غیر ت وحمیت کے گرد طاقت کی فصیل

مصنف : حسن نثار

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : مئی 2011

            ریمنڈ ڈیوس کی ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل پر میں نے لکھا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس نہیں …… لاہور میں صرف ڈیوس روڈ ہی رہ جائے گی اور اب میرا مشورہ یہ ہے کہ لاہور کی اس مشہور ڈیوس روڈ کا نام ‘‘ریمنڈ ڈیوس’’ رکھ دیا جائے جو ہمیں ہماری ‘‘آزادی’’ اور ‘‘خودمختاری’’ کی حقیقت یاد دلاتی رہے۔

            ممولے کو شہباز سے صرف شاعری میں ہی لڑایا جا سکتا ہے ، عملی زندگی میں ایسی باتوں کی کوئی حیثیت ، وقعت اور حقیقت نہیں ہوتی ۔ کمزوروں کا غصہ ہو یا غیرت ، سب کچھ ندامت پر ہی ختم ہو تا ہے۔ مجھے تو ان کی حیرت پر حیرت ہے کہ یہ کیسے دانشور اور سیاست ور تھے جنہیں اتنے جلی الفاظ میں لکھا نوشتہ دیوار بھی دکھائی نہیں دیا اور اب چانگڑیں مار رہے ہیں ۔ ‘‘تجزیے’’ فرما رہے ہیں ۔ ‘‘موشگافیاں’’ بگھار رہے ہیں …… ہائے سانپ نکل جانے کے بعد یہ لکیریں پیٹنے والے سیانے۔ اس کا مطلب یہ ہے یہ سچ مچ اور پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس واقعی کیفرکردار تک پہنچے گا ۔ عوام تو بے خبر اور جذباتی ہیں ہی لیکن ہمارے سیاسی، فکری اور دیگر رہنماؤں کے ہاں بھی حقیقت پسندی کا قحط ہے۔ مجھے کسی ‘‘غیرت گروپ’’ کی غیرت اور ‘‘حمیت کارپوریشن’’ کی حمیت پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ایسی ہر ذلت پر میرا بلڈ پریشر بھی زلزلے کی زد میں آجاتا ہے ، میری کنپٹیاں بھی سلگنے اور چٹخنے لگتی ہیں لیکن میں ‘‘پھوکی’’ ……‘‘کھوکھلی’’ …… ‘‘تھوتھی’’ اور دیمک زدہ غیرتوں اور حمیتوں پر یقین نہیں رکھتا ۔ کیا ان چند لوگوں کے علاوہ باقی سب بے غیرت اور بے حمیت ہیں ؟ اس سے بڑی بکواس ، اس سے بڑا جھوٹ ، اس سے بڑی منافقت ، اس سے بڑی جہالت ممکن نہیں۔ یہ ڈرامے اور نوٹنکیاں ہیں ، یہ رنگ باز…… جھوٹے ہیں یا جاہل کہ اس فیصلہ ، معاملہ میں کون کون سا ادارہ ملوث یا شامل نہیں توپھر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ‘‘غیرت اور حمیت’’ ان چند گنے چنے لوگوں پر ختم ہو چکی ؟؟ ہر گز نہیں کہ تھوڑا سا ہوش اور حقیقت پسندی بھی ہو تو ان سب کی مجبوریاں سمجھو …… ان کے بندھے ہاتھ دیکھو…… ان کے پیروں کی بیڑیاں دیکھو …… اگر کوئی قصور وار ہے ، اگر کوئی مجرم ہے تو ہم سب۔ کوئی کم کوئی زیادہ لیکن ہم سب ضعف کے اس کاروبار میں چھوٹے بڑے پارٹنر ہیں جبکہ اقبال نے دوٹوک انداز میں عشروں پہلے کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہم ضعیف ہیں سو ہم ہی مجرم بھی ہیں اور ملزم بھی

            غیرت اور حمیت کا بنیادی تقاضا ہے تلخ حقیقت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا۔ جو بہت غیرت مند اور حمیت پسند ہے وہ تالیاں سننے کی بجائے گالیاں سننے کا حوصلہ پیدا کر کے ‘‘پاپولر بکواس’’ کی بجائے غیر پاپولر پھنکار کی طرف آئے …… لوگوں کو بتائے ، سمجھائے اور جھنجھوڑے کہ اپنی عزت ، غیرت اور حمیت عزیز ہے تو اس کے گرد محنت سے طاقت کی فولادی فصیل کھڑی کرو…… خدارا لوگوں کو اندھیرے میں نہ رکھو …… روٹی کپڑا مکان نہیں دے سکے تو کم از کم عوام کو تو دھوکہ نہ دو۔ انہیں سچ بتاؤ اور سچ کو فیس کرنے کی تربیت دے کر بتاؤ کہ تم کمزور ہو ، کمزور ہو ، کمزور ہو اور پھر انہیں یہ بھی بتاؤ کہ من حیث القوم ہماری کمزوریاں کیا ہیں؟ کجیاں کیا ہیں؟ اور یہ کیسے رفع دفع ہو سکتی ہیں۔ مختلف شہروں میں ‘‘احتجاج ’’ ہو رہا ہے لیکن کس بات پر؟ مرحومین کے خاندان نے خون بیچ دیا تو یہ باقی ‘‘بروکر’’ کیا بیچ رہے ہیں اور کیوں؟ ان ‘‘مفکرین’’ ا ور ‘‘معززین’’ سے تو فہیم مرحوم کی خودکشی کرنے والی بیوی شمائلہ زیادہ ‘‘سمجھ دار’’ تھی جسے اس سارے کام کا انجام معلوم تھا تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کیسی بدقسمتی ہے کہ اصل مرض کی نشاندہی پر لعنت بھیجتے ہوئے بہت سے لوگ سیاسی دیہاڑیاں لگانے اور نمبر بنانے میں مصروف ہیں ۔ یہ سب ‘‘تو کون میں خوامخواہ’’ اور …… ‘‘خدائی فوجدار’’ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہ اگر مقتولین کے اتنے بڑے خاندان کا ہر فرد کروڑ پتی ہو چکا تو بھائی ! ہم تم کس شمار قطار میں؟ ڈالر‘‘ ڈراکولا ’’ہے!

            جذبات میں شرابور لیکن عقل و دانش سے بہت ہی دور ہمارے یہ دوست عجیب لوگ ہیں جو ‘‘فیکٹ شیٹ’’ دیکھنے پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔ اپنی اصل قومی اتحاد کے بارے ‘‘ایکسرے رپورٹس’’ سے لے کر ‘‘ایم آر آئی رپورٹس’’ تک کے ڈھیر لگے ہیں لیکن کچھ لوگ ایک معذور اور مفلوج بدن کو کسی ٹارزن سے لڑانا اور مزید برباد کرنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی لیکن مجھے تو اس موقع پر امین خیال کی یہ شاعری یاد آرہی ہے

نیک تے بد دی جھوٹ تے سچ دی
چھڈ گئے لوگ پچھان


چانن پردے اولھے ہو گئے
نھیرے ہوئے پردھان

            سیاسی رہنما جس لیول کے ہیں …… فکر ی رہنما بھی ویسی ہی سطح پر باندر ٹپکیاں ما رہے ہیں اور مذہبی راہنماؤں کی آنکھوں پر بھی جماندرو کھوپے چڑھے ہیں۔ اسی لیے ہم مسلسل پسپائی اور رسوائی کے راستوں پر گامزن ہیں۔

            کیا کوئی سمجھ دار آدمی ایک ایسی صورتحال کا تصور بھی کر سکتا ہے کہ پرندہ اڑجانے کے بعد کوئی قبیلہ پنجرے کے اردگرد بیٹھ کر ماتم شروع کر دے؟ ایسے جاہل اور جھوٹے تو بیعانہ اور specifications دے کر بھی بنوائے نہیں جا سکتے۔ جاہل وہ جانتا ہی کچھ نہیں اور جھوٹا وہ جو جانتا تو ہے لیکن بولتا اس لیے نہیں کہ اس کی نام نہاد ‘‘پاپولیریٹی’’ متاثر ہو گی حالانکہ یہ ‘‘پاپولر’’ بھی نہیں ہوتے۔

            ‘‘طاقت ’’ ہی تمام تر انسانی (ریکارڈڈ غیر ریکارڈڈ )ہسٹری کا نچوڑ ہے تو ہوش کے ناخن لو اور اپنے ‘‘غیور و باشعور’’ عوام کو طاقت کی طرف بلاؤ ، حصول طاقت کی شرائط بتاؤ کہ عزت و حمیت کے گرد علم و عقل و عمل کی طاقت پرایستادہ فصیل نہ ہو گی تو تمہاری عزت ، غیرت و حمیت سے زیادہ بے معنی کچھ نہ ہو گا۔

            غیرت او رحمیت کوئی خوابی خیالی اور ہوائی کام نہیں۔ اسے محنت شاقہ اور اعلی منصوبہ بندی سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ ملک کو ملک اور قوم کو قوم بناؤ، ان کی اعلی ترین تعلیم و تربیت کا بندوبست کرو…… تب تک اسی ‘‘تنخواہ’’ پر گزر بسر کرو کہ نہ صوبائی حکومت قصور وار نہ مرکزی حکومت نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ مقتولین کے ورثا۔ کیا ہر اعتبار سے کھچکا ہوا ملک بھارت جیسے پڑوسی کی موجودگی میں بیک وقت امریکہ اور سعودیہ کو انکار کرنے کا تصور بھی کرسکتا ہے؟

            ریمنڈ سوٹ پہن کر بغیر پاسپورٹ اور امیگریشن کے پرواز کر چکا ۔ مقتولین کے ورثا لمبی وصولیوں کے بعد عمرہ یا حج پرواز کے لیے پر تول رہے ہیں۔ لیکن یہ پیشہ ور ‘‘ریلیے’’ اور ‘‘بحثیے’’ کیا کر رہے ہیں؟ یہ ‘‘ملک گیر’’ احتجاج اب کیا کرے گا؟

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

یہ سب دو چار دن میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے پھر کسی او رقسم کے ریمنڈ ڈیوس کا کھلونا مل جائے گا لیکن قوم کو یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ جنہیں سچ مچ اپنی عزت ، غیرت او رحمیت عزیز ہو وہ ان کے گرد جان توڑ محنت کر کے طاقت کی فصیل کھڑی کر دیا کرتے ہیں۔

 فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی