کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ابن ہشام اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ غلاف کا اہتمام بھی کیا تھا۔اس روایت کے بارے میں نہ تو اتنے وثوق سے کہا جاسکتا ہے اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے۔سب سے مستند حوالہ اس حدیث مبارکہ کا ہے جس پر تاریخ غلاف کعبہ کے تمام مورخین نے اتفاق کیا ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے220برس قبل یمن کے بادشاہ تبع ابوکرب اسعد(عہدحکومت420ء تا 425ء )نے خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ شریف پر غلاف چڑھا رہا ہے یہ خواب اس نے کئی بار دیکھا ۔ایک جنگ سے واپسی پر وہ مکہ مکرمہ سے گزرا تو اسے اپنا خواب یاد آیا۔ چنانچہ اس نے یمن سے قیمتی کپڑے کا غلاف بنوا کر خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ اسعد نے پہلی بار درکعبہ مشرفہ کیلئے ایک تالااور چابی بنوائی۔شاہ اسعد کے بعد یمن کے ہر بادشاہ نے یہ سعادت حاصل کی اور ہر بادشاہ نے کعبہ شریف کیلئے غلاف بنوایا۔مورخین کی نظر میں یہ واقعہ اس لئے زیادہ درست ہے کہ ایک بار کچھ لوگ اسعد نامی بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ حضور اکرم صلعم نے فرمایا کہ اسعد حمیری کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا۔ یہ غلاف سرخ دھاری دار یمنی کپڑے سے بنایا گیا تھا۔ قریش مکہ ہر سال دس محرم کو کعبے کا غلاف بدلتے تھے اس دن وہ احترام کی خاطر روزہ بھی رکھتے تھے۔
زمانہ جاہلیت میں خالد بن جعفر بن کلاب نے کعبہ پر پہلی مرتبہ دیباج کا غلاف چڑھایاتھا اسکی لاگت تمام قبائل قریش میں تقسیم کی گئی تھی اس وقت غلاف ٹاٹ،چمڑے اور دیباج وغیرہ سے تیار کئے جاتے تھے بنی مخزوم کے ابو ربیعہ ابن عبداللہ ابو بن عمر نے تجارت میں بے حد منافع کمایا تو اس نے قریش سے کہا کہ ایک سال کعبہ پر غلاف میں چڑھایا کروں گا اور ایک سال تمام قریش مل کر یہ فریضہ انجام دیں گے چنانچہ اس کے مرنے تک یہی معمول رہا۔زمانہ جاہلیت میں بھی حضور اکرم صلعم کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا آپکے جد امجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی تیاری کیلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تا کہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں اور کوئی قبیلہ اس سعادت سے محروم نہ رہ رہے۔
اپنے خرچ پر غلاف کعبہ چڑھانے کا شرف عباس بن عبدالمطلب کی والدہ کو بھی حاصل ہوا تھا۔ بچپن میں جب ایک بار حضرت عباس اپنے گھر کا راستہ بھول گئے تو ماں نے منت مانگی کہ عباس گھر آجائیں تو وہ غلاف نذرکریں گی۔ چنانچہ حضرت عباس جب گھر سلامتی سے تشریف لائے تو انہوں نے یہ منت پوری کی۔اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی غلاف کعبہ کو ذاتی اور اجتماعی طور پر بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت سے 5 سال پہلے کعبہ کی تعمیر نو کی تو بڑے اہتمام سے غلاف بھی چڑھایا۔
فتح مکہ کے بعد جب حضور صلعم نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو اس وقت آپ نے غلاف کعبہ کو تبدیل نہیں کیا تھا۔انہی دنوں ایک عجیب واقع پیش آیا۔ایک مسلمان خاتون غلاف کعبہ کو صندل کی خوشبو میں بسانے کا اہتمام کر رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا سے آگ غلاف کعبہ کے پردے پر پڑی اور اس پردے میں آگ لگ گئی جو مشرکین مکہ نے ڈالا تھا۔فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرم نے یمن کا تیار کیا ہوا سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا۔بعدمیں یہ غلاف عید الفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔بعد ازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا نو اور دس ہجری میں آپ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں حضور اکرم صلعم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔
حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔حضرت عبداللہ بن زبیر اور حجاج بن یوسف نے دیباج کے بنے غلاف چڑھائے ،خلفاء ابن عباس نے اپنے500 سالہ دورحکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر مکہ مکرمہ روانہ کئے۔عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ بنوانے میں خصوصی دلچسپی لی اور اس کو انتہائی خوبصورت بنایا۔خلیفہ ہارون الرشید نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو تبدیل کرنے کا اہتما م کیا مامون الرشید نے سفیدرنگ کا غلاف چڑھایا تھا۔خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا لیکن پھر اس نے سیاہ ریشم سے تیار کروایا اس کے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا آرہا ہے ،البتہ اوپر ذری کا کام ہوتا ہے۔۱۴۰ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔
751ہجری میں مصر کے بادشاہ منصور بن ناصر نے غلاف کی تیاری پر اٹھنے والے مصارف کیلئے قاہرہ کے چند دیہات کی آمدنی وقف کر دی تھی۔وہ ہر سال بڑے تزک و احتشام اور اہتمام سے غلاف کعبہ تیار کروا کر مکہ مکرمہ روانہ کیا کرتا تھا۔روانگی کے موقع پر بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔غلاف کو محل میں رکھ کر عوام کو دیدار کروایا جاتا اور جلوس نکالا جاتا تھا اور جب غلاف مکہ مکرمہ پہنچتا تو اس کا شاندار استقبال کیا جاتا۔761ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔
سورہ آل عمران کی آیات 96/97 سورہ مائدہ کی آیت 97 اور سورہ بقرہ کی آیات 128/127 تین اطراف کاڑھی جاتی ہیں۔چوتھی طرف غلاف بھیجنے والے فرمانروا (بادشاہ) کا نام ہوتا تھا۔810ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں جاذب نظر بنایا جانے لگا جیسا کہ آج بھی نظر آتا ہے۔مصر پر سلطنت عثمانیہ کے قبضے کے بعد سلمان اعظم نے مزید 7 گاؤں کی مزید آمدنی غلاف کعبہ کیلئے وقف کر دی۔19ویں اور 20 ویں صدی عیسوی کے اوائل تک غلاف کعبہ مصر ہی سے تیار ہو کر آیا کرتا تھا۔یہ قاہرہ کے ایک خصوصی کارخانہ میں بنایا جاتا تھا جو صرف غلاف کعبہ ہی تیار کرتا تھا۔شوال کی 21 تاریخ کو غلاف تیار ہو کر مصر سے مکہ روانہ کیا جاتا ،یہ دن مصر میں چھٹی کا دن ہوتا تھا مصر میں یہ دن ایک بہت بڑے تہوار کے طور پر منایا جاتا رہا۔محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد رنگ کا غلاف بھیجا۔سلمان دوم کے عہد حکومت سے غلاف مصر سے جاتا تھا۔جب اس رسم میں کچھ جدت کاریاں شامل کر لی گئیں تو سعودیہ عرب سے مصریوں کے اختلافات بڑھ گئے اور مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے انکار کر دیا گیا۔شریف حسین والی مکہ کے تعلقات مصریوں سے 1923ء میں خراب ہوئے۔
چنانچہ مصری حکومت نے غلاف جدہ سے واپس منگوا لئے۔1333ھ میں شریف حسین کا بنوایا ہوا غلاف پہلی جنگ عظیم چھڑ جانے کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکا۔ اسلئے مصری غلاف ہی چڑھانا پڑا ۔1927ء میں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کیلئے جلد ازجلد ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کیلئے غلاف کی تیاری شروع کر دیں۔چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کر کے ہندوستانی کاریگروں کی نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار ہونے والا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔مکہ میں قائم ہونے والی اس فیکٹری کا نام ‘‘دارالکسوہ ’’ تھا۔
1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔غلاف کعبہ کی تیاری میں دنیا کا سب سے بہترین کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔670 کلو گرام خالص سفید ریشم اور 720 کلو گرام مختلف رنگ اور اس کے رنگنے کیلئے استعمال ہوتے تھے۔ کل کپڑا تقریباً 660 مربع میٹر ہوتا تھا۔ پورا غلاف کعبہ 54 ٹکڑوں سے بنتا ہے اور ان میں ہر کاطول 14 میٹر اور عرض 95 سینٹی میٹر اور پورے غلاف کی پیمائش 2650 مربع میٹر ہوتی ہے جبکہ غلاف کی پٹی کا گھیر 45 میٹر اور ارض 95 سینٹی میٹر ہوتا ہے جو مختلف 16 ٹکڑوں کو ملا کر جوڑا جاتا ہے۔
خانے کعبہ کا دروازہ خالص سونے کا بنا ہوا ہے۔ اس کا پردہ نہایت دلکش جاذب نظر اور دیدہ زیب انداز میں بنایا جاتا ہے غلاف کے چاروں اطراف میں مربع شکل میں سورہ اخلاص کی کڑھائی کی جاتی ہے۔غلاف کعبہ کے اوپر قرآن کریم کی حج سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ اور اس کے نیچے اللہ سبحان تعالیٰ کے نام کاڑھے جاتے ہیں۔
آیات قرآنی کی کتابت خط ثلث میں شیخ عبدالرحیم بخاری نے کی۔ پان کے پتے کی شکل میں ‘‘یا حی یا قیوم’’ ،‘‘الحمد رب العالمین’’ اور اس کے نیچے تکون کی شکل میں ‘‘اللہ ’’، اس کے نیچے ‘‘یا حنان یا منان’’ اور اس کے نیچے سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم کڑھائی کیا جاتا ہے۔ کعبہ مشرفہ کی پٹی اور در کعبہ بنانے کیلئے 11 ماہ درکار ہوتے ہیں۔
بابِ کعبہ کی دائیں جانب اوپر کی ایک پٹی میں سنہری کڑھائی میں لکھا ہوا ہے کہ یہ غلاف خادم الحرمین الشریفین فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے مکہ میں تیار کرایا اور پیش کیا
18جنوری 1983ء کا دن غلافِ کعبہ کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور سنہری دن ہے۔اس دن شاہ فہد مرحوم نے اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت (نیویارک) کیلئے پوری ملت اسلامیہ کی جانب سے عطیہ کے طور پر در کعبہ کا پردہ پیش کیا۔یہ پردہ عمارت کے استقبالیہ کمرے میں نمایاں طور پر آویزاں کیا گیا ہے۔وہ پوری انسانیت کی بیت اللہ کی طرف سے امن و سلامتی اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے جب حجاج اکرام منیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو 9 ذی الحجہ کو نیا غلاف چڑھایا جا تا ہے۔پردوں کو رسوں سے باندھ کر اوپر اٹھا دیتے ہیں اور نیچے سے بیت اللہ شریف کے بڑے بڑے کالے رنگ کے پتھر دکھائی دیتے ہیں۔ غلاف کی سلائی اس طرح کی جاتی ہے کہ باب کعبہ حجراسود اور رکن یمانی کی جگی کھلی رہتی ہے۔
حج کے ایام میں غلافِ کعبہ کو آدھا اوپر اٹھا دیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بعض سادہ لوح لوگ غلاف سے لپٹ کر دھاگہ کاٹ لیتے تھے جن کو میت کی آنکھوں میں ڈالنے کیلئے لاتے تھے جو کہ ایک توہم پرستی ہے۔