تاریخ
ککے زئی
شیر سلطان ملک
اگر آپ پرانے شہر دہلی گیٹ کی مشرقی طرف سے داخل ہوں تو آپ کشمیری بازار میں آ جائیں گے اور 500 گز پر پھیلی ہوئی وزیر خان مسجد آپ کو نظر آئے گی جس کے آخر میں بائیں طرف مڑتی گلی میں ککے زئی نام کا مشہور بازار ہے۔ یہ بازار بہت ساری وجوہات کی بنا پر مشہور ہے لیکن اصل میں ککے زئی قبیلے کی ایک تاریخ ہے۔
نامور صحافی مجید شیخ لکھتے ہیں۔۔۔۔ مشہور شاعر فیض نے ایک بار لاہور کی تعریف میں کہا تھا کی اس کی ہر اینٹ کے نیچے ایک کہانی ہے۔ لیکن یہاں کہانی ہی ایک اینٹ کی ہے۔ اور اس کے نیچے ایک اور کہانی ہے۔یہ کون لوگ ہیں؟ نام کا سب سے پہلا حصہ ایک پٹھان قبیلے کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ’’ ککے‘‘ جس کا پشتو میں مطلب ہے ‘‘جوان شخص‘‘اور ’’زئی‘‘ کا مطلب ہے’’تعلق ہونا‘‘۔ تو اس لیے یہ قبیلہ ایک جوان آدمی کا تھا اور صدیوں پہلے جب وہ گھوڑوں پر سوار حملہ آوروں کی طرح اور تاجروں کی طرح پنجاب اور لاہور آئے تو جوان ہی ہوں گے۔ وہ شہر سے باہر کی دیوار کے ساتھ رکتے اور ہر بار زیادہ گھوڑوں کے ساتھ لوٹا کرتے تھے۔ اس لیے ککے زئی گھوڑوں کے تاجروں کے طور پر مشہور تھے۔ تاریخ پر نظر ڈالنا بہتر ثابت ہو گا۔ مشہور مصنف اولاف کیرو اپنی کتاب (The Pathans: 550 BC۔AD 1957) میں دعوی کرتے ہیں کہ ککے زئی قبیلہ ترکانی قبیلہ کے لوئے مامند سے تعلق رکھتا تھا جو باجوڑ ایجنسی میں آباد تھے۔ لیکن اصل میں وہ افغانستان کے صوبے لغمان سے تعلق رکھتے تھے۔ پہلا ککے زئی 1011۔1021 AD کے بیچ محمود غزنوی کی مامند کی حملہ آور افغان فوج کے ساتھ پنجاب آیا تھا۔ فرنٹئر پیپلز کی تھیوری یہ ہے کہ جب قبیلوں کی آبادی ان کی بنجر زمین سے بڑھ جاتی تو کاروباری لوگ مشرق کی طرف چلے جاتے۔
آج بھی وہ جنگوں کی وجہ سے ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ شہر میں اب وہاں کے لوگوں سے زیادہ پٹھان موجود ہیں۔ اسی لیے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ پہلے ہی پنجاب منتقل ہو گئے تھے۔ لیکن یہاں ثبوت موجود ہے کہ مامند ایک بڑے ککے زئی گروہ کے ساتھ یہاں آ کر بس گیا تھا۔ چونکہ وہ سب گھڑ سوار تھے اس لیے جب امن کے دن ہوتے تو وہ سینٹرل ایشیا سے سستے داموں گھوڑے خرید کر پنجاب میں فروخت کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے لاہور فورٹ کے ساؤتھ میں ایک گھوڑوں کی منڈی بنائی جو نارتھ میں شہر کی دیوار کے آخر تک پانی والا تالاب نامی جگہ تک پہنچتی تھی۔ جب اکبر نے شہر کو وسیع کیا تو یہ لوگ راڑا میدان میں منتقل ہو گئے جو مشرقی دیوار دہلی گیٹ کے اندر سے ہوتے ہوئے مغرب کی طرف شاہ عالمی بازار تک پھیلا ہوا تھا۔ یہاں ایک نئی گھوڑا منڈی بنی۔ اس نئی جگہ میں ہی انہوں نے گھر بنائے اور آج وہ جگہ بازار ککے زئیاں کے نام سے موجود ہے۔ اس لوکیشن کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
اکبر سے قبل ہارس مارکیٹ قلعہ اور والڈ سٹی کے شمالی علاقوں کے بیچ موجود تھی جسے آج کل علی پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب شہر کووسیع کیا گیا تو یہ لوگ کوچہ چابک سواراں کے علاقے میں جا بسے جہاں ترکی اور سینٹرل ایشین گھڑ سوار لوگ رہتے تھے جنہیں کوسیک سے تعلق رکھنے والے قزلباش قبیلہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو جو مغل آرمی سے تعلق رکھتے تھے ہمیشہ تیز اور پھرتیلے گھوڑوں کی ضرورت رہتی تھی جس کی وجہ سے یہ گھوڑے پالنے والے لوگ یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس کے اوپر راڑا میدان ہے جو شاہ جہان کے دور میں خوبصورت باغ تھا اور حیران کن شاہی حمام تھا جو تھکے ہوئے دہلی سے آنے والے گھوڑ سواروں کے لیے تھا جہاں یہ تاجر رک کر آرام کرتے اور فریش ہو کر لاہور فورٹ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ بعد میں لاہور کے صوبے دار وزیر خان نے ایک مسجد بنوائی جو ککے زئیوں کی اس شرط پر بنی کے وہ 14 صدی کا محمد اسحاق غزرونی کا مزار جس کا نام میران بادشاہ تھا نہیں توڑیں گے۔ اور آج بھی مسجد کے ساتھ ان کا یہ مزار قائم ہے۔ اس مسجد سے پہلے مزار کے سامنے ککے زئی کمیونٹی کے گھر ہوا کرتے تھے جو مغلوں کے زمانے سے ہی خوبصورت اونچی تعمیرات بناتے تھے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے دوران کچھ ککے زئی مشہور درباری بھی بنے۔ ان میں سے ایک رحیم بخش خان ککے زئی تھے جنہیں ساہیوال کے قریب ایک بہت بڑی جاگیر سے نوازا گیا۔ لیکن سکھ حکمران سے جھگڑا ہونے کے بعدا نہیں لاہور میں اپنے آبائی گھر میں واپس آنا پڑا۔
جب پراپرٹی کی قیمتیں بڑھ گئیں اور گھوڑوں کی طلب میں کمی آئی توککے زئی لوگوں نے دوسرے شعبوں میں آنا شروع کیا۔ امیر گھرانوں نے بچوں کو تعلیم دلوائی جس کی وجہ سے انہیں سیاسی اور مالی پختگی حاصل ہوئی۔ غریب گھرانے نئی ککے زئی کالونی میں چلے گئے جو شاہدرہ کے علاقے میں دریا کے دونوں اطراف میں واقع ہے۔ لیکن مجموعی طور پر لاہوری ککے زئی خاندانوں نے بہتری کی طرف سفر مکمل کیا۔ انہوں نے لاہور میں پراپرٹی میں بہت انویسٹمنٹ کی اور ظفر علی روڈ کے آس پاس بہت سے گھر خرید لیے۔ لاہور کے مشہور ککے زئیوں میں سابقہ گورنر جنرل مسٹر غلام محمد، اور ریٹائرڈ سفارتکار بابر ملک شامل ہیں۔2 ایٹمی سائنسدان منیر احمد خان اور اشفاق احمد خان ، کرکٹر شعیب ملک، ڈاکٹر شاہد مسعود، ندیم ملک، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس میاں محبوب اور سردار اقبال اور مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی بھی مشہور شخصیات ہیں جو اس ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ آرمی میں جنرل کے ایم عارف، لیفٹیننٹ جنرل سعید قادر، ککے زئی قبیلہ سے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام لوگوں میں سے زیادہ تر ظفر علی روڈ کے آس پاس کے رہائشی ہیں۔***