مصر کی تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ہزاروں ، لاکھوں افراد نے یکجا ہو کر ایک ایسے موسیٰ کا روپ دھار لیا جس نے اکیسویں صدی کے فرعون کو مات کر دیا۔ ایک قوم متحد ہو کر کھڑی ہوئی تو ایک آمر کی تیس سالہ حکومت کی ضربیں بھی اسے توڑ نہ سکیں۔ کیونکہ وہ صرف مصری بن کر سوچ رہے تھے، عیسائی، یہودی یا مسلمان بن کر نہیں!
آج یہی لہر کئی عرب ممالک میں دوڑ رہی ہے۔ تیونس سے لے کر اردن اور الجزائر تک ان موجوں کا شور زور پکڑ رہا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان بھی اس بہاؤ میں شامل ہوجائے گا۔ یہاں بھی ایک قومی انقلاب آئے گا ۔ مگر ایسا شاید ممکن نہیں۔
کیونکہ ہم میں اور اُن میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ وہ ایک نام سے جانے جاتے ہیں اور ہم مختلف حوالوں سے! انہیں اپنی شناخت کی بڑی واضح پہچان ہے۔
وہ مسلمان بھی ہیں اور عرب بھی مگر اس سے پہلے وہ مصری ہیں، تیونسی ہیں، یمنی ہیں یا اردنی۔ یہ بات ان کے سارے تفرقات کو مٹا دیتی ہے۔
ایک لفظ، ایک نام انہیں ایک عبارت میں باندھ دیتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے قومی آئینے میں سندھی، پنجابی، مہاجر، بلوچ، پٹھان، سرائیکی، کشمیری، بلتی یا گلگتی نظر آتا ہے، مگر پاکستانی کہیں نظر نہیں آتا۔
صوبائی اور لسانی تفریق نے ہمارے دلوں کے نقشوں پر بھی لکیریں کھینچ دی ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بھی۔
ایک ہی دین کے پیرو ہوتے ہوئے بھی ہم فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے ہیں۔ اور ان فرقوں کی مزید شاخوں نے اس تناور درخت کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کا پودا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا ۔
صدیوں سے صرف مسلمان کہلانے والے آج دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہل سنت، اہل تشیع اور نہ جانے کن کن ناموں سے اپنی پہچان کرواتے ہیں۔ نیل کے ساحل سے لے کر خاکِ کاشغر تک پھیلے ہوئے مسلمان آج علاقائی سطح پر اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ ایک ہی نبی کی امت ہوتے ہوئے خود کو اپنوں سے الگ منوانا چاہتے ہیں۔
اور الگ نظر آنے کی یہ خواہش ہم سے ہماری اپنی پہچان چھین رہی ہے۔
آج ہماری قوم کا چہرہ تضادات کی دھول میں اٹا ہوا ہے۔ یہ راہِ حق ہے یا ہم راہ سے بھٹک رہے ہیں؟ ہمارے بیچ بڑھتے یہ فرق کیا تفرقے پیدا کر رہے ہیں؟ مفادات کی ہوس اختلافات کو جنم دے رہی ہے؟ کیونکہ مسلکوں ، فرقوں، زبانوں، صوبوں اور لسانی فرق کی بنیاد پر بنائی گئی جماعتیں نہ ہماری سیاسی رہنمائی کر رہی ہیں، نہ ہمیں دین کی روح سمجھا رہی ہیں اور نہ ہی ہمیں ایک قوم کی سطح پر متحد کر رہی ہیں۔ آج ہماری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ہم نے کب سے عشق رسولؐ کو بدعت سے جوڑ دیاہے۔ کب سے رحمتوں کے نزول کو تفریح کی سمت موڑ دیاہے ۔ کب سے لوحِ قرآنی کو محض چوم کرجزدان میں لپیٹ رکھا ہے۔اور کب سے فرمانِ الٰہی کو بِنا سمجھے دہرانا شروع کر دیا ہے۔ہمیں اس کی خبر ہی نہ ہوئی۔
بلا سوچے سمجھے ہم بھیڑ چال چلتے چلے گئے اور آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہم ہر اس بات کو دین کا حصہ تسلیم کر لیتے ہیں جس کا تعلق عربی معاشرت سے ہو۔
ہر اس روایت کو غیر اسلامی گردان دیتے ہیں جو علاقائی تہذیب کا حصہ ہو۔ ہر اس بات کو جھٹلا دیتے ہیں جہاں ہماری لسانیت کی اہمیت نہ ہو۔ ہم ہراس قدم سے اختلاف کرتے ہیں جہاں ہماری صوبائیت کا ذکر نہ ہو۔
اسی لیے ہم تبدیلی کی بات تو کرتے ہیں مگر تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اس کے لیے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ متضاد موجوں کی مانند ٹکرانے کے بجائے ایک جان، ایک زبان ہو کر آگے بڑھنا ہوگا ۔
یہ یاد رکھنا ہوگاکہ تضاد صرف تصادم پیدا کرتا ہے، انقلاب نہیں!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ، لاہور)