قسط -۴
حرم معصومہ رات کو بند کر دیا جاتا ہے ۔ صبح اذان کے ساتھ گیٹ کھول دیئے جاتے ہیں۔وہاں ایک فیملی دیکھی جس کے ساتھ ایک معذور بچہ بھی تھا شاید اُسے دعاو سلام کرانے کے لیے والدین کسی دور دراز مقام سے لے کر آدھی رات کے وقت یہاں پہنچے تھے۔ یہ اعتقاد اور عقیدت و محبت کا کمال ہے ۔ کئی اور زائرین بھی پورے کنبے سمیت آدھی رات کے بعد سوئے مزار رواں تھے تا کہ جب دروازے کھلیں تو انہیں قریب ترین جا کر دعاؤں کا موقع مل سکے۔ بعض خاندان صدر دروازے پر کپڑے اور گتے لپیٹ کر گیٹ کھلنے کے انتظار میں سوئے ہوئے تھے۔ اس وقت قُم خاموش تھا۔ کوچہ بازار میں آمد و رفت مفقود تھی۔ صرف سامان خورونوش کی چند دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔
روٹی:
راستے میں ایک جگہ تنور گرم تھا اور ایران کی مقبول عام چپاتی سنگک (سنگ گک) تیار ہو رہی تھی۔ یہ روٹی گرم بجری پر لگائی جاتی ہے اور نانبائی بیکری کی طرح تنور کی کھڑکی استعمال کرتا ہے۔ یوں سمجھیے جیسے یہ چپاتی چھوٹی سی جا نماز یا عام سائز کا تولیہ ہے۔ پانصد ریال / سواتین روپے میں ایک روٹی خریدی اور ناشتے میں ایرانی چائے کے ساتھ کھائی مگر پھر بھی بچ رہی۔ دو فرد ایک روٹی سے بخوبی پیٹ بھر سکتے ہیں۔ پاکستان میں روٹی5روپے کی ہو چکی اور مشکل سے تین چپاتی میں ایک صحت مند شخص کا پیٹ بھرتا ہے۔ ایرانی چپاتی وزن اور غذائیت میں بہت بہتر ہے۔
یہ دو ہمسایہ اسلامی ملکوں کا موازنہ ہے۔ ایک اناج کا گھرہے اور گندم اس کی بڑی فصل ہے۔ وہ اربوں کے حساب سے امریکی امداد اور مغربی قرضے لیتا ہے۔ دوسرے ملک میں کوئی امداد یا قرض نہیں اور وہاں گندم زیادہ تر باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ ایک میں ریٹائرڈ جنرل سر براہ حکومت ہے۔ دوسرے میں علماء کا کنٹرول اور عام شہری منتخب صدر مملکت ہے۔ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ ایران میں نوکر شاہی ( بیورو کریسی ) کا نظام کیا ہے۔ ملک پر کوئی بھی حکمران ہو، قانون نا فذ کرنے اور عمل کرانے کی ذمہ داری تو سرکاری کارندوں ( بیورو کریسی ) پر ہوتی ہے۔وہ محکموں کو چلاتے اور خادم بن کر عوام کی ضروریات پوری کرتے اور ان کی مشکلات کا بر وقت ازالہ کرتے ہیں۔
ارزاں نرخوں پر معیاری روٹی اور بغیر لمبی قطاروں کے فراہمی ایک ویلفیئر سٹیٹ ہی کر سکتی ہے۔
مفت روٹی:
شنید ہے کہ نور وز اور دیگر تہواروں پر تنوروں کو سرکاری گودام سے مفت گندم فراہم کی جاتی ہے۔ عام اعلان کے بعد عوام ان مقررہ تنوروں سے کسی قیمت کے بغیر مفت روٹی حاصل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ اس بات کا دھیان رکھتی ہے کہ ضرورت مند محروم نہ رہے اور لالچی اس رعائت سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
اپنے دیس کا کیا کہیے، سرکار سمیت کمائی کرنے والے تمام لوگ قومی اور مذہبی تہواروں پر ہی کمائی کرتے ہیں۔ اشیائے خوردنی مثلاً آٹا، گھی ، چینی ، گوشت اور ان سے بنی ہوئی اشیاء سبزیاں ، پھل،بسوں اور رکشوں کے نرخ رمضان اور عیدین پر دوگنے تگنے بڑھ جاتے ہیں۔ سرکار ملکی سلامتی کے لیے ذخیرہ اندوزوں ، مہنگا فروشوں اور لوٹ مار کرنے والوں سے کوئی تعرض نہیں کرتی! آخر سرمایہ دار پاکستانیوں نے اور کہاں سے اور کیسے کمائی کرنی ہے؟ عوام سے لوٹ کھسوٹ تو ان کا حق ہے ! یہی تو سرمایہ کاری کی وہ کشش ہے امریکہ سے در آمد شدہ شوکت عزیز اور امریکہ کے چہیتے جنرل (ر) پرویز مشرف کے 80بیرونی دوروں کا حاصل سمجھئے۔
تعلیمی مراکز:
علامہ مرغشی ایک بڑے عالم اور مفسر قرآن تھے۔ ان کے نام سے قُم میں ایک تعلیمی مرکز اور کتاب خانہ قائم ہے۔ دوبار کوشش کی کہ اندر جاؤ ں، مرکز دیکھوں اور کسی ذمہ دار سے بات کروں، ایک بار تو چھٹی تھی ۔ دوسری بار دربان نے نو وار د اور بے زبان جان کر اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ صدر دروازے کے اندر علامہ مرغشی کا مرقد ہے اور دیواروں پر ان کی زندگی کی مصروفیات کی چند تصاویر چسپاں ہیں۔ طلبا آ جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر ساتھ کے کتاب فروش پر رکا۔ حسب معمول زیادہ کتب فارسی اور کچھ عربی میں تھیں۔ اُردو اور انگریزی میں کوئی تصنیف نظر نہ آئی۔ میدان (چوک)کے دائیں بائیں کتابوں کے دکانوں پر رُکا اور مزید دو مدرسوں دارالقرآن گلبانی اور مدرسہ جوزّیہ فیضیہ کے اندر بازیابی کی سعی نا کام کی۔ کوئی انگریزی بولنے والا بھی نہ ملا جو مدارس سے متعارف کرواتا۔
دارو خانہ:
ایران میں ڈسپنسری صبح و شام اور رات کو بھی کھلی رہتی ہے۔ اسے دارو خانہ کہتے ہیں۔ یہاں ان ڈور میں مریض داخل نہیں کئے جاتے ،صرف آؤٹ ڈور علاج ہوتا ہے۔ شاید سنگین مرض میں مبتلا مریضوں کا ریفرل بھی ہے۔ ڈسپنسری میں تین صبح و شام اور دو ڈاکٹر (مرد و عورت) رات کو ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ ڈسپنسری میں فارمیسی ، ایکسرے ، ای سی جی ، ایکو کارڈ یو گرافی ، لیبارٹری اور چند ماہر ین خصوصاً بچوں اور عورتوں کے موجود ہیں۔باہر ایک پرانی ایمبولینس بھی کھڑی تھی جو غالباً ریفرل کے لیے ہے مگر کم استعمال ہوتی ہے۔ ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ۔ انگریزی سے نابلد، نسخے، ہدایات اور تفتیش سب فارسی میں۔ مریض صحت انشورنس کے کارڈ لاتے ہیں۔ ڈاکٹر اس پر اپنے معالجاتی نکات اور نسخہ درج کرتا ہے اور اس سے دوسری چٹیں بناتا ہے۔ ڈاکٹر سادہ لباس اور سفید کوٹ میں ملبوس اور صفائی اور عدم جراثیم طریق پر کار بند تھا۔ مریضوں کے ساتھ اس کی گفتگو شائستہ تھی۔ مریض سامنے دروازے پر اپنی باری کا انتظار کرتے۔ جلدی یا خصوصی رعایت کے عادی نظر نہ آتے تھے۔
دارو خانے میں زیادہ رش نہ تھا۔ جابجا ہدایات اور حفظان صحت کے بارے میں معلومات کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ لباس اور جوتوں سے ڈاکٹر صاحب زیادہ خوشحال دکھائی نہ دیتے تھے۔ ان کے سامنے نہ تو کسی فار ماسوٹیکل کمپنی کے نمونے اور لٹریچر تھا اور نہ کوئی پیچیدہ آلات۔ کمرہ اور ڈسپنسری صاف تھے بغیرہجوم اور شور کے کام جاری تھے۔
ایک بار میں سڑک کنارے دکان سے قُم کے ایک مدرسے کا پتا دریافت کر رہا تھا ۔ میرے لہجے سے شاید جھلاہٹ نمایاں ہوتی تھی کہ اجنبی ہونے کے ناطے رہنمائی میں دقت پیش آ رہی ہے۔ ایک سعودی زائر نے بھی شکایت کی کہ زبان سمجھتے ہوئے بھی بعض ایرانی متوجہ نہیں ہوتے ۔شاید ان میں تعصب ہے۔اس دوران مذہبی لباس پہنے ایک نو جوان عالم اُردو میں گویا ہوئے۔ انہیں اپنی آمد کا قصد بتایا تو ان کی دلچسپی بڑھی اور انہوں نے اسی روز اپنے ہاں دعوت ملاقات دے دی۔
اس روز دو ملاقاتیں ہوئیں پہلے چائے کی اور پھر زیدی صاحب کے گھر پُر تکلف دعوت طعام میں جوقُم اور حیدر آباد ی کھانوں کا دلکش آمیزہ تھی۔ ان کے دو احباب خاص کے ساتھ مفید ملاقات رہی جو ایک مدت سے ایران میں مقیم اور علمی اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہیں، فرحت کو ہندوستانی خواتین کے ساتھ جو ایک عرصہ سے اپنی فیملی کے ساتھ قُم میں مقیم ہیں، تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔
صدیقی:
عشرۂ ولادت یادہ کرامت کے دوران ہر روز تقریر اور سوز خوانی کا پروگرام ہوتاہے جو صدر دروازے کے باہر ایک بورڈ پر لکھا ہوتا ہے۔
بر نامہ ہاونام گزاری دھ کرامت سالہ وزمیلاد……
ان میں ایک نام برائے سخن خوانی حجۃ الاسلام والمسلمین آقائی صدیقی بھی نظر آیا۔ ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ صدیق یا صدیقی کی نسبت شیعوں میں نہیں پائی جاتی، وہ اس لفظ سے اجتناب کرتے ہیں۔ سیدنا صدیق اکبرؓ چونکہ سنیوں کے پہلے خلیفہ راشد ہیں جس پر شیعوں کو اختلاف ہے۔ وہ خلافت کے اس اعزاز کا حقدار سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو مانتے ہیں۔ اس لیے صدیق یا صدیقی کالا حقہ، کم از کم پاکستان کی شیعہ کمیونٹی میں ان کے نام کے ساتھ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایران میں اس نسبت کی کوئی اور و جہ بھی ہو۔ مگر ایران میں نام کی حد تک یہ عصبیت نہیں ہے۔
نوحہ وماتم کی بجائے صلوٰۃ و سلام:
زائرین پروگرام دیکھ کر اپنی پسند کے مقرر کا خطاب سننے جاتے ہیں۔ مگر ہر بار مین ہال بھرا ہوا پایا۔ مزار کے ارد گرد یا مین ہال میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ماتم یا سینہ کوبی دیکھنے میں نہیں آئی۔ نہ کسی موقع پر مذہبی یا سیاسی نعرہ زنی سنائی دی۔ نالہ وشیون کی بجائے اکثر صلوٰۃ وسلام بلند کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عشرہ ولادت کے حوالے سے خطابات میں خوشی اور مبارک کا عنصر زیادہ ہو، اس لیے نوحہ و ماتم کی نوبت نہ آئی۔
غیر ایرانی زائرین کے لیے یہ آسانی ہے کہ وہ اپنا ذاکر ساتھ لے جائیں اور اپنی زبان میں اپنے دل کے جذبات کا اظہار کر لیں۔ گویا مزار پر فارسی میں وعظ سننے سمجھنے کی پابندی نہیں۔ اگرچہ زائرین کی اکثریت ایرانی ہے تا ہم ان میں عرب اور دیگر ممالک مثلاً پاکستان ، ہندوستان سے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے فارسی اجنبی ہے۔ فارسی خطابات سمجھنے کے لیے کہیں کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی ایسے ایرانی علماء نظر آئے جو دوسری زبانوں میں اظہار بیان کر رہے ہوں۔ کم از کم دوسری زبانوں میں اسلامی لٹریچر ضرور ملنا چاہیۓ تا کہ زائرین کو صحیح رہنمائی مل سکے ۔
٭٭٭
تہران کے راستے
تہران کی جانب:
سفر کے لیے سامان تو رات کو ہی باندھ لیاتھا۔ کاؤنٹر/ استقبالیہ نے فون کیا تو چند ہی منٹوں میں ٹیکسی آ گئی۔ یہ سروس دن رات چلتی رہتی ہے ۔ ضرورت مند فون کرتا ہے تو ٹیکسی سروس کا ایکسچینج فون کرنے والے کو ایسے ڈرائیور سے ملوا دیتا ہے جس کی ٹیکسی اس علاقے سے گزر رہی ہو۔ یہ طریقہ تھوڑا مہنگا ہے مگر فوری اور جھگڑے سے پاک ہے۔ چنانچہ ٹیکسی کے ذریعے ہفتا دو دو تن یعنی بمقام‘‘ بہتر نفس ’’ پہنچے۔ شہر سے باہر یہ ایک سٹاپ کا نام ہے جہاں سے تہران اور اندرون ملک جانے والی ٹرانسپورٹ گزرتی ہے۔ اس سٹاپ سے مختلف اطراف کو جانے والی بسیں بآسانی مل جاتی ہیں۔ یہاں سے دوسرے شہروں کے لیے ٹیکسی بھی ملتی ہے۔ پوری ٹیکسی لیناچاہیں یا بطور سواری دوسری سواریوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا چاہیں ۔ ٹیکسی میں میٹر یا کرایہ نامہ نہیں ہوتا۔ہماری بس اندر اور باہر سے اچھی حالت میں تھی۔ درمیان میں سرخ قالین کی پٹی بچھی ہوئی تھی ۔ کنڈیکٹر آوازیں دے رہا تھا۔ قُم سے تہران کا فی کس کرایہ 20ہزار ریال یعنی2خمینی ہے جو قریباً 135 روپے بنتا ہے۔ شاپر ، پانی، ٹی وی ، سیٹ پر کور موجود ۔ سواریاں کم تھیں اور اندر گرمی تھی۔ جب بس چلی تو فضا بہتر ہوئی۔
ایران میں دیہاتی اور شہری آبادی کا تناسب پاکستان کے مقابلے میں الٹ ہے ۔ وہاں زیادہ تر لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔ دیہات سے شہروں کی جانب وسیع نقل مکانی ہو چکی ہے چنانچہ تہران، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے اور گنجان آباد شہروں میں شامل ہے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت سرو اور صنوبر کے درخت نظر آتے ہیں۔ پہاڑوں پر برف ، بلند فوارے، چھتوں پر ٹی وی انٹینا کی بھر مار ، کئی منزلہ اونچی اونچی عمارات، فوجی اور ایئر فورس کی عمارتوں کی اونچی دیواریں، بجلی کے خارجی پول ،جگہ جگہ فلائی اوور پل اور کھلے راستے۔ علمی اور مذہبی عمارات کے صدر دروازے کا انداز تعمیر قُم جیسا۔ گلیوں ، سڑکوں اور چوراہوں کے نام شہدا ، علماء اور مشاہیر کے ناموں پر ۔ اڈے تک پہنچتے پہنچتے تیسرا پارک آیا جو انتہائی گھنا اور درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ خزاں کی آمد آمد تھی۔
ہم قریباً سوا گھنٹے میں قُم سے تہران پہنچ گئے۔ عام شاہراہ اونچی ہے اور بسوں کا اڈا نچلی سطح پر ہے۔ اڈا کیا ہے ایک چھوٹا سا ہوائی اڈا اور شاندارہے ۔ یہ دائرے کی شکل میں دو منزلہ عمارت ہے۔ اوپر کی منزل میں بس کمپنیوں کے بکنگ کے دفاتر، طعام ، آرائش اور آسائش گاہیں اور دکانیں ہیں۔نیچے کار گو دفاتر، گودام اور بسوں کے پڑاؤ ۔ یہاں پہلا ایرانی ڈرائیور ملا جو انگریزی اور اُردو ،دونوں زبانوں کے الفاظ روانی سے بول رہا تھا۔ یہاں سے ملک کے ہر شہر کے لیے بسیں مل جاتی ہیں۔ زیادہ تر بسیں نئی ہیں۔
اڈے پر جگہ جگہ ٹیلی فون بوتھ لگے ہیں جہاں سے شہر میں مفت کال کی جا سکتی ہے۔ اڈا بہت صاف۔ واش روم ستھرے۔ یہاں سے مشہد کا کرایہ 95,000/-ریال ہے ۔ اڈے پر دھواں اور بدبو ندارد،کسی بھی جگہ بھکاری اور قلی نظر نہیں آئے۔ یعنی ہاتھ نہ پھیلاؤ بلکہ اپنی مدد آپ کرو۔
غالباً جینے کا یہ اندازایران کی حکمران قیادت نے قومی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی اپنا لیا ہے ۔
تہران ہوائی اڈہ
انتظار گاہ:
مقامی بس کے ذریعے تہران کے جنوبی اڈے سے مہر آباد کے ہوائی اڈے پہنچے۔ اس کی انتظار گاہ بہت وسیع اور انتہائی آرام دہ ہے۔ مسافر اور دوسرے لوگ بے روک ٹوک آجا سکتے ہیں۔ چاروں طرف مقامی ایئر لائیز کے دفاتر ، ٹکٹ باکس، چیک ان کی گزر گاہیں اور خورو نوش کے کھوکھے ہیں۔ پلاسٹک کی دو طرفہ کرسیاں جن کے رخ سامنے اور پیچھے کی طرف ہیں۔ دونوں طرف ٹی وی سکر ینیں ۔ ایک پر عام نشریات کے پروگرام اور اشتہارات اور مسٹر بین کی مشہور مزاحیہ فلم چل رہی تھی۔ دوسرا خالصتاً مذہبی چینل ہے جس میں صلوٰۃ وسلام، زیارات، عبادات مثلاً حج ، عمرہ، نماز، تقریرات اور اوقات اذان و صلوٰۃ بتائے جاتے ہیں۔ معمول کے مطابق کتابوں رسالوں کے متعدد کھوکھے ، نماز خانے مردانہ ، زنانہ۔غسل خانے صاف ستھرے اور کام کرتے ہوئے اور فلش اور ٹشو پیپر کے ساتھ۔ انتظار گاہ کا فرش ایک کار کن مشین سے صاف کر رہا تھا ۔ چھوٹی سکرین پر جہازوں کی آمد و رفت کے اوقات اور پرواز نمبر فارسی اور انگریزی میں آرہے تھے۔
انتظارگاہ میں میڈیکل چیک اپ کی سہولت موجود تھی۔ ایک خود کار کمپیوٹر مشین بھی جو وزن، بلڈ پریشر(فشار خون) ، نبض، ضربان، کولیسٹرول(چربی بدن) ، شکر خون ، اور دیگر طبی پیمانے اور ساتھ دیوان حافظ سے فال بھی بتاتی ہے۔
آپ تھکے ہوئے ہیں تو برقی ورزش مشین پر بیٹھ جائیں۔ وہ آپ کے شانے، پنڈلیاں ، کمر ، بازو ، رانیں، ان سب کی مٹھی چاپی کر دے گی۔ ایک خود کار کمپیوٹر مشین میں مستقبل کا آئینہ نظر آتا ہے۔
ایک خود کار کمپیوٹر مشین پر تصاویر ، مناظر اور فلکی مشاہدات کی فلموں کا اہتمام ہے۔ غرض مصروفیت کے لیے مختلف مشغلے موجود تھے۔ ان تمام مشینوں اور کئی کھوکھوں پر خواتین سروس کر رہی تھیں ۔ سر سے پاؤں تک حجاب میں، البتہ چہرے کھلے اور ہلکے میک اپ کے ساتھ۔جب گاہک نہ ہوتا تو رسالہ یا کتاب پڑھنے لگتیں۔ جوتے نوکدار اور بعض اونچی ایڑی والے۔ ایرانی اپنے بالوں کے متعلق لگتا ہے ،خاصے محتاط ہیں۔ اس لیے یہاں بھی حجامت کے لیے آرائش گاہ موجود ہے۔ ائیر پورٹ پر ‘‘ دہ کرامت یا عشر ولادت ’’ کے کوئی آثار نہیں۔ صرف ایک سٹینڈ پر فلیکس اشتہار لگا ہوا تھا۔ پہلی انتظار گاہ سے بورڈنگ کارڈ لے کر دوسری یا چیک ان انتظار گاہ میں جانے کے لیے جسمانی یا سامان کی سکریننگ نہیں۔ پاکستان میں سیکورٹی عملہ کی درشتی ، ہاتھوں کی تندی اور شک بھری نظریں مسافرکو خواہ مخواہ چور بنا دیتی ہیں۔ یہاں ایسا نہیں ہوا۔ پابندی اور نظم کے ساتھ احترام انسانیت ہو تو عزت نفس اور آزادی کا احساس ملتا ہے۔
ہمارے سامان میں موجود دواؤں اور اردو رسالوں ،کسی چیز پر اعتراض نہیں ہوا۔
دوسری انتظار گاہ میں پہلی سے کم کھوکھے ہیں۔ مگر توالیت( ٹائلٹ) کے ساتھ مردانہ ، زنانہ نماز خانے موجود ہیں۔ ایک ما ساز(Massage Gallery)یعنی جسم کی مالش کے لیے با پردہ جگہ ہے۔ اس ہال میں بیٹھے ہوئے مسافروں میں بھی حجاب اور عبایہ پوری طرح موجود تھے۔ تاہم بعض جوڑے لبرل انداز میں جیسے لپٹ کر ، شانے پر سر رکھ کر ، ہاتھ تھام کربیٹھے نظر آئے ۔
بورڈنگ ہال میں دو نئی کاریں غالباً کسی انعامی سکیم کے تحت کھڑی ہیں۔
ایک جگہ کسی ہسپتال کا اشتہار تھا: دکتر خدا د وست ہسپتال
جگہ جگہ انقلاب اسلامی کی روح کو قربانیوں،شہادتوں کے حوالے سے یاد کرایا جاتا ہے ۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ بنیادی مقصد(Basic Objective) ہمیشہ سامنے رکھا جائے ، زندگی کے ہر مظہر میں اسے ظاہر کیا جائے، بار بار یاد دلایا جائے۔ تب ممکن ہے کہ مقصد جذبہ اور فکر بن کر قوم کے رگ و پے میں اُترجائے۔
آسمان ایئر لائن کی پرواز برائے مشہد صرف10منٹ لیٹ تھی۔ اعلان صرف فارسی میں ہوا۔ سیٹ بیلٹ یعنی کمر بند ناقص تھا ،اس لیے سختی سے باندھنا ممکن نہ تھا۔ کھینچتے وقت پھسل جاتا جس سے باندھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ فلائٹ سٹیورڈ کا جواب کچھ اس طرح تھا کہ یہ تو ایسا ہی ہے، بس اسی پر گزارہ کرو! ہلکا پھلکا کھانا ملا جسے بمشکل برنچ Brunch کہا جا سکتا ہے۔ کافی مانگی تو تو بقو ل فضائی خادم، گرم پانی (آب جوش) نہ تھا!
ایران کی یہ داخلی پرواز کفالت اور سہولت میں پی آئی اے کی اندرون ملک پرواز سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ داخلی پرواز پر صرف فارسی اخبار تھے۔ معلوم ہوتا ہے ایران میں سپورٹس کے درجنوں اخبار رسالے ہیں۔اس اعتبار سے پاکستانی زیادہ باذوق نہیں لگتے۔ بے آب وگیاہ صحراؤں اور زیادہ تر خشک پہاڑی سلسلوں پر سے گزرتے ہوئے ہم 1:30گھنٹے میں مشہدایئر پورٹ پر اتر گئے۔ مشہد کے نزدیک پہنچ کر وادیوں میں مکانوں کے جھنڈ یا آبادیوں کے آثار نظر آئے۔
مشہد کا ائیر پورٹ نہ تو زیادہ بڑا ہے اور نہ ہی پُر تکلف تا ہم تمام ضروری سہولتیں موجود ہیں اور سامان جلد آجاتا ہے۔ ٹرمینل کی عمارت میں یہ قطعات توجہ کھینچتے ہیں:
السلام علیک یا علی بن موسیٰ رضا۔ آگے زیارت کرنے پر بشارت کا فرمان ہے:
کسی کہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ رادر قُم زیارت کند
مانند آں است کہ مرا زیارت کردہ است
( امام رضا)
(جس نے قُم میں فاطمہ معصومہؒ کے مزار کی زیارت کی وہ ایسا ہے جیسے اس نے میری زیارت کی۔)
مشہد شہر بہشت است۔ مشہد بہشت کا ایک شہر ہے ۔
شکوہ اتحاد ملی۔ انسجام اسلامی۔ قومی اور اسلامی اتحاد باعثِ شوکت ہے۔
ولادت با سعادت مریم آل رسول کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ مبارک باد۔
ایک خاتون بعض مسافروں کو گلاب کے پھول والی ٹہنی پیش کر رہی تھی۔ غالباً کوئی ڈیلی گیٹ تھا۔ بورڈنگ کارڈ سارے سفر کے دوران پہلی بار چیک ہوا۔ ہمارے ہاں تو قدم قدم پر چوکیدار ، ہر سپاہی اور ہر کارندہ ٹیگ سونگھتا، کارڈ الٹتا پلٹتا اور نظروں سے مسافروں کی جامہ تلاشی لیتا پایا جاتا ہے، جیسے عوام پر عدم اعتماد ہماری انتظامیہ کا پہلا قدم ہے!
ٹیکسی:
ائیر پورٹ پر ٹیکسی کا باقاعدہ نظام ہے۔ حد میں داخل ہونے کے بعد ڈرائیور کا لائسینس کیبن میں بیٹھے کار کن کو پہنچ جاتا ہے۔ مسافر باری باری جاتے ہیں اور کیبن سے ٹوکن نمبر ٹیکسی کو پکارا جاتا ہے۔ کوئی ٹیکسی والا مسافر کو انکار نہیں کرتا البتہ کرایہ خود طے کرنا پڑتا ہے ۔ جب مسافر بیٹھ جائے تو کیبن سے ٹیکسی والے کو اس کا لائسینس واپس مل جاتا ہے اور ٹیکسی مقررہ منزل کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔
ایک ایرانی نوجوان نے ہمیں ٹیکسی لینے اور کرایہ چکانے میں مدد دی۔ قیام گاہ پر سامان رکھا اور سوئے آستان مقدس روانہ ہو گئے۔