زوال بندہ مومن کا

مصنف : اختر حسین عزمی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2012

            ‘‘اچھا یہ کیا ماجرا ہے کہ تمہارا بڑا بادشاہ چارلس مارشل نہ تو میدانِ جنگ میں ہمارے مدِمقابل آتا ہے نہ ہی ہمارے خلاف کسی دوسرے ملک کی مدد کرتا ہے؟’’ والئی اندلس عبدالرحمن الغافقی نے اپنے دربار میں حاضر فرانس کے سرحدی علاقے کے معاہدین کے ایک سردار سے باتیں کرتے ہوئے حیرت افزا لہجے میں سوال کیا۔

            غافقی جب سے سپین کے والی بنے تھے وہ جہاں مسلمانوں کے سرکردہ راہنماؤں اور فوجی کمانڈروں سے ملاقات میں ان سے تبادلہ خیال کرتے تھے وہاں وہ سپین کی غیرمسلم رعایا اور فرانس کے سرحدی علاقوں کے ان غیرمسلموں کے مسائل و معاملات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے تھے جنھوں نے مسلمانوں سے لڑے بھڑے بغیر صلح کرلی تھی اور اس کے نتیجے میں ان کی حکومت تو قائم تھی البتہ باہمی معاہدے کی رو سے وہ مسلمانوں کو اپنی اطاعت گزاری کا سالانہ خراج ادا کرنے کے پابند تھے۔ آج بھی فرانس کے سرحدی علاقے کے ایک معاہدسردار کے ساتھ والئی سپین نے دیگر معاملات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ فرانسیسیوں کی سوچ کو سمجھنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔‘‘جناب امیر! آپ نے ہم سے جو معاہدے کیے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے باوجود طاقتور ہونے کے انھیں نبھایا اور ہمیں اس بارے میں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ اس لیے آپ کا ہم پر یہ حق بنتا ہے کہ ہم بھی اس بات کا آپ کو صحیح جواب دیں جو ابھی آپ نے ہم سے پوچھی ہے۔’’ یہ کہہ کر اس نے چندلمحے توقف کیا اور پھر دوبارہ گویا ہوا‘‘تمہارے عظیم جرنیل موسیٰ بن نْصَیر نے جب پورے اسپین پر قبضہ کرنے کے بعد برنیہ کے ان پہاڑوں کی طرف چڑھائی کا قصد کیا جو فرانس کے خوبصورت شہروں اور اسپین کے درمیان حدِفاصل ہیں تو اس صورت حال کے پیشِ نظر مختلف ریاستوں کے والیان اور مذہبی راہنماؤں نے شاہ عظیم فرانس سے درخواست کی‘‘شاہ معظم! یہ کیسی رسوائی ہے جو مسلمانوں کی صورت میں ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ ہم تو اس بات سے خوفزدہ تھے کہ یہ مسلمان مشرق کی جانب سے ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ لیکن اب یہ مغرب کی جانب سے بھی ہم پر چڑھ آئے ہیں۔ وہ اپنی تھوڑی تعداد کے باوجود ان پہاڑوں پر قابض ہو رہے ہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان حدِفاصل ہیں۔ اب ہمارے پاس نہ تو جنگجو اور گھوڑے ہیں اور نہ ہی ایسا اسلحہ جو ان کے اسلحہ کا مقابلہ کرسکے۔’’بادشاہ نے ان عمائدین کی بات توجہ سے سنی۔ پھر ایک لمبی سانس بھری اور کہنے لگا ‘‘مسلمانوں کی جس یلغار کا ہمیں سامنا ہے، اس سے نبٹنے کے لیے میں نے اس مسئلے کے ہر پہلو پر غور کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فی الحال ہمیں اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں اپنی صلاحیتیں نہیں کھپانی چاہئیں۔ یہ مسلمان تو ایک ایسا سیلاب ہیں جو اپنی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو بہا کر لے جانے والا ہے۔’’کچھ دیر توقف کرتے ہوئے بادشاہ نے وفد کے ایک ایک فرد پر نگاہ ڈالی اور پھر گویا ہوا:‘‘میں نے ان مسلمانوں کو دیکھا ہے کہ یہ ایک مضبوط عقیدے اور عزم والی قوم ہیں۔ ان دو چیزوں نے انھیں کثرت و قلت کے حساب سے بے نیاز کررکھا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اخلاص کی دولت سے بھی بہرہ ور ہیں۔ یہ تینوں چیزیں ان کے اندر توانائی پیدا کردیتی ہیں جس کا نعم البدل گھوڑے ہوسکتے ہیں نہ اسلحہ۔ تمہیں میری یہ نصیحت ہے کہ فی الحال انھیں اپنی کارروائیاں کرنے دو۔ جب تک ان کے ہاتھ مالِ غنیمت سے اور ان کے خیمے غلاموں اور باندیوں سے بھر نہیں جاتے۔ جب ان کے دلوں میں مالِ غنیمت کی محبت رچ بس جائے گی، حوروقصور کی نازبرداریوں کے یہ عادی اور حصولِ اقتدار اور جاہ و منصب کے اسیر ہوجائیں گے تو تمہارے لیے آسان ہوگا کہ تم تھوڑی سی کوشش سے ان پر غالب ہوجاؤ۔’’ یہ سن کر عبدالرحمن غافقی نے سرجھکا کر گہرا سانس لیا اور مجلس برخواست کردی۔

٭٭٭

            بنواْمیہ کے درویش منش حکمران عمربن عبدالعزیز نے بارِخلافت اٹھاتے ہی والیان ریاست کی فہرست دیکھی اور اندلس اور اس کی سرحدات سے متصل مفتوحہ فرانسیسی علاقوں پر سمح بن مالک خولانی کو والی بنا دیا۔ بلادِاندلس کے امیر نے یہاں وارد ہوتے ہی خیر و صداقت کے مددگاروں کی تلاش شروع کردی۔ ایک دن انھوں نے اپنے قریبی افراد سے پوچھا:‘‘کیا یہاں کوئی تابعی زندہ ہیں؟’’

            ‘‘ہاں! امیرمحترم’’ بیک وقت کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ‘‘ہمارے ہاں ایک جلیل القدر تابعی عبدالرحمن الغافقی موجود ہیں۔’’ ‘‘انھیں کس صحابی سے مجلس کا شرف حاصل ہے؟’’ امیرالخولانی نے استفسار کیا۔‘‘وہ صحابی رسول حضرت عبداللہؓ بن عمر کے شاگرد اور ان کی سیرت کا پرتو ہیں۔’’ ایک آدمی نے جواب دیا۔‘‘آپ لوگوں نے انھیں کیسا پایا؟’’

            ‘‘وہ کتاب و سنت کے عالم، میدان جہاد کے شہسوار، شوق شہادت سے سرشار اور متاع دنیا سے بیزار انسان ہیں۔’’غافقی کے یہ فضائل سن کر امیراندلس کو ان سے ملاقات کا اشتیاق ہوا اور ایک دن انھیں اپنے گھر دعوت پر بلالیا۔عبدالرحمن غافقی جب آئے تو امیرالخولانی نے ان کا آگے بڑھ کر استقبال کیا اور انھیں اپنی مخصوص نشست گاہ پر اپنے ساتھ بٹھایا۔ دن کا ایک حصہ ان سے باتیں کرتے رہے۔ سپین کے حالات کے بارے میں مختلف معلومات لیں۔ بہت سے معاملات میں ان سے مشورہ بھی کیا۔ اس ساری گفتگو سے امیرالخولانی کو اندازہ ہوا کہ غافقی کے بارے میں لوگوں نے جو کچھ بتایا تھا وہ اس سے بھی زیادہ فہیم، متقی اور صاحبِ بصیرت انسان ہیں۔ جب مجلس برخاست ہوئی اور عبدالرحمن الغافقی جانے لگے تو امیر الخولانی نے انھیں کہا ‘‘میری خواہش ہے کہ اندلس کے امور چلانے میں آپ میری نیابت کریں۔’’ ‘‘امیرمحترم! میں تو ایک عام سا آدمی ہوں جو اس سعادت کو کافی سمجھتا ہے کہ اس کی آنکھیں اسلامی سرحد کی حفاظت کے لیے جاگتی ہوں۔ میں نے تو یہ تلوار کلمۃاللہ کی سربلندی کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ جب تک آپ راہِ حق پر چلتے رہیں گے، کسی عہدہ و منصب کے بغیر ہی آپ مجھے اپنے سائے کی طرح پائیں گے۔’’ ‘‘لیکن یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ آپ ہمارے نائب کی حیثیت سے تفویض کردہ امور کو انجام دیں۔’’

٭٭٭

            پہلی صدی ہجری کے ان دنوں میں پورا یورپ ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اگرچہ براعظم یورپ کے اکثر لوگ دین عیسوی کے ماننے والے تھے لیکن ایک طرف مسیحی علما نے دین پر اپنی اجارہ داری اس طرح قائم کررکھی تھی کہ انھوں نے لوگوں کو دین کے علم سے بے بہرہ رکھ کر عوام کو باورکرا رکھا تھا کہ ان کی اْخروی نجات اس کے بغیر ممکن نہیں کہ وہ پادری کے سامنے اپنے گناہوں کاعتراف کرلیں۔ پادری کی نظر عنایت کے حصول کے لیے عوام الناس بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے اور اس طرح خود کو شفاعت کا حقدار تصور کرکے مطمئن ہوجاتے اور عملی زندگی میں ہر طرح کی دینی ذمے داریوں کی ادائیگی سے خود کو آزاد کرلیتے تھے۔دوسری طرف جو بھی بادشاہ بنتا وہ عوام کو مٹھی میں رکھنے کے لیے مسیحی علما اور پادریوں کی خوشنودی کو ضروری سمجھتا۔ انھیں خوش رکھ کر وہ عوام پر ظلم و جبر کے لیے ان سے مذہبی فتووں کی سند حاصل کرلیتا۔ اس طرح عیسائی علما لوگوں کو یہ باور کرواتے کہ بادشاہ کا جبر برداشت کرنا مذہب کا تقاضا ہے۔ چرچ اور بادشاہ کے اس گٹھ جوڑ نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ جس کے باعث بہت سے مخلص لوگ چرچ سے بیزار ہو کر ظلم و جبر کا مقابلہ کرنے کے بجائے رہبانیت اور ترک دنیا کی طرف راغب ہو گئے اور انھوں نے جنگلوں کی راہ لی۔ اس طرح معاشرہ محض ظالم اور مظلوم میں بٹ کر رہ گیا اور مظلوم کی آواز بننے والا عنصر آہستہ آہستہ معاشرہ سے ناپید ہوگیا۔والئی اندلس سمح بن مالک الخولانی تک یورپ کے مختلف ملکوں کے مظلوم عوام کی سسکیاں اور چیخیں پہنچتی رہتی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ خیر اْمت اس لیے قرار دیے گئے ہیں کہ وہ انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کریں اور انھیں ظلم سے نجات دلائیں۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ سمح بن مالک الخولانی نے اہل فرانس کو بادشاہ اور پادریوں کے گٹھ جوڑ سے نجات دلانے کے لیے فرانس پر لشکرکشی کا ارادہ کیا۔ اس ہدف کو پانے کے لیے سب سے پہلے اربونہ شہر پر قبضہ ضروری تھا۔ یہ شہر فرانس کے ان بڑے شہروں میں سے تھا جس کی حدود بلادِاندلس کے ساتھ ملتی تھیں۔ والئی اندلس نے اربونہ کا محاصرہ کیا اور اہلِ شہر کو اسلام قبول کرلینے یا معاہدہ کرکے ماتحت ریاست کی حیثیت قبول کرنے کی پیش کش کی۔ انھوں نے دونوں پیشکشوں کو ٹھکرادیا۔ ان کا جواب پا کر مسلمانوں کے لشکر نے شہر پر منجنیقوں سے سنگ باری شروع کردی۔ بالآخر ایک مہینے کی جنگ کے بعد یہ شہر مسلمانوں نے فتح کرلیا۔اب اس فاتح لشکر نے فرانس کے صوبہ اوکتانیہ کے دارالحکومت تلوس کا محاصرہ کیا اور انھیں قبول اسلام یا باجگزار ریاست بننے کی دعوت دی۔ ان کے انکار پر شہر پر ایسی سنگ باری کی کہ اس سے قبل یورپ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب اوکتانیہ کے ڈیوک کو اپنی شکست قریب نظر آئی تو اس نے اپنے پیغام رسانوں اور سفیروں کو یورپ کے کونے کونے میں پھیلادیا۔ جنھوں نے ان ممالک کے بادشاہوں اور جاگیرداروں کو خوف دلایا کہ اگر تم مسلمانوں کے خلاف متحد نہ ہوئے تو تمہارے گھربار، عورتیں اور اولاد مسلمانوں کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ دوسری طرف اہل کلیسا کو باور کرایا کہ اگر مسلمان اس علاقے میں آگئے تو تمہاری مذہبی اور سیاسی اجارہ داری بھی قائم نہیں رہے گی۔ چنانچہ کلیسا کے پادریوں نے پوری قوم کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کردیا۔اوکتانیہ کے ڈیوک کی اس پکار پر پورے یورپ نے لبیک کہا اور اپنی اپنی فوجی قیادت اور جنگجو رضاکار اس جنگ میں جھونک دیے۔ اس جنگ میں مسیحی یورپ کی افواج کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ یورپ کی کسی جنگ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب دونوں فوجیں مدِمقابل ہوئیں تو یوں دکھائی دیتا تھا کہ گویا ۲ پہاڑ آپس میں ٹکرانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔

٭٭٭

            مسلمان جب سے یورپ میں وارد ہوئے تھے تلوس کا معرکہ وہ پہلا واقعہ ہے جس نے مسلمانوں کو گہرا زخم دیا۔ فرانس کی سرزمین پر مسلمانوں کی اس شکست سے خلافت اسلامیہ کو شدید صدمہ لاحق ہوا۔ سمح بن مالک الخولانی کی شہادت نے مسلمانوں کے دلوں میں آتش انتقام کو سلگادیا اور غافقی نے یہ تہیہ کیا کہ وہ یورپ پر دوبارہ حملہ آور ہوں گے۔ مرکزِ خلافت دَمِشق سے پھر عبدالرحمن غافقی کو والئی اندلس مقرر کیا گیا اور فرانس کے مفتوحہ علاقوں کی نگرانی بھی انہی کے سپرد کردی گئی۔ انھوں نے اندلس کی ولایت ملنے کے بعد مسلم عساکر کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کیا۔ انھیں احساس فتح سے سرشار کیا۔غافقی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جو قوم اپنے نظریاتی قلعوں کی حفاظت نہیں کرتی وہ زمینی قلعوں کو بھی فتح نہیں کرسکتی۔ اس لیے وہ عظیم معرکوں میں کامیابی کے لیے صلوٰۃ و اذکار و عقائد اور تزکیہ نفس کو ضروری سمجھتے تھے۔ دوسری قوموں کو ظلم سے روکنے کے لیے جہاد کے علاوہ خود اپنے معاشرے میں بھی ظلم کو روکنا ضروری ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی ولایت میں یہ اعلان کردیا کہ کسی بھی شخص کو اگر کسی امیر یا قاضی سے کوئی شکایت ہو تو وہ اسے والئی اندلس کے پاس پیش کرے۔انھوں نے یہ بھی اعلان کردیا کہ مسلمانوں اور معاہدین (غیرمسلم اطاعت گزار رعایا) میں کوئی فرق نہیں۔ انھوں نے ایک ایک شکایت کا جائزہ لیا۔ کمزور کو طاقتور سے حق دلایا۔ مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا، غصب شدہ گرجوں کی تحقیق کرکے عیسائیوں کو واپس دلوایا۔ عاملین حکومت میں سے جس کی خیانت سامنے آتی، اسے معزول کردیتے اور سرکاری رقوم واپس لیتے۔جس جگہ جاتے وہاں نماز باجماعت میں لوگوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیتے۔ ان کی شکایات کا ازالہ موقع پر کرتے اور ان کے شوق شہادت اور جذبہ جہاد کو مہمیز دیتے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ سلطنت کی عسکری ضرورتوں اور عوام کی ضرورتوں سے بھی غافل نہ تھے۔ انھوں نے اوّل روز سے ہی اسلحہ کی فراہمی، چھاؤنیوں کی بہتری، قلعوں کی تعمیر اور پْلوں کی مضبوطی پر توجہ دی۔ اپنے عہد ولایت میں انھوں نے جو پل تعمیر کیے ان میں سب سے بڑا پل اندلس کے دارالحکومت قرطبہ کا پل ہے جو دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس پل کی لمبائی ۴۲۰۰ فٹ، اونچائی ۱۲۰ فٹ اور چوڑائی۰ ۶ فٹ ہے۔ اس کے ۸۱ درے اور ۹۱ ستون ہیں۔سپین آج تک اس پل سے مستفید ہو رہا ہے۔عبدالرحمن غافقی نے دشمن سے پنجہ آزمائی کے لیے ۲ سال بھرپور تیاری کی۔ افواج اور رضاکاروں کے عزائم کو مہمیز دی۔ ان کے دلوں کو شوق شہادت سے آباد کیا اور پھر والئی افریقہ سے مدد طلب کی جس نے جذبہ جہاد سے سرشار افواج کو مدد کے لیے روانہ کیا اور پھر انھوں نے وزیرِ سرحدات عثمان بن ابی نسعہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اوکتانیہ کے سرحدی علاقے پر حملہ کرکے اسے مشغول رکھے تاکہ وہ خود اپنے لشکر کے ساتھ دوسری طرف پیش قدمی کرکے فرانس پر اچانک حملہ آور ہو سکیں۔

٭٭٭

            رات تاریکی کی چادر اوڑھ چکی تھی۔ عثمان بن ابی نسعہ اپنے کمرے میں فانوس کی روشنی میں بے چینی کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ کچھ دیر سوچتے سوچتے رک جاتا۔ پھر میز کی طرف بڑھتا، اور والئی اندلس کے خط کو پڑھنا شروع کردیتا۔ اسے واپس رکھ دیتا پھر ٹہلنا شروع کردیتا۔ اس کے اندر کا اضطراب اس کے چہرے پر عیاں تھا۔ ‘‘کیا بات ہے آج سپین کے امیر آرام نہیں فرمائیں گے؟’’ عثمان بن نسعہ کی فرانسیسی بیوی مینین اپنے حسن کی بجلیاں گراتی ہوئی اس کمرے میں داخل ہوئی جس میں عثمان سرکاری اْمور انجام دیتا تھا۔ ‘‘اوہو آپ تو مجھے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ کیا بربر بیوی کی یاد ستا رہی ہے؟’’ مینین نے اٹھلاتے ہوئے سوال کیا۔‘‘نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔’’ عثمان نے جواب دیا۔

            ‘‘تو آخر وہ کون سی بات ہے جس میں میں اپنے سرتاج کی ہمراز نہیں بن سکتی؟’’ مینین نے عثمان کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘والئی اندلس کا خط آیا ہے۔’’ عثمان نے کہا۔‘‘کیا لکھا ہے اس بڈھے نے جس سے وزیرسرحدات کو پریشانی لاحق ہوئی ہے۔’’ مینین نے حقارت سے ناک سکیڑتے ہوئے کہا۔‘‘جو پریشانی مجھے لاحق ہے یہ پڑھو گی تو تمھیں بھی لاحق ہوجائے گی۔’’ یہ کہتے ہوئے عثمان نے وہ سرکاری خط اپنی فرانسیسی بیوی کے سامنے کردیا جسے اس نے بڑی توجہ سے پڑھنا شروع کیا۔

            عثمان بن ابی نسعہ طویل عرصے سے سپین کے سرحدی علاقے کی نگرانی کرتا چلا آرہا تھا۔ اس سے پہلے وہ ۵ مہینے پورے سپین کا والی بھی رہ چکا تھا۔ بعد ازاں مرکز خلافت دمشق نے اسے عوام کی شکایت پر اس منصب سے معزول کرکے اندلس کے شمالی سرحدی صوبہ کا عامل مقرر کردیا۔ والئی اندلس کے ماتحت ایک چھوٹے سے عامل کی حیثیت پر وہ قانع نہ تھا۔ وہ اس فکر میں رہتا تھا کہ وہ کسی طرح خودمختار حکومت قائم کرے۔ وہ چونکہ افریقہ کے بربر قبائل سے تعلق رکھتا تھا اس لیے اسے عربوں سے بھی کوئی ہمدردی نہ تھی بلکہ انھیں رقابت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا۔اس نے فرانس پر اپنے حملے کے دوران اور تو کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھائی البتہ ایک کامیابی ضرور حاصل کی تھی کہ صوبہ اوکتانیہ کے ڈیوک کی حسین و جمیل بیٹی مینین کو اپنے حبالہ عقد میں لے آیا تھا۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس عمل میں صرف عثمان کی خواہش ہی کام کر رہی تھی یا ڈیوک کی اپنی ضروریات کا دخل بھی تھا۔ ڈیوک آف ایکیوٹین جو ملک فرانس کے ایک بڑے حصے پر قابض تھا، گاتھ قوم کا بادشاہ تھا۔ جنگ طولون کے بعد شمالی فرانس کے بادشاہ چارلس مارشل سے وہ پرخاش رکھتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو چارلس کے مقابلے میں طاقتور بنانے کے لیے اس بات کا خواہش مند ہوا کہ اپنے ہمسایہ مسلمان عامل کو اپنا ہمدرد بنا کر اپنے رقیب کو نیچا دکھائے۔ چنانچہ ڈیوک نے عثمان سے خط وکتابت اور تحائف کے ذریعے دوستی کی بنیاد قائم کی اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈیوک نے اپنی نہایت حسین و جمیل اور شہرہ آفاق شہزادی مینین کی شادی عثمان کے ساتھ اس شرط پر کردی کہ عثمان اسے مسلمان ہونے پر مجبور نہ کرے گا۔یہ پری پیکر شہزادی حسن و جمال کے ساتھ ساتھ شاہی تربیت اور ذہانت کا بھی حسین امتزاج تھی۔ اس کے حسن و جمال اور انداز و اطوار کو دیکھ کر عثمان نقد دل ہار بیٹھا۔ اس کے دل میں شہزادی مینین نے ایسا مقام حاصل کرلیا کہ اسے اس کے سوا دنیا کی کوئی چیز عزیز نہ رہی۔ شہزادی مینین نے اپنی شیریں کلامی اور تدبیر سے عثمان کو قائل کرلیا کہ وہ اس کے باپ سے باقاعدہ معاہدہ امن کرلے۔ عثمان بن ابی نسعہ نے والئی اندلس کے علم میں لائے بغیر اس سے ایک معاہدہ کرلیا جس میں اس کے علاقے کو جو اندلس کی سرحدوں سے متصل تھا، مسلمانوں کے حملوں سے محفوظ قرار دیا گیا۔‘‘اچھا تو پھر اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟’’ شہزادی مینین نے خط میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔‘‘یہی تو پریشانی ہے کہ خط کا کیا جواب دوں؟’’ ابن ابی نسعہ نے خود کو ایک کرسی پر گراتے ہوئے کہا۔‘‘اس پریشانی کا حل تم نے اکیلے نکالنا ہے یا مجھے بھی کسی مشورے کے قابل سمجھتے ہو؟’’ شہزادی نے جملے کے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بڑے ناز سے کہا۔‘‘جانِ من! تم تو جانتی ہو کہ جب سے تم میری شریک زندگی بنی ہو، میں نے کوئی بھی اہم فیصلہ تمھاری مشاورت کے بغیر نہیں کیا۔’’ عثمان نے کھڑے ہو کر شہزادی مینین کا ہاتھ پکڑ لیا۔‘‘تو پھر لکھ دو کہ تم نے اوکتانیہ کے ڈیوک سے معاہدہ کیا ہوا ہے جس کی خلاف ورزی تم نہیں کرسکتے۔’’‘‘یہ بات تو میں لکھ دوں لیکن والئی اندلس کے عتاب سے ڈرتا ہوں۔’’‘‘کیا والئی اندلس کا عتاب ہماری محبت سے زیادہ طاقتور ہے۔’’ شہزادی مینین نے حتمی وار کیا۔

            ‘‘نہیں ایسی بات نہیں’’ ‘‘محبت تو امتحان لیتی ہے’’ شہزادی نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔‘‘شہزادی! میں والئی اندلس کے عتاب کا بھی مقابلہ کرسکتا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ قوم کا غدار نہ کہلاؤں۔’’‘‘تمھیں اپنی قوم کی کتنی فکر ہے۔ کیا میں نے تمھاری قوم کی دشمنی کے باوجود اپنے ہم مذہب شہزادوں کو تمھاری محبت میں ٹھکرا نہیں دیا؟’’ شہزادی مینین نے وارفتگی سے اپنے بازوؤں کو پھیلا دیا۔

٭٭٭

            والئی اندلس عبدالرحمن غافقی نے عثمان کا خط پڑھا تو وہ غصے میں آگئے۔ انھیں عثمان سے اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ عثمان کے یہ الفاظ ان کے دماغ میں ہتھوڑا بن کر برس رہے تھے:‘‘میں نے اوکتانیہ کے ڈیوک سے معاہدہ کیا ہواہے جسے مدت کی تکمیل سے پہلے نہیں توڑ سکتا۔’’والئی اندلس نے اپنے کاتب کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ وزیرِسرحدات کے نام خط لکھے کہ جو معاہدہ تو نے اپنے امیر کو بتائے بغیر کیا ہے میں اس کا پابند نہیں ہوں اور نہ ہی مسلمان افواج اس کی پابندی کریں گی۔ تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ تو کسی تردد و تامل کے بغیر میرے حکم کی تعمیل کرے۔’’ عثمان بن ابی نسعہ کو جب یقین ہوگیا کہ والئی اندلس اپنے عزم سے ٹلنے والے نہیں تو اس نے خفیہ طور پر ایک قاصد اپنے سسر کی طرف اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا کہ والئی اندلس اس پر حملہ آور ہونے والا ہے، وہ اپنا بچاؤ کرلے۔ والئی اندلس کے جاسوس ابن ابی نسعہ کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے دارالحکومت میں یہ خبر پہنچا دی کہ ابن ابی نسعہ دشمن سے مل چکا ہے۔ عبدالرحمن غافقی نے ایک بہادر کمانڈر کی سربراہی میں ایک جنگجو دستہ اس حکم کے ساتھ روانہ کیا کہ ابن ابی نسعہ کو زندہ یا مردہ میرے پاس لاؤ۔

٭٭٭

            رات کے آخری پہر عثمان بن ابی نسعہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ اسے دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔ ‘‘حضور دروازہ کھولیے۔’’ یہ آواز ابن ابی نسعہ کے خاص دربان کی تھی۔ اس کی آواز کی گھبراہٹ نے اسے کسی پیش آمدہ خطرے سے آگاہ کردیا تھا۔ وہ تلوار سونت کر دروازے پر آیا اور آواز دے کر پوچھا:‘‘کیا بات ہے؟’’‘‘حضور دروازہ کھولیں تو میں کچھ عرض کروں۔’’عثمان نے دروازہ کھولا تو دربان اندر آیا اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔‘‘حضورادھر قلعہ کے صدر دروازے پر کچھ افراد نے پہریداروں کو قابو کرلیا ہے اور وہ ان سے آپ کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ بول چال سے تو وہ مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔‘‘وہ کتنی تعداد میں ہیں۔’’ عثمان نے پوچھا۔‘‘اندر تو ابھی آٹھ دس ہی تھے لیکن انھوں نے چابیاں لے کر فوراً صدردروازہ کھولا اور کچھ مشعلیں جلائیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ باہر اور بھی لوگ ہیں۔‘‘ٹھیک ہے تم مکان کے باہر موجود پہریداروں کو خبردار کرو کہ وہ گھوڑے تیار کریں اور مسلح ہوجائیں۔’’عثمان بن ابی نسعہ کی چھٹی حِس نے اسے خبردار کردیا کہ ضرور والئی اندلس نے اس کی گرفتاری کے لیے لشکر روانہ کیا ہے۔ اس نے جلدی جلدی اپنی بیوی کو خبردار کیا۔ پھر اپنی بیوی اور چند وفادار ملازموں کو ساتھ لیا اور خفیہ راستے سے جنگل کی راہ لی اور اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں میں جا چھپا۔ لشکر نے جب مکان کو خالی پایا تو امیر لشکر نے چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ اسے قلعہ کے کونے کونے میں تلاش کریں اور خود اس کا کھوج لگانے کے لیے پہاڑوں کی طرف نکل گیا اور بالآخر صبح کی روشنی میں اسے جا لیا۔عثمان نے اپنی بیوی کا اس طرح دفاع کیا جیسے شیرنی اپنے بچوں کا دفاع کرتی ہے۔ اس کے جسم پر نیزوں، تیروں اور تلواروں کے بے شمار زخم تھے۔ وہ زخموں سے نڈھال حالت میں بھی ایک زخمی شیر کی طرح مقابلہ کررہا تھا۔ بالآخر ایک سپاہی کی تلوار نے اس کا سرتن سے جدا کردیا۔ اس کی بیوی کو گرفتار کرکے والئی اندلس کی طرف روانہ کردیا گیا۔ امیراندلس نے جب شہزادی مینین کے حسن و جمال کو دیکھا تو فوراً نظریں نیچی کرلیں۔ پھر اسے بطور ہدیہ دمشق کے دربارِخلافت میں بھیج دیا۔اوکتانیہ کے ڈیوک کو جب اپنے داماد کے قتل اور بیٹی کی گرفتاری کی خبر ملی تو اس نے بھانپ لیا کہ اب طبل جنگ بج چکا ہے۔ اسے یہ یقین ہوگیا کہ عبدالرحمن غافقی کسی بھی وقت اس کی سلطنت میں آ نکلے گا۔ لہٰذا اس نے ایک ایک بالشت زمین کا دفاع کرنے کا عزم کیا۔ اسے یہ خوف تھا کہ وہ بھی اپنی بیٹی کی طرح گرفتار کرکے دربارِخلافت میں پہنچا دیا جائے گا۔والئی اندلس نے اس کے خدشے کو غلط نہ رہنے دیا۔ وہ ایک لاکھ نفوس کا ایسا لشکر لے کر روانہ ہوئے جس کے ہر فرد کے پہلو میں شیر کا دل اور چیتے کا جگر تھااس لشکر نے دریائے رون کے کنارے واقع شہر آرلس کے باسیوں سے اس کی بدعہدی کا حساب چکانا تھا۔ جب مسلمان کمانڈر سمح بن مالک خولانی کے ساتھ اہل شہر نے مصالحت کرلی تھی لیکن جب امیرالخولانی معرکہ تلوس میں شہید ہوگئے اور مسلمان وقتی طور پر کمزور ہوگئے تو اہل آرلس نے معاہدہ اطاعت توڑ دیا اور جزیہ دینے سے انکار کردیا۔عبدالرحمن غافقی نے عیسائی افواج کو مقابلے کے لیے تیار پایا لیکن غافقی کے ساتھ جو مجاہد میدان میں اترے تھے، وہ زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرنے والے تھے۔ لہٰذا دشمن کی صفیں الٹ گئیں اور حالت جنگ میں ہی مسلمان فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ ڈیوک اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ جان بچا کر فرار ہوگیا اور دوسری بار ٹکر لینے کی تیاری کرنے لگا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو اتنا مالِ غنیمت حاصل ہوا کہ اس کااندازہ محال تھا۔عبدالرحمن غافقی کے لشکر نے دریائے گیرون عبور کیا اور فاتح فوج کے دستے صوبہ اوکتانیہ کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ شہر اور بستیاں مسلمانوں کے سامنے یوں ہتھیار ڈالتی گئیں۔

             جیسے خزاں رسیدہ پتے درختوں سے جھڑتے ہیں۔ ڈیوک نے ایک بار پھر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن منہ کی کھائی۔ اب اسلامی عساکر صوبہ اوکتانیہ کے اس وقت کے دارالحکومت بورڈیکس پر حملہ آور ہوئیں۔ یہ پْرشکوہ شہر بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ بورڈیکس شہر سے جو مالِ غنیمت اسلامی لشکر کو حاصل ہوا اس نے سابقہ مالِ غنیمت کی کثرت کو لشکریوں کی نظر میں حقیر بنادیا۔چند مہینوں کے دورانیے میں ہی لیون، بیزونسون اور سینیں جیسے فرانس کے بڑے بڑے شہروں پر مسلمانوں کے قبضے نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب یورپ میں ہر جگہ دہائی دی جا رہی تھی کہ ہر کمزور اور طاقتور کا فرض ہے کہ وہ مشرق سے اٹھنے والے اس خطرے کے مقابلے میں نکل کھڑا ہو۔ پکارنے والوں کی اس پکار پر یورپ نے لبیک کہا اور یورپین افواج چارلس مارشل کی قیادت میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر اسلامی لشکر کے مقابلے پر آگئیں۔فرانس کا شہر تور اپنی آبادی کی کثرت، قیمتی آثارقدیمہ، تعمیرات کی مضبوطی، بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے گرجاگھروں کے اعتبار سے پورے یورپ میں ایک منفرد مقام اور امتیاز رکھتا تھا۔ چارلس مارشل کے دیکھتے دیکھتے یہ شہر مسلمانوں کے قبضے میں چلاگیا اور بے شمار مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ فتح و ظفر کے پیہم واقعات سے کمانڈروں کو نصرتِ الٰہی پر پختہ یقین پیدا ہوگیا۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات آنا شروع ہوگئی کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ انھیں یقین ہوگیا کہ ان کے لشکروں پر تھکن طاری نہیں ہوسکتی۔ یہ بات ان کے عقیدے کا حصہ بن گئی کہ ہم جہاں بھی جائیں گے، نصرت و غلبہ ہمارے ہمرکاب ہوگا۔ یورپ بھی ایشیا اور افریقہ کے مانند اسم محمد کے سامنے سرِاطاعت خم کردے گا۔ تمام انسانیت اپنے حقیقی معبود کی چوکھٹ پر سرجھکانے لگے گی۔ ان کا عزم تھا کہ وہ اپنے جسم وجان قربان کرکے اہلِ یورپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں گے۔

             اْس دور کے ایک فرانسیسی شاعر سودی کے الفاظ میں:

لاتعداد لشکر
عرب اور افریقی بربر
ایرانی، قبطی اور تاتاری
ایک جھنڈے تلے
عقیدے کی رسی میں پروئے ہوئے
شرارے کے مانند دہکتی حمیت
اخوت نے جن کو یکجا کیا۔

             بڑی بڑی فتوحات کے باعث لشکراسلامی کی پشت غنائمِ جنگ کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھی۔ عبدالرحمن غافقی اس کثرت دولت کو خطرہ محسوس کرتے تھے کہ کہیں دشمن سے مقابلے کے وقت اس سامان زندگی کی کشش انھیں شوق شہادت کے بجائے دنیاوی عیش و طرب کا دلدادہ نہ بنادے۔ وہ چاہتے تھے کہ لشکر کو مال و متاع چھوڑنے کا حکم دیں لیکن اس بات کے خوف سے یہ اقدام نہ کیا کہ مبادا یہ بات انھیں ناگوار گزرے۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سارے مال غنیمت کو چھاؤنیوں کے پیچھے خیموں میں جمع کردیں۔۴۰۱ ہجری کو ماہِ شعبان کے آخری عشرے میں عبدالرحمن غافقی نے بواتیہ شہر پر چڑھائی کی جہاں چارلس مارشل یورپی افواج کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں عظیم لشکر ۹ دن تک بے حس و حرکت پہاڑوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔ دونوں لشکر ایک دوسرے کی قوت کا اندازہ لگائے بغیر جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بالآخر جب غافقی نے دیکھا کہ اسلامی عساکر کے سینوں میں آتش حمیت و غیرت بھڑک رہی ہے اور وہ پیش قدمی کے لیے حکم کے منتظر ہیں تو انھوں نے اللہ کے توکل پر حملہ آور ہونے کا حکم دے دیا۔شام تک کوئی فریق بھی اپنی برتری ثابت نہ کرسکا۔ اگلی صبح مسلمانوں نے شدیدترین حملہ کیا مگر کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ ہوئی۔ ۷ روز تک یہی کیفیت رہی۔ آٹھویں روز مسلمان دشمن کی صفوں میں اتنے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے کہ جس سے ان کی فتح کے امکانات روزِروشن کی طرح واضح ہوگئے۔ ڈیوک آف ایکیوٹین اس سے پہلے بھی مسلمانوں سے جنگ کا تجربہ کرچکا تھا۔ اس لیے اس نے یہ چالاکی کی کہ اپنی فوج کو لے کر رات ہی سے مسلمانوں کی پشت پر چھپ کر بیٹھ رہا۔ ٹھیک اسی وقت جب عیسائی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں میدان چھوڑنے پر آمادہ ہوچکی تھی، اس نے اسلامی لشکر کے عقب سے حملہ کردیا۔مسلمانوں کے عقب میں ان کا کثیر مالِ غنیمت جمع کرکے رکھا ہوا تھا۔ مالِ غنیمت دشمن کے ہاتھ جاتے دیکھ کر بہت سے لشکری مال غنیمت کی بازیابی کے لیے میدانِ جنگ سے پلٹ گئے جس سے ان کی صفیں منتشر ہوگئیں۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر بطل اسلامی عبدالرحمن غافقی پیچھے پلٹنے والوں کو واپس موڑنے اور حساس جگہوں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اپنے گھوڑے پر اِدھر اْدھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک تیر ان کو آ کر لگا وہ گھوڑے کی پشت سے نیچے لڑھک گئے۔عظیم قائد کی شہادت نے مسلمانوں میں دہشت و اضطراب پیدا کردیا اور دشمن پر غلبہ حاصل کرنا انھیں مشکل دکھائی دینے لگا۔صبح ہوئی تو چارلس مارشل نے دیکھا کہ اسلامی لشکر بواتیہ چھوڑ کر جاچکا ہے لیکن چارلس مارشل کو تعاقب کی ہمت نہ ہوئی مبادا کہ شہر کا محاصرہ چھوڑنا مسلمانوں کی کوئی جنگی چال ہو۔ با لآخر یہ عظیم معرکہ ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یوں ایک عظیم جرنیل گنوا دینے کے بعد یورپ میں اسلام کے لیے کھلنے والے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔ اسلام نے پہلی صدی ہجری میں یورپ کے جن دروازوں پر دستک دی تھی، بعد کے ادوار میں وہاں سے آگے کوئی نہ پہنچ سکا۔