ج ۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول شرط ہے، یعنی ایک طرف سے کہا جائے کہ: ‘‘میں نے نکاح کیا’’ اور دْوسری طرف سے کہا جائے: ‘‘میں نے قبول کیا’’۔ ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے، تین بار کوئی ضروری نہیں، اور کلمے پڑھانا بھی کوئی شرط نہیں، مگر آج کل لوگ جہالت کی وجہ سے کفر کی باتیں بکتے رہتے ہیں، اس لئے بعض مولوی صاحبان کلمے پڑھادیتے ہیں تاکہ اگر لڑکے نے نادانی سے کبھی کلمہ کفر بک دیا ہو تو کم سے کم نکاح کے وقت تو مسلمان ہوجائے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج ۔ نکاح ایجاب و قبول سے ہوجاتا ہے، خطبہ اس کے لئے سنت ہے، دو گواہوں کا ہونا اس کے لئے شرط ہے۔ قاضی صاحبان جو کلمے پڑھاتے ہیں وہ کچھ ضروری نہیں، غالباً ان کلموں کا رواج اس لئے ہوا کہ لوگ جہالت کی وجہ سے بسااوقات کلماتِ کفر بک دیتے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ کفر زبان سے کہہ کر اسلام سے خارج ہو رہے ہیں۔ نکاح سے پہلے کلمے پڑھادئیے جاتے ہیں تاکہ خدانخواستہ ایسی صورت پیش آئی ہو تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیں تب نکاح ہو۔ بہرحال نکاح سے پہلے کلمے پڑھانا کوئی ضروری نہیں اور کوئی بْری بات بھی نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج ۔ ایک مرتبہ ایجاب و قبول سے بھی نکاح ہوجاتا ہے، تین مرتبہ دہرانا محض پختگی کے خیال سے ہوتا ہوگا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج - صرف ایک دفعہ کے ‘‘قبول ہے’’ سے بھی نکاح ہوجاتا ہے، اور لڑکی نے جب دستخط کردئیے تو گویا اپنی رضامندی سے مولوی صاحب کو وکیل بنادیا، اس لئے نکاح صحیح ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج - لڑکی کی طرف سے نکاح کی اجازت دی جاتی ہے، اور بغیر جبر و اکراہ کے دستخط کردینے سے بھی اجازت ہوجاتی ہے، اس لئے نکاح صحیح ہے، دستخط کرنے کے بعد لڑکی کا تین بار منہ سے ‘‘قبول ہے’’ کہنا ضروری نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج - غلط ولدیت نہیں لکھوانی چاہئے تھی، تاہم اگر مجلسِ نکاح کے حاضرین کو معلوم تھا کہ فلاں لڑکے کا نکاح ہو رہا ہے تو نکاح ہوگیا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج - شریعت نے کوئی کم سے کم وقفہ تجویز نہیں کیا، البتہ جلدی رْخصتی کی ترغیب دی ہے، اس لئے جہیز کی وجہ سے رْخصتی کو ملتوی کرنا غلط ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج ۔ ‘‘لڑکا ہر حیثیت سے لڑکی کے برابر ہو’’ اس سے مراد یہ ہے کہ دِین، دیانت، مال، نسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑکا، لڑکی سے کم تر نہ ہو۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج ۔ جناب نے ‘‘اسلامی مساوات’’ کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ بالکل دْرست اور بجا ہے۔ اسلام کسی کو کسی پر فخر کی اجازت نہیں دیتا، نہ رنگ و نسل، عقل و شکل اور برادری یا مال کو معیارِ فضیلت قرار دیتا ہے۔ لیکن اس پر بھی غور فرمائیے کہ ‘‘نکاح’’ اس مقدس رشتے کا نام ہے جو نہ صرف زوجین کو بلکہ ان کے تمام متعلقین کو بھی بہت سے حقوق و فرائض کا پابند کرتا ہے، اور ان تمام حقوق و فرائض کی ادائیگی نہ صرف میاں بیوی کی مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی پر موقوف ہے بلکہ دونوں طرف کے اہلِ تعلق کے درمیان باہمی اْنس و احترام کو بھی چاہتی ہے ۔ادھر انسانی نفسیات کی کمزوری کا یہ عالَم ہے کہ بہت ہی کم اور شاذ و نادر ایسے حضرات ہوں گے جو صرف ‘‘اِنَّ اَکرَمَکْم عِندَ اللہِ اَتقٰکْم۔’’ کے اْصول کو رشتہ ازدواج میں کافی سمجھیں، اور ان کی نظر نہ لڑکے، لڑکی کی عقل و شکل پر جائے، نہ تعلیم و تہذیب پر، نہ رنگ و نسب پر، نہ جاہ و مال پر۔ رشتہ ازدواج چونکہ محض ایک نظریاتی چیز نہیں، بلکہ زندگی کی امتحان گاہ میں ہر لمحہ اسے عملی تجربوں سے گزرنا ہوتا ہے اور اس رشتے سے بڑھ کر (اپنے عملی آثار و نتائج کے اعتبار سے) کوئی رشتہ اتنا نازک، اتنا طویل اور ایسے وسیع تعلقات اور ذمہ داریوں کا حامل نہیں۔ اس لئے اسلام نے جو صحیح معنوں میں دِینِ فطرت ہے انسانی فطرت کی ان کمزوریوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا، اور نہ وہ ایسا کرسکتا تھا، اس لئے اس نے اپنے ‘‘اْصولِ مساوات’’ کے مطابق جہاں یہ فتویٰ دیا کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح، بلاتمیز رنگ و نسل، عقل و شکل اور مال و وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے، وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے، تاکہ اس عقد کے نتیجے میں ناخوشگواریوں، تلخیوں اور لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔ یہ حاصل ہے اسلام میں مسئلہ کفو کی اہمیت کا۔ اس مختصر سی وضاحت کے بعد اب میں مسئلہ لکھتا ہوں۔ ایک اعلیٰ ترین خاندان کا فرد، اپنی فرشتہ سیرت اور حور شمائل صاحب زادی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی نومسلم حبشی کے ساتھ کردیتا ہے تو اسلام نہ صرف اس کا جائز رکھتا ہے، بلکہ اسے دادِ تحسین دیتا ہے۔ یہ تو ہوا اسلام کا اْصولِ مساوات۔ اب لیجئے دْوسری صورت: کہ ایک شریف اور اعلیٰ خاندان کی لڑکی صرف اپنے جوشِ عشق میں کسی ایسے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے، جو حسب و نسب، عزّو شرف، دِین و تقویٰ، علم و فضل، مال و جاہ کے لحاظ سے کسی طرح بھی اس کے جوڑ کا نہیں، اور یہ عقد والدین اور اقربا کی رائے کے علی الرغم ہوتا ہے، تو چونکہ رشتہ ازدواج میاں بیوی کو دو بکریوں کی طرح باندھ دینے کا نام نہیں، بلکہ اس کے کچھ حقوق و فرائض بھی ہیں، اور اسلام یہ دیکھتا ہے کہ ان حالات میں اس مقدس رشتے کے نازک ترین حقوق اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ادا نہیں ہوسکیں گے، اس لئے والدین اور اولیاء کی رضامندی کے بغیر اسلام اس بے جوڑ عقد کو ناروا قرار دے کر ان تمام فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا دروازہ بند کردینا چاہتا ہے، جو اس بے جوڑ عقد کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر جناب ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے تو مجھے توقع ہے کہ اسلام کا دِینِ فطرت ہونا بھی آپ پر کھل جائے گا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)