۱۔ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی رفتار کی طرف لوٹ گیا جو آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت تھی (یعنی اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی زیادتی نہیں ہوئی لہذا) سال بارہ مہینہ کا ہے جس میں سے چار شہر حرم ہیں تین تو پے بہ پے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور قبیلہ مضر کا وہ رجب جو جمادی (الاخری) اور شعبان کے درمیان ہے۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 432)
۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز سب سے افضل ہے؟ اور رمضان کے مہینے کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے اور رمضان کے مہینے کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 262)
۳۔ عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ جب اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھنا چاہے تو رکھے اور جس کا جی نہ چاہے تو وہ نہ رکھے۔(بخاری جلد ۱ حدیث نمبر 1497 )
۴۔ ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں کہلا بھیجا جس نے صبح اس حال میں کی ہو کہ روزے سے ہو تو وہ اپنا باقی دن پورا کرے اور جو شخص روزہ دارنہ ہو تو وہ روزہ رکھے۔ ربیع کا بیان ہے کہ اسکے بعد ہم لوگ خود روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے اور ہم ان کے لئے روئی کی گڑیا دیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔ ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1838)
۵۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ بہتر دن ہے اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دی تھی، اس لئے حضرت موسیٰ نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تمہارے سے زیادہ موسیٰ کے حقدار ہیں۔چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1880)
۶۔ حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کی عزت وتکریم کرتے اور اس دن روزہ رکھتے دیکھاتورسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے (یہود سے) زیادہ حقدار ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے روزہ کا حکم دیا۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1125)
۷۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں قریشی لوگ عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے تو جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) جو چاہے عاشورہ کے دن روزہ رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 147)
۸۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس دن تو یہودی اور نصاری تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے۔( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 172)