خمینی و فردوسی کی سرزمین
مصنف: صاحبزادہ انوار احمد بگوی ، خانم فرحت احمد بگوی
ملنے کا پتا: الفیصل ناشران تاجران کتب اردو بازار لاہور
سوئے حرم پبلی کیشنز ۵۳ وسیم بلاک حسن ٹاؤن لاہور
قیمت: تین سو روپے
بہت عرصے بعد ایک ایسا سفر نامہ پڑھنے کو ملا ہے جو مصنف نے کسی لائبریری میں بیٹھ کر نہیں بلکہ حقائق کی سر زمین پر کھڑے ہو کر لکھا ہے۔یہ نہ توکسی تاریخی کتاب کا چربہ ہے اور نہ ہی دیگر سفرنامو ں سے چرائے جانے والے احوال کا مجموعہ بلکہ اس کا ہر ہر لفظ مصنف کا اپنا ہے۔ مصنف نے جو دیکھا، جو سنا اور جو سمجھا اس کو بلاکسی ادنیٰ تردد کے بیان کر دیا ہے اورہمار ے نزدیک یہی ایک اچھے سفر نامے کی خوبی ہوتی ہے ۔ قاری اس سے کیا تاثر لیتا ہے اس کی ثانوی اہمیت ہے اصل بات یہ ہے کہ مصنف کواپنے مشاہدے کے بیان میں دیانت دار اور سچا ہونا چاہیے ۔اور یہ خوبی زیر نظر سفر نامے میں بدرجہ اتم موجود ہے۔اگر مصنف ایران کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی احوال کے سادہ بیان پر اکتفا کرتے تو یہ بھی کافی تھا مگر مصنف کا مشاق اور ادیبانہ قلم جب ان احوال کا تقابل اپنے وطن سے کرتا ہے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ایران کی تصویر اور نمایا ں اورمزید اجلی ہو جاتی ہے بلکہ مصنف کی کڑھن ، درد دل اورحب الوطنی بھی واضح ہو جاتی ہے ۔محض سفر نامہ لکھ دینا ادب برائے ادب کی طرح ہے جس کا کوئی افادی پہلو نہیں۔اصل یہ ہے کہ سفر نامہ ہو یا کوئی اور تحریر ، اس کے اندر اپنے معاشرے کے لیے کوئی نہ کوئی علمی ، عملی یااصلاحی پیغام ہو نا چاہیے اس حوالے سے یہ سفر نامہ یقینا ایک نسخہ شافی ہے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ مصنف نے عرصہ دراز بیوروکریسی کی بھول بھلیوں میں گھومنے کے باوجود اپنے خاندان کی علمی روایت کو زنگ آلودنہیں ہونے دیا۔اور اس کی جھلک اس سفر نامے میں بھی صاف نظر آر ہی ہے ۔خاص طور پر جب مصنف شیعہ مذہب کے نظریات کو بیان کرتے ہیں تو صاف محسوس ہو تا ہے کہ مصنف ایک مضبوط اور گہرا علمی پس منظر رکھتے ہیں۔اور یہ چیز مصنف کی علمی دیانت کو بھی عیا ں کردیتی ہے کیونکہ مصنف اس بیان میں نہ تو افراط کا شکار ہوتے ہیں نہ ہی تفریط کا ۔اگرچہ مصنف کے تاثرات سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے مگر تاثرات تو تاثرات ہوتے ہیں، یہ کسی کے لیے نہ تو حجت ہوتے ہیں اور نہ ہی دلیل ،اس لیے ہم اس اختلاف سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ مصنوعی ، جعلی اور بناوٹی سفر ناموں کی دنیا میں یہ ایک حقیقی سفرنامے کا خوبصورت اضافہ ہے اور اسے پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ایرا ن کے لیے رخت سفر باندھا جائے مگراسباب کی عدم موجودگی سے بظاہر یہی عندیہ ملتا ہے کہ یہ خواہش بھی اُ ن ہزاروں خواہشات کی فہرست میں شامل ہوکر رہ جائے گی جن کے مستقبل قریب میں پورے ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں۔