تبصرہ کتب
مولانا محمد حسن امروہی۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
مولانا محمد اورنگ زیب اعوان
تبصر ہ، ابو عبداللہ علوی
برادرِ مکرم مولانامحمداورنگزیب صاحب اعوان نے اپنی تازہ محققانہ تصیف مولانا محمد حسن امرہوی ایک تعارف،ایک تجزیہ کمال شفقت سے ارسال فرمائی جو کہ بلاشبہ بندہء عاجز کیلئے تحفہ گراں مایہ ہے لیکن اسی کے ساتھ حضرت نے یہ برادرانہ فرمائش بھی فرمائی ہے کہ احقر اس محققانہ کاوش پر تبصرہ لکھے۔ من آنم کہ من دانم۔
بندہ عاجز کو اپنی کوتاہ علمی اور کم مائیگی کا پورا پوراادراک ہے لیکن دوسری طرف نہائت شفیق ومحترم ہستی کا حکم تو آخر کار پیکر شفقت و محبت کے سامنے سر تسلیم کرتے ہوئے خود کو تعمیل ارشاد پر آمادہ کرنا ہی پڑا۔ لہٰذا زیرِ نظر سطورکو تبصرہ کے بجائے طالب علمانہ جسارت ہی سمجھا جائے اور کسی مقام پر نقطۂ نظر کی کمزوری یا اسلوب وزبان میں کوتاہ نظری محسوس ہوتو ایک ادنیٰ و حقیر طالبعلم کی خطا قرار دیتے ہوئے صرف نظر فرمایا جائے۔
برادرِ محترم مولانامحمد اورنگزیب صاحب کی کتاب مولانا محمد حسن امرہوی ایک تعارف ،ایک تجزیہ کا پس منظریہ ہے کہ مولاناعبدالماجد دریا آبادی کی تصنیف نقوش و تاثرات حکیم الامت کے مطالعہ کے دوران انہیں ایک شخصیت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہوا تو اس شبہ کو دور کرنے اور اس گتھی کو سلجھانے کیا نکلے کہ مطالعہ کی حدود طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئیں تانکہ زیرِ نظر قلمی کاوش بلکہ بااعتبار حقیقی محققانہ شاہکا ر وجود میں آگیا۔
کتاب کامطالعہ کرتے ہوئے بندہء4 عاجز خود سے سوال کرتا رہا کہ کتاب بینی کے دوران کتنی ہی شخصیات اور موضوعات سے متعلق اشتباہ واستفسار پیدا ہوتا رہتاہے لیکن مجھ سمیت کتنے ہی لوگ ہیں جو مولانامحمد اورنگزیب کی طرح کوہ کنی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہوں اور توفیق ربّانی سے سرخرو ہوکر پلٹیں اور پھر صرف اسی پر بس نہ کریں بلکہ اپنی تحقیق کے ماحصل کو مربوط و مبسوط انداز میں علمی کارنامے کے روپ میں ڈھال دیں۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
ایم فل پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کی ضرورتِ ناگزیرکے تحت شخصیات پر تحقیق تو اکثر وبیشترنظر سے گزرتی رہتی ہے لیکن بندہ ناچیز کے محدود تر مطالعہ میں یہ پہلاموقع ہے کہ کسی پیشہ ورانہ منفعت کی ترغیب کے بغیر کوئی اہلِ علم عہد ماضی کی کسی علمی شخصیت پر پڑی زمانہ کی گرد کو جھاڑتے ہوئے باریک سے باریک پہلو پر مبنی مواد تلاش کرے اور اسے منصہ شہود پر لے آئے وما ذالک الاباِذن اللہ۔
کتاب پڑھتے ہوئے ذہن میں ایک دوست کی بات باز گشت کرتی رہی جو کہ انہوں نے عمرہ کی سعادت سے واپسی پر برسبیل تذکرہ سنائی تھی کہ بیت اللہ شریف میں دعائیں کرتے ہوئے ان کے ذہن میں ایسے ایسے لوگوں کے نام آتے رہے جن سے ملاقات ہوئے ایک عرصہ بیت گیا تھا حتیٰ کہ ایک ایسے دوست کی یاد بھی دورانِ دعا تازہ ہوئی جن کی وفات کو پندرہ سولہ برس گزر چکے تھے۔ ان کی بات کے حوالے سے احقر سوچا کرتا ہے کہ ربّ ذولجلال اپنے بندوں کی فلاح ونجات کے لیے کیسے کیسے اسباب پیدا فرمادیتے ہیں کہ ایک ہی موقع سے دو بندوں کا بھلا ہوجائے دعا کرنے والے کا بھی اور جس کے لیے دعا کا خیال حاشیہ خیال میں ڈالا جاتا ہے سبحانک فقناعذاب النّار.
مولاناکی زیرِ نظر کتاب بھی احقر کو کچھ اسی طرح کا منصوبہ ربّانی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح خیال سے جستجووتجسس کا طویل سفر شروع ہوتا ہے۔ ربّ ذوالجلال کی اس کائنات میں اتفاق نام کی کسی شے کا وجود نہیں ہے یہاں تو باریک سے باریک تر معاملہ بھی حکیم وعزیز ربّ اللعالمین کی حکمت وقدرت کا شاہکار ہوا کرتا ہے۔ گویا ربّ ذوالجلال نے موصوف کو یہ سعادت دی کہ مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی اور مفتی صدالدین صاحب دہلوی جیسے نابغہ روزگار اہل علم کے تلمیذ رشید اور حضرت حاجی نجم الدین صاحب جیسے پیکر صدق وصفا صاحبِ طریقت کے خلیفہ مجاز کے تذکرہ گم گشتہ کو ایک بار پھر اہلِ علم کے سامنے لاکر ذکر خیرکوتازہ اورعام کردیا جائے۔
برادر موصوف نے جس طرح رسم کوہ کنی نبھائی ہے حیرت ہوتی ہے کہ چالیس سے زائد کتب میں سے نحل مضطر کی طرح گوہر کشید کرکے لائے ہیں گویا دریا کو کوزے میں سمیٹ لانا اسے کہتے ہیں۔بندہ عاجز ہرگز سخن طرازی یا لفاظی سے کام نہیں لے رہا بلکہ حقیقت واقعی پیش کرنا مقصود ہے۔ غور فرمائیے کہ کن مراحل سے گزر کر موصوف نے 1934 کے ماہنامہ معارف کے شمارہ نمبر6 تک رسائی حاصل کی ہوگی لیکن اس جستجو کا ماحصل محض تین سطریں ہیں جو قارئین کیلئے ص 30 پر پیش کی گئی ہیں یہ تو ایک حوالہ کی صورت احوال ہے ورنہ موصوف کے مختصر و جامع مقالہ کاہر صفحہ '' مشت گوھر گرفتن ودریا گزاشتن '' کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
مولانا محمد حسن امرہوی کی شخصیت کی تحقیق پر مبنی موصوف کا سفر جستجو تین پہلوؤں پر مشتمل ھے۔
1)نام اور جائے ولادت کے اشتراک اور مشابہت کی بنا پر موصوف نے پہلے مرحلے میں مولوی محمد احسن امرہوی قادیانی، مولوی احمداحسن امرہوی محدث دیوبندی اور ضمناََ شیعہ عالم علامہ محمد حسن امروہوی بن محمد سیات کی تحقیق و جستجو میں نودس کتب کو کھنگالا۔
2)مولوی محمد حسن امرہوئی کے تفصیلی تعارف پر مبنی کتب نزھتہ الخواطر، نزھۃ الخواطر کی متعلقہ جلد کا اردو ترجمہ'' چودھویں صدی کے علمائے بر صغیر'' اور تاریخ مشائخ چشت جبکہ تحقیق وتائید مزید کیلیے '' قرآن کریم کے اردو تراجم'' ازجناب ڈاکٹر احمد خان '' اردو تفاسیر '' از جناب جمیل نقوی، ''اردو تفاسیر بیسویں صدی میں'' از ڈاکٹر سید شاہد علی، ''تاریخ تفسیر'' از مولانا عبدالصمد صارم '' قرآن کریم کے اردو تراجم تاریخ، تعارف، تبصرہ، تقابلی ''جائزہ از ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم ،'' قرآن مجید کے آٹھ منتخب تراجم'' از ڈاکٹر محمد شکیل اوج، ''برِصغیر میں قرآن فہمی کا تنقیدی جائزہ'' از ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی چترالی وغیرہم تک رسائی حاصل کرکے انہیں تحقیق کی سان پہ رکھا۔
3)بعض شبہات رفع کرنے اور تشّنہ طلب پہلووں کی کھوج کیلئے دیباچہ تفسیر ماجدی مجموعہ رسائل الکشمیری ، ماہنامہ معارف جلد 34 شمارہ نمبر 6، تاریخ ادیبات مسلمانانِ پاکستان و ہند جلد نمبر 5، مولانا عبدالحئی حسنی ندوی، کی کتاب ''الثقافۃ السلامیہ فی الہند''، صاحبزادہ محمد حسن تمیمی کی کتاب ''حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی اور ان کے خلفاء '' جناب محمد شفیع بلوچ کی کتاب،'' شیخ اکبر محی الّدین ابن عربی''، مولانا قاضی زاہد الحسینی کی کتاب ،'' تذکرہ المفسرین''، اور مولانا محمد یوسف بنوری کا مقدمہ مشکلات القرآن سمیت کتب میں مولنا محمد حسن امرہوی کے حوالہ سے موجود مواد تک رسائی حاصل کی اور اسے کھنگالہ اور باریکی سے پر کھا۔
علمی تحقیقی کوہ کنی کے ان کٹھن مراحل سے سرخرو ہونے پر موصوف کو مشبّت ربّانی سے نصرت خاص حاصل ہوئی جس نے خون جگر گھلادینے والی کدوکاوش پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یہ تائید الہٰی عہد ساز و نابالغہ روزگار صاحب علم وعمل مولانامناظر احسن گیلانی کے طویل مقالہ، بعنوان "ہندوستان کا ایک مظلوم مولوی'' کی یافت کی صورت میں ہوئی۔ موصوف کے مقالہ کی تکمیل کے ساتھ ہی بغیر کسی تلاش و جستجو کے اس مقالہ کے مل جانے کو تائید غیبی کے سوا بھلا اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ چونکہ تلاش وجستجو تو اس چیز کی ہوسکتی ہے جس کے وجود کا علم ہو لیکن تریسٹھ سال قبل کا لکھا ہوا ایسا مقالہ جس کا کہیں نشر مقرر یا تذکرہ بھی نہ ہو تو اس کی جستجو بھلا کیسے کی جاتی۔ بندہ عاجز کے حقیر فہم کے مطابق یہ تائید ونصرت موصوف کی محنت ومشقت کی عنداللہ قبولیت کی علامت ہے۔ البتہ بعدازاں موصوف کی نگاہ لطیف نے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری مدظلہ العالی کے ایک مضمون تک رسائی حاصل کرلی جس میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے مذکورہ بالا مقالہ کا تذکرہ موجود ھے۔
مولانا احسن امروہوی کی شناخت کو پالینے کے بعدموصوف غایۃ البرہان فی تاویل القرآن سمیت مولانا امروہوی کی دیگر تصانیف کی تلاش میں برسر پیکار ہوگئے۔ ان کا شوق رہنما بن کر راستے آسان کرتا چلا گیا اور مولانا امرو ہوی کی تین کتب تفسیر " غایۃ البرہان" جلد دوئم معالمات الاسرا رفی مکاشفات الاخیاراور التاویل المحکم فی مشابہ فصوص الحکم'' موصوف کو پاکستان کی لائبریریوں میں ہی مل گئیں جبکہ تین مزید کتب کی نقول بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر ہندوستان سے منگوالی گئیں جن کے نام '' تلخیص التوارخ مقلب بہ مفرح دلکشا معتدل'' مولود شریف معروف بہ آفتاب عالمتاب'' اور حقانیتِ اسلام '' ہیں
مولانا محمد احسن امروہوی کی شخصیت و کارہائے علمی کی تحقیق و جستجو میں مولانا باہمہ پہلو و ہمہ وجوہ اس طرح مستغرق رہے کہ مولانا کی نسبت سے لطیف سے لطیف پہلو بھی ان کی نگاہِ باریک بین سے اوجھل نہ رہ سکا جس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
جناب ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی کتاب'' قرآن مجید کے آٹھ منتخب تراجم کا تقابلی جائزہ '' میں غایۃ البرہان کو محض ترجمہ قرآن قرار دے دیا نیز مولانا امروہوی کے نام میں ندوی جلالی کا اضافہ کردیا تو موصوف نے کچھ اس طرح سے گرفت فرمائی ''( اب یہاں ان کے لیے ''ندوی'' اور ''جلالی'' کے الفاظ بالکل نئے ہیں یہ پہلے کہیں نظر سے نہیں گزرے اور نہ ہی کسی نے استعمال کیے ہیں۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے یہ الفاظ کہاں سے لیے؟ اس نوٹ کا جو انہوں نے حوالہ دیا ہے وہ ہے ڈاکٹر احمد خان صاحب کا ، ڈاکٹر احمد خان صاحب کی کتاب قرآنِ کریم کے اردو تراجم کا حوالہ ہم پہلے ہی نمبر 1 میں دے چکے ہیں اس میں تو ڈاکٹر احمد خان صاحب نے ''ندوی'' اور ''جلالی'' کی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ غایۃ البرہان صرف ترجمہ ہی نہیں بلکہ تفسیر ہے، اس تفسیر کو صرف ترجمہ قرار دینا غالباً اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اصل تفسیر دیکھی نہیں اور ایسے ہی اس تفسیر کو صرف ترجمہ تک محدود کردیا ہے (مولانا محمد حسن امروہوی ص24 ، 25 )
اسی طرح ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی چترالی نے اپنی کتاب '' برِ صغیر میں قرآن فہمی کا تنقیدی جائزہ '' میں غایۃ البرہان کے تعارف کیلئے نزہۃ الخواطر جلد 7 ص 474 کا حوالہ دیا تو موصوف کی حِسِ تحقیق پھڑک اٹھی، فرماتے ہیں ''جب اس حوالہ کی طرف مراجعت کی تو حیران رہ گئے کہ ان ڈاکٹر صاحب نے جن محمد حسن امروہوی کا حوالہ دیا ھے وہ تفسیر غایۃ البرہان والے امروہوی صاحب نہیں بلکہ ایک اور امرو ہوی صاحب ہیں نام انکا بھی محمد حسن امروہوی ہی ہے۔ ان کے والد کا نام محمد سیادت بن محمد عبادت الحسینی النقوی ہے اور یہ شیعہ علماء میں سے تھے۔۔۔ اب اگر کوئی صاحب اصل عبارت نہ دیکھیں تو وہ تفسیر غایۃ البرہان والے مولوی محمد حسن امروہوی کو ہی شیعہ عالم سمجھ لیں گے۔ ائے کاش ڈاکٹر صاحب نزہۃ الخواطر کی آٹھویں جلد ملاحظہ فرمالیتے تو اتنا مسئلہ ہی نہ بنتا مگر انہوں نے جلد نمبر 7 ہی میں محمد حسن امروہوی دیکھا تو انہیں تفسیر غایۃ البرہان کا مفسر بنادیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
کتاب کے آخر میں انہوں نے مصادر و مراجع کے عنوان سے جو کتابوں کی فہرست دی ہے اس میں ص815 پر اس نام سے دو کتابیں ہیں ایک کے مرتب ڈاکٹر احمد خان صاحب ہیں اور دوسری کی مرتب ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم ہیں۔
ڈاکٹر احمد خان صاحب کی کتاب میں تو یہ عبارت نہیں جو قاضی صاحب چترالی نے نقل کی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم صاحبہ کی کتاب سے یہ عبارت من وعن نقل کردی یعنی یہ تفسیر دیکھنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی''۔ (مولانا محمد حسن امروہوی ص25،26،27)
اسی نگاہ لطیف کا ایک نمونہ مولانا مناظر احسن گیلانی کے مضمون کے آخر میں نوٹ کے زیرِ عنوان نمبر2 پر موجود ہے۔ موصوف فرماتے ہیں ''حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کے اس مضمون کا تذکرہ مکرم ومحترم ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری مدظلہ العالی نے بھی اپنے ایک مضمون میں کیا ہے جو کہ '' شخصیت وسوانح'' کے عنوان سے احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن'' کے ساتھ مکتبہ ''رشیدیہ'' کراچی سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کے ص 449 پر سوانح وشخصیات کے زیرِ عنوان 11 ویں نمبر پر اس مقالہ کا تذکرہ کیا گیا ھے یہاں ڈاکٹر صاحب سے ایک تسامح یہ ہوا کہ بریکٹ میں لکھا ھے '' عہدا کبری کا شیخ قطب'' حالانکہ یہاں ہونا یہ چاہیے تھا ''مولانا محمد حسن امروہوی‘‘ شاید اس تسامح کی وجہ یہ ہے کہ پورا مضمون پڑھے کون؟ اس مضمون کی پہلی قسط کے صفحات 9 پر تو مولانا امروہوی کا ذکر نہیں صفحہ نمبر 10 کی سطر نمبر 10 سے مولانا امروہوی مرحوم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور اس سے پہلے کے صفحات پر تمہید ہے جس میں زیادہ تر دربار اکبری ہی کا ذکر ہے اس لیئے ڈاکٹر صاحب نے بھی سارا مضمون پڑھے بغیر مقالہ کا عنوان ''عہداکبری کا شیخ قطب'' لکھ دیا ہے۔ ''(مولانا محمد حسن امروہوی ص 92 ، 93 )
احقر دوران مطالعہ موصوف کی عقابی نگاہ کی تاثیر سے محفوظ ہوتے ہوئے عش عش کرتا رہا کیونکہ
اس سعادت بزوربازو نیست
تانہ بخشند خدائے بخشندہ
برادرِ مکرم مولانا محمد اورنگزیب صاحب نے جس اعلیٰ تحقیقی معیار پر مبنی شاہکار ترتیب دیا ہے بلاشبہ دور حاضر کے کمپیوٹر ایج میں محفوظ ہوجانے والاایسامسبوط جامع شاہکار مستقبل کے محققین کے لیے نادر تحفہ ثابت ہوگا۔
مولانا محترم کی زیرِ نظر کتاب چونکہ مولانا محمد حسن امروہوی کے حوالہ سے چندغیر علمی تبصروں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے لِہٰذا طویل عرصہ کی تحقیق و جستجو کے نتائج کے طور پر بعض مقامات پر حساسیت کے آثار دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اس حساسیت کا موازنہ عصر حاضر اور ماضی میں تنقیدی اسلوب میں لکھی گئی کتب سے کیا جائے تو بلاشبہ تلخی کا حجم نہ ہونے کے برابر محسوس ہوگا۔ لیکن جس اعلیٰ ذوق اور تجسسّ علمی کی بنیاد پر یہ کتاب تیار ہوئی ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے بندہ عاجز یہ عرض کرنے کی جسارت کررہاہے کہ کاش چند مقامات پر برادر محترم مولانا اورنگزیب صاحب کے جملوں اور اشعار میں موجود کاٹ اور تلخی نہ ہوتی تو اس نادر شاہکار کے مقام ومرتبہ کو چار چاند لگ جاتے۔
مذکورہ بالا مبنی بر خلوص حساسیت کی مثالیں کتاب کے ص 7 سطر 3 تا ص8 سطر نمبر 9 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں مزیدبرآں ص94 سطر 6 تا 9 نیز سطر 18 تا ص95 کی سطر 12 کا اسلوب اگر ایسا ہوجاتا کہ حقیقت بھی بیان ہوجائے اور کسی کی عقیدت اور ذوق پر بھی گراں نہ گزرے تو یہ شاہکار نورعلیٰ نور کا مصداق بن جاتا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت واقعی ہے کہ موصوف نے احتیاط وادب کا پاس ولحاط رکھنے کی کوشش بھی بلاشبہ بہت کی ہے۔ کتاب کے ص9 پر یوں رقمطراز ہیں۔ ''امید ہے کہ اسی پس منظر کے تناظر میں ہماری اس تحریر کو ملاحظہ کیا جائے گا اور پھر یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا کہ ہم اصحاب علم وفضل کے گرد بکھرے ہوئے کانٹوں کو چنیں گے اور ان کی راہوں میں پھول بچھا کر ان کے فیض علمی وروحانی کو عام کرنے میں اپنا مؤثر کردار ضرور ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اہل علم سے سچی محبت ، عقیدہ اور ان کا اتباع نصیب فرمائیں آمین''
اسی طرح ص 15 کے فٹ نوٹ پر مولانا دریا آبادی کے دیباچہ تفسیر میں مولانا امروہوی کی تفسیر کے نام کے حوالہ سے سہو کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا '' تفسیر کا
نام لکھنے میں شاید مولانا مرحوم سے تسامح ہوگیا ھے تفسیر کا نام ''غایۃ البیان فی تفسیر القرآن نہیں بلکہ'' غایۃ البرہان فی تاویل القرآن'' ہے۔ جبکہ ص95 پر مولانا محمد یوسف بنوری کی ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے علمی وادبی اسلوب اختیار فرمایا ہے'' احقر یہ تحریر کرتے ہوئے قلبی دکھ محسوس کرتا ہے کہ حضرت بنوری قدس سرہ کی تمام تر جلالت شان کے باوجود ان کی تحریروں میں بعض ایسے تسامحات پائے جاتے جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا''۔
مزید برآں ص24 پر ڈاکٹر محمد شکیل اوج جبکہ ص 25 تا 27 پر ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی چترالی کے سہو پر تبصرہ کا انداز بہت ہی خوبصورت ہے ورنہ ہمارے ہاں کے عام مزاج کے مطابق بہت کڑوے کسیلے انداز کی گنجائش موجود تھی۔
دونوں کی طرح کی مثالیں پیش کرنے کا مقصدومدعا یہ ہے کہ آخر الذکر اسلوب اگر اوّلذکر مواقع پر بھی اختیار کرلیا جاتا تو اس قدر اعلیٰ شاہ پارہ کی قدرو منزلت کہیں بڑھ جاتی۔
احقر کا اس پہلو کی طرف سے متوجہ کرانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ کتاب بھی قارئین کیلیے داعی کے مصداق ہوتی ہے جبکہ داعی کیلیے یہ بات مسلمہّ ہے کہ وہ اپنے مخاطب و مدعو کے نفسیاتی پس منظر، اسکی محبتوں کے مرکز اور لمحہ حاضر میں اس کی ذہنی وقلبی آمادگی کا لحاظ رکھ کر اپنی دعوت پیش کرے۔ تا کہ مخاطب پہلے ہی مرحلے میں کسی بات یا انداز سے بدک کر مستقلاَ دعوت سے دور نہ ہوجائے ۔احقر کی نظر میں ''مولانا محمد حسن امروہوی ایک تعارف ایک تجزیہ'' خون جگر سے لکھی ہوئی مایہ ناز علمی کاوش ہے جس کے حلقہ استفادہ کی وسعت پزیری بندہ عاجز کی قلبی آرزو ہے بہ ایں وجہ احقر نے اپنی تما تر کوتاہ علمی کے باوجود حق خیر خواہی ادا کرنے کی جسارت کی ہے۔
ربِّ ذوالجلال اس مخلصانہ کاوش کو اپنی جناب میں قبولیت عطافرماکر اسے برادر مکرم مولانا محمد اورنگزیب صاحب اعوان کیلیئے صدقہ جاریہ اور بلندی درجات کا ذریعہ بنادیں اور اپنی خاص رحمت سے ان کی صلاحیتوں کو مزید اجالتے ہوئے ایسے درجنوں علمی و تحقیقی شاہکار تیار کرنے اور متلاشیانِ خیر کے استفادہ کیلیے اسباب ومواقع پیدا فرمائیں تا کہ ان کے فیض علمی سے خلق خدا تاقیامت ایمان کی تازگی
حاصل کرتی رہے۔ جبکہ ربّ کریم نے جس طرح اپنی توفیق خاص سے موصوف کے ذریعہ مولانا محمد حسن امروہوی کے ذکر خیر کی تجدید کا ذریعہ پیدا فرمایا ہے اپنی رحمت وتوفیق سے اس کتاب کو مولانا امرو ہوی کے فیض علمی کو صبح قیامت تک زندہ وجاویدرکھنے اور ان کے نامۂ اعمال میں اضافہ حسنات اور بلندی مراتب کا ذریعہ بنادیں۔ آمین
/خ/خ/
کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے
یہ بیاباں کبھی گنجان ہوا کرتے تھے
وقت تھم جاتا تھا دھڑکن کی صدا سنتے ہوئے
جب ترے آنے کے امکان ہوا کرتے تھے
سانس رک جاتی تھی، لہجے میں کسک ہوتی تھی
جس سمے کوچ کے اعلان ہوا کرتے تھے
نامہ بر آتا تھا، رستے بھی تکے جاتے تھے
کیا جواں وقت تھا، رومان ہوا کرتے تھے
جانے والوں کو کبھی لوٹنا ہوتا ہی نہ تھا
ملتوی تب بھی یوں پیمان ہوا کرتے تھے
چشم و ابرو، شبِ مہتاب، جمالِ ساقی
کیا تمنا بھرے عنوان ہوا کرتے تھے
بحرِ آتش میں رواں شوق کی ناؤ رہتی
عشق دشوار تھا، بحران ہوا کرتے تھے
دل جلے کوچہ جاناں کے فسوں زینوں پر
ابر آتا تھا تو مہمان ہوا کرتے تھے
سنگ سہ لیتے تھے، صحرا میں نکل جاتے تھے
قیس اس وقت کے نادان ہوا کرتے تھے
یہ گماں تھا کہ سوالوں کے جواب آئیں گے
ہم تھے فہام سو ارمان ہوا کرتے تھے
’’وقت گزرے گا تو حالات سدھر جائیں گے‘‘
وقت کے قہر سے انجان ہوا کرتے تھے
اْن دنوں چاند پہ اک بڑھیا رہا کرتی تھی
طفل کیا سادہ تھے حیران ہوا کرتے تھے
لوگ جب طیش میں آتے تھے تو چھپ جاتے تھے
کیا عجب تند وہ ہیجان ہوا کرتے تھے
کان سن لیتے تھے جذبوں کی زباں کو اکثر
فاصلے تھے، مگر آسان ہوا کرتے تھے
یادِ ایام بڑی تلخ زمیں ہے عاصم
اس زمیں میں کبھی دیوان ہوا کرتے تھے
*عاصم بخشی*