مریم کی عمر آٹھ برس تھی ۔ اس سال وہ بڑے دنوں سے اس انتظار میں تھی کہ کب اس کے ابو اسے پیسے دیں اور کب وہ عید کے لیے گفٹ خریدے مگر جب اس کے ابو نے اسے بتایا کہ اس سال خراب کاروباری حالات کی وجہ سے ان کے لیے عیدی دینا ممکن نہیں تو مریم اداس سی ہو کر رہ گئی۔ اس کی اداسی اپنی چیزوں کے لیے نہ تھی بلکہ اس لیے تھی کہ اِس بار اْس نے سوچا تھا کہ وہ عیدی سے اپنے ابو کے لیے گفٹ خریدے گی اور ان کو عید کا تحفہ دے گی۔سوچ سوچ کر اس نے ایک حل تلاش کر لیااور اس پر کام شروع کر دیا ۔ دوسرے دن اس کے ابو نے دیکھا کہ وہ چند گتے کے ٹکڑے لے کر ایک ڈبہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ مریم یہ کیاکر رہی ہو تو اس نے بتایا کہ ا بو میں ایک گفٹ پیک تیار کررہی ہوں اس ڈبے میں آپ کو عیدکا گفٹ دوں گی تو وہ مسکرا کے خاموش ہو گئے ۔ عید رات جب وہ گھر پہنچے تو دیکھا کہ مریم ان کے انتظار میں تھی ۔ آتے ہی وہ ان سے لپٹ گئی اور خوبصورت کاغذ میں پیک ایک ڈبہ اپنے ابو کو پیش کردیا ، اور کہا ،ابو یہ آپ کے لیے عیدکا گفٹ ہے ۔ ابو نے اْس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر ڈبہ لے لیا ۔ مگر دیکھا،کہ وہ تو خالی تھا۔ انہیں عجیب سی الجھن ہوئی اور انہوں نے کہا ، بیٹا مذاق نہیں کرتے ۔ کتنی بری بات ہے کہ کسی کو خالی ڈبہ گفٹ میں دیا جائے ۔ مریم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ا س نے کہا، ابو یہ خالی کہاں ہے ؟ یہ تو بھرا ہو ا ہے ۔آپ اسے غور سے دیکھیے ، میں نے تو ا س میں آپ کے لیے بہت سا پیار رکھاہواہے ۔یہ سنتے ہی مریم کے ابو ڈھیر ہوگئے او رانہوں نے مریم کو لپٹا لیا۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی ۔ اصل گفٹ توپیا ر ہی تھا۔ چیزیں تو چند دن کے بعد ٹوٹ پھوٹ جائیں گی مگر یہ پیار ہمیشہ رہے گا۔ اِدھر یہ منظر تھا اور اْدھر تقدیر اس باپ بیٹی پر ہنس رہی تھی۔ چند دن بعد ایک حادثے میں مریم کا انتقال ہو گیا ۔ اس بات کو بیس برس بیت گئے مگر مریم کے ابو کے پاس وہ ڈبہ آج بھی محفوظ ہے اور جب بھی مریم کی یاد آتی ہے وہ اس ڈبے کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔
بیٹی کا پیار بھی عجب چیز ہے ۔ عام انسانوں کی تو خیر بات ہی کیا ہے ، اللہ کے رسولؐ کو بھی یہ پیا ربڑا ہی عزیز تھا۔سفر پہ روانہ ہونے لگتے تو سب سے آخر میں سیدہ فاطمہؓ کے گھر ملنے جاتے اور سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہؓ سے ملتے ۔ آخری بیماری کی شدت میں جب سیدہ فاطمہؓ رونے لگیں تو اس تکلیف میں بھی باپ سے بیٹی کا رونا دیکھا نہ گیا ، فرمایا فاطمہ نہ رو ، آج کے بعد تیرے باپ کی سب تکلیف ختم ہو جائے گی۔ ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر میں اللہ کے رسول،ؐ ابوبکرؓ وعمرؓ کے ساتھ اس حال میں آئے کہ کئی دن کا فاقہ تھا اور جب ابو ایوب انصاری ؓ نے بکری ذبح کر کے آپ کے سامنے سالن رکھا تو کھانے سے قبل آپ کا ہاتھ رک گیا اور آپ نے ایک روٹی پر چند بوٹیاں رکھ کے ایک ساتھی سے کہا جاؤ فاطمہ کے گھر دے آؤ وہ بھی کئی دن سے بھوکی ہے ۔ بدر کے قیدیوں کی رہا ئی کے لیے ان کے ورثا نے فدیے کی رقوم بھیجیں تو رسولؐ اللہ کی بیٹی زینبؓ نے بھی اپنے شوہر ( جو اس وقت تک مسلما ن نہ ہوئے تھے )کی رہا ئی کے لیے وہ ہار بھیج دیا جو سیدہ خدیجہؓ نے ان کو جہیز میں دیا تھا۔ ہارکا سامنے آنا تھا کہ رسول اللہﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے صحابہ سے کہا اگر تم کہو تو میں ایک بیٹی کو اس کی ماں کی نشانی واپس کر دوں؟اور پھر وہ ہار واپس کر دیا گیا اورسیدہ زینبؓ کے شوہر کو اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ وہ جاکر زینب کو مدینہ بھیج دیں گے۔
بیٹی کے اسی پیار کو پانے کی چاہ میں اُس نے بھی اللہ سے مانگ مانگ کے بیٹی کو لیا تھامگر بیٹی سے کھیلنے اور اس کا پیار پانے کے دن آئے تو وہ پردیس سدھا ر گیا۔پردیس سے دیس وہ اسی چاہ میں اکثر جاتا رہتا ہے مگر چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بڑی بڑی حسرتیں بنا کر واپس لوٹ آتا ہے ۔اورپھریہ سوچ کے وہ اور پریشان ہو جاتا ہے کہ جب اس کی دیس واپسی ہو گی تو شاید بیٹی کے اپنے گھر سدھارنے کے دن آچکے ہوں گے اور وہ دن شاید کبھی بھی نہیں آئیں گے جس میں اس کی بیٹی اس کے گلے میں بازو حمائل کر کے اس سے باتیں کرے گی اس کے بازو پہ سر رکھ کر کہانی سنے گی اور سنائے گی اور پھر میٹھی نیند سو جائے گی۔ وہ باہر سے آئے تو بھاگ کر اس سے لپٹ جائے گی اس کے کپڑے جوتے لا کر دے گی اور پھر پا س بیٹھ کر اس کا سر سہلائے گی اور چھوٹی چھوٹی فرمایشیں کر کے اس کو بڑی بڑی خوشیا ں دے گی۔اور پھر اسے یاد آتا ہے کہ اس کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بڑی بڑی حسرتیں بن جانا کوئی نئی بات تھوڑا ہے ۔یتیموں کی طرح پلنے والے اس بچے کی کتنی خواہش ہوا کر تی تھی کہ کوئی اسے پیار سے عیدی دے ۔ پیارکرنے والی ایک ماں ہی تو ہوا کرتی تھی لیکن اس بیچاری کے پاس اتنے پیسے ہی کہاں ہواکرتے تھے ۔ اور پھر جب اس نے کمانا شروع کیا تو وہ اپنی ماں کو رمضان ہی میں بہت سے پیسے دے دیتا تھاتا کہ وہ لوگوں کو عیدی دے سکیں اور جب وہ خود عید کے دن ماں سے عیدی مانگتا تو اس کی بھولی بھالی ماں کہتی کہ تیرے ہی تو پیسے ہیں اس میں سے تجھے ہی کیادوں اور وہ سر جھکا کے واپس چلا جاتا تھا۔ اورشاید سر جھکا کے چلتے رہنا ہی اس کی تقدیر کا حصہ ہے کیونکہ اب اب کچھ دوسری آرزوؤں کے محل بھی ریت کے گھروندے بننا شروع ہو گئے ہیں اور اس کی تدبیروں کے جنازے دوش بر تقدیر اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ تقدیر پر کس کا زور چلتا ہے ؟ جب اس نے اپنے ایک دوست سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے کہا ، یہ توہونا تھا۔ پردیس جانے والوں کے ساتھ ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں یہ سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور تمہارے ساتھ بھی ہوگا۔ دوست نے کہا،لیکن یہ سوچو کہ تم نے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو قربان کر کے اور اپنے جذبوں کو عقل و خرد کے سرد خانے میں ْسلا کر کس طرح اپنے بچوں کو افلاس کی چکی میں پسنے سے بچا لیاہے ۔ کیا تمہارے لیے یہ کارنامہ اور فخر کم ہے؟ اور ْاس نے کہا، شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔
٭٭٭