور مشہد میں ایسا نہیں۔ ایرانی شہروں کی تہذیب اور معاشرت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ایک مخابرات ( پی سی او) پر فون کرنے گئے۔ رات گئے کا وقت تھا۔ ایک تنہا لڑکی دوسری منزل پر بیٹھی تھی۔ رقم بھی لے رہی تھی اور لمبے فاصلے کی کالیں بھی دے رہی تھی۔ مگر اس کی شخصیت میں خود اعتمادی، گاہکوں کے ساتھ نرم گفتگو اور مہذب برتاؤ نمایاں تھے۔ یہ سار انظام کمپیوٹررائزڈ ہے۔ ایک ایک سیکنڈ کا صحیح حساب لکھا ہوا مل جاتا ہے۔

             حضرت علیؓ وحسینؓ کی تصاویر والے کیلنڈر اور دیوار کے آرائشی قطعے عام ملتے ہیں۔مگر ان تصاویر کا عوام پر کوئی اثر نہیں اور نہ انہیں معمول کا تقدس حاصل ہے۔

زعفران:

            دنیا کا 70فیصد زعفران ایران اور ایران کا 90فیصد خراسان میں پیدا ہوتا ہے۔ زعفران اور پستہ خراسان کے خاص تحفے ہیں۔ زعفران مختلف وزنوں میں پلاسٹک کے سر بند لفافوں میں ملتا ہے۔ قیمت ہر دکان پر یکساں نظر آئی۔ ایران میں شلجم کوکثیر فوائدکی حامل سبزی سمجھا جاتاہے۔ امام رضاؒ جو طب میں بھی ماہر تھے۔ خلیفہ مامون الرشید کے دربار سے منسلک تھے۔ شلجم کے طبی فائدے ان سے منسوب ہیں۔ نزلے زکام میں شلغم کی بھاپ (بخار) مفید ہے۔ باقی کاشلغم نمک ،اور کالی مرچ کے ساتھ کھا لیا جائے تو زود ہضم ہے۔ ( جاری ہے )