جواب :اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کرتے، بلکہ جس قوم میں وہ اپنا پیغام نازل کرتے ہیں، اسی کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں مرد و عورت کو مشترک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ چنانچہ جب قرآنِ مجید یہ صیغہ استعمال کرتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مردوں کے لیے جنت کی کچھ خاص نعمتیں ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جنت کی نعمتیں ہیں جس طرح مردوں کے لیے ہیں۔ جہاں تک ازواج کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن نے ازواجِ مطہرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین کے لیے پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ اس کے بجائے اگر یہ بات کہی جاتی کہ وہاں عورتوں کو دس دس مرد ملیں گے تو آپ خود سوچیے کہ کیا یہ کوئی شایستہ اسلوب ہوتا؟میرا خیال ہے کہ ہماری بہنوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت کا لحاظ کرتے ہوئے ساری بات ایک جملے میں بیان کر دی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب :قرآن مجید میں صدقے کا لفظ خیرات کے مفہوم میں آیا ہے۔ عربی میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، یہ سب الفاظ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جائے، خواہ پیسے دیے جائیں یا کپڑے دیے جائیں یا بھوکے کو کھانا کھلایا جائے یا کسی اور شکل میں ان کی ضرورت پوری کر دی جائے۔ اسلام میں اس طرح کے صدقے کا کوئی تصور نہیں ہے کہ کالا بکرا دے دو یا چوراہے میں سری پھینک دو یا چھت پر یا پانی میں گوشت ڈال دو۔ یہ توہم پرستی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ توفیق دے تو آپ ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب :اس ضمن میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہر وہ چیز جو غلط ہے، وہ ہمیشہ غلط رہے گی۔ جھوٹ،بددیانتی، رشوت غلط ہے اور ہمیشہ غلط رہے گی۔ یہی معاملہ خودکشی کا ہے۔ یہ ایک گناہ کا کام ہے اور ہمیشہ گناہ ہی رہے گا۔ یہ ایک بالکل دوسری بات ہے کہ آپ نے کسی مجبوری کی وجہ سے کسی غلط کام کا ارتکاب کیا ہے۔ مجبوری کا ایک اصول قرآن مجید میں بیان ہو گیا ہے کہ اللہ چاہے گا تو اس کی رعایت دے دے گا۔ جس طرح حرام کے بارے میں فرمایا گیاہے کہ 'فمن اضطر غیر باغ ولا عاد' ( الانعام) اگر کوئی آدمی مجبور یا مضطر ہو گیا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ اٹھا دیتے ہیں، اس کا حساب کتاب نرم ہو جاتا ہے۔ یہی چیز اس معاملے میں بھی ہو گی۔ جب کوئی چیز حرام قرار دی جاتی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ جب ایک آدمی خود کشی کرتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری موت کے بارے میں جو فیصلہ کر رکھا ہے کہ فلاں وقت میں آنی چاہیے، وہ فیصلہ غلط ہے، میں اس کو نہیں مانتا۔ وہ اس کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی اقدام واقعی کسی مجبوری کی حالت میں کیا گیا ہے تو قرآن نے بڑے سے بڑے جرم کے بارے میں بھی یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ مجبوری کی رعایت ملے گی۔
(جاوید احمد غامدی)