مکافات عمل
عبر ت سرائے دہر
ڈاکٹر مبشر حسین ملک
میں ان دنوں مدینہ منورہ میں مقیم تھا۔ عصر کی نماز پڑھی، مسجدِ نبوی سے باہر نکلا اور شارع سِتیّن پر چل پڑا۔ گاڑی پارکنگ میں چھوڑ دی۔ بازار میں کاروباری رونق اپنے عروج پر تھی۔ میں دکانوں میں جھانکتا کشاں کشاں ایئر لائنز کے دفتر پہنچ گیا۔ یہی عالیشان دفتر میری منزل تھا۔دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہے۔ گھوم کر دیکھا تو ایک اجنبی کو مخاطب پایا۔ کون تھا وہ، میں نہیں جانتا، پہلی بار آمنا سامنا ہوا تھا۔ چند لمحے میں اس کی طرف دیکھا۔ درمیانہ قد، گٹھا ہوا جسم، سانولی رنگت، آنکھوں پر چشمہ مگر چہرے پر اکھڑ ڈھٹائی کا عنصر نمایاں۔ مجھے محوِ حیرت پا کر وہ شخص میرے قریب آ یا اور یوں گویا ہوا۔’’صاحب، کیا آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ وہ اعتماد رکھتا تھا کہ میں ’’ہاں‘‘ میں جواب دوں گا۔ میں نے سچ بول دیا۔اس میں حرج بھی کوئی نہیں تھا مگر جلد ہی احساس ہوا کہ میں کسی مشکل میں پھنس گیا ہوں۔’’گاڑی ہو گی، آپ کے پاس؟‘‘ اس نے دوسرا سوال جڑ دیا۔’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے مختصر جواب دیا۔’’تو پھر آپ مجھے مدینہ شہر کی اہم زیارتیں کرا دیں۔‘‘ اس نے بلا جھجک کہہ دیا۔ میں تذبذب میں پڑگیا۔ مان نہ مان، میں تیرا مہمان! مجھے اجنبی کے رویے پر اچنبھا سا ہونے لگا۔ مجھے حیرت میں پا کر اس نے فرمائش دہرائی۔ اس دوران میں اپنے حواس مجتمع کر چکا تھا۔’’آپ کا تعارف؟‘‘ مجھے پوچھنا پڑا۔ ’’عبدالقدیر۔‘‘ اس نے مصافحہ کرتے ہوئے جواب دیا۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان کے ایک بڑے ادارے میں راڈارٹیکنیشن تھا۔ پانچ سال قبل ریٹائرمنٹ لے کر خطہ عرب آ گیا اب وہ کسی عرب شیخ کی مواصلاتی کمپنی میں بطور جونیئر افسر کام کر رہا تھا۔ ساتھ ہی اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بھی کر لیتا تھا۔ ظہران میں مقیم تھا۔ حَاجات روائی کے لیے مدنیہ منورہ آیا تھا۔ مسجد نبوی میں عبادت کرنا چاہتا تھا۔ بہرحال میں نے عبدالقدیر کی سیر و عبادت کا مناسب بندوبست کرا دیا۔’’کیا میں آپ کے ہاں ٹھہر سکتا ہوں؟‘‘ عبدالقدیر نے مجھے اور بھی مشکل میں ڈال دیا۔خیر میں نے اس کی رہائش کا انتظام بھی کرا دیا۔ پھر اس وعدے کے ساتھ اسے خدا حافظ کہا کہ مغرب کے بعد وہ مجھے مسجدِ نبوی میں ملے گا۔ مجھے احساس ہوا کہ عبدالقدیر بے حد پریشان تھا کیونکہ وہ بار بارخیالوں میں کھو جاتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے۔
نماز کے بعد ہم دونوں بازارکی طرف نکل گئے۔ میں اسے قریبی مصری ریستوران میں لے گیا۔ مصری باورچی بینگنوں کی بڑی خوش ذائقہ ڈشیں بناتے ہیں۔ باتوں باتوں میں عبدالقدیر نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ وہ اپنے وطن ہی میں تھی۔ دونوں کے ۵بچے بھی تھے۔ وہ اپنی بیوی کا کوئی جرم نہ بتا سکا۔ عبدالقدیر کی ڈھلتی عمر دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس کے چھوٹے بچے بھی بچپن سے نکل چکے ہوں گے۔ مگر پاؤں پر کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا ہو گا۔میں نے معاملہ کریدنے کی کوشش کی مگر وہ کچھ زیادہ بتانے پر آمادہ نہ ہوا۔ میں بھی پرائے معاملے میں دخل دینے کی حدود جانتا تھا، چپ ہو گیا۔ ہم دیگر معاملات پر گفتگو کرتے رہے۔ اگلے روز میں دفتر سے گھر لوٹا ہی تھا کہ عبدالقدیر وارد ہو گیا۔ وہ حد درجہ پریشان دکھائی دیا۔ کوئی لاوا اس کے اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ اسے یوں دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا۔ اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔ حوصلہ پا کر اس نے گفتگو کا آغاز کیا۔
عبدالقدیر نے جو آپ بیتی سنائی، وہ اس کی شخصی کمزوری اور کمزور عادات کی غماز لگی۔ ایک ایسی لڑکی اْس کے اعصاب پر مسلط ہو چکی تھی، جو اس کے ہمرکاب نہیں چل سکتی تھی۔ رشتوں کے بے ہنگم کھیل کی وجہ پیسہ تھا جو عبدالقدیر کے ظرف سے بڑھ کر تھا۔ اس کی باتوں سے میں نے جو کہانی اخذ کی، وہ کچھ یوں تھی۔
مذکورہ لڑکی عرب شیخ کے دوسرے دفتر میں کام کرتی اور بھارت سے تعلق رکھتی تھی۔عبدالقدیر کا آنا جانا دفاتر میں اکثر رہتا۔ لڑکی دبلی پتلی تھی، نام آشا تھا۔ پریشان صورت، حالات سے مفلوج لگتی۔ اپنی دنیا میں کھوئی رہتی۔ قبول صورت تھی۔ کم آمیز اور سنجیدہ رہتی۔ فقط کام سے کام رکھتی۔ کام میں ماہر تھی۔عبدالقدیر حیلے بہانوں سے آشا کے ساتھ کلام کر لیا کرتا۔ جب بے تکلف ہونے لگا تو وہ لڑکی پیچھے ہٹ گئی اور پہلو تہی برتنے لگی۔عبدالقدیر ڈھٹائی سے اس کے پیچھے لگا رہا اور اسے مائل کرنے کی سعی کرتا رہا۔ یہ سعی لا حاصل سال بھر سے جاری تھی۔ آخر کار آشا اکتا گئی۔ایک روز اپنے شیخ کی موجودگی میں لڑکی نے عبدالقدیر کو دفتر بلوایا اور گھٹے دفتری ماحول میں گزارش کی کہ اسے تنہا چھوڑ دے کیونکہ وہ شادی شدہ ہے اور فلرٹ نہیں کرنا چاہتی۔ پھر وہ ہندو ہے اور اپنا دھرم نہیں بدلے گی لہٰذا وہ عبدالقدیر کے لیے بے کار ہے۔اس نے یہ بھی کہا کہ عبدالقدیر نے اگر رویے میں تبدیلی نہ کی تو وہ مجبوراً خود کشی کرلے گی، یا پھر اپنے ابتر حالات میں واپس بھارت سدھار جائے گی۔ اس ملاقات نے شیخ کو بھی پریشان کر دیا۔ پھر اس نے عبدالقدیر کی طرف ہمدردانہ رویہ اپنایا اور رائے دی کہ محترم کو اپنی فیملی عرب بلوا لینی چاہیے۔ اس کی مدد کی جائے گی، رہائش گاہ بھی دی جائے گی۔ بدلتی نئی صورت حال میں عبدالقدیر آشا سے چِڑ گیا۔
اس واقعہ کے چند یوم بعد ایک نٹ کھٹ دو شیزہ عبدالقدیر کے دفتر میں آن دھمکی۔ اس نے اپنی اداؤں سے موصوف کو لبھا لیا مگر آنے کا مقصد مخفی رکھا۔ کہا کہ وقتِ شام ساحلِ بحر پر دوبارہ ملے گی۔ عبدالقدیر کھلی ہوئی باچھوں کے ساتھ سرِ شام مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔دونوں قریبی ریستوران کی طرف بڑھ گئے۔ بات چیت کے موضوع نے عبدالقدیر کو حیران کر دیا۔لڑکی نے اپنا نام اوشا بتایا اور تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ آشا کی چھوٹی بہن ہے۔ ایک بڑی ایئر لائنز میں بطور ہوسٹس کام کرتی ہے۔ اس کی باتوں میں بڑا عجز تھا۔ وہ بہن کے سلسلے میں رحم کی اپیل کرنے آئی تھی اور آس رکھتی تھی کہ وہ کامران ٹھہرے گی۔اس نے عبدالقدیر کو مطلع کیا کہ بڑی بہن آشا شادی شدہ ہے۔ بدقسمتی سے اس کے خاوند کو کالا یرقان ہو چکا اور وہ بسترِ مرگ پر پڑا ہے۔ آشا آخری حربے کے طور پر اپنے خاوند کا جگر ٹرانس پلانٹ کرانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اسے خطیر رقم کی ضرورت ہے۔
اب خاوند کی محبت میں وہ پردیس کے دھکے کھا رہی تھی۔ محنت بھی بساط سے بڑھ کر کرتی۔ بہت پریشان رہتی ہے۔ وطن میں گھر اسی کی کمائی پر چل رہا ہے۔ وہ اپنے والدین اور ان کے پاس اپنے خاوند کا بڑا سہارا ہے۔ اس کے ساتھ ہمدردی کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ اسے تنہا چھوڑ دیا جائے۔عبدالقدیر نے باتیں بڑے غور سے سنیں، پھر بولا ’’میں نے آشا کو ترغیب دی تھی کہ مرتے ہوئے خاوند سے چھٹکارا حاصل کر لے اور باعزت میرے گھر آباد ہو جائے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔ میں تو آج بھی اسی کا بہی خواہ ہوں۔‘‘ عبدالقدیر کی اس بات کے بعد خاموشی طاری ہو گئی۔’’کیا ہندو دھرم میں دو سگی بہنیں کسی ایک شوہر سے شادی کر سکتی ہیں؟‘‘ عبدالقدیر نے سکوت توڑا۔ اوشا کا دل یکدم مر جھاگیا۔ ’’شاید گنجائش نکلتی ہو۔‘‘ اس نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ ’’تو پھر میں آپ دونوں کے ساتھ اپنا گھر بسانے کو تیار ہوں۔‘‘ عبدالقدیر نے اے سی کا رخ اپنی جانب گھماتے ہوئے پتھر دے مارا۔ اوشا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ آواز حلق میں دبنے لگی۔ آنسو ضبط کرتے ہوئے اس نے اجازت مانگی اور چپ چاپ ٹیکسی میں سوار ہو گئی۔ اس کے جذبوں میں تاسّف نمایاں تھا کہ اس نے عبدالقدیر کے ساتھ کھانا کیوں کھایا؟دفتر میں آشا کی ہمت اسے تھوڑا سا فائدہ پہنچا گئی۔ عبدالقدیر نے عادات میں کسی حد تک تبدیلی کر لی۔ اسے اب وہ پہلے کی طرح تنگ نہیں کرتا تھا۔ مگر اپنی دلچسپی کی تجدیدکسی نہ کسی بہانے کر لیا کرتا۔ آشا اس کی فریفتگی کا حال جان لیا کرتی۔ معاملہ اسی طور چلتا رہا، پھر حالات میں اچانک تبدیلی آ گئی، کچھ عجب طور پر۔
آشا تیزی سے عبدالقدیر کے قریب آ گئی۔ یہ تغیر دنوں میں عروج کی سمت بڑھ گیا بلکہ ناقابلِ یقین دکھنے لگا۔ عبدالقدیر نے تقدیر کا کرم سمجھا۔ یقین رکھتا تھا کہ اس نے منزل پالی۔ وہ سوکھے پتے کی طرح آشا کی آغوشِ حیات میں جا گرا۔ انہی دنوں شیخ کی ٹیلی کام کمپنی کو بحرین میں اہم ذمہ داریاں مل گئیں۔ تین ہفتوں کا منصوبہ تھا۔ عبدالقدیر اور آشا، دونوں بحرین جانے والے کارکنوں میں شامل تھے۔ کام تکنیکی تھا۔ دن بھر سر کھجانے کی فرصت بھی نہ ملتی مگر مسا ہوٹل میں شام بارونق ہوا کرتی۔ گروپ کے لوگ اپنے مشاغل بنا لیا کرتے۔ ماحول کے مطابق تفریحی پہلو تلاش کر لیتے۔آشا اس دوران پوری طرح نکھر آئی تھی۔ سر شام ہی تیار ہو جاتی۔ دلکش میک اپ کرتی اور عمدہ لباس پہنتی۔ عموماً یورپی ملبوسات زیب تن کرتی ۔اب وہ عبدالقدیر کے ساتھ رنگین شامیں گزارنے لگی۔ اس کی اداؤں میں رعنائی اور ندرت عبدالقدیر کو لبھاتی۔ دونوں اکثر ساحلِ سمندر کی طرف نکل جاتے۔ وہاں رونق کا سماں ہوتا اور حسبِ خواہش تنہائی بھی۔ کبھی خریداری ہوتی تو کبھی بڑے ہوٹلوں میں کھانوں کے مزے لوٹتے نظر آتے۔
بظاہر یہی لگتا تھا کہ آشا عبدالقدیر کے قریب تر آ چکی اور شاید اپنے بیمار شوہر کو چھوڑ دے گی۔ ان کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ عبدالقدیر کی باچھیں ہر دم کھلی رہتیں جب کہ آشا کبھی کبھار بجھ جایا کرتی۔ تین ہفتے گویا تین دنوں میں گزر گئے۔ تکمیلِ کار کی خوشی اپنی جگہ، مگر اکثر کارکن بحرین چھوڑنے پر افسردہ تھے۔اسی لیے شیخ نے ایک بڑی پکنک کی اجازت دے دی۔ تمام ساتھیوں نے بحرین تا ظہران سفر اس پْل پہ طے کرنے کا فیصلہ کیا، جو بحیرہ احمر کے غَربی حصے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تقریباً۲۰ کلومیٹر لمبا یہ پل عزمِ انسانی اور جدید ٹیکنالوجی کا حسین امتزاج ہے، جس نے زمین کے دو ٹکڑوں کو آمدورفت کے لیے ملا دیا۔ اس پر ہر دم گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ گہری شام کے وقت روشنیوں کا سفر سمندر کے حْسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ شیخ نے مناسب جگہ پر ضیافت کا پْر تکلف انتظام بھی کر دیا۔اسی شام چاند اپنے جوبن پر تھا۔ عبدالقدیر اور آشا گاڑی میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ دل مسرور تھے اور ماحول خوبصورت تھا۔
’’عبدالقدیر، براہِ کرم مجھے کچھ مدت کے لیے پچاس ہزار ریال دے دیں، کیوں، وجہ نہیں بتا سکوں گی۔‘‘ آشا نے اس وقت کہا جب عبدالقدیر سمندر پر پڑنے والے عکسِ قمر میں کھو کر اس کی شباہت آشا کے سراپے میں ڈھونڈ رہا تھا۔ دم بھر میں عبدالقدیر کے اجلے محبوبانہ تصور کو گرہن سا لگ گیا۔ بحری مدوجزر سمٹ کر اس کے وجود میں بکھر گیا۔ کڑے امتحان کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ تلاطم کی اسی شدت میں اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا اور انہی لمحوں میں وہ پختہ عزم کر چکا تھا۔ فیصلے وہ اس طور ہی کیا کرتا تھا۔ اس نے آشا کی آشا کو لبیک کہہ دیا۔ مسکراہٹ آشا کے چہرے پر رقص کرنے لگی۔
جمع پونجی موجود تھی، ایڈوانس بھی مل گیا، کچھ دوستوں سے لیا، اور یوں آشا کے لیے رقم اکٹھی ہو گئی۔ چند ساعتوں میں مایا ادھر سے ادھر ہو گئی مگر ذہن کے کورے میدانوں میں وسوسوں کے جنگل بھی ابھر آئے۔واپس دفتر پہنچ کر کارِ دوراں کا انبار عبدالقدیر کی ہستی پر آن گرا۔ اسے بحرین کے پراجیکٹ پر فوری رپورٹ تیارکرنا تھی۔ یہ کٹھن اور دِقت طلب کام تھا۔ بعدازاں اسے ریاض جانا پڑا۔ فرم کے لیے بعض اشیا کی خریداری کرنی تھی۔ وقت اندازوں سے بڑھ کر صرف ہوا۔ تین ہفتے اسی طرح بیت گئے۔
معاملات سلجھانے کے بعد وہ آشا کے دفتر گیا مگر اسے وہاں نہ پایا۔ اس کی جگہ کوئی یمنی کام کر رہا تھا۔ عبدالقدیر پریشان ہو گیا کیونکہ عملے کے دیگر افراد نے اسے ملی جلی اطلاعات دیں۔ بہت سارے خدشات عبدالقدیر کے ذہن میں پیدا ہو گئے۔ شاید وہ کنگال ہو چکا تھا۔ اس کا ماتھا ٹھنکا، اس نے فوری طور پر شیخ کے گھر کی راہ لی۔شیخ نے آشا کے معاملے میں غیر معمولی پریشانی دیکھ کر اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ عبدالقدیر اسے ادھار والے معاملے سے بے خبر رکھنا چاہتا تھا، سوالوں سے پہلو تہی کرتا رہا۔ شیخ سے البتہ اس نے چند باتیں اگلوا لیں۔
آشا بھارت واپس جا چکی تھی۔ چھٹی پر گئی تھی، اصولاً اسے ہفتہ پہلے واپس پہنچ جانا چاہیے تھا۔ یہی وعدہ کر کے وہ گئی تھی۔ اس کا لوٹنا اب مشکل لگتا تھا۔ شیخ کے نزدیک آشا کے یوں غائب ہونے کی وجہ اس کے خاوند کی شدید بیماری ہو سکتی تھی۔
شیخ کی باتیں سن کر عبدالقدیر کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر شیخ نے اسے گھر جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن عبدالقدیر سوچوں کے تانے بانے میں الجھ چکا تھا۔ حالات میں اسے فریب کی بو آ رہی تھی، جس کے باعث اس کی انا بھی بری طرح مجروح ہوئی۔ وہ کسی کو اپنے دکھ میں شریک نہیں کر سکتا تھا۔پھر کسی نے اسے بتایا کہ آشا اپنے دیس نہیں گئی، بلکہ یہیں کہیں پوشیدہ ہو گئی ہے، اسے ستا رہی ہے۔ عبدالقدیر اہلِ ہند کی روایتی جادوگری پر یقین رکھتا تھا، یہی سمجھتا رہا کہ آشا نے کسی جانور کا روپ دھار لیا ہے اور قریب ہی کہیں موجود رہتی ہے۔عبدالقدیر نے چھوٹی بہن، اوشا سے بھی رابطے کی کوشش کی مگر اب وہ یورپ اور لاطینی امریکا کی پروازوں پر مصروف تھی۔ عبدالقدیر نے دونوں بہنوں سے رابطوں کے لیے کئی حربے استعمال کیے، مگر ناکام رہا۔ شیخ کے دفتر سے بھی اسے آشا کا مہمل پتا ہی مل سکا۔ اس امر کا اندازہ بہرحال ہو گیا کہ آشا کو بھارت میں تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے۔ وہ کسی دْور اْفتادہ گاؤں میں رہتی تھی۔ خاوند کی صحت یابی کے بعد نیپال منتقل ہونا چاہتی تھی، جہاں اْس کے کے سسرالی رشتہ دار کثیر تعداد میں مقیم تھے۔
عبدالقدیر اسی پس منظر میں مدینہ منورہ آیا تھا۔ وہ اپنے معبود کے سامنے گڑ گڑا کر مدد لینا چاہتا تھا۔اسے پیسوں کے ضیاع پر قلق تھا مگر وہ اپنے بیوی بچوں کے بارے میں اپنے رویے پر قطعی شرمندہ نہیں تھا۔
کسی وقت وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا۔ کہتا، کہ میں آشا کو قتل کر دیناچاہتا ہوں۔ بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ بھارت میں سزائے موت پانا چاہتا تھا۔ کبھی رونے لگتا تو اس کی بے بسی انتہا پر نظر آنے لگتی۔پھر اچانک وہ مدینہ منورہ سے چلا گیا۔ اس کے ساتھ رابطہ بھی معدوم ہو گیا۔اسی طور کئی ماہ گزر گئے۔ کبھی سوچوں میں آتا مگر پھر گردشِ دوراں کے اوراق سے محو ہوتا گیا۔
کبھی کہانیوں کی تکمیل مقصود ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ایک روز وہ لوٹ آیا، بالکل اچانک۔ خود ہی میرے گھر چلا آیا۔ اس کا حلیہ بدل چکا تھا۔ ایک جھلک نے عہدِ رفتہ کی کتابیں کھول دیں۔ یادوں سے چند نقوش ابھرنے لگے۔ جونہی میں نے اسے پہچانا، تجسس کے کئی پہلو نمو پا گئے۔ عبدالقدیر بڑا لاغر ہو چکا تھا۔ وقت نے سرعت سے کہانی اس کے چہرے پر لکھ دی تھی۔ جھریوں میں حوادث مزین ہو چکے تھے۔ ریش بڑھ کر بزرگی میں ڈھل گئی تھی۔ اطوار میں ٹھہراؤ کہیں زیادہ تھا۔
معلوم ہوا کہ وہ شدید تنہائی کا شکار رہا ہے۔ بیوی، بچوں سے محروم ہو چکاہے ۔ فکروں نے اسے مایوسی میں دھکیل دیا تھا۔ بولنے پر آیا تو اس کا جذباتی مدوجذر لمحہ لمحہ تغیر میں رہا۔اس نے آشا کا کھوج لگا لیا تھا۔ اس سعی میں اس نے بڑے پاپڑ بیلے۔ کئی ناتے استوار کیے، بہت سے وسیلے بنائے۔ وہ آشا سے ملا مگر اسے قتل نہ کر سکا کیونکہ حالات اس کی توقع کے برعکس نکلے۔
عبدالقدیر آشا کی برادری سے ناروا سلوک کی توقع رکھتا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ گاؤں میں کئی افراد سے ملا۔ گاؤں والوں نے اس کے ساتھ بڑا تعاون کیا۔ تحقیق کرنے پر اسے جس کہانی کا پتا چلا، وہ طویل اور دکھ بھری تھی۔ تمام معاملات کی شکل کچھ یوں ابھری : آشا بھارت لوٹی تو اس کے خاوند رَوی کی صحت انتہائی خراب ہو چکی تھی بلکہ وہ قریب المرگ تھا۔ آشا نے اسے سنبھالا۔
آشا کو اپنے پتی سے بے حد پیار تھا۔ دونوں لڑکپن کے پریمی تھے۔ باہمی رشتہ داری نسلوں پر محیط تھی۔ شادی نے ان کے جیون میں رنگ بھر دیے۔ روی پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھا، جب کہ آشا نے بی کام کیا تھا۔ ملاپ انہیں تمنا کی تکمیل دکھتا تھا۔ محبت اور محنت کے اوصاف لیے دونوں نے زندگی میں جدوجہد کی تو خوب پھولے پھلے۔ انہیں اپنا گھر خوشیوں سے سجا نظر آتا، جس میں آرزوؤں کے گلاب کھلتے اور ارضی نبات میں مدغم ہو کر خوابوں کی تعبیر دھار لیتے۔ ان کی دنیا جنت نظیر تھی، مگر کبھی دنیائیں زلزلوں کے باعث غارت بھی ہو جاتی ہیں۔ یہی آشا کے ساتھ ہوا۔
اچانک انکشاف ہوا کہ روی کالے یرقان (ہیپاٹائیٹس سی) کا مریض ہے۔ وہ تشخیص کے مراحل سے کبھی نہیں گزرا تھا اور اب بیماری تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ جگر ناکارہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔ موت کا قرب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ شادی کی چھٹی سالگرہ پر معاملات حد درجہ خراب لگے۔روی کو آپریشن کے لیے بڑے ہسپتال لے جایا گیا۔ بھائی نے اپنے جگر کا حصہ عطیہ کیا اور اس کا معاوضہ بھی لے لیا۔ آشا اور اس کے دیور کی قربانی سے روی کی جان بچ گئی۔ سرجری کے اخراجات دینے کے علاوہ آشا نے شوہر کی خدمت بھی کی جو بساط سے بڑھ کر تھی۔ کڑے حالات میں اْس نے ہمت جواں رکھی، حتیٰ کہ روی زندگی میں لوٹ آیا۔وقت کے ساتھ روی میں قوت لوٹنے لگی۔ میاں بیوی یکجا ہوئے تو کارِ حیات میں نئی راہیں تلاش کرنے لگے۔ روی کے رشتہ دار نیپال میں کاروبار کرتے تھے۔ انھوں نے آشا اور روی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ ماہ و سال گزرنے لگے۔ ایک عرصہ تک آشا کی زَورقِ حیات پْر سکون لہروں پر چلتی رہی، پھر اسے طوفانی تھپیڑوں نے آن لیا۔ آشا کی عمر بڑھ رہی تھی مگر اس کے ہاں اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئیں۔محرومی کی اْفتاد پڑنے پر آشا بے بسی محسوس کرنے لگی۔ مندر مندر گھوما کرتی۔ سنیاسیوں کے پاس بھی گئی مگر اس کی گود ہری نہ ہو سکی۔ گو شفا خانے اسے صحت مند قرار دیتے، پھر بھی تکمیلِ تمنا کا سراب برسوں پر پھیل گیا۔ پتی کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا گیا۔ باہمی جھگڑے طوالت پکڑنے لگے۔ تلخیاں بلا خیزی تک بڑھنے لگیں۔ اس کشمکش میں دونوں واپس بھارت آ بسے، مگر باہم فاصلے نہ سمٹ سکے جلد ہی دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔
گزراوقات کے لیے آشا نے بینک میں ملازمت کر لی۔ تنہائی میں وقت کا پہاڑ دھکیلنے لگی۔ اس نے دنوں کا حساب رکھنا چھوڑ دیا۔ بس مصروفِ کار رہتی، صبح تا شام آس رکھتی کہ زندگی یونہی گزر جائے گی، مگر نصیب میں لکھا کون ٹال سکتا ہے؟ جس بینک میں آشا کام کرتی تھی، فراڈ کا شکار ہو گیا۔آشا والی برانچ میں بڑے پیمانے پر غبن ہوا۔ اس کا نام بھی مشکوک ملازمین میں آ گیا۔ الزام تھا کہ اس نے مجرموں کی اعانت کی ہے۔ آشا الزام سے انکار کرتی رہی مگر صور ت حال سے نجات نہ پا سکی۔ معطلی کے بعد اس کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ جلد ہی کیس عدالت میں چلا گیا۔ آشا اپنا مقدمہ سمجھ بوجھ سے نہ لڑ سکی۔ مؤثر دفاع کی عدم موجودگی میں اسے بھی سزا دے دی گئی۔ وہ ۳ سال کے لیے جیل چلی گئی۔
جیل میں وہ واحد خاتون تھی، جس کا کوئی ملاقاتی نہ آتا۔ اس کی صحت بری طرح گرنے لگی۔ وہ کھانا پینا اور معمولات بھْول گئی۔ اس کی شخصیت مسخ ہونے لگی، پھر اس پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے، جو شدید تر ہوتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ جیل میں علاج ہوتا رہا، آخر اسے پاگل خانے بھیج دیا گیا۔
عبدالقدیر آشا کے گاؤں پہنچا تو کئی افراد سے ملا۔ انہی کی وساطت سے وہ پاگل خانے آشا سے ملنے گیا۔ آشا اسے نہ پہچان سکی۔ اس کا ایک ہی روپ تھا، جو بار بار نظر آتا۔ وہ ہر کسی سے معافی مانگتی۔ ہر کسی کے مقابل ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی۔ کبھی گڑ گڑانے لگتی اور قدموں میں ڈھیر ہو جاتی۔ سسکنے لگتی۔ دیکھنے والوں کو اس پر ترس آتا۔ وہ کئی بیماریوں کی مریضہ لگتی تھی۔
عبدالقدیر نے کہانی ختم کی تو بْری طرح رونے لگا۔ میں نے اْسے تسلی دی۔ سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ دیر تک اداس بیٹھا رہا، پھر رندھی ہوئی آواز میں بولا:
’’محترم آپ نہیں جانتے، پیچھے وطن میں آج میری بڑی دختر کی شادی ہے۔‘‘ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ مبارک دیتا، وہ بول اْٹھا: ’’میں نے واسطہ طور پر بیٹی کو پیغام بھیجا تھا کہ میں تمھاری ماں کا مجرم ہوں مگر اتنی اجازت دے دو کہ نئے گھر جاتے ہوئے میں اپنا
دستِ شفقت تمھارے سر پر رکھ سکوں اور اپنی تمناؤں کا ملبوس پہناتے ہوئے تمھیں رخصت کروں۔‘‘
عبدالقدیر کی آواز حلق میں رندھنے لگی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے اْبل پڑے۔ بولا۔ ’’بیٹی نے جواب دیا ہے کہ امی کے تو مجرم ہیں ہی، آپ میرے بھی قصور وار ہیں۔ اگر آپ کا دستِ شفقت میرے سر پر رہتا تو مجھے تعلیم نامکمل چھوڑ کر سکول میں ملازمت نہ کرنا پڑتی۔ دربدر دھکے نہ کھانے پڑتے۔ اپنا جہیز خود نہ بنانا پڑتا۔ اگر رشتوں سے اعتماد کی روح نکل جائے تو وہ بے جان ہو جاتے ہیں اور عملاً بے معنی کہلاتے ہیں۔ مجھے اس دستِ شفقت کا کیا فائدہ، جسے میری اکائی کا بھی احساس نہ رہا؟‘‘
یہ کہہ کر عبدالقدیر سسکیاں بھرنے لگا۔ اس کے ہونٹ لرزنے لگے۔ پھر وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور اونچی آواز میں روتے ہوئے بولا۔ ’’میری ماں بھی رْوٹھ کر کہتی ہے کہ میں اْس کے حقوق و فرائض سے کوتاہی برت رہا ہوں۔ اس کی بیوگی اپنی چادر تلے نہیں ڈھانپ سکا۔ آج وہ اپنی بہو کی جزوی دستِ نگر بن چکی ہے اور بہو کو مجھ سے افضل گردانتی ہے۔ مجھ سے بڑھ کر رسوا شخص اور کون ہو گا، اپنا دشمن کہلانے کو؟‘‘ الفاظ عبدالقدیر کے لبوں پر ٹوٹنے لگے۔ میری اپنی آنکھوں میں بھی آنسو اْمڈ آئے۔
’’جب قدرت ہمیں کسی خاندان کی سربراہی عطا کرے تو ہمارے دانشمندانہ یا غیر دانشمندانہ فیصلے ۴ نسلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں133 موجودہ نسل، ایک پچھلی اور دو اگلی نسلوں پر۔‘‘ میری غیر فطری سوچ نے تین نسلوں کو خوار کر دیا۔
***