قسط -۵
مشہد
مشہد، ایران کے شمال مشرقی صوبہ خراسان کا صدر مقام ہے۔ یہ تہران سے 924کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اس کی آبادی40لاکھ ہے۔ سڑک، ریل اور ہوائی تینوں راستوں سے جڑاہوا ہے۔ یہاں شیعہ مذہب کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ رضاؒ کا مرقد ہے جسے حرم مطہر، آستان قدس بھی کہاجاتا ہے۔ شہر میں دیگر آثار و عمارات یہ ہیں۔
٭ مقبرہ خواجہ ربیع
٭ آرام گاہ حکیم ابو القاسم فردوسی موضع طوس میں
٭ مسجد گوہر شاد
٭ مزار خلیفہ ہارون الرشید عباسی
٭ گنبد سبز
٭ آرام گاہ نادر شاہ افشار
٭ مسجد و حمام شاہ
٭ بازار امام رضا
٭ خانقاہ امام غزالی
مشہد میں درج ذیل میوزیم ( موزہا ) موجود ہیں:۔
حرم علی ابن موسیٰ رضاؒ
شیعہ مذہب کے آٹھویں امام حضرت علی ابن موسیؒ کا مرقد مشہد کی وجہ شہرت بھی ہے اور انہی کی وجہ سے باعث تکریم بھی۔ انہیں علی رضاؒ بھی کہتے ہیں۔ اہل ایران ان کے نام کے ہجےRazvi یا Razaviکرتے ہیں۔ ہمارے ہاں حضرت مولانا احمد رضا بریلویؒ کے معتقدین کے طرحRizvi نہیں لگاتے۔ ایک روایت ہے کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید نے آپ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ امام صاحب دوران سفر 818ع /203ھ میں فوت ہو گئے اور مامون کے والد خلیفہ ہارون الرشید کے مزار کے ساتھ دفن ہوئے۔ ایک شیعی روایت کے مطابق مامون الرشید نے امام کوزہر دے کر ہلاک کر دیا تھا ۔ اس طرح وہ شہید اور ان کا مدفن مشہد قرار پائے۔
امام ثامن کا مرقد مذہبی اور روحانی مرکز تو ہے ہی ، علمی ، ادبی، تہذیبی، معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور دینی اعتبار سے ایران کا بالعموم اور صوبہ خراسان کا بالخصوص محوربھی ہے۔
آداب زیارت
اثنا عشری شیعوں کے نزدیک کربلا اور نجف کے بعد یہ مزار مقدس ترین مقام ہے۔ مقامی لٹریچر میں زیارت کے جو آداب بیان کئے گئے ہیں ،وہ قابل ذکر ہیں:
آستانِ قدس رضوی
ایران کے مذہبی اور روحانی آثار میں یہ سب سے بڑا اور عالی شان کمپلیکس ہے۔ اس کا رقبہ اب 10715مربع میٹر ہے۔ اس کے اندر درج ذیل آثار، مقابر اور ادارے موجود ہیں:
بر آمدے، کمرے، پارکنگ، رہنمائی ،معاونت اور خدمت کے لیے مختلف سروسیں ہیں۔ جو 24گھنٹے اور ہفتے کے 7دن مسلسل اور پابندی کے ساتھ مصروف ہیں۔
دفاتر اور کمروں میں امور زائرین ایرانی وغیر ایرانی، تبلیغات وارتباطاتِ اسلامی ، امور فرہنگی اوقاتِ فراغتِ زائرین بابت سوالات دینی ، تعلیم علوم قرآن و حدیث ، امور روابط عمومی، امور خدمت آستان، امور خدام امور فراشاں وحفاظ، امور در بازاں، امور کفشد اری(جوتوں کی نگہداشت) ، امور انتظامی و آگاہی ، امور امانات ونگہداری اشیائے گمشدہ، ادارہ امداد زائرین داخلی۔ دفتر نگہداری افراد گم شدہ۔ ادارہ مہمان سرائے ، دارالشفا۔ شفا یا فتگان۔ استفسار مسائل شرعیہ( دن رات سروس) ادارہ نذر و نیاز وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
آستان سے متعلق مختلف قسم کی خدمات اور زائرین کی ضروریات کے انتظام ،اہتمام کی ہمہ گیری اور وسعت کا اندازہ در ج بالا شعبوں کے ناموں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب زائرین کی تعداد لاکھوں میں ہواور یہ سیلاب روزانہ آتا ہواور ان میں ایرانی اور غیر ایرانی مردو زن اور ہر عمر اور پیشے کے لوگ ہوں ،تو ان کو کیسی ضرورتیں اور کتنی مشکلیں پیش آتی ہیں۔ یہ تفصیل ان کا احاطہ کرتی ہے۔ پاکستان میں تو اس کام کے لیے متعدد سی ایس پی افسر گریڈ20۔21کے سیکرٹری بن جاتے ہیں اور ان کو بے پایاں آرام و آسائش مل جاتاہے۔ مگر زائرین بد ستور مشکلات، عدم توجہی اور بے سرو سامانی کا شکار رہتے ہیں۔
اس بڑے انتظامی سیٹ اپ سے پاکستان کے مشہور مزاروں اور مقابر کا اندازہ لگائیے جو اکثر صوبائی محکمہ اوقاف نے ہتھیا رکھے ہیں۔ان کے کرتا دھرتا بیورو کریسی کے سی ایس پی یا پی سی ایس افسر ہوتے ہیں۔ بعض مزار مرکزی محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہیں۔ کیا وہاں سرکاری عملے نے اتنی وسعت نظر اور قابلیت سے زائرین کی ضرورتوں اور ان کی خدمت کو سامنے رکھا ہے؟ کیا آمدن کو صاحب مزار کی تعلیمات کے مطابق تبلیغ و ارشاد اور اصلاح و فلاح پر صرف کیا جاتا ہے ؟ پاکستانی حکومت اور اس کا عملہ شاید جان گئے ہیں کہ صاحب مزار نے تو ان کے کرتوتوں سے تنگ آ کر منہ دوسری طرف کر لیا ۔ اب یہ لوگ بے چنت ہیں کہ ان کی بد دیانتی، بد معاملگی اور زائرین کی حق تلفی کا معاملہ آخرت پر چلا گیا۔ صاحب مزار بزرگ تو اس وقت کچھ دخل دینے سے رہے۔ آگے دیکھا جائے گا اور آگے کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اس بے حسی ، بے خوفی اور بے اعتنائی نے جہاں پاکستان کے مقابر اور مزاروں کو ان کے تقدس سے محروم کر دیا ، وہاں زائرین کو بھی گندے ماحول، ناقص انتظامات اور لوٹ مار کی نذر کر ڈالا۔یہی وجہ ہے کہ اب تبلیغ ، تعلیمات اور خدمات پاکستان کے کسی مزار پر نظر نہیں آتیں۔ البتہ صاحب مزار کے طفیل بہت سارے نااہلوں کی نوکری اور پیٹ پوجا کا مفت سامان فراہم ہو گیا ہے۔
آستان قدس کا دائرہ خدمت:
آستان قدس مشہد کی انتظامیہ 4محکموں کے ذریعے تمام کاموں کو مرتب کرتی ہے:
(۱) کلچرل ہائی کونسل …… 16ثقافتی اداروں کے ساتھ جو تحقیق، تعلیم اور اشاعت کے لیے ذمہ دار ہے ۔ 10ہزار طلباء یونیورسٹی اور اس کے ماتحت اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ 2000سے زائد موضوعات پر تحقیق ہو چکی ہے۔
(ب) معاشی تنظیم …… اس میں زرعی گروپ 15زرعی اداروں کو ، صنعت و کان کنی گروپ 21صنعتی کمپنیوں کو ، آزاد معاشی زون 5یونٹوں اور تعمیراتی و سروس گروپ 13کمرشل، انجینئرنگ اور ٹیکنکل سروسز کو سنبھالتا ہے۔
انقلاب اسلامی کے بعد دربار میں بہت وسعت آئی اور متعدد تعمیراتی کام مکمل ہوئے۔پہلے اگر گنے چنے ادارے اور عمارات تھیں، تو اب ان کی تعداد 41سے متجاوز ہے۔ اب یہ رقبہ5گنازیادہ ہو گیا ہے۔ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن، جامعہ رضوی علوم اسلامیہ ، امام رضا یونیورسٹی،5عجائب گھر،رضوی کلچرل فاؤنڈیشن، مرکزی لائبریری اور ملحقہ 36عجائب گھر، شعبہ خراسانیات ،تربیتی مرکز بدور ان ڈیوٹی ، نشر و اشاعت اور تنظیم فزیکل ایجوکیشن جیسے مفید ادارے مصروف عمل ہیں۔
لڑکے اور لڑکیوں کے درجنوں سکول ، سکول آف ٹریڈیشنل آرٹس ، قرآنی علوم کا تربیتی ادارہ، رضوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے علوم اسلامی، زلزلہ زدہ صوبہ خراسان اور دیگر علاقوں میں سکولوں کا قیام سوا ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد متعدد شفا خانے، ڈسپنسریاں، خصوصی کلینک بھی قائم کئے گئے اور رفاہی تنظیموں کی مالی مدد کی جا رہی ہے ۔ قبل از انقلاب دربار کی آمدن کو عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کرنے کا یہ تصور نہ تھا ۔ اب درجنوں زرعی اور صنعتی یونٹ قائم کئے گئے ہیں۔ کئی میں اضافہ کیا گیا اور بعض میں شراکت کی گئی ہے جن کا بالآخر فائدہ علاقے کے عوام کو پہنچے گا۔
کتاب خانے:
زیارت اور فاتحہ کے بعد مرکزی لائبریری دیکھنے کا موقع ملا۔ سچ تو یہ ہے کہ کمپلکس کو سر سری طور پر دیکھنے کے لیے بھی ایک دن سے زائد کا وقت درکار تھا۔ مگر ہم مسافر اتنی عیاشی کے متحمل نہ تھے۔ صدر دروازے کے اندر استقبالیہ بہت فراخ اور مختلف ماڈلوں اور ڈسپلے سے سجایا گیا ہے۔ یہاں آنے جانے والوں اور نئی مطبوعات و رسائل دیکھنے والوں کی خوب چہل پہل تھی۔ یہ عمارت ادارے کا کتاب خانہ مرکزی و مرکز اسناد آستان قدس رضوی ہے۔ اسناد سے مراد ہماری تعلیمی سندیں نہیں ، مختلف قسم کی دستاویزات ہیں۔ نچلی منزل پر، زیر زمین بہت بڑے Reading Hallsاور کتابوں کے ذخیرے ہیں۔ حصہ مردانہ کا ہال دو تین ہزارمردوں پر مشتمل ہو گااور پوری طرح بھرا ہوا۔ ہال میں مکمل سکوت تھا۔ سب نوجوان مصروف مطالعہ تھے دن کا ڈیڑھ بجا تھا مستورات کے ہال کا راستہ الگ تھا۔ وہ بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ اسی طرح اخبارات و جرائد کے دو الگ الگ ہال تھے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے فوٹو کاپی کی سہولت میسر تھی۔ اس حصے میں اُردو انگریزی کے رسالے اخبار نظر نہیں آئے۔ یہ منزل خوب روشن اور ہوا دار تھی۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ زیرزمین پھررہے ہیں۔
یہاں دیوار پر نمایاں حروف میں مطالعے کرنے کی دعا تحریر تھی تا کہ اللہ مطالعہ کرنے والے کی اس محنت میں برکت دے۔
یہاں پر ایک ٹک شاپ تھی جسے چائے خانہ کہا جاتا ہے ۔ چائے تو دکھائی نہیں دی ۔ سیلف سروس کے تحت طلبا کھڑکی سے اپنا سامان ٹرے میں خود لا رہے تھے۔ یہاں بھی خواتین الگ ، مرد الگ ، خواتین حسب معمول سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی ۔ صرف چہرہ اور ہاتھ کھلے ہوئے ۔ ہر ایک اپنے کام میں مگن۔ کوئی گروپ خوش گپیوں میں یا محض ایک جگہ بیٹھ کر بے مصرف نظر نہیں آیا۔ حیران کن کہ بظاہر کوئی نگران دکھائی نہیں دیتا۔ اس لائبریری کی ممبر شپ سب کے لیے عام ہے ۔ قائد اعظم لائبریری باغ جناح کی طرح گریڈ20کے اعلیٰ افسر کی سفارش نہیں لانی پڑتی اور نہ جامہ تلاشی کی بد مزگی سے گزرنا پڑتا ہے ۔
ایک جگہ یہ قطعہ تحریر ہے:
تحصیل ادب از تحصیل زر بہتر است( سید نا علی المرتضیٰؓ)
ریسرچ سکالروں کے لیے ایک پورا حصہ بالکل الگ مختص ہے ۔ پرُ آسائش، خاموش ، فراخ اور سہولتوں سے آراستہ مرکزی لائبریری کیا ہے ، پورا ایک محلہ ہے۔ درجنوں کے حساب سے بڑے بڑے ہال ۔ ان کے اندر کتابوں کے سینکڑوں شیلف۔ ہر شیلف میں 7خانے ۔ موضوعات کے لحاظ سے کتابیں۔ نہ شور نہ گرد تاریکی ہے نہ سیلن، ٹھنڈک ہے اور نہ حبس، نہ بے ترتیبی اور نہ کچرا۔
یہ ساری خرابیاں لاہور کی تمام لائبریریوں میں کسی نہ کسی درجے میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل لائبریریز کی اسامی پر سی ایس پی فائز ہوتا ہے۔ کئی دوسری بڑی لائبریریاں بھی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے ماتحت ہیں۔
ضرورت مند آ جا رہے تھے اور کتابیں دروازے کے پاس ڈیسک سے ایشو کروا رہے تھے۔
پھرتے پھرتے ایک کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا تو اندر چلا گیا۔ اتفاق سے وہ لائبریری کے نہایت ذمہ دار آفیسر اور انگریزی جانتے تھے ۔Deputy of the Coordination and Chief of Central Library تھے۔ انہوں نے چائے کی پیش کش کی اور بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں یہ کتب خانہ سب سے بڑا ہے 10لاکھ کتابیں یہاں موجود ہیں۔ 25لاکھ کتابیں ان تمام کتاب خانوں میں ہیں جن کی تعداد 38 ہے اور جو سارے ایران میں جگہ جگہ کام کر رہی ہیں۔ صوبہ جات اور بلدیات کے اپنے کتاب خانوں کے علاوہ ایک کتب خانہ بھارت میں بھی قائم کیا گیا۔اس کتاب خانے میں 78ہزار مسودات35ہزار مخطوطات ہیں۔ 3منزلہ مرکزی کتاب خانہ 29ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ اسلامی طرز تعمیر کا نمونہ ہے ۔ صبح7بجے سے رات9بجے تک دو شفٹوں میں لائبریری کھلتی ہے۔ روزانہ قریباً 6ہزار افراد اس لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق کتب خانے کا آغاز چوتھی ہجری / دسویں صدی عیسوی میں ہوا جب قرآن پرلکھے ہوئے رسائل وقف کئے گئے ۔ اس کے بعد دیگر کتابوں اور مخطوطات کے عطیات کا اضافہ ہوتا رہا۔
اس وقت کتب خانے کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد 1,25,000سے زیادہ ہے جن میں 57فیصد خواتین اور 43فیصد مرد ہیں۔ ملک بھر میں روزانہ 15ہزار لوگ اس کتابی کمپلیکس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کی سی ڈی ، ویب سائٹ، حوالہ جاتی اور Bibliographicalمواد، سہ ماہی ‘‘لائبریری اور اطلاعات سائنسز’’ کی اشاعت ، ڈیجٹیل لائبریری اور الیکٹرونک ریفرنس ڈیسک میسر ہے ۔ On Lineکتابوں کی تاریخ اجراء میں توسیع اور ان کی پیشگی ریزو ریشن پر کام جاری ہے ۔
مرقد:
نقشے اور تعمیر کے داخلی اور خارجی انداز میں مشہد اور قُم کے دونوں مقابر ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ پہلا زیادہ بڑا ،وسیع اورعالی شان ہے۔ اسے اچھی طرح دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کئی دن درکار ہیں۔ حرم امام ، مشہد کے مشرق میں واقع ہے ۔ پارکنگ کا سارا نظام زیر زمین ہے کیونکہ سڑکوں پر اور حرم کے چاروں طرف کسی جگہ گاڑیاں کھڑی نظر نہ آئیں اور نہ کہیں کوئی ٹریفک جام یا ٹریفک پولیس کی سیٹیاں سنائی یا اشارے دکھائی دیئے۔ ہماری قیام گاہ سے مرقد پر جانے کے لیے قریب ترین دروازہ باب الجواد تھا۔ مختلف سمتوں سے داخلے کے لیے غالباً 12راستے اور دروازے ہیں جن میں بڑے دروازوں کے نام شیعی بزرگوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ کیمرہ ساتھ لے جانا کلی طور پر ممنوع ہے چنانچہ ہر بار انہیں جمع کروانا پڑتا۔ پھر مردانہ اور زنانہ راستوں سے جامہ تلاشی کے بعد اندر جانے کی اجازت ملتی۔ اشیائے خورو نوش ساتھ لے جانے پر پابندی نہیں۔ دروازے کے باہر بورڈ پر ہر روز کے پرو گرام لکھے جاتے ہیں۔ باب الجواد سے گزر کر مرقد کا سب سے وسیع صحن جامع رضوی آتا ہے ۔ بظاہر یہ مسجد کا حصہ ہے جہاں ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں با جماعت ادا کی جاتی ہیں۔ تا ہم زائرین صحن مسجد سے گزرتے وقت جوتے نہیں اتارتے۔ جوتے صرف اس وقت اتارے جاتے ہیں جب زائر مرقد کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے ۔جماعت کے وقت صحن انقلاب اسلامی اور صحن گو ہر شاد مسجد میں بھی نماز کی صفیں نظر آئیں۔ حنفیوں کی طرح ایک ہی جگہ پر اور کسی خالی جگہ کے بغیر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پابندی نہیں ۔ زیادہ زائرین خاندان اور جوڑے ہوتے ہیں۔ بعض مرد ہی اکیلے آتے ہیں۔ زیادہ تر نمازی وضو کر کے آتے ہیں۔ اذان سے پہلے چھوٹی گاڑیاں آتی ہیں جن پر جائے نمازیں لدی ہوتی ہیں۔ باوردی خدام چٹائیاں بچھاتے ہیں۔ جب جماعت ختم ہو جائے، تو لپیٹ کر چٹائیاں اٹھا لیتے ہیں۔ صحن میں ایک طرف وضو گاہ ہے جہاں کھڑے ہو کر وضو کرتے ہیں۔ پہلی صفیں مردوں کی ہوتی ہیں، ذرہ ہٹ کر آخری صفیں خواتین کی ۔ خواتین کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ خواتین دوران نماز حجاب اور عبایہ میں ملبوس ہوتی ہیں۔ جماعت میں دونوں ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں گو درمیان میں فاصلہ ہوتا ہے۔ جعفری نماز، حنفی بلکہ پاکستانی نماز کے مقابلے میں بہت مختصر اور صرف فرائض پر مشتمل ہوتی ہے ۔ سنتیں اور نوافل نماز کا حصہ نہیں ہوتے، اس لیے جلد ختم ہو جاتی ہے۔ نماز میں خواتین کا ستر اور حجاب پوری طرح ملحوظ ہوتا ہے ۔ بوڑھے لوگ جماعت میں کم شامل ہوتے ہیں۔ زائرین کی ایک بڑی تعداد خصوصاً عورتیں ایک جانب بیٹھ کر نما ز ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران مرقد کی زیارت اور وہاں نوافل واوراد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نماز باجماعت کے وقت بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں کیا جا تا۔
مختلف صحنوں اور دروازوں سے گزرنے کے بعد مرقد کے پاس جانے کے لیے اس کے ارد گرد بنی راہداریوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے ہجوم ، روشنیوں ، منعکس شیشوں اور درودو سلام کی بھینی بھینی آوازوں میں ایک بار تو اجنبی زائر مرکز تک پہنچ نہیں پاتا۔ جب راقم دوسرے دروازے کے پاس پہنچا تو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا۔ لوٹنے میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ کہیں دوسروں کی راہ نہ رکنے پائے۔ زیارت میں بھی ایرانی ڈسپلن اور نظم و ضبط کی پوری پابندی کرتے ہیں۔ کوئی زائر پہلے جانے اور جلدی کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ بھی ہڑبونگ ، دھکم پیل اور بد نظمی دیکھنے میں نہیں آتی۔
بوڑھے اور بیمار زائرین کے لیے دو طرح کی سہولت میسر ہے ۔ ایک وھیل چیئر ہے جسے صندلی چرخ دار کہتے ہیں۔خدام داخل ہونے والی جگہ پر موجود ہوتے اور ضرورت مندوں کو کھلے راستوں پر لے جاتے ہیں۔ راہداریوں اور مرقد کے پاس صندلی چرخدار نہیں جاتی ورنہ ساری آمد و رفت تہہ و بالا ہو جائے۔ دوسرے اگر زائرین کا بڑا گروہ ہے اور ان میں بچے اور معمر شامل ہیں تو ایسی چھوٹی گاڑی مل جاتی ہے جس میں زیادہ لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور ڈرائیور زائرین کو ان جگہوں پر لے جاتے ہیں جہاں گاڑی جا سکتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے، آستان قدس کی انتظامیہ کا زائرین کے لیے یہ مفت انتظام ہے ورنہ کہیں کرایہ نامہ ہوتا یا لوگ کرائے کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہوتے۔ ایک بڑے کمپلیکس کا دورہ کرنے کے لیے یہ بڑی سہولت ہے۔
صفائی اور روشنی کا نظام بہت مستعد اور ماہرانہ ہے۔ صفائی کے لیے صحن کو گاڑیاں صاف کرتی ہیں۔ لاؤڈ سپیکر پر آواز کانوں کو گراں نہیں گزرتی۔ ہر قریبی جگہ پر غسل خانے ہیں اور تمام صاف ستھرے اور بے بو۔ صابن اور ہاتھ خشک کرنے والی مشین کے ساتھ۔ جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔ جس طرح چاہیں نماز پڑھیں۔ جو تلاوت کرنا چاہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ۔ بعض جوڑے آزاد موڈ میں نظر آئے۔ بچے صحنوں میں بھاگ رہے تھے مگر کسی نے چھڑی لے کر ان کا پیچھا نہیں کیا۔ مذہبی اور روحانی مقام پر ایسی شخصی آزادی بڑی حوصلہ افزاء ہے۔
مرکز کے وسط میں مرقد کی طرف جو راستے جاتے ہیں ،وہاں16مقامات پر کفش داری یعنی جوتوں کی پاسداری کا نقطہ(Point) ہے۔ یہاں سے گزرتے وقت دروازے کے پاس ایک عود بان سے سفید دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ۔ جس طرح دوسرے زائرین اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈال رہے تھے ، ہم نے بھی تقلید کی مگر اس میں ہلکی سی مہک تھی۔ کچھ زائرین لپٹا ہوا ہاتھ اپنے اور بچوں کے چہروں پر مل لیتے تھے، شاید خیر وبرکت کے لیے۔ اس عمل کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔اگلی راہداری چند سیڑھیاں نیچی تھی۔ وہاں کچھ لوگ نوافل یا نماز میں کچھ ورد اور تلاوت میں مصروف تھے ۔ دیواریں اور چھتیں ایرانی صنعت کاری کا نمونہ، شیشے کی لڑیوں سے لٹکے فانوسوں اور قمقموں کا انعکاس ۔ لوگوں کی عقیدت و محبت اور جذب و انہماک دیدنی تھا۔ ماحول میں عام مزاروں والی افسردگی ، سرد مہری ، لا چارگی نہیں تھی۔ جوش و جذبہ ، چاہت اور اپنائیت کی گرمی اور گرم جوشی تھی۔ راہداریوں کے اطراف میں شیلف تھے جہاں قرآن مجید کے بلا ترجمہ، اور ادوار وظائف اور مفاتیح الجناں کے مترجم نسخے رکھے تھے۔
راہداری بلکہ کفش داری کے اندر اور مزار کے چاروں طرف تمام فرش پر دیوار سے دیوار تک قالین بچھا ہوا ہے۔ راہداریوں کے اندر بڑے بڑے محراب نما دروازے ہیں جن پر منقش کام ہے ۔ سنگ مر مر پر چاروں سمت قرآنی آیات، صلوٰت و سلام، مسجد گوہر شاد کے دروازے کے اندر چھت پر مجیب الدعوات ، رافع الدرجات، یا سامع الاصوات، یا دافع البلیات ، یا خیر الماکرین کے توصیفی نام مندرج ہیں۔ غالباً یہ اللہ کی صفات کا تذکرہ ہے کیونکہ کوئی اور ذی روح تو ایسے اختیارات اور ایسی صفات کا مالک نہیں ہو سکتا۔
ہر باب یعنی دروازے کے ساتھ نوٹس بورڈ پر اس روز کی علمی اور مذہبی تقریبات کا پروگرام ہوتا ہے ۔
اس کے قریب ایک ڈیسک ہے جہاں سے زائرین کی رہنمائی اور معلومات و تعلیمات کے لیے لٹریچر مفت مل جاتا ہے ۔ مگر حسب معمول تمام تر فارسی میں، اُردو یا انگریزی کے بغیر۔ اُردو کا ذکر محض اس لیے ضروری نہیں کہ یہ ہماری قومی اور روز مرہ کی زبان ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ہر پانچواں زائر شلوار پوش اور چہرے مہر ے سے پاکستانی دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر جگہ مواد اُردو میں ہونا چاہیے اور اُردو بھی ایسی جس میں اردو فارسی کے مشترک الفاظ زیادہ سے زیادہ شامل ہوں۔
مزار مبارک پر گنبد سادہ اور چھوٹے قد کا ہے ۔ اس پر طلائی پانی کی تہہ ہے۔ مسجد گوہر شادکا گنبد سبز ہے اور ساتھ دو مینار ہیں۔ مزار مقدس کے پائیں میں ایک بڑا ہال بنایا گیا ہے جو علوم قرآنی کے لیے مخصوص ہے۔ ہال میں مرد عورتیں ،دونوں مطالعہ یا نماز میں مصروف تھے۔ سالن (ہال)محافل و مجالساتِ قرآنی، روسٹرم، قرآنی مطبوعات ، قرآن کریم اور رحل۔ چاروں طرف دیواروں اور محرابوں پر قرآن سے متعلق اقوال اور ایک جگہ پر و گرام لکھے ہوئے ہیں:
صحن قدس میں بھی چاروں طرف منقش اور مرصع آیات محرابیں پر لکھی گئی ہیں۔ صحن میں دو دروازے کھلتے ہیں۔ اس کے درمیان میں طلائی قبہ ہے جس کے نیچے پینے کے پانی کی ٹوٹیاں ہیں۔ چھوٹے دھاتی پیالے پانی پینے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ان کے اندر عربی میں دعائیں کھدی ہوئی ہیں۔ اس قبے کی محرابوں پر چاروں طرف سورۂ قرآنی کی رواں آیات نقش ہیں۔
قرآن ہال میں منتخب ادعیہ و زیارات کی ایک کتاب پڑی تھی۔ مقدمہ کتاب میں اہمیت قرآن اور آداب قرأت پر بحث تھی۔ باقی کے مندر جات یہ ہیں:قرآن۔ مائدہ آسمانی۔ 15سورتیں بشمول یسیٰن ، والناس۔در گاہ امام: آداب زیارت ۔ نگاہی نگذار زندگی ۔ نماز ۔ یا د خدا۔ تعصبات نماز ہائے روزانہ۔ نماز حضرت فاطمہؓ۔ نماز حضرت صاحب الزمان۔ نماز حضرت جعفر۔ دعائے کمبل۔ توسل ۔ ہدیہ سورۃ یٰسین ۔
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ رضائے خدا کے لیے ایک بار قرآن پڑھنے سے 12کا ثواب ملتا ہے۔ ہر آیت پر دس فرشتے اترتے اور پڑھنے والے کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
آستان قدس کا کافی حصہ زیر مرمت یا زیر توسیع ہے۔ مگر تعمیر کا کام اس طرح ہوتا ہے کہ نہ تو میٹریل سے ماحول آلودہ ہوتا ہے اور نہ کھلے عام دکھائی دیتا ہے ۔ تعمیراتی کام سے زیارت یا عبادت کے کام میں خلل نہیں آتا۔ داخل ہونے والے صدر دروازوں کے باہر بھی روز کے پرو گرام اور جشن ولادت کی تقریبات کے پوسٹر لگائے جاتے ہیں مثلاً:
پاکستان میں بزرگوں بشمول رسالت مآبؐ کے ایام و لادت پر جلوسوں، آرائشوں اور روشنیوں پر زور دیا جاتا ہے یا پھر نعت خوانی کے دوران سننے والوں کے لیے عمرے کی مفت ٹکٹوں پر۔لیکن ان مواقع پر علمی ، فکری ، اخلاقی اور تربیتی پہلوؤں کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ بزرگوں کے ایام دراصل انہی کی یاد دہانی اور ان سے محبت تازہ کرنے کے لیے منائے جاتے ہیں۔
طوس میں مقبرہ فردوسی:
حکیم ابو القاسم فردوسی ایران کے بزرگ ترین شعراء ا ور حکماء میں سے ایک ہے۔ فردوسی نے ایران کی عظمت کے ابدی گیت گائے ہیں اور اس کے باد شاہوں ، رہنماؤں اور مشہور لوگوں کی داستانوں کو ایسی نظم میں پرو یا جس میں شکوہ ہے اور تفاخر بھی۔ واقعات کی کڑیاں ہیں اور ایک عظیم ورثے کی آبیاری بھی۔ سا سانی دور ہو یا سلجوق ، صفوی ہو یا قا چاری، پہلوی ہو یا اسلامی…… کوئی دور بھی ‘‘ شاہ نامۂ فردوسی’’ کوقومی اور عوامی دھارے سے الگ نہیں کر سکا۔ ہر دور نے عظمت رفتہ کے قصے اسی سے مستعار لیے ہیں اور اسے ایک لا زوال قومی اثاثہ قرار دیا ہے۔ ‘‘ شاہنامہ’’ میں 60ہزار اشعار ہیں اور یہ تیس سال میں مکمل ہوا۔
تاریخی قصبہ طو س ، مشہد کے مضافات میں25کلو میٹر پر مغرب کی جانب واقع ہے جہاں مقبرہ فردوسی کی شاندار عمارت تعمیر کی گئی ہے ۔ وہاں جانے کے لیے ہم نے آتو بوس (آٹو بس) کا انتخاب کیا۔ ٹکٹ( بلیط ) پہلے خریدنے ہوتے ہیں۔ حسن اتفاق سے ٹکٹ بیچنے والے صاحب تھوڑی سی انگریزی سمجھتے تھے ۔ ان کی مدد سے شمارہ( بس نمبر) پر سوار ہوئے جو مختلف سڑکوں ، چوراہوں سے گزرتی چلی گئی ۔ اب ہمیں فکر کہ جانے کہاں اترنا ہے۔ مشکل سے یہ جان سکے کہ ہمارے ساتھ بیٹھا جوڑا بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح مقبرۂ فردوسی کو جا رہا ہے ۔ ایک چوک سے دوسری بس لی تو احساس ہوا کہ اضافی ٹکٹ تو خریدے نہیں۔ ایک خاتون نے پریشانی سمجھ کر اپنے پاس سے ٹکٹ دے دیئے۔ وہ اترتے وقت ڈرائیور جمع کنڈیکٹر کو دینے ہوتے ہیں۔
بس پہلے مصروف بازاروں اور سڑکوں سے گزرتی رہی ۔ خیابان توحید، میدان شہدا، خیابان فردوسی، میدان فردوسی اور سٹیڈیم پارک۔سی این جی سے چلنے والی بڑی بڑی بسیں نظر آئیں۔ خوبصورت اور جدید بلند و بالا عمارتیں بھی۔ سڑک کے کنارے مساجد مگر چھوٹی اور بند تھیں۔ تجاوزات اور نیچے یا ساتھ کی تجارتی دکانوں کے بغیر۔ مسجدوں کے لوہے کی سلاخوں والے صدر دروازے پر مخصوص نیلی ٹائیلوں پر آیات اور سلام وصلوۃ لکھا ہوا ہے ۔ جگہ جگہ ٹیلی فون بوتھ اور آستان ورزشی و کشتی تھے۔ ہمارے ہاں تو کشتی کو فن شریف اور سرکاری و نجی سر پرستی کا درجہ حاصل نہیں رہا ہے ۔میدان فردوسی میں میدان جنگ اور مصروف عمل ( ان ایکشن) انسانی مجسمے نظر آئے۔
شہر کے مضافات میں سڑک کے دونوں کنارے صنعتی ایریا ہے جن کے نام کچھ اس طرح نظر آئے:
شہر کی صنعتی، سنگ کوبی۔ فراز پوش۔ گرم جوش ۔ زعفران مصطفوی۔ آب معدنی ۔ سپارس کبریٰ۔ سرد خانہ صحت۔ خوابگاہ میوہ۔ شیشہ بری۔ تانکر سازی۔ الیکترو سازی۔ ماسین سازی۔ معاملات املاک۔ مرکز کار شناسی۔ کارواش ۔ جام جم۔ لوازم خانگی۔ تعمیر گاہ۔ آٹو مبیل۔ درب و پنچرہ سازی۔ موزائیک۔ گلسنگ سالن۔ نیلم و باطری۔ صافکاری و نقاشی۔
ایک جگہ پہلی بار لکھا دیکھا: مدد یا غوث گیلانی۔
( جاری ہے )