جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ جب مرد جنت میں داخل ہو گا تو اسے "حور" یا ایک خوبصورت عورت ملے گی۔ جب ایک عورت جنت میں داخل ہو گی تو اسے کیا ملے گا؟
قرآن میں حور کا لفظ چار مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :
سورہ دخان آیت 54، سورہ طور آیت 25 سورہ رحمان آیت 50 اور 73، سورہ واقعہ آیت 33 بیشتر تراجم و تفاسیر خصوصاً اْردو تراجم میں لفظ حور کے معنی خوبصورت عورت ہی بتائے گئے ہیں۔ اگر اس لفظ کے معنی واقعی صرف ایک خوبصورت عورت ہی ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو جنت میں کیا عطا ہو گا؟لیکن دراصل معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی صرف خوبصورت عورت نہیں ہیں۔ یہ لفظ حور اصل میں جمع ہے جس کا واحد اَحْورَ بھی ہے اور حَوَرْ بھی۔ ان میں سے ایک لفظ مذکر ہے اور ایک مؤنث جب کہ جمع دونوں کی حور ہی ہے۔لفظ کا لغوی مطلب ہے "بڑی خوبصورت آنکھیں"۔ اسی مقصد کے لیے قرآن میں مختلف مقامات پر ازواج کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر :
سورہ بقرہ، آیت 25 سورہ نساء، آیت 57
ازواج کا لفظ زوج کی جمع ہے اور زوج کی مطلب ہے ساتھی، شریک زندگی، مرد کے لیے عورت زوج ہے اور عورت کے لیے مرد زوج ہے۔ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے والوں نے بالعموم اس لفظ کا ترجمہ درست کیا ہے۔ مثال کے طور پر محمد اسد حور کا ترجمہ Spouse کرتے ہیں۔ عبد اللہ یوسف علی نے لفظ حور کا ترجمہ Companion کیا ہے۔ یہ دونوں لفظ ایسے ہیں جن کی کوئی جنس مخصوص نہیں ہے۔ یہ لفظ مذکر کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور مؤنث کے لیے بھی۔
اس کا مطب یہ ہوا کہ مرد کو جنت میں ایک بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت شریک زندگی ملے گی اور عورت کو بھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والا ساتھی ملے گا۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میرے بھائی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا ہے کہ دو خواتین کی گواہی اسلام میں ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں قرار دی جاتی۔ ایسا صرف چند مخصوص صورتوں میں ہی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں گواہی کا ذکر موجود ہے بغیر کسی قسم کی جنسی تفریق کے۔
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَاستَشھِدْوا شَھِیدَینِ من رِّجَالِکْم فَاِن لَّم یکْونَا رَجْلیَنِ فَرَجْل وَامرَاَتَانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشّْھَدَاءِ اَن تَضِلَّ احدَاھْمَا فَتْذکَِّرَ ااِحدَاھْمَا الاْخریَ ۔ سورہ 2، آیہ 282)
"اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے میں) گواہ کر لیا کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔"
سورہ بقرہ کی اس آیت میں ذکر صرف مالی معاملات کا ہو رہا ہے۔ صرف مالی اور معاشی نوعیت کے معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر دی جا رہی ہے۔ بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی بہتر ہے اور اگر دو مرد گواہی دینے والے نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنیں۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں آپ کوئی سرجری کروانا چاہتے ہیں یا کوئی آپریشن کروانا چاہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے آپ کی خواہش ہو گی کہ سرجری سے قبل کم از کم دو ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ مشورہ کریں۔ اب فرض کیجیے آپ کو صرف ایک ماہر سرجن دستیاب ہے۔ اس صورت میں آپ ایک سرجن کی رائے کے ساتھ دو عام ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی رائے بھی جاننا چاہیں گے۔ اس کا سبب یہی ہو گا کہ آپریشن کے بارے میں ایک عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مقابلے میں ایک سرجن کا علم زیادہ ہوتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ گواہی کا ہے۔ چونکہ اسلام نے فکر معاش کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے لہذا ظاہر ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں معاشی معاملات کے بارے میں مرد کو علم زیادہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ معاشی معاملات میں دو مردوں کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے اور اگر آپ سورہ مائدہ کی تلاوت کریں تو وہاں یہ ارشاد باری تعالٰی موجود ہے : یاَا اَیّْھَا الَّذِینَ آمَنْوا شَھَادَۃ بَینِکْم اِذَا حَضَرَ اَحَدَکْمْ المَوتْ حِینَ الوَصِیۃَِّ اثنَانِ ذَوَا عَدلٍ مِّنکْم و آخَرَانِ مِن غَیرِکْم اِن اَنتْم ضَرَبتْم فیِ الاَرضِ فَاَصَابَتکْم مّْصِیبَۃْ المَوتِ (سورۃ 5، آیہ 106)
"مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان گواہ نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو)۔"
یہاں بھی چونکہ معاملہ معاشی نوعیت کا ہے لہذا مرد کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ بعض علمائے قانون کی رائے یہ ہے کہ "قتل " کے معاملے میں بھی جرم کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اور عورت کی فطرت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے یہی اْصول لاگو ہونا چاہیے۔ یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مساوی قرار دی جانی چاہیے۔
صرف دو معاملات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے یعنی :
(1) مالی معاملات
(2) قتل کا معاملہ
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر جگہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہو گی لیکن اگر قرآنی ہدایات کی مجموعی طور پر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔
آیئے دیکھتے ہیں قرآن ہمیں اس بارے میں کیا احکامات دیتا ہے :
سورہ نور میں ارشاد باری تعالٰی ہے : وَالَّذِینَ یَرمْونَ اَزوَاجَھْم وَلَم یْکن لَّھْم شْھَدَاء ْاِلَّا اَنفْسْھْم فَشَھَادَۃْ اَحَدِھِم اَربَعْ شَھَادَاتٍ بِاللّہَِ اِنّہْ لَمِنَ الصَّادِقِینَ۔ وَالخَامِسَۃْ اَنَّ لَعنَتَ اللَّہِ عَلَیہِ اِن کَانَ مِنَ الکَاذِبِینَ۔ وَیَدرَؤْا عَنھَا العَذَابَ اَن تَشھَدَ اَربَعَ شَھَادَاتٍ باللَّہِ اِنّہْ لَمِنَ الکاذِبِینَ۔ وَالخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللَّہِ عَلَیھَا اِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ۔ (سورہ 24، آیات 6 -96 9)
"اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔"
مندرجہ بالا آیت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بیوی شوہر پر الزام لگائے یا شوہر بیوی پر۔ دونوں کی ذاتی گواہی اس معاملے میں مساوی ہے۔
اسی طرح رویت ہلال کے معاملے میں بھی عورت اور مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لیے ایک اور شوال کے چاند کے لیے دو گواہ درکار ہو گے لیکن گواہ کے مرد یا عورت ہونے سے وہاں بھی فرق کوئی نہیں پڑتا۔
کچھ معاملات میں صرف عورت ہی گواہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاملہ غسل میت کا ہو، کیونکہ جب تک کوئی عورت دستیاب ہو عورت کو غسل میت عورت ہی دے گی۔ یعنی اس معاملے میں گواہی کی ضرورت پڑے تو عورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
میں امید رکھتا ہوں کہ معاملہ آپ کے ذہنوں میں واضح ہو چکا ہو گا۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ اسلام میں کثرت ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں مرد ایک سے زیادہ بیویاں کیوں رکھ سکتا ہے؟ بہن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے Polygamy۔ پولی گیمی کا مطلب ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک لفظ ہے Polygamy جو ایک مرد کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور دوسرا لفظ ہے Polyandry جو عورت کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا دو طرح کی کثرت ازدواج ممکن ہے جن میں سے ایک کے بارے میں بہن نے سوال پوچھا ہے۔ یعنی یہ کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کیوں کر سکتا ہے؟
میں سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ قرآن دنیا کی واحد الہامی کتا ب ہے جو ایک ہی شادی کی ترغیب دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔
آپ پوری "گیتا" پڑھ جائیں، پوری "راماین" پڑھ لیں، پوری "مہا بھارت" پڑھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتٰی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے۔بلکہ اگر آپ ہندوؤں کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ "وشرتھ" کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کرشنا کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارھویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے۔ یہاں تک ربی گرشم بن یہوداہ نے اس پر پابندی عاید کر دی۔ اس کے باوجود عرب علاقوں میں آباد یہودی ۱۹۵۰تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما نے کثرت ازدواج پر مکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علما نے ایک سے زاید شادیوں پر پابندی لگائی ہے۔
اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔
1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔
اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار "اسلام میں عورت کا مقام" کے عنوان سے تحقیق کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ 1975ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے صفحہ 66 اور 67 پر ایک سے زاید شادیوں کے حوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح پانچ اعشاریہ چھپن فی صد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح چأر اعشاریہ ۳۱ فی صد تھی۔
لیکن چھوڑیئے اعداد و شمار کو۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ آخر اسلام میں مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس وقت قرآن ہی دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہے۔
سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے : وَاِن خِفتْم اَلاَّ تْقسِطْوا فیِ الیَتَامَی فَانکِحْوا مَا طَابَ لکْم مِّنَ النِّسَاءِ مَثنَی وَثْلاَثَ وَرْبَاعَ فَاِن خِفتْم اَلاَّ تَعدِلْوا فَوَاحِدۃً اَو مَا مَلکَت اَیمَانْکْم ذَلِکَ اَدنَی اَلاَّ تَعْولْوا۔ (سورہ،نسا آیہ 3)
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔"
یہ حکم کہ پھر ایک ہی شادی کرو، قرآن کے علاوہ کسی صحیفہ مقدسہ میں نہیں دیا گیا۔ عربوں میں اسلام سے قبل مرد بہت سی شادیاں کیا کرتے تھے۔ بعض مردوں کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔
اسلام نے ایک تو بیویوں کی حد مقرر کر دی اور زیادہ سے زیادہ تعداد چار معین کر دی اور ایک سے زاید شادیوں کی صورت میں ایک بہت سخت شرط بھی عاید کر دی وہ یہ کہ اگر آپ ایک سے زاید شادیاں کرتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے درمیان پورا عدل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔
اللہ تبارک و تعالٰی سورہ نسا آیت ۱۲۹ میں فرماتا ہے : "اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔"
گویا ایک سے زیادہ شادیاں کوئی اْصول نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم دیتا ہے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلام میں اعمال کے پانچ درجے یا اقسام ہیں :
پہلا درجہ "فرض" ہے۔ یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔
دوسرا درجہ مستحب اْمور کا ہے۔ ان کاموں کا جنہیں فرض تو نہیں کیا گیا لیکن ان کے کرنے کی تاکید یا حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
تیسرے درجے میں وہ کام آتے ہیں جن کی نہ حوسلہ افزائی کی گئی اور نہ روکا گیا ہے۔
چوتھے درجہ میں مکروہ اْمور آتے ہیں۔ اور
پانچواں درجہ حرام کاموں کا ہے یعنی جن سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے۔
ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ تیسرے یا درمیان والے درجے میں آتا ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے کی نہ تو قرآن و سنت میں تاکید کی گئی ہے اور نہ ہی منع کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں اور اسی طرح احادیث میں بھی وہ ہمیں کوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ جو مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ایک ہی شادی کرتا ہے۔
آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قدرتی طور پر مرد اور عورتیں تقریباً مساوی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جدید علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ بچیوں میں قوت مدافعت بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی جراثیم اور بیماریوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے بہ نسبت ایک بچے کے۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ شیر خوارگی کی سطح پر ہی بچیوں کی تعداد بچوں سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔
دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دورانِ جنگ مردوں کی اموات عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ حالیہ دور میں ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں غالب اکثریت مردوں کی تھی۔ شہداء کی کثیر تعداد مردوں پر ہی مشتمل تھی۔
اس طرح اگر آپ حادثات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت بھی مردوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات میں بھی غالب اکثریت مردوں ہی کی ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام عوامل و اسباب کے نتیجے میں دنیا میں مردوں کی آبادی عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں ہی عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کی آبادی کم ہے ان میں سے ایک اہم ملک ہندوستان ہے۔ اور ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں کم ہونے کا بنیادی سبب ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ یہاں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ پیدا ہونے والی بچی ہو گی اسقاط کرواد دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بچیوں کو قتل کیے جانے کی وجہ سے ہی مردوں کی آبادی زیادہ ہے۔
اگر آج یہ کام بند ہو جائے تو چند ہی دہائیوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ باقی ساری دنیا میں ہے۔اس وقت صرف امریکہ کے شہر نیویارک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔ پورے امریکہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں 78 لاکھ خواتین زیادہ ہیں۔ مزید برآں کہا جاتا ہے کہ نیویارک میں ایک تہائی مرد ہم جنس پرست ہیں۔ پورے امریکہ میں ہم جنس پرست مردوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔برطانیہ کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ وہاں بھی مردوں کے مقابلے میں چالیس لاکھ عورتیں زیادہ ہیں۔ جرمنی میں یہ فرق اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں مردوں کے مقابلے میں پچاس لاکھ عورتیں زیادہ موجود ہیں۔ روس میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں ستر لاکھ زیادہ ہے۔اسی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کس قدر کم ہے۔ فرض کیجیے میری بہن امریکہ میں رہتی ہے اور تعداد کے اس فرق کی وجہ سے وہ ان خواتین میں شامل ہے جنہیں شادی کے لیے شوہر نہیں مل سکتا۔ کیونکہ تمام مرد ایک ایک شادی کر چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کر لے اور دوسری یہ کہ وہ عوامی ملکیت بننے کے راستے پر چل پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ اور یہی دونوں راستے باقی بچتے ہیں۔ میں نے بے شمار لوگوں سے یہ سوال پوچھا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ایسی صورتحال میں وہ پہلی صورت کو ہی ترجیح دیں گے۔ آج تک کسی نے دوسری صورت کو پسند نہیں کیا۔ البتہ بعض ذہین لوگوں نے یہ جواب دیا کہ وہ پسند کریں گے کہ ان کی بہن ساری عمر کنواری ہی رہے۔لیکن علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مرد یا عورت کسی کے لیے بھی ساری عمر کنوارا رہنا بہت مشکل ہے اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ بدکرداری ہی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ کیونکہ اور کوئی صورت ہے ہی نہیں۔
وہ "عظیم" جوگی اور سنت جو تارک الدنیا ہو جاتے ہیں اور شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاتے ہیں ان کے ساتھ دیوداسیاں بھی نظر آتی ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ایک رپورٹ کے مطابق چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ پادریوں اور ننوں کی اکثریت، جی ہاں اکثریت بدکرداری اور ہم جنس پرستی وغیرہ میں ملوث ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی تیسرا راستہ موجود ہی نہیں یا تو شادی شدہ مرد سے شادی ہے اور یا جنسی بے راہ روی ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں۔ ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی دونوں، یا تینوں یا چاروں بیویوں میں پورا انصاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ عدل کر سکتا ہے تو اسے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ بصورت دیگر اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ہو گا۔
متعدد ایسی صورتیں ہیں جن میں مرد کے لیے ایک سے زاید شادیاں کرنا بہتر ہوتا ہے۔ پہلی صورت تو وہی ہے جس کا ذکر گزشتہ سوال کے جواب میں کیا گیا۔ چونکہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لیے خواتین کی عفت اور عصمت کی حفاظت کے حوالے سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے ایک نوجوان خاتون کی شادی ہوتی ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو جاتی ہے، اور اس کے لیے وظایف زوجیت ادا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اب اس صورت حال میں شوہر کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی اس معذوربیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لے اور یا اس بیوی کو بھی رکھے اور دوسرے شادی کر لے۔میں آپ سے پوچھتا ہوں ، فر ض کر لیجیے کہ خدانخواستہ یہ بدقسمت خاتون جو حادثے کا شکار ہوئی ہے، آپ کی بہن ہے۔ آپ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت پسند کریں گے؟ یہ کہ آپکے بہنوئی دوسری شادی کر لیں یا یہ کہ وہ آپ کی بہن کو طلاق دے کر پھر دوسری شادی کرے؟اسی طرح اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے بیوی اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو جاتی ہے تو اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ شوہر دوسری شادی کر لے۔ اور یوں یہ دوسری بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی بلکہ پہلی بیوی کی بھی دیکھ بھال کرے اور اگر پہلی بیوی کے بچے موجود ہیں تو ان بچوں کی بھی پرورش کرے۔بہت سے لوگ یہاں یہ کہیں گے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شوہر اس مقصد کے لیے، یعنی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ملازمہ یا آیا وغیرہ رکھ لے۔ بات درست ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، بچوں اور معذور بیوی کا خیال رکھنے کے لیے تو ملازمہ رکھی جا سکتی ہے لیکن خود شوہرکا خیال کون رکھے گا؟عملاً یہی ہو گا کہ بہت جلد ملازمہ اس کا بھی "خیال رکھنا" شروع کر دے گی۔ لہذا بہترین صورت یہی ہے کہ پہلی بیوی کو بھی رکھا جائے اور دوسری شادی بھی کر لی جائے۔اسی طرح بے اولادی بھی ایک ایسی صورت ہے جس میں دوسرے شادی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ طویل عرصے تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں جب کہ شوہر اور بیوی دونوں اولاد کی شدید خواہش بھی رکھتے ہوں بیوی خود شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے سکتی ہے۔یہاں بعض لوگ کہیں گے کہ وہ کسی بچے کو گود بھی تو لے سکتے ہیں۔ لیکن اسلام اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کی تفصیل میں، میں یہاں نہیں جاؤں گا۔ لیکن اس صورت میں بھی شوہر کے پاس دو ہی راستے باقی بچتے ہیں یعنی یا تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے اور یا پہلی شادی کو برقرار رکھتے ہوئے دوسری شادی کرے اور دونوں کے ساتھ پورا عدل کرے۔میرے خیال میں یہ کافی وجوہات ہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میرے بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟
میرے علم کی حد تک قران میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں، کوئی ایسا حکم موجود نہیں کہ عورت "سربراہِ حکومت نہیں بن سکتی۔"لیکن متعدد احادیث ایسی موجود ہیں مثال کے طور پر ایک حدیث جس کا مفہوم ہے :"وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنا سربراہ عورت کو بنایا۔"
بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان احادیث کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ یعنی ان کا حکم اسی زمانے کے لیے محدود ہے جس زمانے میں فارس میں عورت حکمران تھی۔ جب کہ دیگر علماء کی رائے مختلف ہے۔ وہ اس حکم کو ہر زمانے کے لیے عام سمجھتے ہیں۔
آئیے ہم تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ حکومت بننا اچھا ہے یا نہیں؟ اگر ایک اسلامی ریاست میں عورت سربراہِ حکومت ہو گی تو لازماً اسے نمازوں کی امامت بھی کروانی ہو گی۔ اور اگر ایک عورت نماز باجماعت کی امامت کرواتی ہے تو اس سے لازماً نمازیوں کی توجہ بھٹکے گی۔ کیونکہ نماز کے متعدد ارکان ہیں۔ مثلاً قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ جب ایک عورت مرد نمازیوں کی امامت کروائے گی اور یہ ارکان ادا کرے گی تو مجھے یقین ہے کہ نمازیوں کے لیے پریشانی پیدا ہو گی۔اگر عورت ایک جدید معاشرے میں سربراہِ حکومت ہو گی، جیسا کہ ہمارا آج کل کا معاشرہ ہے تو بسا اوقات اسے بحیثیت سربراہِ حکومت دوسرے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کرنی ہوں گی جو کہ بالعموم مرد حضرات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی ملاقاتوں کا ایک حصہ عموماً بند کمرے کی ملاقات بھی ہوتا ہے۔ جس میں دونوں سربراہان تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں جس کے دوران کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔ اسلام ایسی ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کسی عورت کو تنہائی میں کسی نامحرم سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام مرد و عورت کے اختلاط کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ بحیثیت سربراہ حکومت عورت کو منظر عام پر رہنا ہوتا ہے۔ اس کی تصاویر بنتی ہیں۔ اس کی ویڈیو بنتی ہیں۔ ان تصاویر میں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی بھی عورت مثال کے طور پر مارگریٹ تھیچر اگر سربراہِ حکومت ہو تو آپ کو اس کی بے شمار تصاویر مل سکتی ہیں جن میں وہ مردوں سے ہاتھ ملا رہی ہو گی۔ اسلام اس طرح کے آزادانہ اختلاط کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔بحیثیت سربراہِ مملکت ایک عورت کے لیے عوام کے قریب رہنا اور ان سے مل کر ان کے مسائل معلوم کرنا بھی مشکل ہو گا۔جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت میں متعدد نفسیاتی، ذہنی اور رویے سے متعلق تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ ہارمون ایسٹوجن ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ عورت سربراہِ مملکت ہے تو یہ تبدیلیاں یقیناً اس کی قوت فیصلہ پر اثر انداز ہوں گی۔ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت میں بولنے کی، گفتگو کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ مرد میں ایک خاص صلاحیت Special agility زیادہ ہوتی ہے۔ اس صلاحیت سے مراد ہوتی ہے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے، مستقبل کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت۔ یہ صلاحیت ایک سربراہِ حکومت کے لیے از حد ضروری ہے۔ عورتوں کو گفتگو کی صلاحیت مردوں کے مقابلے میں زیادہ دی گئی ہے کیونکہ یہ صلاحیت بحیثیت ماں کے اس کے لیے ضروری ہے۔
ایک عورت حاملہ بھی ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں اسے چند ماہ کے لیے آرام کرنا ہو گا، اس دوران اس کے فرائض کون ادا کرے گا۔ اس کے بچے ہوں گے اور ماں کے فرائض نہایت اہم ہیں۔ ایک مرد کے لیے سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں اور ایک باپ کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا زیادہ قابل عمل ہے۔ جب کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ مملکت اور ماں کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ان وجوہات کے باعث میری رائے ان علمائے کرام کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ عورت کو سربراہِ مملکت نہیں بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت فیصلوں میں حصہ نہیں لے سکتی یا قانون سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا عورت یقیناً قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکتی ہے۔ اسے ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے دوران حضرت اْم سلمٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب تمام مسلمان پریشان تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی بھی فرمائی اور انہیں مشورے بھی دیے۔
آپ جانتے ہیں کہ سربراہِ حکومت تو صدر یا وزیر اعظم ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سیکریٹری یا PA کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں لہذا یقیناً ایک عورت مرد کی مدد ضرور کر سکتی ہے۔ اور اہم فیصلے کرنے میں اسے مفید مشورے اور رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میری بہن نے ایک بہت اچھا سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام حقوق نسواں میں یقین رکھتا ہے، اگر اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے تو پھر اسلام پردے کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اور دونوں جنسوں یعنی مرد اور عورت کو الگ رکھنے کی تاکید کیوں کرتا ہے۔اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ عورت کو حجاب کا حکم دینے سے پہلے قرآن مرد کو حجاب کا حکم دیتا ہے :
سورہ نور میں ارشادِ باری تعالٰی ہے : قْل لِّلمْؤمنیِنَِ یَغْضّْوا مِن اَبصَارِھِم وَیَحفَظْوا فْرْوجَھْم ذَلِکَ اَز کی لَھْم اِنَّ اللَّہَ خَبِیر بِمَا یَصنَعْونَ۔ (سورہ نور (24)، آیہ 30)
"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"
اور اس کے بعد اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَقْل لِّلمْؤمِنَاتِ یَغضْضنَ مِن اَبصَارِھِنَّ ویَحفَظنَ فْرْوجَھْنَّ وَلَا یْبدِینَ زِینَتَھْنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنھَا وَلیَضرِبنَ بِخْمْرِھِنَّ عَلَی جْیْوبِھِنَّ۔۔۔۔۔۔ (سورہ نور (24)، آیہ 31)
"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے بعد رشتہ داروں کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس میں شامل لیں۔ ان کے علاوہ اسے تمام لوگوں سے پردہ کرنا ہے۔ یعنی "حجاب" کے اْصولوں پر عمل کرنا ہے۔ اسلامی حجاب کے یہ اْصول قرآن مجید اور احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اْصول تعداد میں چھ ہیں :
٭ پہلا اْصول حجاب کی حد یا معیار کا ہے۔ جو کہ مرد اور عورت کے لیے مختلف ہیں۔ مرد کے لیے ستر کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے لیے سارا جسم ہی سترِ عورت میں شامل ہے۔ جو اعضا نظر آ سکتے ہیں وہ صرف چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ ہیں۔ ان کے علاوہ سارے جسم کا حجاب یعنی چھپایا جانا ضروری ہے۔ اگر وہ چہرہ اور ہاتھ بھی چھپانا چاہے تو اسے منع نہیں کیا گیا لیکن ان اعضا کا محرم کے سامنے چھپانا لازم نہیں ہے۔ یہ وہ واحد اْصول ہے جو مرد اور عورت کے لیے مختلف ہے۔ باقی تمام اْصول دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
٭ دوسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس تنگ اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی اس قسم کا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے جسم کے نشیب و فراز واضح طور پر نظر آنے لگیں۔
٭ تیسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس شفاف نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس میں سے آرپار نظر ائے۔
٭ چوتھا اْصول یہ ہے کہ لباس بہت زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیے یعنی ایسا لباس بھی نہیں ہونا چاہیے جو جنس مخالف کو ترغیب دینے والا ہو۔
٭ پانچواں اْصول یہ ہے کہ جنس مخالف سے مشابہت رکھنے والا لباس نہیں پہننا چاہیے یعنی مردوں کو عورتوں جیسے اور عورتوں کو مردوں جیسے لباس پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جس کی ایک مثال مردوں کا کانوں میں بالیاں وغیرہ پہننا ہے۔ اگر آپ ایک کان میں بالی پہنتے ہیں تو اس سے مراد کچھاور لی جاتی ہے لیکن اگر دونوں کانوں میں پہنی جائے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔
٭ چھٹا اور آخری اْصول یہ ہے کہ آپ کو ایسا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے جس میں کفار سے مشابہت ہوتی ہو۔
مندرجہ بالا نکات میں اسلامی حجاب کے بنیادی اْصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ عورتوں پر پردے کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ دونو ں جنسوں کے اختلاط سے کیوں روکا گیا ہے؟
اس مقصد کے لیے ہم دونوں طرح کے معاشروں کا تجزیہ کرتے ہیں یعنی وہ معاشرے جن میں پردہ کیا جاتا ہے اور وہ معاشرے جن میں پردہ موجود نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جرائم جس ملک میں ہوتے ہیں وہ ملک امریکہ ہے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے "فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن" کی 1990 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک سال کے دوران ایک ہزار دو سو پچاس زنا بالجبر کی وارداتیں ہوئیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہوئی۔ اور یہی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 16 فی صد واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس حساب سے اگر آپ اصل تعداد معلوم کرنا چاہیں تو وہ خود ضرب تقسیم کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں کتنی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات ہوئے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی اور یہاں تک پہنچی کہ روزانہ ایک ہزار نو سو واقعات ہونے شروع ہو گئے۔شاید امریکی زیادہ بولڈ ہو گئے ہوں گے۔
1993 کی رپورٹ کے مطابق ہر 13 منٹ کے بعد ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ ہو رہا ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
امریکہ نے خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں اور وہاں زیادتی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف دس فیصد مجرم گرفتار ہوتے ہیں۔ یعنی صرف 16 فیصدواقعات رپورٹ ہوتے اور دس فیصد گرفتاریاں ہوتی ہیں یعنی عملاً صرف 16 فی صد ملزم گرفتار ہوتے ہیں۔ ان گرفتار ہونے والوں میں سے بھی نصف باقاعدہ کوئی کیس چلنے سے قبل ہی رہا کر دیے جاتے ہیں یعنی اعشاریہ آٹھ فیصد مجرموں کے خلاف باقاعدہ کیس چلتا ہے۔اس سارے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سو پچیس خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو امکان یہ ہے کہ ایک دفعہ اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی۔اس صورت میں بھی پچاس فی صد امکان یہ ہے کہ اسے ایک سال سے بھی کم قید کی سزا ہو گی۔
اگر امریکی قانون میں زنا بالجبر کی سزا عمر قید ہے لیکن اگر مجرم پہلی مرتبہ گرفتار ہوا ہے تو قانون اسے ایک موقع دینے کے حق میں ہے اور اسی لیے پچاس فی صد واقعات میں مجرم کو ایک سال سے بھی کم سزا سنائی جاتی ہے۔
خود ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ نیشنل کرائم بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق جو یکم دسمبر 1992 کو شائع ہوئی ہے، ہندوستان میں ہر 54 منٹ کے بعد زنا بالجبر کا ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر 26 منٹ کے بعد جنسی استحصال کا ایک واقعہ ہوتا ہے اور ہر ایک گھنٹہ 43 منٹ کے بعد جہیز کی وجہ سے قتل کی ایک واردات ہوتی ہے۔اگر ہمارے ملک میں ہونے والی زنا بالجبر کی وارداتوں کی کل تعداد معلوم کی جائے تو تقریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک واردات کی اوسط نکلے گی۔
اب میں ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ اگر امریکہ کی ہر عورت پردہ کرنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟کیا زنا بالجبر کی وارداتوں کی شرح یہی رہے گی؟کیا ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟یا ان وارداتوں میں کمی واقع ہو گی؟
پھر یہ کہ اسلامی تعلیمات کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کوئی عورت پردہ کرے یا نہ کرے، مرد کے لیے بہرحال لازم ہے کہ وہ نظریں نیچی رکھے۔اور اگر کوئی مرد زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو اسلام میں اس کے لیے سزائے موت ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ "وحشیانہ سزا" ہے؟میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا ہے اور آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے آپ کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے۔ اب اس سے قطع نظر کہ اسلامی قانون کیا کہتا ہے اس سے بھی قطع نظر کہ ہندوستانی قانون کیا کہتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر کہ امریکی قانون کیا کہتا ہے؟ اپ بتائیے کہ اگر آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے تو آپ مجرم کو کیا سزا سنائیں گے؟
ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا : "سزائے موت"بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور کہا کہ وہ مجرم کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا پسند کریں گے۔
میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ اگر امریکہ میں اسلام شریعت نافذ کر دی جائے تو ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟ کمی ہو گی؟ یا ان کی تعداد یہی رہے گی؟اگر ہندوستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کر دیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا زنا بالجبر کی شرح یہی رہے گی؟ کمی ہو گی یا بڑھ جائے گی؟
اگر ہم عملی تجزیہ کریں تو جواب واضح ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ نے عورت کو حقوق دیے ہیں۔ مگر یہ حقوق محض نظری طور پر دیے گئے ہیں عملاً آپ نے عورت کو ایک طوائف اور ایک داشتہ کی حیثیت دے دی ہے۔میں محض پردے کے موضوع پر کئی دن تک گفتگو کر سکتا ہوں۔ لیکن میں اپنا جواب مختصر رکھتے ہوئے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔فرض کیجیے دو خواتین ہیں جو آپس میں جڑواں بہنیں ہیں۔ اور دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں۔ دونوں ایک گلی میں سے گزر رہی ہیں۔ گلی کی نکڑ پر ایک بدمعاش کھڑا ہے۔ جو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تنگ کرتا ہے۔ یہ دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں لیکن ایک اسلامی لباس میں ہے، یعنی اس نے پردہ کیا ہوا ہے جب کہ دوسرے مغربی لباس میں ہے یعنی اس نے منی سکرٹ وغیرہ پہنا ہوا ہے۔ اب یہ بدمعاش ان میں سے کسے چھیڑے گا؟ ظاہر ہے کہ مغربی لباس والی خاتون کو۔یا فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک خاتون تو پردے میں ہے اور دوسری بھی شلوار قمیص میں ہے لیکن اس کا لباس تنگ ہے، سر سے دوپٹہ غائب ہے، اس صورت میں بھی وہ کسے چھیڑے گا؟ پردہ دار خاتون کو یا بے حجاب خاتون کو؟ صاف ظاہر ہے کہ دوسری خاتون کو۔یہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم اس کی عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے دیا ہے اس کی عزت گھٹانے کے لیے نہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )