بریڈ فورڈ

مصنف : سلطان مسعود احمد

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جولائی 2012

                میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں 45 سال رہنے کے بعد کچھ عرصے سے پاکستان آیا ہوا ہوں۔ بریڈفورڈ کو چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 5 لاکھ آبادی کے شہر میں تقریباً 70 ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ بعض محلے اور بازار پورے کے پورے پاکستانیوں کے ہیں۔ برطانیہ میں کم و بیش 10 لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔ تمام یورپ صفائی اور ایمانداری کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ میں برطانیہ کی بات کروں گا جہاں قانون کی نظر میں سڑک پر جھاڑو دینے والا اور وزیر ایک ہے۔ وہاں بااثر نام کا کوئی جانور نہیں پایا جاتا۔ رشوت، سفارش، ملاوٹ، گندگی، بے ایمانی، ناجائزتجاوزات، قبضہ گروپ وغیرہ جیسے الفاظ ڈکشنری میں ملتے ہیں وہاں نہیں۔ مجھے اپنی میٹرک کی اْردو کی کتاب میں غالباً مولانا الطاف حسین حالی کا ایک شعر آج بھی یاد ہے کہ ‘‘شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے، وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے۔’’ اسی طرح علامہ اقبال جب پی ایچ ڈی کرنے جرمنی گئے، تو اْن کے لکھے گئے خطوط میں یہ بات آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ ‘‘میں مسلمان تو تھا، مگر اسلام میں نے یہاں (مغرب میں) آکر دیکھا ہے۔’’برطانیہ میں حکومت اپنے باشندوں کی تعلیم، صحت، خوراک، رہائش وغیرہ کی ذمے دار ہوتی ہے۔ بیکار ہونے پر ہر شخص کو بے کاری الاؤنس ملتا ہے جو کہ اتنا ہوتا ہے کہ لوگ اس میں سے بھی بچت کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر آپ کو مفت دیکھے گا۔ بے روزگاروں،14 سال کی عمر تک کے بچوں، حاملہ خواتین اور ریٹائرڈ افراد کے لیے دوا بالکل مفت ہے۔ والدین کو ہر بچے کا 14 سال تک الاؤنس ملتا ہے۔ اگر آپ کرائے کے مکان میں رہ رہے ہوں اور بیکار ہوجائیں تو مقامی کونسل آپ کا کرایہ ادا کرے گی، چاہے جتنے سال بھی بیکار رہیں۔ ریٹائر ہونے پر دفاتر کے دھکے نہیں کھانے پڑتے، گھر بیٹھے آپ کی پینشن شروع ہوجاتی ہے۔ سردیوں میں بوڑھوں کو اپنے گھر گرم رکھنے کے لیے اضافی ۲۰۰ پاؤنڈ (۸۲ ہزار روپے) ملتے ہیں۔بات پھر بریڈفورڈ سے شروع کرتا ہوں۔بریڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر عمران خان ہیں، جو کہ۰۰۵ ۲ء میں چانسلر بنے تھے۔ اسی طرح میانوالی کی نمل یونیورسٹی کا الحاق بھی بریڈفورڈیونیورسٹی سے ہے اور سنیے! آج کل بریڈفورڈ کی لارڈ میئر پاکستانی نژاد خاتون نویدہ اکرم ہیں جو کہ اس سے پہلے پی آئی اے کے مقامی دفتر میں ملازم تھیں۔ شہر کی میٹروپولیٹن کونسل میں بے شمار کونسلر پاکستانی ہیں۔ 14 اگست کو بریڈفورڈ کے ٹاؤن ہال پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔ پورے برطانیہ میں سب سے پہلا پاکستانی لارڈمیئر کونسلر محمد عجیب بھی یہاں سے منتخب ہوا تھا اور سعیدہ وارثی کو کون نہیں جانتا، جو کہ موجودہ حکومتی کنزرویٹو پارٹی کی چیئرپرسن ہیں۔ اسی طرح لارڈنذیر احمد اور چوہدری سرور ایم پی اے بھی پاکستانی ہیں۔پی آئی اے کی ہفتے میں 2 پروازیں اسلام آباد سے لیڈز، بریڈفورڈ جاتی ہیں۔ یہ دونوں شہر تقریباً جْڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کا ہوائی اڈہ بھی مشترک ہے۔ بریڈفورڈ میں ۵۴ سے زائد مساجد ہیں اور ہمیں مذہب کی مکمل آزادی ہے۔ شہر میں سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی خواتین نقاب اور حجاب پہنے نظر آتی ہیں۔ سکولوں کالجوں میں پاکستانی بچیوں کو شلوارقمیص پہن کر آنے کی اجازت ہے۔ حلال گوشت کی درجنوں دکانیں ہر علاقے میں موجود ہیں اور یہودی بھی پاکستانی دکانوں سے حلال گوشت خریدتے ہیں۔میں حال ہی میں اڑھائی سال بعد ایک کام کے سلسلے میں واپس گیا تھا اور اپنے ہی شہر کو پہچان نہیں سکا۔ میری غیرموجودگی میں شہر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ شہر کے مرکز کو مزید انتہائی خوبصورت بنادیا گیا تھا۔ کوشش کے باوجود میں وہاں ماچس کی ایک جلی ہوئی تیلی تک نہیں ڈھونڈھ سکا۔ سگریٹ کا جلا ہوا ٹکڑا پھینکنے پر اسی پاؤنڈ (۱۱ ہزار روپے سے زائد) جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کتوں کو صبح شام ٹہلاتے ہوئے اْن کا فضلہ نہ اٹھانے پر ایک ہزار پاؤنڈ( ایک لاکھ ۴۰ ہزار روپے) جرمانہ ہے۔ اسی لیے کتوں کو باہر لے جاتے وقت اْن کا مالک اپنے ساتھ شاپر، چھوٹا سا بیلچہ اور بْرش رکھتے اور گند اٹھا کر قریبی کوڑے دان (ڈسٹ بِن) میں ڈالتے ہیں۔ صفائی کے اِس معیار تک پہنچنے کے لیے ہمیں عرضہ درازلگے گا۔برطانیہ میں ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھ کر انسان عش عش کر اٹھتا ہے۔ ہوائی جہاز کے ٹکٹ تو رہے ایک طرف، آپ بس کے ٹکٹ بھی گھر بیٹھے کمپیوٹر سے پرنٹ کرسکتے ہیں۔ بسیں ایسی صاف سْتھری اور آرام دہ کہ ہوائی جہاز کا گمان ہوتا ہے۔ ریل گاڑیاں 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں، جنھیں آیندہ چند برسوں تک 200 میل فی گھنٹہ کیا جا رہا ہے۔ (برطانیہ میں اعشاری نظام ہونے کے باوجود فاصلے اور رفتار میلوں میں ناپے جاتے ہیں۔)قانون پر عمل درآمد کا یہ حال ہے کہ ملکہ کی اولاد کو بھی قانون توڑنے پر جْرمانہ کیا جاتا ہے۔ شہزادی این سے کار تیزچلانے پر اْس کا لائسنس 6 ماہ کے لیے واپس لے لیا گیا تھا۔ وزیرِاعظم کو غلط جگہ کار پارک کرنے پر چالان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت اور بلدیاتی ادارے عوام کی زندگی کو محفوظ، آرام دہ اور آسان بنانے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ کوئی بچہ بھی اگر ایسی تجویز دے، جس سے مزید بہتری ہوسکے، تو نہ صرف اْسے فوراً اپنایا جاتا بلکہ بچے کو انعام اور سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا جاتا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو رہی ایک طرف، بجلی آنکھ تک نہیں جھپکتی۔ بے شمار کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں پاکستان سے سستی ہیں جبکہ برطانیہ میں ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ بھی ڈیڑھ، دو لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ پاکستانیوں کو برطانیہ میں نہ صرف ووٹ ڈالنے کا بلکہ سیاست میں حصہ لینے کا بھی حق حاصل ہے۔ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر اگر آپ سے کوئی ادارہ یا شخص کم تر سلوک کرے، تو عدالتیں بھاری جرمانے کی سزا دیتی ہیں۔پاکستان میں لاعلمی بلکہ کم علمی کی بنا پر یہ تاثر عام ہے کہ یورپ میں رہنے والے پاکستانی یا تو ہوٹلوں میں پلیٹیں دھوتے یا پٹرول پمپوں پر کام کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ برطانیہ آ کر دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی، جہاں پاکستانی زندگی کے ہر شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور حکومت بھی اِس بات کا بارہا اعتراف کرچکی ہے کہ پاکستانی برطانوی معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہاں گھریلوملازمین یا قاصد وغیرہ کا رواج نہیں ہے۔ چھٹی کے دن لان کی گھاس کاٹنا، کاردھونا، مکان کو رنگ روغن یا چھوٹی موٹی مرمت کرنا، بڑے سے بڑا آدمی خود کرتا ہے، اسی لیے وہاں لوگوں کی گردنوں میں سریا کہیں نظر نہیں آئے گا۔ برطانیہ کے تقریباً تمام بڑے شہروں سے اْردو کے اخبار اور جرائد شائع ہوتے ہیں، حد یہ ہے کہ حکومت کے بہت سے فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اْردو میں بھی چھپتے ہیں۔ کئی شہروں کے ریڈیوسٹیشن اْردو میں پروگرام نشر کرتے ہیں، جن میں سے

                بعض تو 24 گھنٹے اْردو کے گانے اور دیگر پروگرام نشر کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ کہاں تک سنو گے ، کہاں تک سناؤں!

٭٭٭