جواب : درج ذیل اسباب کی بنا پر ایسا کرنا جائز نہیں۔اس طریقہ سے موسیقی لاؤڈ سپیکروں میں بجانا حرام ہے اس میں مومنوں کے لیے اذیت بھی ہے جو موسیقی سننے سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ ـ اس میں تکبر بھی پایا جاتا ہے ۔پھر ـ اس رواج میں سامان اور مہر میں زیادتی اور لوگوں سے آگے نکلنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، اور یہ چیز شریعت مطہرہ کے مخالف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی کمی اور شادی کے اخراجات میں آسانی کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔اس وجہ سے انسان اسراف و فضول خرچی میں بھی پڑ جائیگا جس سے اللہ سبحانہ و تعالی نے منع فرمایا ہے: فرمان باری تعالی ہے ۔اور تم اسراف و فضول خرچی مت کرو یقینا اللہ تعالی اسراف اور فضول کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ ـ یہ فعل ایسا ہے جس سے فقراء اور مسکین لوگوں کے دل ٹوٹ جائیں گے جو ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اتنا سامان نہیں دے سکتے۔ جب ایک فقیر اور مسکین و تنگ دست اپنی بچی کی شادی کریگا تو وہ غمگین رہے گا اور اس کا دل گھٹتا رہے گاکہ کاش وہ بھی اپنی بچی کو اس طرح سامان دیکھ سکتا۔اور پھر یہ خاندان کے درمیان بھی اختلافات اور جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے، لڑکی اپنے والد سے بھی اتنا ہی سامان طلب کریگی جتنا کسی اور لڑکی کو دیا گیا لیکن اس کا والد ایسا نہیں کر سکیگا، یا پھر وہ ایسا کرنے پر راضی نہیں تو اس طرح جھگڑے اور اختلافات ہونگے۔ یہ فعل حسد و بغض کے دروازے کھولے گا، اور کمزور ایمان قسم کے لوگوں میں نفسیاتی پریشانی پیدا ہوگی۔ عقل و دانش والے لوگ اس طرح کی غلط عادت اور رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اس کا مقابلہ کریں، اور لوگوں کو قیمتی سامان اور شادی کے اتنے زیادہ اخراجات نہ کرنے کی ترغیب دلائیں، اور صرف اسی پر اکتفا کریں جو انسان کو ضرورت ہوتی ہیں۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :نکاح میں عورت کے لیے مہر واجب ہے ۔اگر مہر عاجل ہو یعنی اس کو بعد میں دینا مقرر نہ کیا گیا ہو تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی کیے بغیر خاوند کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :نکاح میں مہر کا ہونا ضروری ہے۔البتہ اس کی مقدار مقرر نہیں اور نہ ہی کوئی خاص قسم۔ حتی کہ ایک لوہے کی انگوٹھی کے عوض بھی نکاح ہو سکتاہے اور عورت کو قرآن مجید یا حدیث یا کوئی اور نفع مند علم سکھانے کے عوض نکاح کرنا بھی جائز ہے۔ اور جب انسان کسی عورت سے بغیر مہر شادی کرے تو اسے مہر مثل دینا ہو گا۔ مہر عورت کا حق ہے ۔اگر وہ خود مہر نہ لے اور اسے معاف کر دے تو یہ بھی صحیح ہو گا۔البتہ مہر مقرر کر نا ضروری ہے۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب : اگر عقد نکاح میں مہر کا ذکر نہیں ہوا تو نکاح صحیح ہے لیکن اس صورت بیوی کو مہر مثل دیا جائیگا۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب : شادی کی ضرورت ایک معتبر ضرورت شمار ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو شادی کی ضرورت بالکل اس طرح ہوتی ہے جس طرح کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے. اس لیے تنگ دست کی شادی کے لیے زکوۃ دینا جائز ہے ۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :مہر خاص بیوی کا حق ہے وہ اسے جہاں چاہے اورجس طرح چاہے خرچ کرے ، اس پر گھر کی تیاری اورسامان خریدنا واجب نہیں ۔ مصادر شریعہ میں کوئی نص نہیں ملتی۔
گھرکا سامان اوراسے بنانا خاوند پر واجب ہے ۔ وہی ہے جس پر بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا اوراس میں ہر قسم کی ضرورت مہیا کرنا واجب ہیں ۔
(عبداللہ صالح المنجد)