"لہو میں ڈوب رہی ہے فضا ارضِ وطن
میں کس زبان سے کہوں ’’جشن آزادی مبارک"
٭٭٭
شہر نامہ
وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دھواں دھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
مرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فلک کہ مشتِ غبار تھا
کہیں نغمگی میں وہ بین تھے
کہ سماعتوں نے سْنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیس نے بھی کہے نہیں
یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی
جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں قمقموں سے جوان تھے
یہاں چیونٹیاں ہیں خیمہ زن
یہاں جگنوؤں کے مکان تھے
کہیں آبگینہ خیال کا
کہ جو کربِ ضبط سے چْور تھا
کہیں آئینہ کسی یاد کا
کہ جو عکسِ یار سے دْور تھا
مرے بسملوں کی قناعتیں
جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مرے آہوؤں کا چکیدہ خوں
جو شکاریوں کو سراغ دے
مری عدل گاہوں کی مصلحت
مرے قاتلوں کی وکیل ہے
مرے خانقاہوں کی منزلت
مری بزدلی کی دلیل ہے
مرے اہلِ حرف و سخن سرا
جو گداگروں میں بدل گئے
مرے ہم صفیر تھے حیلہ جْو
کسی اور سمت نکل گئے
کئی فاختاؤں کی چال میں
مجھے کرگسوں کا چلن لگا
کئی چاند بھی تھے سیاہ رو
کئی سورجوں کو گہن لگا
مرے پاسباں ، مرے نقب زن
مرا مْلک مِلکِ یتیم ہے
مرا دیس میرِ سپاہ کا
مرا شہر مالِ غنیم ہے
یہاں روزِ حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روزِ جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت میں بھی شفا نہیں
احمد فراز
تیرے بعد (بحْضور قائدِ اعظم)
پْھول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد
غرق خوں ہے بہاروں کی رِدا تیرے بعد
آندھیاں خاک اْڑاتی ہیں سرِ صحنِ چمن
لالہ و گل ہْوئے شاخوں سے جْدا تیرے بعد
جاہ و منصب کے طلبگاروں نے یوں ہاتھ بڑھائے
کوئی دامن بھی سلامت نہ رہا تیرے بعد
جن کو اندازِ جنْوں تْو نے سکھائے تھے کبھی
وہی دیوانے ہیں زنجیر بپا تیرے بعد
کس سے آلامِ زمانہ کی شکایت کرتے
واقفِ حال کوئی بھی تو نہ تھا تیرے بعد
اب پکاریں تو کسے زخم دکھائیں تو کسے
ہم سے آشفتہ سر و شعلہ نوا تیرے بعد
پھر بھی مایوس نہیں آج تیرے دیوانے
گو ہر اک آنکھ ہے محرومِ ضیا تیرے بعد
راستے سخت کٹھن منزلیں دشوار سہی
گامزن پھر بھی رہے آبلہ پا تیرے بعد
جب کبھی ظْلمتِ حالات فضا پر برسی
مشعلِ راہ بنی تیری صدا تیرے بعد
آج پھر اہلِ وطن انجم و خورشید بکف
ہیں رواں تیری دکھائی ہوئی منزل کی طرف
احمد فراز
٭٭٭
ہم حرص و ہوا کے سوداگر، بیچیں کھالیں انسانوں کی
بْجھتے رہے روزن آنکھوں کے، بڑھتی رہی ضو ایوانوں کی
جلتی راہو! اْٹھتی آہو!
گھائل گیتو! بِسمل نغمو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
افکار کو ہم نیلام کریں، اقدار کا ہم بیوپار کریں
اِن اپنے منافق ہاتھوں سے خود اپنا گریباں تار کریں
ٹْوٹے خوابو! کْچلے جذبو!
روندی قدرو! مَسلی کلیو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
ہم نادیدے ناشْکروں نے ہر نعمت کا کْفران کیا
ایک آدھ سْنہری چھت کے لئے، کْل بستی کو ویران کیا
سْونی گلیو! خْونی رستو!
بچھڑے یارو! ڈْوبے تارو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
٭٭٭
بیواؤں کے سر کی نم چادر، خوش وقتوں کی بانات ہْوئی
جو تارا چمکا ڈْوب گیا، جو شمع جلائی رات ہْوئی
ہنستے اشکو! جمتی یادو!
دْھندلی صبحو! کالی راتو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
٭٭٭
کْچھ اور چمک اے آتشِ جاں، کْچھ اور ٹپک اے دل کے لہْو
کْچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کْچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈْوبے تارو!
دْکھیا ماؤں! اْجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
ضمیر جعفری
٭٭٭
یہ عید دل شکن ہے!
اے چاند آج تجھ کو ہم داغِ دل دکھائیں
برسوں سے رنج و غم کا جو حال ہے سْنائیں
یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں
ہیں ظلم و زیادتی کے سب ماہ و سال وہی
ہونٹوں پہ ثبت تشنہ لاکھوں سوال وہی
ٹوٹے دلوں کو خوشیاں کیا عید کی لبھائیں
یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں
زوروں پہ ڈاکے ناکے ، اس پہ ستم دھماکے
اس شہرِ بے اَماں سے کیا لائیں ہم کما کے
بے طاقتوں کو طاقت والے نہ چیر کھائیں
یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں
شیطان کی خطائیں اب تو لگیں ہیں چھوٹی
لگتی ہے زنگ خوردہ سچائی کی کسوٹی
معراجِ آدمیت پھر کس طرح سے پائیں
یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں
نجمہ یاسمین یوسف