ملے جس سے قلب کو روشنی وہ چراغِ مدحِ رسول ہے
نہیں جس میں یاد حضور کی وہ تمام عمر فضول ہے
تجھے دل میں جس نے بسا لیا تجھے جس نے اپنا بنا لیا
یہ جہان اس کی نگاہ میں فقط اک سراب ہے دھول ہے
جو ترا ہوا وہ مرا ہوا جو ترا نہیں وہ مرا نہیں
یہ کلام حق کا ہے فیصلہ یہ خدا کا واضح اصول ہے
تری رفعتیں کروں کیا بیاں ترے معترف سبھی انس و جاں
ترا تذکرہ ہے جہاں جہاں وہاں رحمتوں کا نزول ہے
کبھی اس کا رنگ نہ اڑ سکا کبھی اس کی باس نہ کم ہوئی
مری شاعری کی جبین پر جو تمہاری نعت کا پھول ہے
اسے تخت و تاج سے کیا غرض اسے مال و زر سے ہے کام کیا
جو پڑا ہے طیبہ کی خاک پر جو گدائے کوئے رسول ہے
وہی شمعِ محفلِ کن فکاں وہی دو جہانوں کا ناز ہے
جہاں کوئی آس نہ جا سکا وہاں ان کے قدموں کی دھول ہے