کسی بھی سماج میں رسومات کا بڑا حصہ ہوتا ہے، ان رسومات کی وجہ سے سماج میں مختلف رنگ بکھرتے ہیں۔یہ رنگ اداسیوں کے بھی ہو سکتے ہیں اور خوشی و مسرت کے بھی۔لیکن یہ رسومات، کب اور کیسے عقیدہ بن جاتی ہیں، سماج کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔اگر وہ سماج مختلف النوع ہو، یعنی وہاں کئی قومیں رہتی ہوں تو ایک قوم کی رسومات کو ہمیشہ ایک حد میں رہنا چاہیے، تاکہ وہ رسوم دوسری قوم کے لئے تنگی اور دشواری کا سبب نہ بن جائیں۔
ہمارے سماج میں دو ایسے مواقع آتے ہیں جن کی غیر ضروری، بے سروپا رسومات سے ان کے علاوہ سب ہی تنگ پڑتے ہیں۔ایک محرم کی رسومات ’دوسرے میلاد النبی کی رسومات۔
کربلا کا دلدوز واقعہ محرم 61ھجری میں پیش آیا جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی اور مدتوں اس دلخراش واقعہ کو یاد رکھا اور اس کا ذکر کیا، لیکن سالانہ بنیادوں پر غم حسین منانے کا کوئی سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ یہ رسم تین سو سال گزرنے کے بعد آل بویہ کے زمانے میں شروع ہوئی۔
عباسی خلافت کے آخری دو سو سال زوال و انحطاط کے سال تھے۔عباسی خلیفہ بعض طاقتور خاندانوں کے زیر اثر آ گیا تھا۔ انہی میں ایک آل بویہ تھے۔(ان کی تاریخ کسی دوسری پوسٹ میں بیان کر دوں گی) عراق پر آل بویہ کا اقتدار جمادی الاول 334 ھ سے محرم 447ھ تک رہا(عیسوی اعتبار سے 945ء سے 1057ء) یہ تقریباً ایک سو تیرہ سال کی مدت تھی۔ آل بویہ مسلکا شیعہ تھے جبکہ عباسی مملکت سنی اکثریتی ریاست تھی۔دارلحکومت بغداد میں بھی شیعہ آباد تھے تاہم اقلیت میں تھے، زیادہ تر شیعہ ''کرخ ''نامی محلے میں آباد تھے۔ آل بویہ کے آنے سے قبل بغداد میں شیعہ سنی فساد کا کوئی واقعہ تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔لیکن پہلے بویہی امیر، معز الدولہ کے دور میں دو تقریبات کو سرکاری طور پر متعارف کروایا گیا۔ایک ''یوم عاشور '' منانے کا آغاز کیا گیا، دس محرم کو تمام دوکانیں اور کاروبار بند رکھنے کا حکم دیا گیا، ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے دس محرم کو عوامی سوگ کا دن قرار دیا، عوام کو سیاہ ماتمی لباس پہننے اور ماتم کرنے، ماتمی جلوسوں کا مختلف راستوں پر گشت کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔دوسری ''عید غدیر ''کی تقریب تھی۔جسے معز الدولہ نے سرکاری حکم نامے کے ذریعے خوشی کا دن قرار دیا، اس دن شہر کو سجانے اور خوشی منانے کا حکم جاری کیا گیا۔بغداد کی سنی اکثریت نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی دو تقریبات منانے کا آغاز کر دیا۔پہلا یہ کہ انہوں نے 18 محرم کو حضرت مصعب ابن زبیر(حضرت عبداللہ ابن زبیر کے بھائی) کی قبر پر اجتماعی طور پر حاضری دینی شروع کی۔یاد رہے انہی مصعب ابن زبیر کے ہاتھوں مختار ثقفی کا خاتمہ ہوا تھا۔
سنیوں نے دوسری تقریب26 ذی الحج کو ''یوم الغار'' کے نام سے منانی شروع کی۔یہ تقریب اس دن کی یاد میں منائی جاتی تھی کہ جب سفر ہجرت کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے غار ثور میں پوشیدگی اختیار کی تھی۔ اس کے بعد فتنہ بڑھنے لگا۔ایک بار ایسا ہوا کہ دیواروں پر صحابہ کرام کے نام لکھ کر، ساتھ ہی مغلظات بھی لکھ دی گئیں سنیوں کو پتا چلا تو انہوں نے ان دیواروں کو منہدم کرنا چاہا اس پر فساد ہو گیا۔کرخ کے محلے میں جو مساجد تھیں ان میں جو شیعیوں کے زیر اثر تھیں وہاں اذان فجر میں '' حی علی خیر العمل'' کہا جانے لگا تو سنی وہاں جا کر زور دیتے کہ '' الصلوۃ خیر من النوم'' کہا جائے۔اس پر بار بار فساد ہوتا۔
محرم کے جلوسوں، اور دیگر مسلکی تقریبات کے انعقاد کو سنیوں کی اکثریتی آبادی برداشت نہ کرتی اور فسادات شروع ہو جاتے۔آل بویہ کے 113سالہ دور اقتدار میں محرم کا ایک مہینہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں چھوٹے بڑے فسادات نہ ہوئے ہوں۔اس کی وجہ سے بغداد کھنڈر بننے لگا، کیونکہ ان فسادات میں بازاروں کو جلا دیا جاتا تھا، لوگوں نے پریشان ہو کر مشرقی بغداد سے سکونت ترک کر کے مغربی بغداد کی طرف آباد ہونا شروع کر دیا۔ یہ مسئلہ کم ہونے کے بجائے روز بروز اس لئے بڑھنے لگا کہ دونوں طرف کے فقہاء، علما اور مذہبی اسکالر بھی ان جھگڑوں میں ملوث ہو گئے تھے۔آل بویہ کے 113سالہ دور اقتدار میں کم از کم تین موقعوں پر حالات اتنے بگڑ گئے کہ فتنے پر قابو پانے کے لئے احکامات کا اجراء کیا گیا۔
1۔367 ھ میں بویہی امیر عضدالدولہ نے بغداد کے تمام فقہاء اور علما پر(خواہ شیعہ ہوں یا سنی) صحابہ کرام کے بارے میں کسی بھی بحث میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔
2۔382 ھ میں وزیر ابو الحسن الکوکبی نے بغداد کے شیعیوں کو یہ حکم دیا کہ وہ عاشور اور عید غدیر کے ایام منانے موقوف کر دیں۔
3۔393 ھ میں امیر الجیوش(سپہ سالار اعظم) نے حکم دیا کہ سنی اور شیعہ فی الفور اپنی مذہبی تقریبات کا انعقاد بند کر دیں۔یہ پابندی 6سال تک رہی۔پھر سیاسی تبدیلی کے ساتھ یہ پابندی بھی ختم ہو گئی۔
ان بے جا رسومات کے پیچھے اہل بغداد نقصان پر نقصان اٹھاتے رہے۔ان کے بیشتر علما اور قائدین بھی اس جہالت میں ان کے ساتھ تھے۔لہذا فتنہ بڑھتا ہی گیا۔
ایک بار بغداد میں جو آگ لگی اس میں سرکاری کتب خانہ بھی جل گیا جو ایک وقف کی شکل میں قائم کیا گیا تھا، جہاں ہزار ہا مخطوطات اور کتابیں جل کر خاکستر ہو گئیں۔ جو کتابیں بچا لی گئیں ان کی تعداد بھی ایک لاکھ سے متجاوز تھی، یہ ایک شاندار کتب خانہ تھا جو جہلا کی جہالت کی نذر ہو گیا۔
آل بویہ کے 113سالہ دور اقتدار کے بعد آل سلاجقہ برسر اقتدار آئے۔یہ مسلکًًا سنی تھے۔ عباسی خلیفہ جس طرح پہلے آل بویہ کے زیر اثر تھا، اب سلجوقیوں کے زیر اثر آ گیا۔ انہوں نے رفتہ رفتہ وہ ساری رسومات ختم کرا دیں جو آل بویہ کے زمانے میں جاری ہوء تھیں۔سب سے پہلے فجر کی آذان سے ''حی علی خیر العمل '' کی جگہ ''الصلوۃ خیر من النوم '' کو واپس لایا گیا۔ پھر چونکہ سرکاری سرپرستی ختم ہو گئی تھی لہذا دیگر تقریبات کا انعقاد بھی محدود ہو گیا۔
اہل بغداد نے اطمنان کا سانس لیا، مشرقی سمت میں واپس آ گئے اور سالانہ فسادات ایک ڈراونے خواب کی طرح بالآخر ختم ہو گئے۔